جنسی درندگی کے بڑھتے ہوئی واقعات، لمحہ فکریہ

اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے ، یعنی ایسا دستور ہے جس میں انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کو ہر پہلو سے نظم و ضبط اور اصول و قانون کے سانچے میں ڈھال دیا گیا ہے۔اس آئین کو اپنی ذات ، اپنے گھر اور اپنے معاشرے پر غالب کرنا ہر مسلمان کی بنیادی ذمہ داری ہے جس کا وہ عنداﷲ جواب دہ ہو گا۔ اس ذمہ داری سے لاپرواہی آج کے مسلمان کا سب سے بڑا المیہ ہے۔

امت مسلمہ کی موجودہ مشکلات و مسائل کی بنیادی وجہ یہی غفلت ہے کہ اﷲ کی زمین پر اﷲ کے نظام کو نافذ کرنے کی بجائے اغیار و کفار کا طریقہ رائج کر لیاتباہی کے جس راستے کو اہل مغرب نے اپنے لیے منتخب کیا تھا مسلمانوں نے اپنے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کو نظر انداز کرکے اپنے لیے بھی وہی راستہ پسند کر لیا ۔ دنیا میں کامیابی کے جو اصول حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی امت کو سمجھائے تھے ان سے اعراض کرکے ناکامی کو مقدر کر لیا، جوشرعی حدود اور سزائیں دین اسلام نے مجرم پر لاگو کی تھیں ان کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے کرمعطل کر دیا اور سامراج کی غلامی کا طوق پہن کر اپنے ممالک کو معاشرتی برائیوں کی آماجگاہ بنا لیا۔

پاکستان دنیا بھر میں صف اول کی اسلامی ریاستوں میں نمایاں مقام رکھتا ہے بلکہ یہ دنیا کی موجودہ جغرافیائی تقسیم میں واحد ریاست ہے جو لا الہ الا اﷲ کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی ۔ اسلامی ملک کہلانے کے باوجود اس ملک میں اسلام ہی مظلوم و متروک ہے ۔ ہمارے غیر اسلامی عدالتی اور قانونی نظام میں مجرموں کا سخت مواخذہ نہ ہونے کی وجہ سے جرائم کی شرح اور بالخصوص جنسی بے راہروی کا گراف دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے، جنسی زیادتی کا ایک افسوس ناک واقعہ ابھی قوم کے حواس پر سوار ہوتا ہے دریں اثناء ایک دوسرا سانحہ ملک کے اخلاقی درودیوار کو تہہ و بالا کر دیتا ہے۔
بقول فیض ؂
میرے وطن تیری گلیوں میں اندھیرا کیوں ہے
دن بھیانک ہیں، بہت دور سویرا کیوں ہے

قانون نافذ کرنے والے ادارے دن رات ایک کرکے ملزم کو گرفتار کرتے ہیں اور مقدمہ درج کرکے عدالت میں پیش کرتے ہیں لیکن فیصلہ سنانے والے جج صاحب اسلامی تقاضوں اور اپنے جذبات کو بروئے کارنہیں لا سکتے بلکہ وہ قانون کی اسی کتاب کے پابند ہیں جو ارباب اقتدار نے ان کے ہاتھوں میں تھما دی ہے۔وہ کتاب جو برطانوی سامراج کے ڈیڑھ سو سالہ قانون میں چند ترامیم کے ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رائج ہے۔وہ کتاب جس میں درج قواعد و ضوابط قوم کی بہنوں بیٹیوں کو حفاظت کی قبا اوڑھانے سے قاصر ہیں۔
بقول شاعر ؂
اس دیس میں لگتا ہے عدالت نہیں ہوتی
جس دیس میں انسان کی حفاظت نہیں ہوتی

نظام میں نقائص ہی کا نتیجہ ہے کہ جنسی زیادتی کے 59فی صد واقعات کسی گنتی شمار میں نہیں آتے یعنی صرف 41فی صد کیس پولیس کو رپورٹ کیے جاتے ہیں ۔ ان 41 فیصد واقعات کی تعداد گزشتہ 6سالوں میں 22ہزار سے زائد ہے ۔ ان 22ہزار ملزمان میں سے 21,923افراد بے گناہ قرار دے کر رہا کردیے گئے اور صرف 77افراد کو عدالت سے سزا سنائی گئی۔ ہزاروں افراد کو عدالت کی طرف سے بری کیا جاناکیا ریاست کی عملداری پر سوالیہ نشان نہیں؟ کیا پولیس اتنی بڑی تعداد میں بے گناہ افراد کو گرفتار کرکے شامل تفتیش کرتی ہے ؟ اور اگر پولیس نے صحیح مجرم گرفتار کیے تو وہ عدالت سے بری کس طرح ہو گئے؟ سابق سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے درست کہا کہ پوری قوم کی آنکھوں کے سامنے ایک سیاست دان نے محض اپنی موج مستی یا نشے میں ٹریفک وارڈن کو بلا قصور گاڑی کے نیچے روند ڈالا ،لیکن اس سیاستدان کو جس دن باعزت بری کر دیا گیا تھا ریاست اس دن مر گئی تھی۔سی سی پی او لاہور کی بات اگرچہ تلخ ہے لیکن بہرحال سچ ہے۔ ہماری پولیس اور عدالت قصور وار نہیں بلکہ اصل سقم اس نظام اور قانون میں ہے جو اﷲ کے حکم کو بالائے طاق رکھ کر انسانی عقل نے بنایا۔سزا و جزا کے اس ناقص نظام میں مجرم سے پہلے مظلوم سزا بھگت چکا ہوتا ہے ۔جبکہ بے شمار مقدمات اتنے طویل ہوتے ہیں کہ منطقی انجام تک پہنچ ہی نہیں پاتے ۔ اکثر مدعی طویل عدالتی کاروائی سے تھک کر مقدمے سے دستبردار ہو جاتے ہیں یا انصاف کی تلاش میں ایڑیاں رگڑتے اس جہانِ فانی سے کوچ کر جاتے ہیں۔ کئی مقدمات میں مدعا علیہ کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے مقدمہ واپس لے لیا جاتا ہے۔ کاش پاکستان میں شرعی حدود نافذ ہوتیں اور ہر مجرم کو شہر کے مرکز میں سرعام کوڑوں اور رجم کی سزا دی جاتی تو 22 ہزار کی بجائے 22واقعات بھی رونما نہ ہوتے۔ لیکن افسوس کہ کوئی حکومت مسئلہ کے شرعی حل پر غور تک کرنے کو بھی تیار نہیں۔ ظاہر ہے کہ جب قومی سلامتی و احتسابی اداروں کے مطابق 95% سیاستدان بدعنوان ہیں تو ایک چوری کرنے والا رہنما چور کے ہاتھ کاٹنے کا قانون کیونکر پسند کرے گا اور زانی کیوں چاہے گا کہ اس کو کوڑے مارنے اور رجم کرنے کا ضابطہ ملک میں رائج کیا جائے۔ کرپٹ مافیا اپنی قبر خود کھودنے کا اہتمام کیونکرکرے گا۔ اشرافیہ کا اپنا خاندان اور بچے سخت سیکورٹی میں محفوظ ہیں لہٰذا وہ قوم کی خواتین اور بچوں کے لیے حفاظت کے شرعی قانون کیسے متعارف کروا سکتے ہیں۔ ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ جب تک حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اور خلافت راشدہؓ کی نافذ کردہ شرعی حدود کا قانون نہیں بنے گا ملک میں امن و سکون نہیں ہو گا۔
 

Qazi baha ur rahman
About the Author: Qazi baha ur rahman Read More Articles by Qazi baha ur rahman: 20 Articles with 22407 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.