موجودہ دور میں بلا شبہ مادیت پر ستی کے طلسم نے کرہ ارضی
کو اپنی گرفت میں جکڑ رکھا ہے مادیت پرستی کا سیلاب نسل انسا نی کو بہا کر
لے گیا ہے۔ روئیے اقتدار کی چکا چوند نے موجودہ دور کے انسان کو اندھا کر
دیا ہے آج کا انسان مادیت پر ستی کی نہ ختم ہو نے والی شاہراہ پر اندھا
دھند دوڑا جا رہا ہے وہ حرص کے مرض میں اِس قدر مبتلا ہو چکا ہے کہ وہ جائز
ناجائز کی تما م حدود کو کرا س کر کے مادی جانور کا روپ دھار چکا ہے دولت
اور اقتدار کے حصول میں دوسروں کو غلام بنانے کا جنون اِس قدر بڑھ گیا کہ
اُسے اپنی ذات کے علاوہ اور کچھ نظر ہی نہیں آتا۔وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ
اپنے دولت کے انباروں میں اضافہ کر تا جارہا ہے لیکن بے پناہ دو لت مادی و
سائل کے باوجود اُس کو چین نہیں ہے وہ دنیا کا امیر ترین انسان بننا چاہتا
ہے اِس دوڑ میں اخلاقیات اور مذہبی اقدار کو ترک کر چکا ہے دولت کی ہوس اور
تیز روشنی نے آج کے انسان سے بصارت چھین لی ہے اب وہ دن رات دولت اکٹھی کر
نے میں لگا ہے دوسرا مسئلہ آج کے معاشرے کا خود پسندی انا خو دی غرور خود
کو عقل کل اور دوسروں کو غلام سمجھنے کی بیماری ہے اِس بیماری نے بھی
انسانوں نے انسانیت چھین لی ہے وہ اپنی حاکمیت کو قائم رکھنے کے لیے درندگی
کی آخری حد یں کراس کر جاتا ہے باطن کے اندر چھپے یہ شیش ناگ اُس کو اِس
قدر زہریلا بنا چکے ہیں کہ وہ دوسروں کو ڈنک مارنے سے باز نہیں آتا انسان
کے اندر مادیت پرستی پھر غرور تکبر اِس قدر بڑھ گئے ہیں کہ معاشرے کا حسن
ختم ہو چکا ہے دوسروں کو برداشت کر نے کا جذبہ بھی ختم ہو چکا ہے نفرت تکبر
غرور مادیت پرستی کے زہر کو ختم کرنے کے لیے ماضی کی طرح موجودہ دور میں
پھر صوفیانہ فکر کو پھیلانے کی ضرورت بہت بڑھ گئی ہے کیونکہ کو چہ تصوف راہ
فقر عشق الٰہی ہی اِن تما م رزائل کو ختم کر کے انسان کو اشرف الخلوق خدا
کا خلیفہ بناتا ہے کو چہ تصوف جہاں پر تزکیہ نفس اور شیخ کی محبت ہی وہ
واحدعلاج ہے جس کے ذریعے انسانوں کے باطن میں چھپے شیش ناگوں کو کچل کر
معاشرے کو صالح امن کے داعی انسان دئیے جا سکتے ہیں اِس کے لیے تصوف میں
تصور شیخ اور شیخ کی محبت اور شیخ کے سامنے سرنڈر کیا جاتا ہے پھر طالب خدا
کو پانے کی راہ کا مسافر ہو تا ہے تصور شیخ سے تصور رسول ﷺ اور پھر فنا فی
اﷲ کے مقام تک رسائی پاجاتا ہے بزم تصوف کے علاوہ دنیا بھر میں محبت اور
عشق کی مثالیں آپ کو اِس طرح نہیں ملیں گی کہ جب ایک انسان طالب علم راہ حق
کے سفر میں مرشد کے سامنے سرنگوں ہو جاتا ہے مرشد کے ابرو ئے چشم پر زندگی
دینا اپنے لیے سعادت خیال کر تا ہے مرید اپنے مرشد کی خشنودگی کے لیے اپنا
تن من دھن وار دیتا ہے مرشد اپنے مرید کی اِس طرح تر بیت کر تا ہے کہ اُس
کے باطن میں چھپے تمام زہروں کو نکال کر اُس میں محبت رواداری پیار امن اور
دوسروں سے محبت بھر دیتا ہے ایسا انسان پھر معاشرے میں نفرت نہیں پیار کے
پھول تقسیم کرتا ہے مرشد کے سامنے مرید کی یہ تابعداری سپردگی صرف جہاں
تصوف میں ہی نظر آتی ہے جب مرشد مرید کے خلاف بھی حکم جاری کر ے تو مرید سر
آنکھوں پر لے کر قبول کر تا ہے ایسے ہی مرید ہمیں تاریخ تصوف میں سید محمود
گیسو درازؒ جو شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی ؒ کے مرید خاص تھے جب شیخ نصیر
الدین چراغ دہلوی ؒ کا وصال ہوا تو آپ کے مرید خاص سید محمود گیسو درازؒ
بھی پاس تھے آپ توقع کر تے تھے خاندان چشتیہ کے تبرکات مرشد اُن کے حوالے
کریں گے لیکن جب شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی ؒ نے یہ تبرکات کسی کو بھی پیش
نہ کئے بلکہ وصیت کی کہ یہ تمام تبرکات اُن کی قبر مبارک میں اُن کے ساتھ
رکھ دئیے جائیں اور آپ ؒ کے وصال کے بعد خادموں نے یہی کیا یہ بات گیسو داز
ؒکے لیے دکھ کا باعث تھی کہ شیخ نے یہ عظیم تبرکات مجھے عطا نہیں کئے شیخ
کے تبرکات مرید نہ ملنے کی وجہ سے مرید بہت اداس دل گرفتہ تھا تین دن گزر
گئے گیسو دراز ؒروز مرشدؒ کی قبر پر اداس ادب سے کھڑے ہو جاتے تیسرے دن بھی
ادب سے شیخ کی قبر مبارک پر کھڑے رہے پھر شیخ کی یا داِس شدت سے آئی کہ بلک
بلک کر رونا شروع کر دیا خوب رونے کے بعد قبر سے لپٹ گئے پھر اُٹھ کر بولے
میں دہلی چھوڑ کر جارہا ہو تو ساتھیوں نے پوچھا سید زادے آپ کو چہ مرشد
چھوڑ کر کہاں جاؤں گے تو سید زادہ بولا میں نہیں جانتا تقدیر مجھے کہاں لے
جاتی ہے تو کسی نے کہا سید زادے کیا تم شہنشاہ مرشد کے آستانے کو چھوڑ کر
چلے جاؤ گے تو سید گیسو درازؒ بولے غلام جہاں بھی رہے گا شہنشا ہ کی غلامی
کا طوق میرے گلے میں ہی رہے گا مرشد کی غلامی کا طوق میں کبھی بھی گردن سے
نہیں اتاروں گا جہاں بھی جاؤں گا شیخ کا غلام بن کر ہی جاؤں گا پھر کسی نے
کہا شیخ نے اپنا خرقہ تبرکات آپ کو نہیں دئیے اِس لیے آپ ؒ ناراض دل گرفتہ
ہو کر کو چہ مرشد چھوڑ کر جارہے ہیں طنز کا نشتر دل میں پیوست ہو گیا
آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب رواں تھا چہرہ جذبات کی شدت سے سرخ ہو چکا تھا
پھر سب نے عجیب منظر دیکھا آپ ؒ اُس کو نے کی طرف چلے گئے جہاں پر شیخ کو
غسل دیا گیا تھا آپ ؒ جاکر اُس چارپائی کے سامنے ادب سے سر جھکا کر کھڑے ہو
گئے جس پر مرشد کا جنازہ رکھا گیا تھا پھر لوگوں نے دیکھاسید گیسو دراز ؒ
نے چارپائی کے تمام بان کو نکال کر ہار بنا کر جھلنگے کی شکل میں گلے میں
ڈال کر مرشد کی محبت سے لبریز لہجے میں نعرہ مارا اور کہایہی عطیہ شیخ اور
میرا خرقہ ہے جذبات کی شدت سے روتے ہوئے کو چہ مرشد چھوڑ کر دہلی سے باہر
نکل گئے آپ ؒ جس راستے پر جارہے تھے مشہور ہو گیا تھا سید محمد گیسو دراز ؒ
اِس طرف آرہے ہیں لوگ آپؒ کے راستے ہیں عقیدت میں ادب سے آکر کھڑے ہو جائے
لوگوں نے دیکھا سید زادے کے گلے میں بانوں کا ہار جھلنگا سا لٹک رہا ہے تھا
لوگوں نے پو چھا سید زادے یہ گلے میں کیا ہے تو آپ ؒ فرماتے یہ شہنشاہ مرشد
ؒ کی غلامی کا طوق ہے آپ ؒ بان کو چومتے ہوئے اِس طرح بتاتے جیسے انہیں
ساری کائنات کے خزانے مل گئے ہوں تو لوگوں نے کہا خرقہ مرشد ایسا ہوتا ہے
توآپ ؒ فرماتے ہاں خرقہ ایسا ہی ہو تا ہے اِس جھلنگے سے مرشد کی خوشبو آتی
ہے جو مجھے دونوں جہانوں سے زیادہ افضل ہے پھر آپ ؒ نے بان کا ایک ٹکڑا
پوچھنے والے کے گلے میں ڈال دیا جو ایک دنیا دار انسان تھا جیسے ہی بان اُس
کے گلے میں آیا جذب و سکر کی حالت طاری ہو گئی حالت بدل گئی قلب کی سیاہی
مٹ گئی نور کی برسات قلب پر جاری ہو گئی ساری باطنی کثافتیں لطافت میں ڈھل
گئیں تاریخ کے تذکروں میں یہ بار بار تذکرہ آتا ہے کہ سید محمد گیسو دراز ؒ
نے جس چور ڈاکو کے گلے میں بان کا ٹکڑا ڈالا اُس کی حالت بدل گئی اور وہ
بغیر ریاضت کے ہی درجہ ولایت کو پہنچ گیا سید محمد گیسو دراز ؒ کا یہ مرشد
سے حسن عقیدت تھا کہ مرشد کا خرقہ خلافت دیا ہے مجھے نہیں ملا لیکن کیونکہ
چارپائی کا بان بھی تو مرشد کے جسم مبارک سے مس ہوا تھا اِس لیے میرے لیے
چارپائی کا بان بھی کسی خرقے سے کم نہیں جس بان نے آخری بار مرشد کے جسم
مبارک کو چھونے کی سعادت حاصل کی وہی مرید کے لیے خرقہ شاہی سے بڑھ گئے ۔
|