میرے والد میرے ہیرو

لاہورآکر انہیں شنٹنگ پورٹر جیسی خطرک ناک ڈیوٹی سر انجام دینی پڑی
اگر والد ہمیں لاہور نہ لے کر آتے تو ہماری داستان تک بھی نہ ہوتی داستانوں میں

میرے والد (محمد دلشاد خاں لودھی) بھارت کے شہر کاسوبیگو کے ریلوے کوارٹروں میں پیداہوئے۔ یہ ریلوے اسٹیشن ضلع فیروز پور کی حدود میں آتا تھا۔پرائمری تک تعلیم فیروز پور شہر میں حاصل کی ۔کرکٹ کا انہیں بچپن ہی سے شوق تھا‘ فیروزپور کی بہترین کرکٹ ٹیموں میں وہ اہم کھلاڑی کی حیثیت سے شریک رہے۔ وہ سکول کے مایہ ناز بیٹسمین اور باؤلر تصور کیے جاتے تھے۔ شیر کی طرح گیند پرجھپٹتے اورگولی کی طرح گیند باؤنڈری لائن عبورکر جاتی۔ایک واقعہ وہ اکثر ہمیں سنایا کرتے تھے کہ فیروز پورمیں ان کے سکول کا کسی دوسرے سکول کے ساتھ میچ ہورہا تھا۔ان کے سکول کی ٹیم شکست کے بالکل قریب تھی کہ والد صاحب میچ دیکھنے میدان میں پہنچ گئے۔ سکول ٹیم کے ارکان انہیں کھیلنے کے لئے مجبورکرنے لگے لیکن وہ سادہ لباس میں تھے‘ اس لئے معذرت کرتے رہے لیکن جب سکول ہیڈماسٹر صاحب نے مجبور کیا تو انہیں میدان میں اترنا پڑا۔اس پر مخالف ٹیم کے کھلاڑی مذاق اڑانے لگے کہ ایک پینڈو سالڑکا کھیلنے کے لئے لے آئے ہیں۔ وکٹ پر پہنچ کر والد صاحب نے گاڈ لیااور پہلا گیند کھیلنے کے لئے سیدھے ہو گئے۔باؤلر نے بھاگتے ہوئے اس خیال سے گیند پھینکا کہ ان کی وکٹ اڑ جائے گی لیکن وہ گیند آسانی سے روک لی، دوسری ہی گیند پرچوکا اور تیسری گیند پر چھکا لگا دیا۔دوتین چوکے اور چھکے لگنے سے ہارنے والی ٹیم جیتنے کی پوزیشن میں آگئی اور ان کا رعب مخالف ٹیم کے ہر باؤلر پرپڑ گیا۔ اب ہر باؤلر انہیں باؤلنگ کرواتا ہوا ڈر رہا تھا اس طرح والد صاحب کی بدولت ان کے سکول کی ٹیم ہارا ہوا میچ جیت گئی توٹیم کے لڑکوں اورتماشائیوں نے انہیں کندھوں پراٹھا لیا اور ہیڈ ماسٹرصاحب نے خصوصی انعام نوازا۔
1944ء میں فرید کوٹ شہر ہی میں والد صاحب کی شادی میری والدہ (ہدایت بیگم) سے ہوئی جو ان کی خالہ زاد تھیں۔ شادی کے فوراً بعدوالد صاحب محکمہ ریلوے میں بطور کلینر بھرتی ہو گئے‘ انکی پہلی تعیناتی بہاولنگر ریلوے اسٹیشن پر ہوئی۔ 1949ء تک وہ بہاولنگر ہی میں مقیم رہے۔اس شیڈ سے کالے سٹیم انجن ٹرینیں لے کر روانہ ہوتے تھے جن میں کوئلہ ڈالنا اور انجن کو درست حالت میں رکھنا والد صاحب کی ذمہ داری تھی۔اسی دوران بوقت ضرورت ڈرائیور کے فرائض بھی غیرسرکاری طور پر انجام دیتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد 1949ء میں قصور شہرآ بسے ، جہاں کوٹ مراد خاں میں ریلوے پھاٹک سے ملحقہ مکان کرائے پر حاصل کر لیا۔ 1952ء میں جب ہر طرف زبردست سیلاب کا پانی ٹھاٹھیں مار رہا تھا‘ بھائی اکرم قصور شہرمیں پیداہوئے۔جبکہ سب سے بڑے بھائی محمد رمضان پاکستان بننے سے پہلے فرید کوٹ میں پیدا ہو چکے تھے۔

25دسمبر1954ء کو قصور میں میری پیدائش ہوئی۔جبکہ دادا‘ دادی ریلوے کوارٹروں میں مقیم تھے۔قصور آکر والد نے بجلی کا کام شروع کردیالیکن ملازمت کے حصول کے لئے جدوجہد کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔بالآخراس دن والدصاحب کوریلوے میں کانٹے والے کی حیثیت سے ملازمت مل گئی جس دن میں پیدا ہوا تھا۔اس لیے میری پیدائش کو خوش بختی تصور کیا گیا ۔کچھ عرصہ ٹریننگ کے بعد ان کی پہلی تعیناتی ریلوے اسٹیشن پریم نگر پر ہوئی۔تین سال یہاں گزارے یہیں میری اکلوتی بہن نصرت پروین (جسے ’’نچھو‘‘کہہ کرپکارتے تھے)پیداہوئی۔بہن کی پیدائش ہم سب کے لئے خوشیوں کا باعث بنی ۔ کچھ عرصے بعد انہیں تبدیل کر کے ضلع شیخوپورہ کے نواحی اسٹیشن ’’قلعہ ستار شاہ‘‘ بھیج دیا گیا۔ یہ علاقہ اکثر وبیشترسیلاب کی زد میں رہتا تھا، اسٹیشن کے دونوں جانب بڑی نہریں تھیں جو موسم برسات میں اکثر ٹوٹ جاتی تھیں اس سے اسٹیشن اور ریلوے کوارٹر سیلابی پانی میں ڈوب جاتے۔ سیلابی پانی میں بڑی تعداد میں سانپ بھی بہہ کر آتے اتنے زہریلے سانپ اگر کسی انسان کو ڈس لیتے تو وہ پانی مانگے بغیر ہی اﷲ کو پیارا ہو جاتا۔ دور دور تک آبادی کا نام و نشان نہ تھا ۔شام ہوتے ہی ہر طرف اندھیرے کا راج ہوتا رات کے ہر پہر جنگلی جانوروں کا خوف رہتا۔ چونکہ میرے دونوں بڑے بھائی سمجھدار ہو چکے تھے اور انہیں تعلیم دلوانا بھی ضروری تھا اس لئے انہیں شیخوپورہ کے سکول میں داخل کرا دیا گیا۔ وہ ہر روز ٹرین پر شیخوپورہ جاتے ٹرین ہی کے ذریعے واپس گھر لوٹتے۔ ایک مرتبہ وہ پوری رات گھر نہ آئے تو والدین کے ذہنوں میں مختلف خدشات جنم لیتے رہے، وہ ساری رات سو نہ سکے۔ اسی دن والد صاحب نے فیصلہ کر لیا کہ کسی ایسے اسٹیشن کا انتخاب کیا جائے جہاں زیادہ نہیں تو پرائمری سکول تو ضرور ہو۔ والد صاحب کی کوششوں سے واں رادھا رام (جو پتوکی سے دوسرا اسٹیشن تھا) تبادلہ ہو گیا اور ہم بھی ان کے ساتھ ہی وہاں منتقل ہو گئے۔ لیکن یہاں سے رخصت ہونے سے پہلے ہم پر ایک قیامت گزر گئی کہ ہماری پیاری بہن نصرت اﷲ کو پیاری ہو گئی اسے اوٹر سگنل کے قریب واقع قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ بہن کی جدائی کا صدمہ ہمارے لئے ناقابل برداشت تھا لیکن مشیت ایزدی کے سامنے سرتسلیم خم کرنا پڑا ۔ بعدازاں سارا خاندان واں رادھا رام پہنچ گیا۔ یہ 1961ء کا زمانہ تھا اور ملک پر ایوب خاں کی حکومت تھی یہاں ریلوے کوارٹروں کے قریب ہی ایک پرائمری سکول موجود تھا جس میں ہم تینوں بھائیوں کو داخل کروا دیا گیا۔ میں تو چونکہ ابھی کچی میں ہی تھا لیکن میرے دونوں بھائی مڈل کلاسز میں چلے گئے تھے چنانچہ انہیں یہاں بھی اسی دشواری کا سامنا کرنا پڑا جو مسئلہ انہیں قلعہ ستار شاہ میں درپیش تھا۔ پہلے وہ رینالہ خورد تعلیم حاصل کرنے کے لئے بذریعہ ٹرین جانے لگے ۔ بعد میں انہوں نے پتوکی کا رخ کر لیا اور یہیں سے بھائی رمضان نے میٹرک کا امتحان بھی پاس کیا۔

لالٹین کی روشنی میں سرِ شام ہی ہم ایک کمرے میں اکٹھے ہو کر تھوڑا سا پڑھنے کے بعد سو جاتے۔ میری تعلیم کا سلسلہ بڑے عجیب انداز سے چل رہا تھا۔ مجھے اپنے والد سے بہت لگاؤ تھا‘ ایک لمحہ بھی ان سے جدا ہونے کو جی نہیں چاہتا تھا جب کبھی انہیں کہیں اور جانا پڑتامیں رات بھر سو نہ سکتا۔ امتحان کے دن اگر وہ مجھے نظر نہ آتے تو رزلٹ صفر ہوتا اگر وہ مجھے نظر آ جاتے تو رزلٹ سو فیصد اچھاہوتا۔ تیسری جماعت کا سالانہ امتحان تھا‘ تمام بچے ٹاٹوں پر بیٹھے ہوئے پرچے حل کر رہے تھے جبکہ قریب ہی استاد کرسی پر بیٹھا نگرانی کر رہا تھا کہ کوئی بچہ نقل نہ مار ے۔ میں پرچہ حل کرنے کی کوشش میں مصروف تھا لیکن ذہن میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ میرے والد کو اس بات کا علم تھا کہ انہوں نے دیوار کے اس پار کھڑے ہو کر مجھے اپناچہرہ دکھانا ہے لیکن وہ عین اس موقع پر کسی اہم کام میں مصروف ہو گئے اور مطلوبہ جگہ پر نہ پہنچ سکے۔ بار بار میری نگاہیں دیوار کی جانب اٹھتیں اور واپس لوٹ آتیں۔ وقت تیزی سے گزرتا جا رہا تھا ۔ میری آنسر شیٹ بالکل خالی پڑی تھی اسی گومگو میں وقت ختم ہو گیا اور مجھ سے پرچہ لے لیا گیا۔ جب نتیجہ نکلا تو میں فیل تھا میرے والد اس نتیجے سے متفق نہ تھے ان کا کہنا تھا کہ میرا بیٹا فیل نہیں ہوسکتا۔ ماسٹر صاحب نے بہت سمجھایا لیکن والد کا ایک ہی اصرار تھا کہ میرے سامنے امتحان لیں پھر نتیجہ دیکھیں۔ چنانچہ ہیڈ ماسٹر ابراہیم کی مداخلت سے والد صاحب کے سامنے میرا دوبارہ امتحان لیا گیا تو نتیجہ یکسر مختلف تھا اور میں بہترین نمبروں سے پاس ہوگیا۔ ہم تینوں بھائی، سکول ٹائم کے بعد چھابڑی لگانے کے لئے ریلوے پھاٹک پر چلے جاتے اور شام تک وہاح پھل فروٹ اور سگریٹ فروخت کرتے۔ ہر وقت ملیشیا کی وردی پہننا ہمارا مقدر بن چکاتھا۔ دوسرے کپڑے خریدنے کی استطاعت نہ تھی غربت کے سائے ہرسو پھیلے رہتے۔ صبح کا ناشتہ گڑکی کالی سیاہ چائے کے ساتھ اور رات کی باسی روٹی پر مشتمل ہوتا۔ دوپہر کو سکول سے واپسی کے بعد پیاز یا اچار سے ایک آدھ روٹی کھانے کو مل جاتی۔ شام کو آلو مونگرے یا چھوٹے آلوؤں کی بجھیا سے روٹی کھا کر رب کا شکر ادا کرتے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ مرچ اور پودینے کی چٹنی سے ہی روٹی کھانی پڑتی۔
یہاں میں یہ ذکر کرتا چلوں کہ ان دنوں پائپوں کے ذریعے پینے کا پانی گھر گھر پہنچانے کا تصور بھی نہیں تھا اور لوگ اپنی ضرورت کا پانی کنوؤں سے بھر کر لاتے تھے۔ وہنگی کی شکل ترازو جیسی ہوتی۔ مضبوط لکڑی کے دونوں جانب لوہے کی تار یا موٹی رسی بندھی ہوتی اور اس رسی کے دونوں جانب پانی سے بھری بالٹیاں لٹکی ہوتیں۔ گھروں میں پانی محفوظ کرنے کے لئے چند گھڑے لکڑی کی گڑونجی پر رکھے رہتے ،دھوپ کی وجہ سے دن میں کئی بار ان کی پوزیشن کو تبدیل کرنا پڑتا۔ اسی طرح رات کی پکی ہوئی سبزی کو صبح تک محفوظ کرنے کے لئے بھی لوہے کا بنا ہوا ’’کیڑی مار‘‘ استعمال ہوتا۔ کنالی میں پانی بھر کر کیڑی مار پر ہانڈی رکھ دی جاتی۔ اس طرح چونٹیوں سمیت کوئی بھی رینگنے والا کیڑا پکی ہوئی ہانڈی تک نہ پہنچ پاتا۔ اکثر گھروں کے صحن میں کپڑے سکھانے کے لئے بندھی رسی بندھی ہوتی۔ ان دنوں فریج اور ریفریجریٹر کے ساتھ ساتھ برف کا رواج بھی نہ تھا لیکن گرمی کے موسم میں آگ کی طرح گرم ہوا چلتی جسے اس زمانے میں "لو" کہا جاتا ۔ گرمی کی شدت سے لوگ مرتے یا پاگل ہو جاتے تھے۔کوئی بھی شخص سر پر کپڑا رکھے بغیر گھر سے نہ نکلتا۔ چونکہ ہم جیسے غریب انسانوں کے لئے آسائشوں کے دروازے ابھی نہیں کھلے تھے اس لئے ہم لوگ پیاس کی شدت کو مٹانے کے لئے گھڑوں کا پانی ہی صبر شکر کر کے پی لیتے۔ مہمانوں کے لئے شکر کے شربت میں ستو ڈال دیئے جاتے تاکہ تاثیر مزید ٹھنڈی ہو جائے۔ پانی کی ایک ایک بوند کو چونکہ کندھوں پر اٹھا کرلانا پڑتا تھا اس لئے لوگ ہفتہ بھر نہاتے نہیں تھے اور کپڑے بھی ہفتے میں ایک ہی بار بدلتے ۔ استری کا تصور بھی نہیں تھا۔ لوگ خشک کپڑوں کو تکیوں کے نیچے تہہ کر کے رکھ لیتے پھر اگلی صبح بڑے اہتمام سے پہن لیتے۔ لکیر دار پاجامے اور سفید ویل کے کرتے کا رواج عام تھا‘ کچھ لوگ تہمند( دھوتی) اور نکر نما کچے بھی پہنتے۔

دوپہر کے بعد والدہ ہمیں جنگل میں اگی ہوئی جھاڑیاں کاٹ کر لانے کو بھیجتیں۔ انہیں ہم کلہاڑی سے کاٹ کر رسی کی مدد سے کھینچ لاتے‘ اس کے علاوہ کپاس کی سوکھی چھڑیاں بھی آگ جلانے کے کام آتیں۔ آگ جلانے کے لئے صرف مٹی کا تیل ہی دستیاب تھا، جسے لکڑیوں پر ڈال کر آگ سلگانے کی جستجو کی جاتی تھی۔ اس مقصد کے لئے لوہے کی بنی ہوئی پھونکنی کا سہارا لیا جاتا اگر لکڑیاں گیلی ہوتیں تو آگ جلانے والے کی آنکھیں دھویں کی وجہ سے آنسوؤں سے تر ہو جاتیں بلکہ سوج بھی جاتیں۔ اسی کیفیت کو دیکھتے ہوئے ان دنوں ایک گانا بڑا مشہور ہوا تھا۔
’’رناں والیاں دے پکن پراٹھے تے چھڑیاں دی اَگ نہ بلے‘‘

اس گانے کے بولوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ ماضی میں آگ کا جلانااور روٹیاں پکانا کتنا مشکل کام تھا کہ وہ صرف مضبوط اعصاب کی عورتیں ہی کر سکتی تھیں۔ مرد حضرات اکثر اس میں ناکام ہوجاتے ،ہمارے گھر میں کالے تیل میں بھیگا ہوا سوتر آگ جلانے کے کام آتا تھا جو ہمیں ریلوے کے سٹیم انجن سے مفت دستیاب ہو جاتا۔ ہم یہ تیل میں بھیگا ہوا سوتر مٹکے میں رکھ کر ایسے محفوظ کر لیتے کہ وہاں تک پانی کی سیلن نہ پہنچ پاتی۔سردیاں اور گرمیاں بھی ہماری یہی روٹین ہوتی۔

ہانڈی کو مزیدار بنانے کے لئے جو مرچ مصالحے ڈالے جاتے وہ بھی والدین کو ہر شام خود ہی پیسنے پڑتے۔ سہ پہر کے بعد ہی والد صاحب اس کام میں لگ جاتے اور جب تک ہانڈی چولہے پر رکھنے کے لئے تیار ہوتی‘ مرچیں بھی پس چکی ہوتیں ۔ہاتھ سے چلانے والی چکی پر آٹا پیسنا میری اور والدہ کی ذمہ داری تھی۔ ہم دونوں اپنا ایک ایک ہاتھ لکڑی کے دستے پر رکھ کر چکی گھماتے رہتے ماں ساتھ ساتھ چکی کے درمیانی سوراخ میں بائیں ہاتھ سے گندم ڈالتی رہتی اور پسا ہوا آٹا چکی کے اطراف میں مٹی سے بناہوئے حالے میں گرتا رہتا۔ جب دو وقت کا آٹا پس جاتا توچکی چلنا بند ہو جاتی۔ اس زمانے میں ٹوٹھ پیسٹ کی بجائے جلی ہوئی لکڑیوں کا کوئلہ پیس کر دانت صاف کیے جاتے تھے ،یا پسا ہوا نمک دانتوں پر مار لیا جاتا۔ اس وقت نہ ڈینٹل سرجن تھے اور نہ ڈینٹل ہسپتال ۔پھر بھی کسی کو دانت کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے نہیں سنا تھا۔ یہاں پر عرض کرتا چلوں کہ جن لوگوں کو صبح کی سیر کی عادت تھی وہ صبح سویرے ہی میلوں دور فع حاجت کے لئے جاتے اور راستے میں نیم یا کیکر کی مسواک بنا کر دانتوں کو صاف کرتے ہوئے گھر واپس آجاتے۔ چونکہ گھروں میں لیٹرین بہت کم تھیں اور جہاں تھیں وہاں ہر وقت تعفن پھیلا رہتا تھا۔ اس لئے عورتیں رات کے وقت قرب و جوار یا اجاڑ جگہوں پر رفع حاجت کے لئے جاتی تھیں جبکہ مرد حسب ضرورت دن کو بھی اپنا کام دکھا آتے۔ ان دنوں زندگی اتنی سست اور پرسکون تھی کہ ایک دن بھی آج کل کے مہینے جیسا لگتا ۔

میں چونکہ ابھی چھوٹا تھا میری عمر آٹھ دس سال تھی؟ اس لئے والدین میری بجائے بڑے بھائیوں کو وہنگی دے کر پانی لانے کے لئے بھیجتے۔ کئی بار کنویں میں سے پانی نکالتے وقت بالٹیاں بھی اس میں گر جاتیں۔ ہر اتوار کی صبح والد صاحب ہم سب بھائیوں کو لے کر اس کنویں پر پہنچ جاتے اور وہاں سے پانی نکال کر باری باری ہمیں نہلا کر گھر بھیجتے رہتے۔ سردیوں کے موسم میں جب گھر کے آس پاس گھاس پر برف نما کورا جما نظر آتا‘ کنویں کے ٹھنڈے پانی سے نہانے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ چولہے میں لکڑیاں جلا کر پانی گرم کرنے کا اس وقت اس لئے رواج نہیں تھا کہ اتنی مشقت سے تو بہتر ہے انسان نہانے ہی سے باز رہے۔ چنانچہ جب کبھی ریلوے کا کالا سٹیم انجن اسٹیشن پر آتا تو اس میں سے ابلتا ہوا گرم پانی ہمیں مفت حاصل مل جاتا۔ اس گرم پانی سے ہم نہا لیتے اور اپنے جسم پر جمی ہوئی ہفتے بھر کی میل اکھٹی اتار لیتے۔ سردی کی شدت سے بچنے کے لئے جرسیاں یا کوٹ بھی میسر نہیں تھے اگر کسی کو یہ نصیب ہوتے تو لنڈے کے ہی ہوتے۔ گھر میں بہنیں اور مائیں سارا سال جو سویٹر بنتیں وہ والد یا بڑے بھائیوں کے لیے مخصوص ہوتا‘ سارے سال کی محنت مشقت کے بعد بمشکل ایک سویٹر تیار ہوتا۔ ہر ماں کی طرح میری ماں بھی سارا سال جو جرسی یا سویٹر بنتی وہ میرے بڑے بھائیوں کے لئے مخصوص ہوتا۔ مجھے سردی سے بچنے کے لئے دد تین قمیضیں اور دو پاجامے پہنا دیئے جاتے۔ اور چہرے کو باندر ٹوپے سے ڈھانپ لیا جاتا ۔

گرمیوں میں زندگی گزارنے کا طریقہ بھی بڑا منفرد ہوا کرتا تھا۔ دوپہر کو جب ہم سوتے تو ماں ہاتھ کا پنکھا ہلا کر ہمارے لئے ہوا پیدا کرتی۔ پانچ بھائیوں کو مسلسل سوتے وقت ہاتھ کے پنکھے سے ہوا دینا ایک مشکل کام تھا جو میری والدہ ہر دوپہر کیا کرتی تھی۔ اس کے علاوہ گھر کی چھت پر رسی کے ساتھ ایک بڑا سا موٹا کپڑا بندھاہوتا جس کی رسی میری والدہ اپنے دائیں پاؤں کے انگوٹھے سے باندھ کر کئی کئی گھنٹے مسلسل ہلاتی رہتی۔ اس سے ہمیں پرسکون نیند آ جاتی۔ آج جب میں اپنے ماں‘ باپ کی ان قربانیوں کا تصور کرتا ہوں تو آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں ۔ ہر شخص دس بارہ افراد پر مشتمل اپنی اولاد کی پرورش تو کر لیتا ہے لیکن ماں‘ باپ اولاد پر بھاری ہو جاتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ میرا شمار ایسے لوگوں میں نہیں ۔ خالص خوراک کھانے اور مٹی کے گھڑے کا ٹھنڈا پانی مٹی کے ہی پیالے میں پینے کی وجہ سے انسان اتنے تندرست اور توانا ہوا کرتے تھے کہ لوگ پہلوانوں کے اکھاڑوں اور کبڈی کے میدانوں میں شوق سے جا کر اپنی طاقت کا لوہا منواتے تھے۔ لیکن آج ہمارے نوجوان نائٹ کلبوں‘ انٹرنیٹ کلبوں‘ سینما گھروں اور تھیٹروں میں جا کر حسیناؤں کے نیم عریاں جسموں سے ایسے متاثر ہوتے ہیں کہ نہ صرف ان کی جسمانی قوت کا جنازہ نکل جاتا ہے بلکہ وہ مستقل طور پرر جنسی مریض بن جاتے ہیں۔ کہا تو یہ جاتاہے کہ جس قوم کے کھیلوں کے میدان ویران ہو جائیں اس قوم کے ہسپتال ہی آباد ہوتے ہیں۔

بہرکیف یہیں پر میرے دونوں چھوٹے بھائی محمداشرف خاں لودھی 1962ء اورمحمد ارشد خاں لودھی 1964ء کے اوائل میں واں رادھا رام میں ہی پیدا ہوئے۔ انہی دنوں یہاں سے ایک ایسی ٹرین گزرنے والی تھی جس پر غلاف کعبہ لے جایا جا رہا تھا۔ یہ ٹرین لاہور سے کراچی تک جانی تھی۔ بعدازاں غلاف کعبہ بذریعہ بحری جہاز ارض مقدس پہنچنا تھا۔ سارے شہر کے لوگ واں رادھا رام اسٹیشن پر جمع ہو کر اسٹیشن ماسٹر کو مجبور کرنے لگے کہ ٹرین کو یہاں ضرور روکا جائے چونکہ ریلوے حکام کے مطابق اس ٹرین کو یہاں سے بغیر رکے گزرنا تھا اس لئے اگر اسے روک لیا جاتا تو اس سے اسٹیشن ماسٹر سمیت دیگر سٹاف کی نوکری کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔ وہ کسی صورت بھی ٹرین روکنے کے لئے تیار نہ تھے ۔ چنانچہ ریلوے لائن کے دونوں ا طراف شہر کے لوگ جمع ہوگئے۔ یاد رہے کہ ان دنوں جہاں سے ٹرین کو بغیر رکے گزرنا ہوتا وہاں لوہے کا بنا ہوا گولہ‘ تار کے گول چکر کے ایک فریم میں رکھ دیا جاتا جسے فائر مین انجن کے ساتھ لگے ہوئے لیور سے نکال لیتا تھا ، اگر وہ گولہ نہ نکالا جاتا تو اس کے بغیر گاڑی رک جاتی۔ گویا وہ گولہ اسٹیشن سے گزرنے کا اجازت نامہ تھا۔ حسن اتفاق سے اس وقت گولہ دینے پر میرے والد صاحب کی ڈیوٹی تھی ۔ اب گاڑی کو روکنا اور نہ روکنا ان پر منحصر تھا ۔

متبرک ٹرین کے سگنل ہو گئے۔ میرے والد گولہ لے کر اپنے مقام پر پہنچ گئے اور گولے کا رنگ اپنی مخصوص جگہ پر فکس کر دیا۔ دور سے آتی ہوئی ٹرین کو دیکھ کر لوگ دیوانہ وار ریلوے لائن پر آ گئے جنہیں پولیس کی مدد سے زبردستی ہٹایاگیا۔ جب ٹرین کا انجن گولے کے قریب پہنچا تو والد صاحب نے گولے کو دانستہ نیچے پھینک دیا اس طرح وہ گولہ ٹرین کے ڈرائیور کو نہ مل سکا اورانجن ہارن بجاتا ہوا رک گیا۔ ٹرین کے ٹھہرتے ہی پورا شہر غلاف کعبہ کو چومنے کے لئے پہنچ گیا اور د س پندرہ منٹ تک گاڑی کو روکے رکھا‘ جی بھر کر لوگوں نے غلاف کعبہ کی زیارت کی اور چوما۔ بعد میں بے شک والد صاحب کو وضاحتیں دینا پڑیں لیکن ایک بار انہوں نے شہر والوں کی موج کروا دی اور خود بھی غلاف کعبہ کو چومنے کا شرف حاصل کر لیا۔ ممتاز صحافی اور ادیب جناب مجیب الرحما ن شامی کے بقول یہ غلاف کعبہ جماعت اسلامی پاکستان نے پاکستاتی قوم کی طرف تحفتاً اور عقیدتاً بھجوایا تھا۔

بہترین کرکٹر ہونے کے ناطے میرے والد‘واں رادھا رام میں خاصے مشہور تھے۔پورے شہر کی ایک ٹیم بنائی گئی تھی جس کی کپتانی والدگرامی کے سپرد تھی۔ کیبن کے ساتھ ہی بہت بڑا کھلا میدان تھا جہاں اکثر کرکٹ میچ ہوا کرتے تھے۔ والد صاحب ڈیوٹی پر ہونے کے باوجود بھی کرکٹ میچ میں حصہ لیتے اور آڑے وقت میں اپنی ٹیم کے کام آتے۔ اس بناء پر انہیں شہر کا ہر چھوٹا بڑا شخص استاد جی کے لقب سے پکارتا تھا۔

ریلوے کوارٹروں میں والد صاحب کا ایک اچھا دوست جمال دین تھا جس کے ساتھ ان کے شب و روز گزرتے تھے لیکن اچانک ان کے درمیان کسی نے غلط فہمی پیدا کر دی اور ماضی کے دو بہترین دوست‘بدترین دشمن بن گئے۔ ذہن اور دل میں پلنے والی یہ ’’کھینچا تانی‘‘ ایک دن لڑائی تک جا پہنچ گئی۔ میرے والد لاٹھی چلانے میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے اس کی بدولت کئی افراد پر حاوی ہو جاتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ میری پشت کی جانب سے حملہ نہ ہو تو میں پوری گلی کے لوگوں کو مار کے بھگا سکتا ہوں۔ کسی دن جمال دین ضرورت سے زیادہ ہی تلخ ہو گیا جب بات حد سے بڑھ گئی تو والد صاحب نے لاٹھی چلائی اور جمال دین کا بازو کئی جگہ سے ٹوٹ گیا۔ لوگ اسے اٹھا کر پتوکی ہسپتال لے گئے اور اسٹیشن سمیت پورے شہر میں طوفان کھڑا ہو گیا کہ دلشاد خاں لودھی نے جمال دین کا بازو توڑ دیا ہے۔ پتوکی سے ریلوے پولیس بھی آئی لیکن پورا شہر والد صاحب کے دفاع کے لئے کھڑا ہوگیا‘ پولیس بے بس ہو کر واپس چلی گئی۔ واں رادھا رام کے بہت بڑے زمیندار ملک عاشق کرکٹ کی وجہ سے والد صاحب کا بے حد احترام کرتے تھے، جب بھی ان کے گھر کوئی دعوت ہوتی تو اسٹیشن سے والد صاحب ہی اس میں بطور خاص مہمان شریک ہوتے۔ یہ عزت اﷲ تعالیٰ نے کرکٹ اور ذاتی اخلاق کی بدولت بخشی تھی جہاں ان کی ڈیوٹی ہوتی وہاں ہر وقت شہر والوں کا ڈیرہ لگا رہتا۔ رات گئے تک کیبن میں رونق لگی رہتی جو اسٹیشن ماسٹر کے لئے بھی پریشانی کا باعث بنتی تھی لیکن ملک عاشق اور شہر والوں کے سامنے کوئی بول نہیں سکتا تھا۔

ایک مرتبہ ساہیوال کی جانب اوٹر سگنل رات کے 1بجے بجھ گیا اسے ہر حال میں جلانا تھا۔ رات کے پچھلے پہر گھپ اندھیرے میں جانا بڑے دل گردے کا کام تھا‘ میرے والد چونکہ خاصے بہادر واقع ہوئے تھے اس لئے وہ بے دھڑک پٹڑی کے ساتھ ساتھ سگنل جلانے چل پڑے۔ جب نصف راستہ طے کیا تھا تو رات کے اندھیرے میں ایک بھاری بھرکم ’’سور‘‘ ان کے بالمقابل آ کھڑا ہوا۔ یہ جانور انسان کو نقصان پہنچا سکتا ہے ، والد صاحب نے ڈرنے کی بجائے ریلوے لائن پر پڑے ہوئے پتھر مار کر ہی اسے دور بھگا دیا۔ صبح جب والد صاحب نے یہ واقعہ اسٹیشن پر سنایا تو میرے جیسے بہت سے ڈرپوک خوفزدہ ہو گئے۔شام ہوتے ہی رات کا اندھیرا اس قد ر چھا جاتا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا۔سرے شام ہی والدہ ہمیں اپنی آغوش میں لے کر ایک کمرے والے کوارٹر میں محفوظ کرلیتی ۔

رات کے بارہ بجے جب والد صاحب کی ڈیوٹی ہوتی تو وہ اکثر مجھے جگا کر اپنے ساتھ لے جاتے اور کیبن میں لکڑی کے پھٹوں پر کپڑا بچھا کر سلا دیتے۔ علی الصبح چار بجے بیدار کر کے میرے جسم پر تیل لگا کر سو سو ڈنڈ‘ بیٹھکیں نکلواتے۔ وہ مجھے پہلوان بنانا چاہتے تھے۔ صبح ہوتے ہی کیبن سے کچھ فاصلے پر موجود پھاٹک کو کھولنا اور بند کرنا میری ذمہ داری ہوتی ۔لوگ گدھا گاڑیوں پر کھیتوں سے سبزیاں اور پھل رکھ کے مشرق کی جانب شہر میں لے جاتے ۔والد صاحب کو ماہانہ 80روپے تنخواہ ملتی تھی جو کھانے پینے پر ہی خرچ ہو جاتی۔ والد سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ وہ آنکھوں کے معائنے کے لئے لاہور گئے اور رات کو گھرواپس نہ پہنچ سکے۔ میں ان کی جدائی میں رات بھر روتا رہا اور نہ خود سویا اور نہ کسی کو سونے دیا۔ میری والدہ مجھے دلاسہ دیتی رہی لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے اپنے والد کے بغیر نیند نہیں آتی تھی۔ تمام رات آنکھوں میں گزر گئی۔ دوسری صبح جب وہ گھر پہنچے تو میں ان سے لپٹ کر جی بھر کر رویا تب دل کو سکون ملا‘ گھر کے سبھی افراد میری اس حالت پر حیران تھے۔

بڑے بھائی رمضان نے جب میٹرک پاس کر لیا تو والد صاحب کی تشویش ایک بار پھر بڑھ گئی وہ اب اس کوشش میں رہنے لگے کہ کسی نہ کسی طرح ان کا تبادلہ لاہور ہو جائے تاکہ بچے وہاں تعلیم تو آرام سے حاصل کر سکیں۔ لوگ یہ کہہ کر ہمیں ڈراتے تھے کہ لاہور کا خرچہ 80روپے تنخواہ میں پورانہیں ہو گا، وہاں بہت مہنگائی ہے وہاں تو جلانے کے لئے بھی لکڑیاں قیمتاً خریدنا پڑتی ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن والد صاحب کاارادہ بہت مضبوط تھا ۔ وہ گھبرانے کی بجائے حالات کا مقابلہ کرنا چاہتے تھے، آخرکار 1964ء میں ان کا تبادلہ لاہور کینٹ ہوگیا۔ اگر ہم قلعہ ستار شاہ پریم نگر یا واں رادھا رام میں ہوتے تو آج کالم نگار اور بک رائٹر کی بجائے گندے پانی کے چھپڑوں میں بھینسیں نہلا رہے ہوتے۔ بہرکیف واں رادھا رام سے والد صاحب کو رخصت کرنے سے پہلے ایک شایان شان ٹی۔ پارٹی کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں ساتھیوں ان کے گلے میں پھولوں اور تلے کے ہار ڈالے گئے بلکہ جس ٹرین کے ذریعے ہم نے لاہور جانا تھا ، ریلوے لائن پر پٹاخے باندھ دیئے گئے ،اس طرح سٹاف کی جانب سے والد صاحب کو سلامی دی جارہی تھی۔ خاندان میں سے صرف میں ہی والد صاحب کے ہمراہ سب سے پہلے لاہور آیا تھا اس لئے میں نے خوب انجوائے کیا۔ پٹاخوں پر جب ٹرین کا پہیہ آیا تو سارا شہر دھماکوں سے گونج اٹھا اور شہرکے لوگوں کو خبر ہو گئی کہ دلشاد خاں لودھی واں رادھا رام سے ٹرانسفر ہو کر لاہور کینٹ جا رہا ہے۔ بہرکیف والد صاحب کی ٹوانسفر کے بعد کوارٹرخالی کروا لیا گیا اور ہماری فیملی کے لوگ گینگ مینوں کے کوارٹرمیں منتقل ہوگئے‘ میں گینگ مینوں کا سامان پڑا ہوا تھا جبکہ دوسرا ہمیں عارضی طور پر دے دیا گیا۔ شام ہوتے ہی کوارٹروں کے پیچھے چوروں اور رسہ گیروں کی دوڑ بھاگ شروع ہو جاتی لیکن خدا کا لاکھ لاکھ شکر تھا کہ ہمارے گھر میں کسی کو داخل ہونے کی جرأت نہ ہوئی ۔

یہاں یہ ذکر کرتا چلوں کہ جب والد صاحب باضابطہ تبدیل ہو کر ڈیوٹی لینے کے لئے لاہور کینٹ اترے تو میں بھی ان کے ہمراہ تھا۔ ریلوے ملازمین نے ہمارا زبردست استقبال کیا میرے والد کے گلے میں ہار پہنائے گئے‘ پھر چائے اور بسکٹ وغیرہ سے تواضع ہوئی۔ ابتداء میں ہمیں لاہور کینٹ اسٹیشن کے بالکل پیچھے ایک کمرے پر مشتمل چھوٹا سا کوارٹر رہنے کے لئے ملا جو ہماری ضروریات سے بہت چھوٹا تھا اور اس میں سارا خاندان منتقل نہیں ہو سکتا تھا۔ والد صاحب نے پہلے سے یہاں موجود ایک بزرگ کیبن مین محمد دین سے درخواست کی کہ اگر وہ ہمیں اپنا کوارٹر 30-Dدے دے۔ ہماری مشکلات کو دیکھتے ہوئے اس نیک آدمی نے اپنا کوارٹر ہمیں دے دیا۔

لاہور کینٹ میں میرے والد شٹنگ پوٹر بن کر آئے تھے۔ دوسری جانب بھائی رمضان میٹرک کر چکے تھے انہیں آگے پڑھانے کی مالی استطاعت نہ تھی۔ مجھے گورنمنٹ مڈل سکول بی۔ بلاک مین مارکیٹ گلبرگ لاہور میں پانچویں جماعت میں داخل کروا دیا گیا‘ چوتھی کلاس تو میں واں رادھا رام سے ہی پاس کر کے آیا تھا۔ لاہور میں چونکہ میرا سکول گھر سے دو اڑھائی میل کے فاصلے پر تھا اور ان دنوں گنگا آئس فیکٹری (جہاں آج کل شیر پاؤ پل ہے) سے 4نمبر‘ دو منزلہ بس چلا کرتی تھی۔مین مارکیٹ تک کا کرایہ دس پیسے ہوا کرتا تھا ‘ پیسے بچانے کے لئے اکثر ہم کچھ دیر پہلے گھر سے نکل کر پہلے فوارے سے ہوتے ہوئے پیدل ہی سکول پہنچ جاتے ‘واپسی پر تو وقت کی بھی کوئی قید نہ ہوتی اس لئے پیدل چلے آتے۔ راستے میں آم اور جامن کے جو درخت نظر آتے وہاں سے آم اور جامن کھانا روزانہ کی روٹین تھی۔ کئی مرتبہ مالی کی ڈانٹ ڈپٹ کا شکار بھی ہوتے لیکن اس کے ہاتھ آنے کی بجائے اتنا تیز بھاگتے کہ ہمیں پکڑنے کی حسرت اس کے دل میں رہ جاتی۔ یہ 1964ء کا زمانہ تھا ۔ان دنوں گلبرگ پوری طرح آباد نہیں ہوا تھا کہیں کہیں کوٹھیاں بن رہی تھیں اور جو کوٹھیاں بن چکی تھیں انہیں عجوبہ سمجھ کر لوگ بڑے شوق سے دیکھنے کے لئے آیا کرتے تھے۔ ایک کوٹھی جو چھوٹی مارکیٹ کے قریب ہی واقع تھی اسے خوبصورت پتھروں کی مناسبت سے لوگ پتھر والی کوٹھی بھی کہہ کر پکارتے تھے۔ یہ کوٹھی مجھے بھی بہت پسند تھی بلکہ جب بھی ڈبل ڈیکر بس اس کے قریب سے گزرتی تو میں بڑی حیرت سے اسے دیکھتا تھا۔

ان دنوں والد صاحب کی تنخواہ بہت تھوڑی تھی لیکن گھر کے خرچے اور ہمارے تعلیمی اخراجات میں خاصا اضافہ ہو چکا تھا اس لئے مزید آمدنی کے ذرائع پیدا کرنے پڑے۔

خوش قسمتی سے ان دنوں چیچہ وطنی اور چھانگا مانگا جنگل سے لائی جانے والی لکڑیاں لاہور کینٹ کے سائیڈیارڈ میں اترا کرتی تھیں انہیں بعد میں روزی خاں ٹھیکیدار بیل گاڑیوں کے ذریعے پورے لاہور شہر میں سپلائی کیا کرتے تھے۔ ان دنوں لکڑیوں سے بھرے چھکڑے کی اتروائی صرف تین روپے اور بند ڈبے کی اتروائی پانچ روپے تھی۔ اس کام میں ہم بھی اپنے والد کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ علی الصبح آنکھ کھلتے ہی ہم لکڑی کے بند ڈبوں کی طرف دوڑ پڑتے۔ چونکہ یہ تمام ڈبے روزی خاں ٹھیکیدار کی سپر داری میں ہوا کرتے تھے اس لئے ان کی اجازت سے ڈبہ اپنے لئے مخصوص کر لیتے اور پھر ہم سب اکٹھے ہوکر ا س ڈبے سے لکڑیاں اتارنا شروع کر دیتے۔ والد صاحب بھی ڈیوٹی سے فارغ ہو کر آ جاتے اور شام کے سات‘ آٹھ بجے تک بمشکل ایک ڈبہ خالی ہو پاتا تب کہیں جا کر ہم 3یا 5روپے مزدوری کے حق دار بنتے۔ یہ 5روپے ہمارے اضافی خرچوں کو پورا کرنے کے کام آتے اگر مزید کچھ وقت بچ جاتاتو بیل گاڑی پر لکڑیاں لدوانا شروع کر دیتے، اس کام کے عوض ہمیں صرف آٹھ آنے ملتے تھے۔ اس طرح ہم سب مل کر والد صاحب پر پڑنے والے اضافی معاشی بوجھ کو کسی حد تک کم کر لیتے۔ انتہائی تنگی اور مفلسی کے باوجود خاندان کے سبھی افراد ایک دوسرے کا احترام کرتے اور خاندان کا ہر فرد بڑوں کی باتوں پر کان لگانے کو اپنا فرض سمجھتا اس طرح انتہائی غربت کے باوجود زندگی ہنسی خوشی گزر رہی تھی۔ آمدنی بڑھانے کا ایک اور ذریعہ بھی ہم نے اختیار کررکھا تھا کیونکہ اس سے پہلے محلے کے کافی لوگ یہ کام کر رہے تھے۔ریل ڈبوں میں کہیں کوئلہ بھی بھر کے آتا جو شاہد فیکٹریوں میں آگ جلانے کے کام آتا۔کوئلہ تو ٹھیکیدار اٹھوا کر لے جاتا ، کوئلے کے نیچے بچ رہنے والی کیری ہم اکھٹی کرکے گھر لے آتے جس میں گائے کا گوبر ملا کر کرکٹ بال جیسے گولے بنا لیتے ،جب وہ گولے سوکھ جا تے تو وہ انگیٹھی میں جلانے کے کام آتے۔ ریلوے اسٹیشن‘قربان لائن اور مین بازار گنگا آئس فیکٹری میں جتنے بھی ہوٹل یا کینٹین تھیں وہ آگ جلانے کے لئے ایسے ہی گولے استعمال کیا کرتی تھیں۔ ان دنوں ان گولوں کی قیمت فی ٹین صرف بارہ آنے تھی۔ میرے اور بھائی اکرم کے ذمے گوبر اکٹھا کرنا اور مطلوبہ مقدار میں کوئلے کی کیری لانا تھا۔ اس تگ و دو میں دوسرے لوگوں سے لڑائی بھی ہو جاتی لیکن ماں باپ کی خوشنودی اور غربت کو شکست دینے کے لیے زیادہ سے زیادہ گوبر اور کیری اکٹھا کرنے کا ایک جنون ہم پر سواررہتا تھا۔ بھائی اکرم کو پتنگیں اڑنے کی تب اجازت ملتی جب وہ مطلوبہ مقدار میں گوبر یا کیری لا کر دے دیتے۔ اگراسے کہیں سے گوبر نہ ملتا تو وہ ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ سیدن شاہ کالونی کے لوگوں کے تھاپے ہوئے تازہ اوپلے (تھاپیاں)ہی اٹھا کر لے آتے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بارش کے آنے پر لوگ گھر کے اندر بھاگتے تھے جبکہ ہماری دوڑ چھت کی جانب لگی ہوتی جہاں ہم نے گوبر اور کیری کے گولے سوکھنے کے لیے رکھے ہوتے۔ہمارا کوارٹر بھی صرف ایک کمرے اور چھوٹے سے برآمدے پر مشتمل تھا ، اس لئے صحن پر بھی ٹین کی چھت ڈال لی گئی تھی۔بارش میں اس چھت کا کوئی شاید ہی حصہ ٹپکنے سے محفوظ رہتا وگرنہ ہر طرف بوندا بوندی ہوتی رہتی۔

ابھی کوارٹروں میں بجلی نہیں آئی تھی صرف اے ایس ایم کے کوارٹروں میں بجلی موجود تھی۔کلاس چہارم کے کوارٹروں میں سب سے پہلے بجلی ہمارے گھر لگی اور ٹیلیویژن( بلیک اینڈ وائٹ) بھی سب سے پہلے ہمارے گھر آیا جو اس وقت 1600روپے میں آیا تھا اور محلے کی عورتیں، لڑکے اور بچے اس انداز سے ہمارے گھر ٹی وی دیکھتے تھے کہ بے پردگی نہ ہوتی اور لوگ ٹی وی پر چلنے والے پروگرام بھی دیکھ لیتے۔

چند سال بعد میرے والد جو ترقی کر کے کیبن مین بن چکے تھے، ان کی ٹرانسفر فیصل آباد کے قریبی ریلوے اسٹیشن ’’گٹی‘‘ ہو گئی۔ اسے آج کل نشاط آباد کے نام سے پکارا جاتا ہے اگر والد صاحب وہاں چلے جاتے تو ہم سب کے لئے بڑی مشکل ہوتی کیونکہ لاہور جیسے بارونق شہر میں رہتے ہوئے کسی اجاڑ اسٹیشن پر جانے کو جی نہیں چاہتا تھا پھر ہمارا تعلیمی سلسلہ بھی منقطع ہو جاتا۔ دوسرے لفظوں میں سارے خاندان کی تعلیمی اور معاشی زندگی تلپٹ ہو کر رہ جاتی۔ اسی لئے والد صاحب نے کچھ دے دلا کر ٹرانسفر منسوخ کر والی جس سے ہم نے سکھ کا سانس لیا۔ کچھ ہی عرصے بعد والد صاحب نے یارڈ فورمین کا امتحان پاس کر لیا تو ان کی پہلی تقرری لاہور کینٹ میں ہو گئی پھر وہ کچھ عرصہ کے لئے مغل پورہ چلے گئے۔ اس کے بعد لاہور کے بڑے اسٹیشن پر تعینات ہو گئے۔

یہیں والد صاحب پر فالج کا حملہ ہوا۔ میں ان کی بیماری کی درخواست دینے کے لئے ’’اے ٹی او‘‘ یارڈ جمال الدین کے دفتر گیا وہاں کوئی بھی میری بات سننے کو تیار نہ تھا بلکہ یہ کہا جا رہا تھا کہ آپ کے والد صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ خود چل کر آتے اور بیماری کی درخواست پر دستخط کر کے واپس چلے جاتے۔ میں نے اے ٹی او صاحب کو سمجھایا کہ جناب والد صاحب تو چلنے پھرنے سے عاری ہیں اور آپ یہ فرما رہے ہیں کہ وہ خود چل کر آئیں اور درخواست دیں اگر وہ یہاں تک آنے کے قابل ہوتے تو ڈیوٹی ہی پر کیوں نہ آ جاتے۔ جب بات بنتی نظر نہ آئی تو میں نے والد صاحب والا نسخہ آزمایا اور گولڈ لیف کی ڈبی خرید کر جو میں نے پہلے ہی جیب میں رکھی ہوئی تھی ’’اے ٹی او‘‘ جمال الدین کو پیش کی تھوڑے سے تکلف کے بعد انہوں نے سگریٹ کی ڈبی پکڑلی اور ہمیں کہا کہ جاؤ چھٹی منظور ہو گئی ہے۔ محکمہ ریلوے کا یہ حال دیکھ کر میں بہت پریشان ہوا کہ انسان جہاں کام کرتا ہے وہاں اس کے ساتھ ایسا گھٹیا سلوک بھی ہو سکتا ہے کہ رشوت کے بغیر چھٹی بھی منظور نہیں ہوتی۔ ’’جی نائٹی ٹو‘‘ یعنی بیماری کی چھٹی کا سر ٹیفکیٹ لینے کے لئے ہمیں ریلوے ہسپتال جانا تھا۔ بڑی مشکل سے میں انہیں موٹر سائیکل پر بٹھا کر ریلوے ہسپتال لایا۔ پہلے تو دس بجے تک ڈاکٹر صاحب ہی تشریف نہ لائے اور جب وہ آئے تو اپنے ذاتی کاموں میں مصروف ہو گئے۔ بارہ ساڑھے بارہ بجے جب میری باری آئی تو میں والد صاحب کو پکڑ کر ان کے کمرے میں لے گیا۔ بغیر اجازت میری آمد پر ڈاکٹر آگ بگولہ ہو گیا آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے بتایا کہ بیماری کا سر ٹیفکیٹ لینا ہے۔ اس نے کہا کہ کل آنا میں نے کہا کہ جناب اتنی مشکل سے ہم آج آئے ہیں اور میرے والد آپ کے سامنے ہیں۔ فالج کی وجہ سے ان کی حالت دیکھی نہیں جاتی اور آپ ہمیں کل پھر بلا رہے ہیں۔ آپ نے جو چیک اپ کرنا ہے وہ آج ہی کر لیں لیکن ریلوے کا ڈاکٹر‘ معالج کم قصائی زیادہ نظر آیا۔ ہم سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ میں آپ کے والد کو ابھی فٹ قرار دے دیتا ہوں۔ میں نے کہا آپ بڑے عجیب ڈاکٹر ہیں کیا اتنی لاغر حالت میں مریض یارڈ میں شٹنگ کروا سکتا ہے۔ بہرکیف کچھ دیر بعد اس کی طبیعت بہتر ہوئی تو اس نے صرف تین دن کا میڈیکل سر ٹیفکیٹ دیا۔ یہ تو ایک واقعہ ہے ایسے کئی واقعات ریلوے ملازمین کو ملازمت کے دوران پیش آتے ہیں جہاں تنخواہ لینے کے لئے بھی رشوت دینی پڑتی ہو اس محکمے کا خدا ہی حافظ ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ والد صاحب کی حالت بگڑتی جا رہی تھی‘ انہیں فالج جیسے موذی مرض کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا‘ کمزوری اتنی بڑھ گئی کہ باتھ روم تک جانا بھی مشکل ہوگیا۔ کچھ عرصہ سروسز ہسپتال میں داخل رہے پھر حالت سدھر گئی۔ والدہ نے خوارک پر بھی خاصی توجہ دی۔ پھر ان کی دونوں آنکھوں میں سفید موتیا اتر گیا۔ بالکل قریب سے بھی دکھائی دینا بند ہو گیا۔ پیشاب کی بیماری تو انہیں بہت پہلے سے لاحق تھی۔ اب یکدم اتنی ساری بیماریوں کے حملے نے اوربھی پریشان کر دیا۔ میں نے پیشاب کے مسئلے پر ماہر ڈاکٹر عباس عسکری کو دکھایا جس نے دوا لکھ کر دی۔ الٹرا ساؤنڈ کی رپورٹ میں ایک غدود بڑھی ہوئی نظر آئی جو پیشاب میں رکاوٹ بن رہی تھی۔ ڈاکٹر کی دوا سے پیشاب تو آنے لگا لیکن بینائی کا معاملہ ابھی باقی تھا اس کا علاج صرف آپریشن تھا۔ چنانچہ ہمت کر کے والد صاحب کو سروسز ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا۔ اپنے والد کی صحت کی خاطرمجھے کئی راتیں ہسپتال کے گندے فرش پر ہی سونا پڑا۔

پہلے ایک آنکھ کا آپریشن ہوا۔ ایک مہینے بعد دوسری آنکھ کا بھی ہو گیا۔ دونوں آنکھوں کے آپریشن بڑے کامیاب رہے جو ماہر امراض چشم ڈاکٹر واصف محی الدین نے کیے اور ان آپریشنوں کی بدولت والد صاحب بالکل صحیح دیکھنے لگے جس پر ہم نے خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔اس کے بعد انہیں ایک اور مرض نے آگھیرا۔ انگڑائی آنے کے بعد اتنی شدت سے بخار چڑھتا کہ دو دو رضائیاں انہیں اوڑھنا پڑتیں۔ پھر بھی کپکپی کنٹرول نہ ہوتی ۔ کسی نہ کسی بھائی کو ان رضائیوں کے اوپر لیٹنا پڑتا۔ ایک شام میں جب دفتر سے واپسی پر گھر پہنچا تو والد کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی۔ دیکھنے کے باوجود بھی وہ مجھے پہچان نہ پا رہے تھے ان کی یہ حالت دیکھ کر میں گھبرا گیا اور دل میں فیصلہ کر لیا کہ انہیں فوری طور پر شیخ زید ہسپتال لے کر جاؤں گا۔ اتنے میں مغرب کی اذان شروع ہو گئی۔ میں نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد پہنچا تو نماز سے فراغت کے بعد مجھے ولی کامل بابا عرفان دکھائی دیئے ۔ والد کی بیماری کی وجہ سے نماز میں بھی میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔اپنے والد کی صحت اور تندرستی کے لیے مسلسل دعا کررہا تھا۔

نماز سے فراغت کے بعد میں اپنی جگہ سے اٹھ کر بابا عرفان کے پاس گیا اور ان کو سلام کر کے ان کی مٹھی میں چند روپے رکھے جو میں حسب معمول ہر ملاقات پر انہیں دیتا تھا۔ پھر انہیں والد کی صحت یابی کے لئے دعا کی گزارش کی ۔ انہوں نے اسی وقت اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعا مانگنے لگے‘ میں بھی ان کے ساتھ شامل ہو گیا۔ دعا مانگتے ہوئے میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔ دعا ختم کر کے میں نے اجازت چاہی۔ جب گھر پہنچا تو والد صاحب چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کی طبیعت پہلے سے بہت بہتر تھی۔ میں نے پیار سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میں کافی بہتر محسوس کر رہا ہوں۔ اتنی جلدی ٹھیک ہوناایک معجزے سے کم نہ تھا۔ بابا عرفان کو چونکہ میں بچپن ہی سے جانتا تھا وہ جوانی سے لے کر بڑھاپے کی آخری سٹیج تک بھی نماز باجماعت ادا کرتے نظر آئے۔ ان کی آنکھیں بھی بہت کمزور ہوگئیں ، انہیں رات کے وقت نظر بھی نہیں آتا تھا پھر بھی وہ نماز کے لئے مسجد تک کسی نہ کسی طرح پہنچ جاتے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے اس بندے کی دعا قبول کر کے میرے والد کو ٹھیک کر دیا۔ (بابا عرفان اب اس دنیا میں نہیں وہ بھی پردہ فرما گئے ہیں اور میاں میر پل سے ملحقہ قبرستان میں دفن ہیں میری ذاتی رائے میں وہ حقیقت میں ولی کامل تھے)۔

اس کے بعد میرے پیارے والد زیادہ عرصہ تک زندہ نہ رہ سکے۔ پیشاب میں بندش کے مسئلے نے انہیں پریشان کیے رکھا۔بالآخر 19جنوری 1994ء کو علی الصبح خالق حقیقی سے جاملے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاَنَّا عَلِیْہِ رَاجِعُوْن( بے شک ہم سب اﷲ کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں)۔ والد صاحب کی رحلت کے صدمہ عظیم نے ہمیں بہت عرصہ تک بے سکون رکھا اب بھی شفقت پدری کا قدم قدم پر احساس ہوتا ہے اور وہ منظر آنکھوں میں گھوم جاتا ہے جب میں ان کی انگلی پکڑ کر بازار بڑے شوق سے جایا کرتا تھا اور وہ بڑی محبت سے مجھے مٹھائی کی دوکان سے چار آنے کی برفی لے کر دیا کرتے تھے ،اسے میں بڑے شوق سے کھاتا اور اپنے والد کو ڈھیروں دعائیں دیتا۔ جب بھی کوئی شخص مجھے دلشاد خاں لودھی کا بیٹا کہہ کر پکارتا ہے تو میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے ۔ بے شک باپ سے وابستگی میرے لئے اعزاز کا باعث بنتی ہے۔ اب جبکہ وہ ہمارے درمیان موجود نہیں‘ انہیں دنیا سے رخصت ہوئے 26سال ہو چکے ہیں ،ہر لمحے ان کی یاد دامن گیر رہتی ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا جاتا ہو جب وہ خواب میں نہ آتے ہوں۔ بہرکیف اب انہوں نے ہمارے پاس نہیں آنا بلکہ ہمیں ہی ان کے پاس جانا ہے۔ دعا ہے کہ اﷲ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین۔

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 802 Articles with 786331 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.