ابن مریم ہوا کرے کوئی!

تحریرـ: مہوش کرن، اسلام آباد
’’بھائی آپ مجھے یہ سوٹ نکال کر دکھائیں گے؟ میں آپ کو دو بار کہہ چکی ہوں۔‘‘ ’’بس دو بار ، ایک بار اور کہیں نا۔‘‘ ’’باجی اتنے سادہ پی کو کیوں کروا رہی ہیں۔؟ آج کل تو نت نئے فیشن آگئے ہیں پیکو میں، آپ فیشن نہیں کرتی کیا۔؟‘‘’’یہ ناپ کی قمیض تو ڈھیلی لگ رہی ہے آپ کے لیے، تھوڑی فٹنگ رکھوا لیں آپ تو بہت اسمارٹ لگ رہی ہیں۔‘‘

سماعت پر یہ جملے ہتوڑے کی طرح برس گئے مگر میں اپنی عادت کے مطابق نپے تلے انداز میں دکانداروں سے بات کرکے اور اپنا کام کروا کر واپس گاڑی میں بیٹھ گئی اور میرے شوہر نے گاڑی گھر کی طرف موڑ دی۔ گھر آکر کاموں میں لگ گئی لیکن دل و دماغ میں وہی جملے گونجتے رہے۔ آخر کار جب عشا کی نماز کے لیے تنہائی میں جائے نماز پر بیٹھی تو رو رو کر اپنے رب سے مناجات کرنے لگی کہ یاالٰہی یہ کیا ماجرا ہے، میں جو کہ ڈھیلے ڈھالے کالے عبایہ اور اسکارف نقاب میں تھی اور سینہ، کندھے، یہاں تک کہ بازو بھی اسکارف سے ڈھانپ کر رکھتی تھی اور دکانداروں سے صرف کام کی بات کرتی تھی اِس کے باوجود بھی دْکان والوں کے دوستانہ رویّے کا شکار ہوئی۔

یوں تو میں ہمیشہ اپنے شوہر کے ساتھ ہی دکان میں جاتی ہوں لیکن اس دن ہوا یوں کہ پارکنگ نہ ملنے کی وجہ سے میرے شوہر گاڑی میں ہی بیٹھے رہے اور میں بیٹی کے ہمراہ دوکانوں کی طرف چلی گئی اور یہ ساری باتیں گوش گزار ہوئیں۔ میری ناقص سمجھ میں صرف اتنا آیا کہ کچھ عورتیں سرے سے بے پردہ ہوتی ہیں اور کچھ عبایہ پہننے کے باوجود با پردہ نہیں دکھتی اور یقینا دونوں صورتوں میں دوکانداروں اور بازار والوں کو اپنے حلیے اور حرکتوں کی وجہ سے فری ہونیکی کھلی عام دعوت دیتی ہیں لیکن کسی بھی صورت میں نقصان با پردہ عورتوں کابھی ہو جاتا ہے حالانکہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں لیکن لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ سب ایک جیسی ہی ہونگی۔

درحقیقت صنف نازک نے خود اپنے ہاتھوں پردے کی روح کا گلا دبا دیا۔ جو پردہ نہیں کرتی اْن کا تو خیر معاملہ ہی الگ ،لیکن جو پردہ کرتی ہیں اور اِس کے باوجود بازاروں میں سب سے کھل کر بات چیت اور ہنسی مذاق کرتی ہیں وہ یقیناً پردے کا مصرف سرے سے سمجھتی ہی نہیں۔ جسم کا پردہ تو ترجیحی بنیادوں پر کرنا ہی چاہیے، لیکن ساتھ ساتھ نظر اور زبان کا پردہ بھی ضروری ہے کیونکہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ یقینا ہمارا پیارا دین ہمیں کسی چادر اور چاردیواری میں قید کرکے لاش نہیں بناتا بلکہ ضرورت اور مجبوری میں عورت مکمل حدود میں رہتے ہوئے گھر سے ضروری کام یہاں تک کہ نوکری کے لیے بھی نکل سکتی ہے لیکن یوں بازاروں کی رنگینیوں میں گم ہو کر اپنی حدود پار کر جانا۔ پتا نہیں کہاں کی آذادی اور روشن خیالی ہے؟ اور اِس آزادی کی لاٹھی سے لوگ سب کو ہانکنے لگے ہیں۔

میں تو خود کو مکمل ڈھانپے اپنی 7 برس کی بیٹی کے ساتھ دکان پر کھڑی تھی اور یقیناً وہ بھی پورے کپڑوں اور پوری آستینوں میں ملبوس تھی۔ لیکن جب یونہی وقت گزاری کے لیے اِدھر اْدھر دیکھا تو محسوس ہوا کہ گویا ہر کوئی اْسی کو دیکھ رہا ہو، ہر آتا جاتا مرد، دکاندار، گاہک، بس کچھ سمجھ نہ آیا، ایک انجانا سا خوف محسوس ہونے لگا اور غیر محسوس طور پر میں اْسے اپنے قریب سے قریب تر کرتی گئی اور خود کو ہی کوستی رہی کہ کیوں اِسے اپنے ساتھ لے آئی، گاڑی میں ہی بیٹھا رہنے دیتی۔ بہرحال جیسے ہی پیکو والے نے دوپٹہ واپس کیا میں نے اسے پیسے تھمائے اور بجلی کی سی تیزی سے چلتے ہوئے جا کر گاڑی میں بیٹھ گئی، بیٹی بھی کچھ حیران تھی کہ اماں کیوں پریشان ہیں۔ اب میں اْسے کیا سمجھاتی۔

لیکن میرے دل و دماغ میں اتنے خوف سمٹ آئے کہ میں جو اپنے لیے پریشان ہوں حالانکہ باشعور ہوں اور جو آجکل معاشرے میں ناسمجھ بچوں کے ساتھ ہو رہا ہے اْس کا کیا سدباب ہے؟ کچھ بھی تو نہیں، میں یا ہم سب کب تک اپنی بچیوں کو گھروں میں روک سکتے ہیں ضرورتاً ہی پر وہ باہر تو نکلیں گی نا۔ اور نجانے آنے والے وقتوں میں یہ فتنہ کس حد تک پھیل گیا ہوگا اور کتنا اثر انگیز ہو چکا ہوگا۔؟ میں سوچتی ہوں کہ آخر ہم اپنے بچوں کی ایسی کیا تربیت کریں کہ وہ اِس مصیبت کا شکار ہونے سے بچ سکیں اور کیا ساری مائیں ایسی تربیت کریں گی کہ ہمارے وہ بچے جو بڑے ہوکر شکاری بن جاتے ہیں وہ بھی بچ جائیں۔؟

جو نوجوان نفس کی بھینٹ چڑھ کر اِس حال کو پہنچ چکے ہیں یا آئندہ اس انجام کو پہنچنے والے ہیں کیا وہ حضرت عیسیٰ (علیہ سلام) کی فوج میں شامل ہوکر دجال کا مقابلہ کریں گے؟ نہیں کیونکہ جب ان کے دلوں کی تہہ تک ایمان ہوگا ہی نہیں تو وہ دجال کو ہی مسیح مان کر الٹا اسی کی فوج میں شامل ہو جائیں گے۔ تو کیا ہوگا اس نوجوان نسل کا کیسے بچائیں گے یہ خود کو اور کیسے ڈھال بنیں گے ہماری؟ کیا صرف سورت کہف پڑھنا کافی رہے گا نہیں بلکہ اس پر عمل پیرا ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہوگا۔بے شک میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں ( اٰلِ عمران:36)

اے اﷲ! بنا دے ہمیں ہاجرہ، آسیہ ، مریم اور اور آمنہ جیسی مائیں تاکہ ہم دے سکیں معاشرے کو اسماعیل ، موسیٰ ، عیسیٰ اور محمد جیسے بیٹے اور عائشہ ، زینب اور فاطمہ جیسی بیٹیاں، آمین یا رب العالمین۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1024176 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.