ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں وہاں صرف زندہ رہنا ہی اپنے آپ
میں ایک بہت بڑا محاذ ہے جسے بہت سے لوگ تو جیت جاتے ہیں مگر چند افراد
زندگی کا گلہ اپنے ہی ہاتھوں گھونٹ کر اس دنیا سے تو فرار حاصل کر لیتے ہیں
مگر ابدی زندگی کے سوالات کو آسان سمجھتے ہوئے خود کو مار ڈالنے کا فیصلہ
کر لیتے ہیں۔
زہنی تناؤ کسی نہ کسی حد تک اس دنیا میں موجود ہر انسان کی زندگی میں پایا
جاتا ہے۔ مسائل ہماری زندگی کا حصہ ہیں، جینے کی جنگ لڑنا اور کوشش جاری
رکھنا بہت اہم ہے۔ ہر صبح آنکھ کھلتے ہی نئے میدان میں اترتا تو ہر کوئی ہے
مگر سورج غروب ہونے پر کچھ لوگ غازی بن کر لوٹ نہیں پاتے۔
واقعہ بیان کرنا چاہوں گی چند روز پہلے کا، جوہر ٹاؤن کے ایک ہاسٹل میں نجی
یونیورسٹی کی ایک طالبہ مشکوک حالات میں مردہ پائی گئی۔ متاثرہ 27 سالہ
لڑکی یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹکنالوجی (یو ایم ٹی) میں میڈیکل کی طالب
علم تھی اور ہاسٹل میں مقیم تھا۔ بدھ کی رات وہ سو گئی اور اگلے دن اسے
مردہ حالت میں دیکھا گیا۔ ابھی تک کی اطلاعات سے معلوم ہوا ہے کہ پچھلے
سمیسٹر میں کم نمبر حاصل کرنے کے باعث پریشان تھیں اور جس دن پرچہ تھا مردہ
حالت میں پائی گئیں۔ ذرائع کے مطابق امتحان کے تناؤ کے باعث جان کی بازی
ہار گئی۔
میں طالبہ و طالبات سے کہنا چاہتی ہوں کہ ذہنی تناؤ ایک عام بات ہے، پڑھیں،
محنت کریں اور کوشش جاری رکھیں۔ امتحان اگلے سال بھی آئے گا مگر زندگی
دوسری بار نہیں مل سکتی۔ ہماری نوجوان نسل کا بہت بڑا المیہ برداشت کی کمی
ہے۔ ہمیں پینک ہونے میں چند سیکنڈ لگتے ہیں، ہر معاملہ کو حل کرنے کی
منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے، آپ پڑھائی میں اچھے نہیں ہیں تو میڈیکل کی
بجائے آرٹس پڑھیں، کوئی ہنر سیکھیں، خود کو کمفرٹ زون سے نکالیں، سٹریس
مینجمنٹ اور ٹائم مینجمنٹ سیکھیں، صورتحال کے نتیجوں اور کونسیکوینسز کا
سامنا کریں، سامنا نہیں کرنا آتا تو کرنا سیکھیں۔ ہم 2021 میں زندہ ہیں،
آنے والے دہائیاں مشکل ہیں، آپ اگر پڑھائی کے تناؤ کو برداشت نہیں کر سکتے
تو اصل زندگی یعنی پریکٹیکل لائف کے تناؤ کو کس طرح ممکن ہے کہ برداشت کر
پائیں گے۔
اقبال نے نوجوان نسل کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد |