نوجوان نسل کی اخلاقی بربادی


تحریر: شبیر ابن عادل

حکومتوں کی نظر عارضی اقدامات پر ہی ہوتی ہے ، خاص طور پر ہمارے ملک میں۔ زیادہ تر حکومتیں اپنے دور میں سیاسی بحرانوں سے نمٹتی رہتی ہیں اور ایسے اقدامات ان کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں ۔ جن سے ملک و ملت کا مستقبل وابستہ ہے۔ صورتحال کو برباد کرنے میں بیوروکریسی کے بعض مفاد پرست عناصر کا بھی نمایاں کردار ہے۔ مختلف محکموں کے اعلیٖ افسران دانستہ طور پر روزمرہ کے امور نمٹانے میں مصروف رہتے ہیں یا ایسے کاموں میں اپنی صلاحیتیں کھپاتے ہیں، جن سے دولت حاصل کی جاسکے۔ معاشرے کا مستقبل کیا ہوتا ہے ؟ تعلیم، صحت اور نوجوان نسل کی تعلیم ، تربیت اور انہیں صحت مند ماحول کی فراہمی اُن کے ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں۔ اگر ہے بھی تو محض نمائش کے لئے۔ عملی طور پر کچھ نہیں۔
نوجوان نسل کی صورتحال کا جائزہ لیں تو تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ ہمارا تعلیمی اور معاشرتی نظام دانستہ یا غیر دانستہ طور پرایک ایسی نسل تیار کررہا ہے، جو ملحد یا بے دین ہو، پاکستان کے قیام اور اس کے مقاصد سے بے خبر ہو، اپنی زبان اور معاشرتی اقدار سے لاعلم ہو اور عیاش ہو۔ اس امر پر بھرپور کام ہورہا ہے کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تعلیمی اداروں ، محلّوں اور حتی کہ گھروں میں کس طرح ایک دوسرے کے قریب آئیں۔ میڈیا اس کام میں بھرپور مدد کررہا ہے۔ دوسری جانب پہلے کمپیوٹر اور اب کئی عشروں سے موبائل نے نوجوانوں میں فحاشی اور عریانی کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔
خاص طور پر فیس بک، واٹس ایپ اور دیگر سوشل سائٹس نے فحاشی کے نت نئے راستے کھول دئیے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے نوجوانوں کے لئے بہت آسان کردیا گیا ہے کہ وہ اپنی ہر قسم کی تصاویر یا ویڈیوز اپنے چاہنے والوں کو خاص طور پر واٹس ایپ وغیرہ پر بھیج سکتے ہیں اور کسی کو علم ہی نہیں ہوتا۔ نہ تو والدین کو فکر ہے کہ ان کی جوان اولاد کیسے کیسے گل کھلا رہی ہے اور نہ ہی ہمارے حکام اور متعلقہ اعلی سرکاری افسروں اور تعلیمی اداروں کو اس کی فکر ہے۔
چند روز قبل لاہورمیں ہمدرد شوری کے اجلاس کے دوران جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا کہ نئی نسل کا اخلاقی جنازہ نکالا جارہا ہے یہ ملک و ملت کے لئے بڑا خطرناک ہے، محض تقاریر اور اعلانات سے یہ تبدیلی نہیں آئے گی، سنجیدہ کوششوں کا آغاز کیا جائے۔
قوم کے باشعور لوگوں کی فکر و تشویش اس وقت سے اور زیادہ ہوئی ہے ۔ جب سے معاشرے میں عریانی اور فحاشی کے عملی مظاہر بڑھ گئے ہیں اور روز بروز ان میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ یعنی پہلے نوجوان لڑکیوں کے دوپٹے غائب ہوئے۔ پھر پاجامے چست ہو کر leggingsمیں تبدیل ہوئے، اس کے ساتھ ہی پینٹ کا استعمال بڑھا اور اب اسکرٹ پہننے کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔
نوجوانوںمیں عریانی اور فحاشی میں یوں ہی اضافہ نہیں ہوا، اس میں مغرب اور خاص طور پر اسلام دشمن عالمی قوتوں کی سازش کارفرما ہے۔ تاکہ اس طرح سے نوجوان نسل اپنے دین اسلام، ملک پاکستان، قومی زبان اردو سے دور ہو اور عیاشی میں غرق ہوکر تباہ و برباد ہوجائے۔ لیکن حیرت تو اس امر پر ہے کہ والدین اس صورتحال سے الگ تھلگ کیوں ہیں ؟ وہ اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ کیوں نہیں دیتے ۔ وہ ایسے تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو کیوں بھیجتے ہیں، جہاں مخلوط تعلیمی نظام ہوتا ہے۔ جہاں الحاد اور بے دینی کو فروغ دیا جاتا ہے اور جہاں پاکستان، قومی زبان اوردیگر قومی اقدار سے بچوں کو لاعلم رکھا جاتا ہے۔
اس ملک میں ایسے تعلیمی ادارے بھی تو ہیں، جہاں دینی تعلیم کا بھی اہتمام ہے، جہاں قیام پاکستان کے پس منظر ، اس کے مقاصد اور ہمارے قومی ہیروز ان کے نصاب کا حصہ ہیں۔ اسی ملک میں باپردہ اور عفت مآب بچیاں اور باریش اور باعمل نوجوان بھی تو ہیں ۔ اگرچہ ان کی تعداد بہت کم ہے، لیکن choiceتو ہے نا۔ تاہم مجموعی صورتحال بہت خراب اور تشویشناک ہے۔ اس حوالے سے فوری اقدامات بلکہ جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پورے ملک میں ایک نظام تعلیم، ایک نصاب اور ایک یونیفارم ہونا چاہئے۔ اعلی عدالتیں بہت سے اچھے کام کرارہی ہیں اس امر پر بھی توجہ دیں۔ نصاب میں تبدیلی کے ساتھ اساتذہ کی نئے انداز میں تربیت ضروری ہے، تاکہ وہ نئے نصاب کو پوری طرح پڑھا سکیں اور طلبہ کی تربیت پر بھی بھر پور توجہ دے سکیں۔ اس حوالے سے حکومت پر بھرپور دباؤ ڈالنے اور اسے قائل کرنے کی ضرورت ہے۔
والدین کو اپنی اولاد کی تربیت پر بھرپور توجہ دینا چاہئے۔ ان والدین کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ، جن کی اولاد جوان ہوچکی ہے۔ میری مراد اُن والدین سے ہے، جن کے بچے چھوٹے ہیں۔ وہی اپنی اولاد کو سیدھے رستے پر رکھ سکتے ہیں۔ دین میں حیا کا تصور واضح کرکے، جب بچے بارہ تیرہ سال کی عمر کو پہنچیں تو ان کے بستر الگ کرکے، موبائل فون سے دور رکھ کر اوران پر بچپن ہی سے موبائل فون کی تمام خرابیوں کا شعور اجاگر کرکے۔ کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ بچوں کے کمروں کے بجائے Living roomمیں یا ایسی جگہ رکھ کر، جہاں والدین کی نظریں کمپیوٹر اسکرین پر رہیں ۔ ٹیلی ویژن کو گھر سے نکال باہر کریں یا صرف خبریں وغیرہ دیکھٖی جائیں۔
لیکن ٹیلی ویژن، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، ٹیب، یا موبائل فون کے حوالے سے اور ان میں فیس بک، واٹس ایپ اور دیگر سوشل سائیٹ کے مضمرات یا منفی کردار سے بچوں کو سات آٹھ سال کی عمر ہی سے آگاہ کرناچاہئے ۔ اُن کی ذہن سازی کرنا چاہئے۔ میں نے بعض ایسے گھرانوں کو بھی دیکھا ہے، جہاں ٹیلے ویژن ہے، مگر بچے اور نوجوان اسے دیکھتے ہی نہیں۔ یہ والدین کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ دیگر لوگ بھی اس پر توجہ دے سکتے ہیں۔
میں تمام لوگوں سے دست بستہ درخواست کروں گا کہ زندگی ایک بار ملتی ہے، اسے غلیظ کاموں اور گھٹیا انداز میں نہ گزاریں۔ حیوانوں اور انسانوں میں فرق ہونا چاہئے۔ ہر شخص اس امر پر توجہ دے اور ہر لمحہ اس کا اہتمام رکھے کہ فحاشی اور عریانی اس کے گھر سے کوسوں دور رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 110680 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.