اشیاﺀ خورد نوش میں ملاوٹ اور
نقلی مشروبات کی بھرمار
ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس کی نس نس میں دو نمبری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے
خواہ وہ کوئی ملک کا سیاستدان ہو یا ملک کا رکھوالا یا کوئی دوکان دار ہو یا
کوئی ڈاکٹر یا کوئی حکیم یا کوئی نائی و قصائی. جب سے ہوش سنبھالا ہے انہی
ملاوٹ والی اور 2 نمبر اشیا کو کھایا اور استعمال کیا ہے خواہ وہ آٹا ہو یا دال
یا چاول یا پٹرول یا گوشت یا دودھ. ہر طرف افراتفری کاعالم بپا ہے۔ اگر آٹا
ملتا ہے تو وہ بھی 2 نمبر نہیں 100 نمبر ملتا ہے. اور دودھ کی تو کیا ہی بات ہے
وہ تو خدا کی ایک خاص نعمت ہے. اگر 1 پاؤ دودھ میں آدھا کلو پانی بھی ملا لے تو
بھی اس خدا کی نعمت نے سفید کا سفید ہی رہنا ہے۔ میری اکثر عادت ہے میں بڑے
لوگوں کی محفل میں بیٹھتا ہوں. اور ان کی باتوں کو سنتا ہوں اور وہ بتاتے ہیں
کہ ہمارے دور میں ایسے ہوتا تھا. دودھ خالص دہی خالص اور سرخ مرچ آٹے کی تو بات
ہی کیا۔ اور اگر آج کے اس جدید دور میں غریب آدمی کو ایسی باتیں بتائی جائیں تو
مذاق ہی لگتا ہے۔ایک سرئے سے شروع ہوجائے تو سوائے اپنے آپ کے آپکو کوئی بھی
خالص نہیں ملتا۔ جو ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے وہ ہے اناج(گندم) آٹا اور آج
کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی 2 نمبر آٹا بنانے والی فلور ملز کی بھر مار ہے
البتہ تو آٹا ملتا ہی نہیں اور اگر مل بھی جاتا ہے تو اس میں سے وہ تمام چیزیں
نکال لی جاتی ہیں جو کہ اصل غذائیت کی مالک ہیں. اور آٹے کا رنگ بھی ایسا ملتا
ہے جیسے اس کو کسی رنگ کرنے والے کی دوکان سے بھرا گیا ہو۔
اور اس پینٹر نے بھی صرف کالے رنگ کا استمال کیا ہو۔ اور تھیلے پہ وزن تو 20
کلو لکھا ہوتا ہے اور اگر تولے تو 19 کلو یا 18 کلو نکلتا ہے. اگر دوکاندار جس
سے لیا اس کو اس چیز کی شکایت کی جائے تو جواب ملتا ہے ہم نے گھر تو نہیں بھرا
فلور مل سے آیا ہے لینا ہے تو لو ورنہ واپس کردو.کبھی سنتے تھے کہ فلاں جگہ ملک
میں قحط پڑ گیا اور اناج نہیں ہوا لوگ بھوکے مر رہے ہیں تو عجیب سا محسوس ہوتا
تھا ۔اور ادھر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جہاں خدا کا خاص فضل وکرم ہیں وہاں
پر تو ضرورت سے زیادہ اناج ہوتا ہے اور کہا گیا کوئی پتا نہیں۔ میں نے اپنی
آنکھوں سے اور آپ نے بھی لوگوں کو لائنوں میں لگ کر آٹا لیتے دیکھا ہو گا اور
آئے دن اخبارات میں بھی شاید آپ نے دیکھا ہوں کہ فلاں جگہ یوٹیلٹی سٹور پر
عورتوں کی آٹے لینے پہ سرد جنگ لڑائی ہو رہی ہے. کیا ہے یہ ایک تو آٹا نہیں اور
دوسرا قوم کی مائیں بہنیں لائنوں میں لگ کر آپس میں لڑ کر آٹا لے رہی ہے کہاں
گی تہماری غیرت حکمرانوں؟
سرخ مرچوں میںاینٹ پیس کر یا پھک کو رنگ کر کے بیچا جاتا ہے چینی میں کانچ ملا
کراورٹاٹرک میں نمک ملا کر پٹرول میں مٹی کا تیل ملا کر ڈیزل میں کالا تیل ملا
کر دودھ میں پانی ملا کر مردہ جانورں کا گوشت اور بیمار جانورں کو ذبح کر کے
بیچا جاتا ہے. کیوں منہ میں انگلیاں لے کہ چپ ہوارباب اختیار
تول میں 2 نمبری ہو رہی ہیں میڈسن میں 2 نمبری اور تو اور گوشت کو پانی لگا دیا
جاتا ہے زندہ مرغی ہمارے سامنے ذبح کرکے ڈرم میں ڈالتے ہیں اور ڈرم میں پہلے سے
موجود مری ہوئی مرغی کو نکال کر صاف کرکے دے دیتے ہیں. ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے
سامنے ذبح کی ہے ٹھیک ہے قصاب کی دوکان پر لاکھوں کی تعداد میں مکھیاں موجود
ہوتی ہیں. کوئی ہوچھنے والا نہیں سارئے کا سارہ سسٹم خراب ہے۔گرمیوں کا سیزن
گزر چکا ہے اس میں انبار لگے ہوتے ہیں لاری اڈوں پہ اور ریلوے اسٹیشنوں پہ 2
نمر بوتلوں کے جن پر کسی مشہور زمانہ کولڈ ڈرنک کا لیبل لگا ہوتا ہے اور اس کے
اندر 2 نمبر مشروب ہوتا ہے. کیا ارباب اختیار نے نشے کی گولیاں کھالی ہیں یا
آنکھوں پہ سیاہ پٹی باندھ لی ہے جو کچھ نظر نہیں آتا۔ اور اگر کوئی ایسا پکڑا
جاتا ہے جس سے کچھ برآمد ہو جائے تو اس کے ساتھ سودے بازی کی جاتے ہے کہ تجھے
چھوڑ دوں گا 5000،یا8000 رشوت دے۔ کیا انسانی جان کی قیمت صرف 5000،یا8000 کی
ہیں جس کو فوڈ انسپکٹر صاحب کسی جعلی میڈیسن یا جعلی مشروبات بنانے والوں کو
بیچ کر اس کو سرعام قتل کی اجازت دیتے ہیں۔اس نئی نسل نے کیا پروان چڑھنا ہے جس
کی رگوں میں پیدایشی 2 نمبری چیزیں دوڑائی جارہی ہے.ارباب اختیار ہوش کے ناخن
لو روکو ان تمام کاموں کو ان 2 نمبر اور ملاوٹ کرنے والوں کو یہ تمہاری ذمہ
داری ہے غریب سے جینے کا حق بھی نا چھینو اس کو بھی اس ملک میں اس معاشرے میں
سانس لینے دو
تا حد نظرشعلے ہی شعلے ہیں چمن میں
پھولوں کے نگہبان سے کچھ بھول ہوئی ہے
جس دور میں لوٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے |