نہ جانے وہ کونسا نشہ ہے!!

زرعی قوانین کی مخالفت کررہے کسانوں کی قیادت کرنےو الے سکھوں نےملک کیلئے ایک ایسا پیغام دیاہے جس کی مثال بہت کم ملتی ہے،ملک میں صرف سکھ ہی کسان نہیں بلکہ دیگر ذاتوں،مذاہب کے لوگ بھی کسان ہیں،باوجود اس کےاس دفعہ مرکزی حکومت کی جانب سے لائے گئے زرعی قوانین کی مخالفت کی جب بات آئی تو سکھوں نے اس احتجاج کی قیادت کی اورآج سپریم کورٹ میں زرعی قوانین پر جو امتناعی احکامات یعنی اسٹے آرڈر جاری ہوئے ہیں وہ اس احتجاج کی سمت میں بہت بڑی کامیابی کہا جاسکتا ہے۔ہندوستان کی موجودہ حکومت نے یہ سمجھ لیاتھا کہ سکھ قیادت والے کسان دہلی کی ٹھٹھرتی ہوئی سردی میں اپنے قدم پیچھے ہٹالیں گے اوران کا احتجاج ناکام ہوجائیگا،لیکن مرکزی حکومت نے یہ اندازہ نہیں لگایاتھاکہ اس بار اُن کا مقابلہ مسلمانوں سے نہیں بلکہ کسانوں سے ہے جو ہر معاملے میں مستحکم اور مضبوط ہیں۔گذشتہ سال انہیں دنوں میں این ار سی،این پی آر اور سی اےاے کی لہر اُٹھی تھی،اُس وقت دہلی میں شاہین باغ کے نام سے احتجاجات سر چڑھ کر بول رہے تھے،مرکزی حکومت این پی آر کو نافذ کرنے کیلئے بضد تھی، مگراین آرسی کی مخالفت کرنے والے احتجاجیوں نے اپنے قدم پیچھےنہیں اٹھائے حالانکہ ان احتجاجیوں کی سرپرستی کیلئے آج کے کسانوں کی طرح کوئی نمائندہ تنظیم نہیں تھی نہ ہی کسانوں کے جیسے قدآور قائدین این آرسی کے احتجاجات میں شامل تھے،باوجوداس کے عام مسلمانوں وپسماندہ طبقات کے لوگوں نے اس قانون کی کھلی مخالفت کی تھی،جس کی وجہ سےحکومت پریشان ہورہی تھی۔حالانکہ این آر سی،این پی آر اور سی اےاے کاخطرہ ابھی بھی نہیں ٹلاہے اور نہ ہی مرکزی حکومت نے اس قانون کو منسوخ کرنے یا اس میں ترمیم لانے کی بات کہی ہے۔پھر بھی مسلم قیادت پہلے کی طرح اب بھی سو رہی ہے،نہ جانے وہ کونسا نشہ ہے جو ہمارے قائدین کررہے ہیں۔جس وقت ملک میں کانگریس کا زمانہ تھا اُس وقت ملک کے چاروں طر ف سے مسلم قیادت کے نمونے دیکھنے کو مل رہے تھے،ہر کوئی مسلمانوں کو انصاف دلانے کی بات کررہاتھا،ملک میںقدیم سے لیکر جدید مسلم تنظیمیں احتجاج پر آمادہ تھیں،لیکن اچانک ایک دن ایسا آیاکہ مسلم قائدین دُبک کر رہے گئے۔مصلیحت وحکمت کے نا م پر وہ اپنا پتہ کٹوا چکے ہیں،دراصل ان میں سے بھی کئی لوگ ایسے ہیں جن کا کردار ماضی میں بہت اچھارہا،لیکن بعدمیں مشکوک رہا۔انہیں رہنماؤں کے حالات سے ملتا جلتا
ایک واقعہ ہے ۔ اسے غور سے پڑھیں ۔

ایک شخص گھر آیا تو اس کی بیوی نےکہا :۔ "ہمارے غسل خانے کے پاس جو درخت ہے اسے کٹوا دو ، میری غیرت گوارا نہیں کرتی کہ جب میں غسل کررہی ہوں تو پرندوں کی نظر مجھ پر پڑے۔"وہ بیوی کی اس بات سے بہت متاثر ہوا اور درخت کٹوا دیا۔وقت گزرتا رہا۔۔۔۔ایک دن وہ خلافِ معمول اچانک گھر آیا تو دیکھا بیوی کسی مرد کے ساتھ مشغول تھی۔اسے بہت دُکھ ہوا۔ وہ اپنا گھربار چھوڑ کر بغداد چلا گیا۔ اور وہاں اپنا کاروبار شروع کرلیا۔اللہ نے کاروبار میں خوب برکت دی ، اور اپنے روز افزوں کاروبار کی بدولت وہ بغداد کے سرکردہ شہریوں میں شمار ہونے لگا۔ یہاں تک کہ بغداد کے کوتوال تک رسائی بھی حاصل کرلی۔ایک دن کوتوال کے گھرچوری ہوگئی۔

پولیس نے مجرم کا سراغ لگانے اور پکڑنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہی۔اس نے دیکھا کہ ایک شیخ کا کوتوال کے گھر آنا جانا ہے ، اور کوتوال ان کی بے حد تعظیم کرتا ہے۔لیکن ایک بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ شیخ آدھے پاؤں پر چلتے ہیں ، پورا پاؤں زمین پر کیوں نہیں رکھتے۔
اس نے کسی سے وجہ پوچھی تو اسے بتایا گیا:۔
"یہ پورا پاؤں زمین پر اس لیے نہیں رکھتے کہ کہیں کیڑے مکوڑے نہ کُچلے جائیں۔"وہ شخص فوراً کوتوال کے پاس گیا اور اسے کہا:۔"جان کی امان ہو تو عرض ہے ، آپ کی چوری اِسی شیخ نے کی ہے۔"جب تحقیق کی گئی تو مال مَسرُوقہ اُسی شیخ سے برآمد ہوا۔کوتوال نے حیرانی سے کہا:۔
"ہم نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ شیخ بھی ایسا کرسکتے ہیں۔ تمہیں کیسے معلوم ہوا؟"

اس نے کہا:۔"میرے گھر میں ایک درخت تھا ، جس نے مجھے نصیحت کی تھی:"جو لوگ ضرورت سے زیادہ "نیک نظرآنے" کی کوشش کرتے ہیں ، وہ عموماً نیک نہیں ہوتے۔اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ ہر کوئی دعویٰ کرنے والاشخص مسلمانوں کا قائد نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ان پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ کیاجاسکتاہے۔حد سے زیادہ بھروسہ کرنے سے ہی آج مسلم ملی، سیاسی اور مذہبی قائدین مسلمانوں کا یہ حال کررکھے ہیں ۔۔

 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 174629 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.