ماں کی یاد میں

ماں کا روپ اللہ رب العزت کی طرف سے وہ خوبصورت عطیہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت، فضل و کرم ، برکت، راحت اور عظمت کی آمیزش شامل فرماکر عرش سے فرش پر اتارا اور اس کی عظمتوں کو چار چاند لگا دیئے۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کے قدموں تلے جنت دے کر ماں کو مقدس اور اعلیٰ مرتبہ پر فائز کر دیا۔ ممتا کے جذبے سے سرشار یہ وفا کا پیکر اور پر خلوص دعاؤں کے اس روپ کی خوبیوں کو بیان کرنا گویا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔

ماں کا روپ اللہ رب العزت کی طرف سے وہ خوبصورت عطیہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت، فضل و کرم ، برکت، راحت اور عظمت کی آمیزش شامل فرماکر عرش سے فرش پر اتارا اور اس کی عظمتوں کو چار چاند لگا دیئے۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کے قدموں تلے جنت دے کر ماں کو مقدس اور اعلیٰ مرتبہ پر فائز کر دیا۔ ممتا کے جذبے سے سرشار یہ وفا کا پیکر اور پر خلوص دعاؤں کے اس روپ کی خوبیوں کو بیان کرنا گویا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ گھر میں رونق ماں کے دم سے ہی ہوتی ہے۔ جب بچہ گھر میں داخل ہوتا ہے تو اپنی ماں کو ہی پکارتا ہے۔ ماں وہ چھاؤں ہے جو تپتی دھوپ میں سایہ بن جاتی ہے اور سخت گرمی اور دھوپ کی شدت میں بھی ٹھنڈک کا احساس دلاتی ہے۔ اپنی باتوں سے، اپنے احساس اور اپنے وجود سے فولادی دیوار کی مانند اپنی اولاد کو ہر طوفان، ہر قسم کی مصیبت اور پریشانیوں سے محفوظ رکھتی ہے۔ وہ اپنی اولاد کو خوش رکھنے اور کامیاب کرنے کے لیے خود تو بنجر ہوجاتی ہے لیکن اپنی اولاد کو زرخیز زمین کی طرح بنا جاتی ہے ۔

میں جب بھی اللہ تعالیٰ کی انسان کو عطا کی گئیں خوبیوں پر غور و فکر کرتا ہوں تو مجھے یہی محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں محبت جیسی خوبی کے اوپر جو غلاف پہنایا ہے وہ دنیا میں صرف ماں کی صورت ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے آسماں پر اللہ مہربان ہوتا ہے تو زمین پر ماں مہربان ہوتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس ماں کی صیح قدر و قیمت کا اندازہ تب ہی ہوتا ہے جب وہ دنیا سے کنارہ کر کے بہت دور خاموش اور سنسان بستی میں منوں مٹی کے نیچے جاسوتی ہے۔ اس عظیم نعمت کی قدروقیمت اس کے بچھڑ جانے کے بعد اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ جس کی ماں اس دنیا سے چلی جائے اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس کی پیدائش سے اب تک جتنی نعمتیں میسر تھیں وہ سب واپس لے لی گئیں ہیں۔

24 نومبر 2020 شام 6 بجے میری والدہ محترمہ نے ہمیشہ کے لیے مجھے الوداع کہہ دیا اور اپنے خالق حقیقی کے پاس چلی گئیں۔ یوں محسوس ہوا کہ شاید قیامت وقت سے پہلے برپا ہو گئی ہو۔ ایسے لگ رہا تھا کہ میں بھی اپنی امی کے ساتھ ہی جاؤں گا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ دو تین گھنٹے بے ہوش رہنے کے بعد مجھے ہوش آگئی اور لوگوں کے ہجوم سے پتہ چلا کہ یہاں ہوا کیا ہے۔ اس دن کے بعد میری حالت یہ ہوگئی تھی کہ فجر کے فرضوں کی تعداد تک کا مجھے پتہ نہیں چلتا تھا۔ پھر امی کی وفات کے تقریبا بیس دن بعد ہمارے ایک بچے کو خواب میں امی نماز کی حالت میں ملیں۔ نماز کے بعد امی نے کہا کہ جاؤ آصف کو کہو کہ میں اب ٹھیک ہوں۔ اس دن کے بعدمیرے کچھ حواس قائم ہوئے لیکن اب بھی جب شام ہوتی ہے تو لگتا ہے جیسے آج ہی امی فوت ہوئی ہیں۔
؎
دل پہ کوہِ غم گرا تو سہہ گیا
ماں لعل تیرا تنہا ہو کر رہ گیا

میں اور میری والدہ اکثر ایک ہی کمرے میں سوتے تھے۔ کئی مرتبہ مجھے اس وقت جاگ آجاتی تھی جب امی نماز کے بعد دعا کر رہی ہوتی تھیں اور میں کان لگا کر ان کی دعا سننے لگتا۔ اللہ کی قسم وہ ہم سب کا ، اپنے ماں باپ ، بہن بھائیوں سب کا نام لے لے کر ایسے دعا کرتی تھیں کہ میری آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے کیونکہ وہ اپنے لیے کچھ بھی نہیں مانگتی تھیں۔ میں اکثر فرض نماز کے بعد اس لیے دعا ہی نہیں کرتا تھا کیونکہ ایسی کوئی دعا ہوتی ہی نہیں تھی جو امی نے میرے لیے نہ کی ہوتی تھی۔
؎
ابر تھا سایہ دعائوں کا تری
ٹالتا تھا ہر گھڑی مشکل ِمری

امی کی وفات سے چار دن پہلے ہمارے کسی عزیز کی شادی تھی جو ہم سے تقریبا چھ کلو میٹر کی مسافت پر رہتے تھے۔ میں نے امی سے شادی پر جانے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے مجھے اجازت دے دی۔ میں نے شام کی نماز کے بعد اپنی دوکان بند کی اور گھر آگیا۔ شادی کی تیاری کی تو امی نے زبر دستی مجھے کچھ کھانا کھلا دیا اور مجھے شادی کے لیے خرچہ دیا، پھر میں عشاء کے بعد شادی پر چلا گیا۔ رات وہاں گزاری اور صبح فجر کے فوراََ بعد میں گھر واپس آگیا۔ گھر داخل ہوا تو سامنے امی کھڑی تھیں اور انہوں نے مجھے آتے ہی ایسے گلے سے لگا لیا جیسے میں ان سے برسوں کا بچھڑا ہوا تھا۔ انہوں نے مجھ سے بغیر پوچھے کھانا بھی دے دیا۔ میں نے تھوڑا سا کھانا کھایا اور پھر اپنے کام پر چلا گیا۔ میرے ذہن میں بار بار یہی بات آتی تھی کہ چند گھنٹوں کی جدائی پر امی مجھ سے اتنا اداس کیوں ہوگئی تھی۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ امی مجھے ہمیشہ کے لیے جدائی دینے کے لیے ایسے گلے سے لگارہی تھیں۔
؎
تیرے جانے کو نہ میں تیار تھا
کون میرا بن ترے غمخوار تھا

میری اس گفتگو کا حاصل و مقصد صرف ایک ہی ہے کہ خدارا ! جو شخص بھی یہ تحریر پڑھ رہا ہے ، اپنے ماں باپ کی قدر کریے۔ یہ وہ نعمتیں ہیں جن کا دنیا میں کبھی بھی کوئی بھی نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ جب یہ نعمتیں خدانخواستہ چھن جائیں ، اس وقت ہاتھ ملنے اور پچھتانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ان انمول نگینوں کی قدر کریں، اس سے پہلے کہ مالک قضا وقدر آپ سے یہ نعمت واپس چھین لے۔ اور اگر خدانخواستہ وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں تو ہمیشہ ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں اور ایسے نیک اعمال کریں جن کی بدولت وہ قبر میں راحت محسوس کریں اور آپ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرما دے۔ بے شک وہ بڑا بخشنے والا رحیم ہے۔
؎
تیری مرقد پر خدا رحمت کرے
ماں! تیرا گھر خدا جنت کرے
 

Asif Bashir Virk
About the Author: Asif Bashir Virk Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.