کورونا وائرس ایک ایسا عالمی بحران ہے جس سے کوئی بھی ملک
خود کو تنہا محفوظ نہیں رکھ سکتا ہے بلکہ اشتراک ،تعاون اور اتحاد ہی اس
مسئلے کا واحد حل ہے۔اشتراکی رویوں کی بات کی جائے تو چین کے صدر شی جن
پھنگ کی جانب سے چار برس قبل بنی نوع انسان کے مشترکہ مستقبل کی تعمیر کا
ایک ایسا تاریخی اور فلسفیانہ تصور پیش کیا گیا جس کی اہمیت آج کووڈ۔19کے
کٹھن دور میں انتہائی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے ۔اُن کا یہ تصور عالمی سطح
پر بڑھتے ہوئے چیلنجوں کے تناظر میں بین الاقوامی برادری کے متفقہ لائحہ
عمل میں ڈھل چکا ہے ۔ یہ واضح کرتا ہے کہ انسانیت کے مشترکہ مستقبل کے حامل
معاشرے کی تعمیر ہی جنگ جیتنے کا واحد صحیح انتخاب ہے۔
یہ تصور انسانیت کی تاریخ میں لوگوں کی سلامتی اور بہبود کے لئے ایک شاندار
چینی اقدام ہے۔اسی نظریے کی بنیاد پر چین پائیدار امن ، مشترکہ سلامتی اور
اشتراکی ترقی و خوشحالی کے ساتھ ساتھ ایک کھلی ، جامع اور شفاف دنیا کے لیے
کوشش کر رہا ہے۔
انسانیت کے مشترکہ مستقبل کی بات کی جائے تو بلاشبہ اس وقت کووڈ۔19 ایک بڑی
آزمائش ہے۔نوول کورونا وائرس نے دنیا بھر میں اب تک 97 ملین سے زائد افراد
کو متاثر کیا ہے جبکہ 20 لاکھ سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے
ہیں۔ وبائی صورتحال نے نہ صرف دنیا بھر میں صحت عامہ کے نظام پر انتہائی
دباؤ ڈالا ہے بلکہ معمول کے سیاسی اور معاشی نظم کو بھی درہم برہم کردیا
ہے۔
عالمی بحرانی صورتحال کے دوران دنیا میں بالادستی ، یکطرفہ پسندی اور تحفظ
پسندی کے نظریات بھی سامنے آئے ہیں ، جس سے انسانیت کی مشترکہ ترقی کے لیے
مزید خطرات لاحق ہیں۔چین نے عالمگیر وبا کے تناظر میں صحت عامہ کے تحفظ کی
خاطر یہ تجویز پیش کی کہ بنی نوع انسان کے لیے مشترکہ صحت پر مبنی ایک
معاشرہ تعمیر کیا جائے اور صحت عامہ کی گورننس میں تمام ممالک کی یکساں
شمولیت پر اصرار کیا ہے۔ایک بڑے ذمہ دار ملک کی حیثیت سے چین نے اپنے ٹھوس
اقدامات سے اس تصور کی عملی تصویر پیش کی ہے۔
چین نے اپنی تاریخ کے سب سے بڑے عالمی انسانیت دوست اقدامات کے تحت 150 سے
زیادہ ممالک اور 10 بین الاقوامی تنظیموں کو انسداد وبا سے متعلق امداد
فراہم کی ہے جبکہ 34 ممالک میں اپنی طبی ماہرین کی ٹیمیں بھیجی ہیں۔چین کی
جانب سے کووڈ۔19ویکسین کی فراہمی میں ایسے ممالک کو ترجیح دی جا رہی ہے جن
کے پاس وسائل محدود ہیں جبکہ چین پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ ویکسین کو ایک
عام عوامی مصنوعات کا درجہ دیا جائے گا۔
چین کی جانب سے وبائی صورتحال میں عالمی معاشی تجارتی سرگرمیاں رواں رکھنے
کے لیے "تیز رفتار پٹڑیوں" اور "گرین لین" کے قیام کے لئے جدید طریق کار
اپنائے گئے تاکہ افرادی تبالوں سمیت مصنوعات کی آسان ترسیل کو یقینی بنایا
جاسکے اور مستحکم اور کھلی صنعتی سپلائی چین کو برقرار رکھا جاسکے۔چین نے
عالمی تجارتی سرگرمیوں کی ایک سیریز کی میزبانی کی ہے جس میں خدماتی تجارت
کا بین الاقوامی میلہ ، تیسری چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو اور ناننگ میں
17 ویں چین-آسیان ایکسپو شامل ہیں۔ یہ تمام اقدامات چین کی جانب سے مشکلات
پر قابو پاتے ہوئے اپنی مارکیٹ کے مواقعوں کو دنیا کے ساتھ بانٹنے کی
مخلصانہ خواہش کا مظہر ہیں۔
کووڈ۔19 کے باوجود بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے تحت ٹھوس تعاون جاری ہے۔ 2020
کے پہلے آٹھ مہینوں میں بیلٹ اینڈ روڈ کے شراکت داروں کے ساتھ چین کی تجارت
5.86 ٹریلین یوآن (تقریباً 896 بلین امریکی ڈالرز) تک پہنچ چکی ہے جبکہ
چینی کمپنیوں نے شراکت دار ممالک میں اپنی غیر مالیاتی براہ راست سرمایہ
کاری میں سالانہ 30 فیصد سے زائد کا اضافہ کیا ہے۔چین-یورپ فریٹ ٹرین سروس
نیٹ ورک کے تحت ذمینی نقل و حمل کے ذریعے انسداد وبا کا سامان اور تجارتی
مصنوعات کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ بی آر آئی نے
تعاون ، امن اور ترقی کے حقیقی معنیٰ کی بھرپور ترجمانی کرتے ہوئے دنیا بھر
کے لوگوں کی متفقہ امنگوں کی عکاسی کی ہے۔
دنیا کو درپیش عالمی مسائل اور تنازعات کے حل کے لیے چین کا فارمولہ واضح
ہے کہ زیرو سم ذہنیت کو ترک کرتے ہوئے مشترکہ مفاد ،اشتراکی ترقی اور عالمی
سلامتی کو فروغ دیا جائے۔ان مسائل میں موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ بھی شامل
ہے۔چین سرسبز اور کم کاربن پر مبنی ترقی کے لیے جدوجہد کر رہا ہے جبکہ چین
نے اعلان کیا ہے کہ وہ 2060 تک کاربن نیوٹرل کی منزل حاصل کرے گا۔گرین ترقی
کے تحت ملک میں قابل تجدید توانائی بالخصوص پن بجلی ،ہوا اور شمسی توانائی
کو اہمیت حاصل ہوئی ہے ۔چین نے نہ صرف اپنی سبز ترقی میں کامیابیاں حاصل کی
ہیں بلکہ اپنے تجربات کو دوسرے ممالک کے ساتھ بھی شیئر کیا ہے۔
موجودہ بحرانی صورتحال کو دیکھا جائے تو مسائل کے حل کے لیے چینی دانش کو
سمجھنے کی ضرورت ہے جس میں تعصب ، نفرت، تہذیبوں کے درمیان تصادم ،ممالک کے
داخلی امور میں مداخلت،نسلی برتری اور قوم پرستی کی ہر گز کوئی گنجائش نہیں
ہے بلکہ چینی دانش کی روشنی میں دنیا باہمی احترام ، باہمی افہام و تفہیم
اور باہمی ہم آہنگی کے ساتھ ہی اپنا تنوع برقرار رکھتے ہوئے ترقی کر سکتی
ہے۔"
|