آزادی اظہارِ رائے کا طوفان

یہ ایک واضح حقیقت ہے جس کو ہر ذی شعور انسان ماننے کے لئے تیار ہے کہ اظہار آزادی رائے انسان کا بنیادی اخلاقی حق ہے، دنیا میں ہر انسان آزاد رہنا چاہتا ہے اُس کی آزادی پر روک اُس کو گوارا نہیں ہوتی ۔ کیونکہ آزادی انسانی فطرت کا ایک انمول پہلو ہے، جس سے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہ حق شعور کو پروان چڑھا کر بہت ساری گتھیوں کو سلجھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ تحقیق کے نئے ابواب سے روشناس کرواتا ہے۔ اجتماعی شعور سے اخذ کی گئی متنوع قسم کی آراء جب باہم ملتی ہیں تو وہ ایک سے گیارہ بن کر اجتماعی مفاد پر متنج ہوتی ہیں۔ اختلافِ رائے کو قبول کرنے کی بنیاد یہ تسلیم کرنے میں ہے کہ لوگوں کا زاویہ نظر مختلف ہوتا ہے اوران کی جانب سے کسی بھی تصور کے حوالے سے کی جانے والی تشریح مختلف ہو سکتی ہے۔اظہار رائے کی آزادی میں تنقید کا حق بجا ہے،لیکن شریعت تمام انسانی حقوق سے اولیٰ ہے اورشریعت اسلامی نے ہر ایک کو بنیادی انسانی حقوق اور آزادئ اظہار رائے کاحق بھی دیا ہے اور جس طرح اسلام نے یہ حق دیا ہے یہ انسانی حقوق اور آزادئ اظہار رائے سے مختلف اور مخالف نہیں ہے۔لیکن یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ جہاں تنقید کی حد ختم ہوتی ہے، وہاں سے ہی تذلیل کی سرحد شروع بھی ہو جاتی ہے اور کسی کی تذلیل کرنا ہر معاشرے میں برا عمل ہے ۔دراصل اظہارِ رائے کی آزادی کا منشا یہ ہے کہ کسی کو بھی اپنا نکتہ نظر بیان کرنے کی اجازت ہے، البتہ دوسرے کی تذلیل وکردار کشی کی اور تہمتیں لگا کر نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں ہے۔ اظہار رائے کی آزادی میں تنقید کا حق شامل ہے، اسلام ہر انسان کو یہ حق عطا کرتا ہے کہ وہ ریاست کے معاملات میں اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کر سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ حدود کو پامال کرے۔ آزادی اظہار رائے کو حدود میں رہ کر استعمال کرنا چاہئے ۔

چنانچہ اسلام نے آزادی اور آزادی اظہارِ رائے پر بہت زور دیا۔ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلانا اسلام کے مقاصد میں شامل ہے ۔

اسلام کا سطحی مطالعہ کرنے والا یہ بخوبی جانتا ہے کہ اسلام کے بنیادی مآخذ وہ دو ہیں قرآن اور حدیث ۔
قرآن مجید کی بہت ساری آیات میں آزادئ اظہار رائے کے اصول کو اچھے طریقے سے بولنے کے ذریعے واضح کیا گیا ہے- مثلاً
’’وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا ‘‘
’’اور لوگوں کے ساتھ اچھے انداز میں بات کرو‘‘-

یہ خالصتاً آزادئ اظہار رائے سے متعلق بات ہے اوریہ نہ صرف قانونی حکم ہے بلکہ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے لیے محبت، اخلاص، عزت اور اخلاقی فریضہ ہے-
آزادئ اظہاررائے کی وضاحت قرآن کریم کی ایک اور آیت میں یوں کی گئی ہے:
’’وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ‘‘
’’اورجھوٹ اورغلط بیانی سے اجتناب کرو ‘‘-
یہاں پرواضح طورپر اس بات کی ممانعت اور واضح حکم دیا گیا ہے کہ بری زبان اورغلط معلومات یا رویہ نہیں اپنایا جائے گا کہ معاشرے کی بقاء کیلیے معاشرے کے افراد کے درمیان کسی قسم کی کوئی غلط فہمی اور تشدد نہ پھیلے-
ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا‘‘

’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو اور صحیح اور سیدھی بات کہا کرو‘‘-
اس آیت مبارکہ میں اللہ نے نہ صرف اپنی مخلوق کو سچ اور سیدھی بات کرنے کا حکم دیا ہےاور تقویٰ:(ایک ایسی حالت جو نہ صرف انسان باتوں تک کے لیے نیک ہوتی ہے بلکہ انسان اعمال اورباطنی اصلاح حاصل کرتا ہے) کے حصول کا حکم دیا ہے-

آزادئ اظہار رائے کے حوالے سے قرآنی نصیحت کو حضور نبی کریم (ﷺ) کی سنت میں بھی واضح کیا گیا ہے کہ نہ صرف مسلمانوں کو نفرت پھیلانے سے منع کیا گیا ہے بلکہ معاشرے میں امن اور بھائی چارے کیلیے کردار ادا کرنے کی نصیحت کی گئی ہےجیساکہ حدیث پاک(ﷺ) ہے:
’’مسلمان وہ ہے جس کے زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہیں‘‘-

یہ حدیث پاک معاشرے کے لوگوں کے درمیان بھائی چارہ اور پیار کو یقینی بناتی ہے-یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ حدیث مبارک صرف مسلمانوں کے لیے ہے لیکن اس کا مقصد پر امن معاشرے، بھائی چارے اورمحبت کو عام کرنا ہے تاکہ لوگوں کو معاشرے میں آزادی اور تحفظ کا احساس ہو-

اب اگر کوئی شخص اظہار آزادی رائے کا سہارا لے کر اور اسلامی نقطہ نظر کو پس پشت ڈال کر دوسرے شخص کی تذلیل کرنا شروع ہو جاتا ہے تو وہ حقیقت میں پھر اپنی پرواز بھی بھول جاتا ہے بقول علامہ اقبال :
ڈھونڈنے والاستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا

آزادئ اظہار رائے کی حدود پر عالمی قوانین کا مطالعہ کرنے سے ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ بین الاقوامی دنیا اور ادارے مثلاً اقوام متحدہ اور او آئی سی کے تحت توہین مذہب کے بارے میں کی گئی قانون سازی کے ارتقاء میں بہت سے نشیب و فراز آئے-
آزادئ اظہار رائے عالمگیر اعلامیہ برائے انسانی حقوق (UDHR) کے آرٹیکل 19، 20 اور بین الاقوامی قانون برائے شہری اور سیاسی حقوق (ICCPR) آرٹیکل 19 کے ذریعے مہیا کی گئی ہے لیکن یہ آزادی مطلق العنان نہیں ہے-اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے آزادئ اظہار رائے کے حوالے سے کہا:
’’بلا انتقال یا ناقابل انتقال آزادئ اظہار رائے کے حق کی حفاظت نہیں کی جاسکتی جب یہ دوسرے لوگوں کی اخلاقی اقدار یا عقائد کو ’’ذلیل کرنے کیلئے استعمال ہو یا اس پر اکسائے‘‘

ہرکوئی اس بات کو مانتا ہے کہ آزادئ اظہار رائے پر کچھ جائز، قانونی اور واضح پابندیاں ہونی چاہیں جو اس کی حدود کا تعین کریں-آرٹیکل 19(3) ICCPR جہاں آزادئ اظہار رائے کا حق دیتا ہے وہیں اس کی حدود کا تعین بھی کرتا ہے-سوال یہ ہے کہ کیا ’’توہینِ مذہب‘‘ کو ان پابندیوں میں شامل کیا جاسکتا ہے جو آزادئ اظہار رائے کے حدود کا تعین کرنے کیلئے لگائی جاتی ہیں جیسا کہ آرٹیکل 19(3) میں کہا گیا ہے کہ آزادئی اظہار رائے کی کچھ حدود ہیں مثلاً دوسرے کےحقوق اور ان کی عزت کے حقوق کی حفاظت کرنا،قومی استحکام کی حفاظت کرنا،عوامی امن، عوامی صحت اور اخلاقیات وغیرہ کی ۔ICCPR آرٹیکل20 میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی ایسی سرگرمی کہ جس سے قومی،نسلی یا مذہبی نفرت یا کسی بھی قسم کی امتیازی سرگرمی،جو ظلم اور تشدد کو ہوا دے قانون اس کی اجازت نہیں دیتا اور اسے ممنوع قرار دیتا ہے-

تاریخ کا مطالعہ کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ توہین مذہب کے حوالے سے سب سے بڑی ترقی بین الاقوامی تنظیم ممالک اسلامی کے تعاون سے ممکن ہوئی- اسلام کی تضحیک کے حوالے سے جو پہلی قرارداد 1999ء میں OIC کی طرف سے اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق میں پیش کی گئی اور اس کا ترمیم شدہ مسودہ پیش کیا گیا جس میں تمام مذاہب کے حوالے سے بات کی گئی اور بالخصوص اسلام کی غیر محفوظ حالت پر بات کی گئی-کمیشن نے اسی نوعیت کی 2000ء سے 2005ء تک مسلسل ہر سال قرار دادیں پیش کیں-

2009ء میں ایک انتہائی اہم موڑدیکھنے میں آیا جب46 ممالک کی 200 سے زیادہ سول سوسائیٹی تنظیموں (بشمول مسلمان، عیسائی، یہودی، لادین، انسانیت پسند اور ملحدین گروہ) نے ایک پٹیشن پر دستخط کیے جس کے ذریعے ہیومن رائٹس کونسل کو اس بات پر ابھارا کہ توہین مذہب کے حوالے سے قرارداد کومسترد کردیا جائے-2009ء کے شروع میں بہت سی تضحیک پرمبنی قرار دادوں کے حق میں پڑنے والے ووٹوں کی تعداد مخالفت اور غیرجانبدار رہنے والے ووٹوں کی تعداد بہت زیادہ تھی-2011ء میں اقوام متحدہ کونسل برائے انسانی حقوق نے ایک قرارداد 16/18 پیش کی گئی جس میں اہم چیز ’’توہین مذہب‘‘ کے الفاظ شامل نہیں تھے - یہ اقوام متحدہ کا اس مسئلے سے توجہ ہٹانا اس لیے تھا تاکہ مذہبی عدم بردباری اورعدم برداشت سے نبرد آزما ہوا جائے- یہ کام استنبول میں ہونے والی گول میز کانفرنس کے نتیجے میں عمل پذیر ہوا جس میں ’’او آئی سی‘‘ کے سیکریٹری جنرل اور امریکہ کی سیکرٹری آف سٹیٹ ہیلری کلنٹن، یورپی یونین، عرب لیگ اور افریقن یونین کے نمائندگان نے شرکت کی-شریک نمائندگان نے قرارداد 16/18 کے نفاذ کے لئے عملی اقدامات پر گفتگو کی جسے ’’استنبول پراسس ‘‘کہا جاتاہے-

ستمبر 2012ء میں اسلامک ایجوکیشنل،سائنٹیفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن (IESCO) نے ایک متفقہ مسودہ جاری کیا جس کے ذریعے سے ایک بین الاقوامی معاہدہ کے لیےابھارہ گیا اور میڈیا کے تمام ذرائع کو توہین مذہب پر اقوام متحدہ کی قرارداد کا پابند بنایا گیا-

ایک بیان میں مہاتیر محمد نے بالکل بجا فرمایا کہ ’’لیونگ لیجنڈ‘‘ ڈاکٹر مہاتیرمحمد کہتے ہیں کہ آزادئ اظہار رائے کے معاملے میں مغرب نے دوسری اقوام کے ساتھ منافقانہ روش اپنائی ہے- مثلاً ہیلری کلنٹن نے مسلمانوں کی تضحیک کے حوالے سے فلم کے بارے میں کہا کہ اسے آزادئ اظہار رائے کی وجہ سے نہیں روکا جا سکتا جبکہ فرانسیسی اور اطالوی اخباروں نے کیمبرج کی ایک ڈچ خاتون کی برہنہ تصاویر کو چھاپا تو ایک فرانسیسی عدالت نے حکم جاری کیا کہ اخبار کا عملہ یہ تمام تصاویر ڈچ شاہی جوڑے کو واپس کرے اور ان کی اشاعت کو بند کرے اور اطالوی عدالت نے بھی ایسا ہی حکم جاری کیا اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ قانون مخصوص لوگوں کے لیے ہے کہ ایک ڈچ خاتون کے خلاف اسے استعمال نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ مسلمانوں کے مقدس پیغمبر (ﷺ) کیلیے ٹھیک ہے- جیسے اوپر آزادیٔ اظہار رائے کے حوالے سے اخلاقی اور قانونی حدود کی بات کی گئی- سب سےاہم اور ابتدائی چیز ہے ’’نقصان‘‘ کہ آزادئ اظہار رائے اور تقریر سے مستفید اور لطف اندوز ہونے کے دوران اس بات کا خیال رکھا جائے کہ کسی بھی شخص کو نقصان نا پہنچے ذاتی شان و شوکت اور راز داری کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو-آزادئ اظہاررائے کومعاشرے میں کسی بھی قسم کے انتشار،جرم اورتشدد کو ہوا دینے کیلیے استعمال نہیں کیا جائے گا- بہت سی اسلامی حدود اور تعلیمات اخلاقی نوعیت کی ہیں کسی کو موجودگی یا غیر موجودگی میں کسی فرد یا گروہ کے افراد اور گروہ کے خلاف بشمول جھوٹ بولنا، دوسروں کی تضحیک کرنا، برے ناموں سے پکارنا،غلط الفاظ،غیبت،کردار کشی اور تکلیف دہ باتیں شامل ہیں۔

بین الاقوامی قوانینِ آزادئ اظہار رائے اور پاکستان میں آزادئ اظہار رائے کی قانون سازی کا تجزیہ کرنا اور اس کا عملی نفاذ اور توہین مذہب کے مسئلے کے حوالے سے مستقبل کے امکانات کو سمجھنا ضروری ہے-آزادئ اظہار رائے اور توہین مذہب کے حوالے سے جو قانون ہے (a295) وہ یہ کہتا ہےکہ جو شخص جان بوجھ کر یا غلط ارادے سے اپنی گفتگو، الفاظ، تحریر، اشارہ یا کسی تصویر کے ذریعے سے کسی مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرنے کی کوشش کرتا ہےانڈین پینل کوڈ کے مطابق وہ مجرم ہے-یہ قانون آزادئ اظہار رائے کے حوالے سے پہلا قانون یا کوئی قانونی حد ہے تاکہ کسی بھی شخص کی طرف سے اس آزادی کا غلط استعمال کرکے کسی بھی سماجی، مذہبی شخصیت یا عقیدے یا گروہ کی توہین نہ کی جائے-یہاں ایک اورسیکشن ہے (b)295 جواس بات پر زور دیتا ہے کہ قرآن مجید کو برا بھلا کہنا اسی تضحیک کرنا آئین پاکستان کے مطابق جرم ہے-جیسے یہ قوانین مذہب سے متعلق ہیں اور بہت زیادہ جد و جہد اور غور و خوض کے بعد پاس کیے گئے اور پاکستانی آئین کا حصہ بنے-مختلف گروہوں کی طرف سے اس آزادئ اظہار رائے کے غلط استعمال اور مذہبی توہین کے حوالے سے بہت سارے مسائل تھے مثلاً احمدیوں قادیانیوں کا گروہ وغیرہ- ان مذہبی اختلافات نے لوگوں کو اس حالت تک پہنچا دیا کہ انہوں نے دوسرے مذاہب، مذہبی شخصیات اور گروہوں کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کرنا شروع کردی- اس حالت نے پاکستان کے مسلمانوں کو بھی اس حوالے سے تشویش میں مبتلا کردیا اور اس طرح پاکستان کے آئین میں ایک اور ترمیم کی گئی جسے (c)295 کہا جاتا ہے جس کے مطابق اس بات پر پابندی لگا دی گئی کہ کوئی بھی شخص یا اقلیت رسولِ پاک (ﷺ) کے حوالے سے کسی بھی قسم کی نازیبا زبان استعمال کرنے کی کوشش بھی نہیں کرے گا اگر کسی نے ایسا کیا تو یہ آئین پاکستان کے مطابق قابل سزا جرم ہوگا اور اس کے خلا ف کاروائی کی جائے گی-

پاکستانی قوانین :
پاکستان کو تقسیم کے وقت برطانوی قانونی نظام ورثے میں ملا- بہت سے قوانین بشمول باب 15 (مذہب کے حوالے سے) 1860ء کے انڈین پینل کوڈ سے نافذکیے گیے-ضیاء دورحکومت 1977ء میں ضیاء الحق نے یہ بیان دیا کہ جس طرح پاکستان اسلام کی بنیاد پر وجودمیں آیا تو اس کا استحکام اور بقاء بھی اسی وقت ممکن ہے جب اسلامی نظریے کو مضبوطی سے اپنایا جائے اور ضیاء الحق نے پاکستان کے قانونی نظام میں اسلامی نظام کو لازمی قرار دیا-انہوں نے بہت سارے قوانین بالخصوص توہینِ رسالت کے حوالے سے قوانین متعارف کروائے-

آزادئ اظہار رائے کا بلا حدود استعمال صرف گستاخیوں کا کباڑہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ ہماری اخلاقی گراوٹ اور ناقابلیت کا ایسا مقام ہے کہ ہم ایک دوسرے کی عزت سے لاعلم ہیں- یہ ہمارے معاشرے کی ایک علمی کمزوری اور قابل رحم روحانی کیفیت کا حال ہے کہ اس کا نظام تحفظ اور سماجی اتحاد و یگانگت بہت کمزور ہے-

ضرورت اس امر کی ہے کہ جو لوگ بےجا تنقید کرتے کرتے تمام حدیں عبور کرجاتے ہیں ۔ نفرت انگیز تقاریر سے ، شرانگیز بیانات سے انسانوں کی، عزت کو داغدارکرتے ہیں، کسی کی توہین و تحقیر کرتے ہیں۔ مذہب، مسلک ، فرقے اورکسی محترم شخصیت کے بارے میں ناشائستہ گفتگو کو رائے کی آزادی سمجھتے ہیں، ان کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہئے؛ تاکہ دوسرے لوگوں کے لئے بھی یہ عبرت بنے ۔

 

Muhammad Nafees Danish
About the Author: Muhammad Nafees Danish Read More Articles by Muhammad Nafees Danish: 43 Articles with 32926 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.