آن لائن یا آف لائن ۔۔۔ اس آن آف کے چکر میں نقصان کتنا بڑھا، طلباﺀ اپنا مزید نقصان ہونے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

image
 
اسکول کھل گئے ہیں لیکن اس ’’سنسنی ‘‘ کے رونما ہونے سے پہلے پہلے بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے اور بہت سے کریڈٹ آورز طلبہ و طالبات کے ہاتھوں سے نکل گئے ہیں۔ اسٹوڈنٹس آن لائن بھی ہوئے اور آف لائن بھی لیکن اس آن آف نے بیشتر طالبعلموں کو ان کی لائن ہی بھلا دی ہے۔ اس سائنسی اچنبھوں سے بھری دنیا میں اکثر طالبعلم اس امر کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں کہ کورونا وائرس کے شکنجے کے کمزور ہونے تک ہر طالبعلم کا بھاری تعلیمی نقصان ہوچکا ہے۔ نصاب میں وقت ایک اسکیلر اکائی (جو مقدار تو رکھتی ہے، سمت کی حامل نہیں) مانی جاتی ہے، البتہ وقت کی میعاد، ایک مدت کا دورانیہ، ٹائم انٹرویل ضرور اسکیلر کے برعکس ویکٹر اکائی ہوسکتی ہے، جس کی مقدار بھی ہوتی ہے اور مقررہ میعاد میں ایک دورانیے کا بھی تعین ہوتا ہے۔ لیکن بحیثیت مجموعی وقت کی قدر کے حوالے سے ہماری زندگیوں میں کسی سمت کا فقدان نمایاں ہے۔
 
 اس رجحان کا موازنہ اسلامی نشاۃ اول سے کرلیجیے۔ ہمارے اسلاف کرام نے علمی و عملی زندگیوں میں جو عالی مقام حاصل کیا اور میدان عمل میں اسے منوایا، یہ سب وقت کی قدر کرنے اور اسے اپنے بہترین مصرف میں لانے ہی کا تو نتیجہ تھا۔ ڈاکٹر یوسف القرضاوی عربی کے معروف دانشور سمجھے جاتے ہیں، انہوں نے ایک جگہ حوالے دیا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمان اپنے اوقات کے سلسلے میں اتنے حریص تھے کہ ان کی یہ حرص ان کے بعد کے لوگوں کی درہم و دینار کی حرص سے بھی بڑھی ہوئی تھی حرص کے سبب ان کے لئے علم نافع، عمل صالح، جہاد اور فتح مبین کا حصول ممکن ہوا اور اس کے نتیجے میں وہ تہذیب وجود میں آئی جس کی جڑیں انتہائی گہری ہیں۔ ساتھ ہی اس تحریر میں انہوں نے عصر حاصر میں ہمارے طرز زندگی پر افسوس کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کیا ہے کہ میں آج کی دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ رہتے ہوئے دیکھ رہا ہوں کہ وہ کس طرح اپنے اوقات کو ضائع کر رہے ہیں۔ حالانکہ ایک دن وہ بھی تھا کہ دنیا کی زمام کار ان کے ہاتھ میں تھی۔
 
ساتویں صدی عیسوی کے بعد مسلمان دنیا کے ہر شعبے میں چھا گئے۔ عباسی خلفاء کے دور میں بغداد کو وہی مقام حاصل ہوچکا تھا جو آج کی دنیا میں کسی سپر پاور کا ہوسکتا ہے۔ ان کی عالی ہمت اور جذبہ و شوق کا اندازہ ان کی عملی خدمات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی نظر میں وقت کی کتنی اہمیت تھی۔ آج کے ترقی یافتہ اور تیز رفتار دور میں، انتہائی سخت عالمی مسابقت کے باوجود ہمارے معاشرے میں یہی دیکھنے میں آرہا ہے کہ عموماً لوگ وقت کی قدرو قیمت نہیں پہچاننے میں شدید غفلت کا ارتکاب کررہے ہیں۔ ہماری قوم کے نونہالوں، مستقبل کے معماروں کا بھی یہی حال ہے۔ اس حقیقت کو پھر ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ انسان کے ہاتھ میں اس کی اصل دولت وقت ہی ہے جس نے وقت ضائع کردیا، اس نے سب کچھ ضائع کردیا۔ مولانا روم نے کہا تھا کہ وقت ہمارے پاس اس طرح آتا ہے جیسے کوئی دوست ہمارے گھر قسم قسم کے تحفے لے کر آتا ہے، اگر ہم دستک دینے پر اس دوست کے لئے اپنے گھر کے دروازے نہیں کھولتے تو وہ چپ چاپ اپنے تحفوں سمیت واپس لوٹ جاتا ہے۔
 
image
 
درحقیقت تاخیر کرنا عدم احترام کی علامت سمجھا جاتا ہے اور یہ طالبعلموں کی تعلیم، صاحب روزگار کی ملازمت، خاتون خانہ کے امور خانہ داری پر منفی انداز سے اثر انداز ہوتا ہے جبکہ اس کے نتیجے میں ہمارے سماجی تعلقات بھی متاثر ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ وقت برق رفتار ہوتا ہے اور گزرا ہوا وقت پھر واپس نہیں آتا اور نہ ہی اس کا کوئی بدل ہوتا ہے اس لئے یہ انسان کی سب سے قیمتی متاع ہے۔ اور اس کی قدرو قیمت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ہر عمل اور نتیجہ کیلئے وقت درکار ہے بلکہ انفرادی اور اجتماعی دونوں حیثیت میں انسان کا حقیقی سرمایہ وقت ہی ہے۔ دن میں 24 اور ہفتے میں 168 گھنٹے ہوتے ہیں اور یہ نمبر کبھی تبدیل نہیں ہوسکتے ہیں، آپ بس یہ کرسکتے ہیں کہ اس وقت کو زیادہ مؤثر اور دانشمندی سے استعمال کریں۔
 
اسلامی فرائض و آداب وقت کی قدرو قیمت اور اسکی اہمیت کو اپنے ہر مرحلے میں بلکہ ہر جزو میں بھرپور طریقے سے واضح کرتے ہیں اور انسان کے اندر کائنات کی گردش اور شب و روز کی آمد ورفت کے ساتھ وقت کی اہمیت کا احساس اور شعور بیدار کرتے ہیں۔ اسلام میں بھی وقت کی پابندی کا خاص مقام ہے، اسلام کے سارے بنیادی احکام کا ناطہ وقت سے جڑا ہے، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج تمام ارکان کا وقت مقرر ہے۔ ہر نماز کا وقت بتا دیا گیا ہے اس وقت سے آگے یا پیچھے ہو تو نماز قضا ہوسکتی ہے، اسی طرح رمضان اور عید کی تعیین کے لیے چاند کی رویت لازمی ہے، روزہ کھولنے اور بند ہونے میں بھی وقت کا اہتمام لازم ہے۔ حالانکہ ان احکام کی ادائیگی میں ایک منٹ یا ایک دن کی تاخیر وتقدیم سے حکم کے بنیادی مقصد پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، لیکن اسلام نے ہر عبادت کا وقت مقرر کر کے زندگی کے دوسرے شعبوں میں ہماری رہنمائی کی، عربی کی مشہور حکمت ہے کہ وقت تلوار کی طرح ہے، اگر تم اس کو نہیں کاٹوں گے تو وہ تمہیں کاٹ دے گا۔
 
حقیقت یہ ہے کہ اکثر لوگ جو وقت کی کمی کا رونا روتے ہیں وہ اپنے وقت کو صحیح ترتیب نہیں دے پاتے، دنیا کی ایسی کئی نامور شخصیات ہیں جو کئی اداروں کی ملکیت رکھنے کے باوجود وقت کی صحیح تقسیم کے ذریعہ اپنی گھر والوں، اپنی ذاتی کاموں اور حتی کہ تفریح کے لئے بھی وقت نکالتے ہیں، درحقیقت ہمارے معاشرہ میں وقت کی اہمیت اور حسن انتظام کا فقدان ہے، جس کے نتیجے میں معاشرے میں کئی اور برائیاں جنم لیتی ہیں مختلف تقریبات اور میٹنگز میں میزبان کی جانب سے وقت متعین کرنے کے باوجود اس کی پابندی نہیں کی جاتی، کیونکہ ہمیں ہر کام کی تیاری آخری وقت تک مؤخر کرنے کی عادت وراثت میں ملی ہے-
 
image
 
بنیادی طور پر ہم نے وقت کی قدر کرنا ہی چھوڑ دی ہے ہم ہر معاملے میں ہماری یہی گردان ہے کہ بے فکر رہو، ہوجائے گا، ہم اسی پالیسی پر گامزن ہیں ہم ہر کام کو وقت کی آخری حد پر لے جا کر سرانجام دینے کے عادی ہوچکے ہیں چونکہ پوری قوم ہی اس خراب عادت کا شکار ہوچکی ہے اس لیے عام طور پر ہمیں وقت کی بربادی کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ ہم بروقت فیصلہ سازی میں بھی سخت سست واقع ہوئے ہیں، جس کا خمیازہ بھی بھگتتے ہیں مگر سبق نہیں لیتے۔
 
دنیا کے ہر انسان، ہر قوم کو دن اور رات میں مساوی وقت میسر ہے۔ بیشتر ترقی یافتہ اقوام کا سال کا ایک بڑا حصہ موسم کی شدتوں کے خلاف اپنی توانائیاں صرف کرنے میں گزر جاتا ہے، لیکن وہ نقطہ انجماد سے کم درجہ حرارت میں بھی اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے امور نمٹانے میں پہلو تہی نہیں کرتے۔ روزمرہ کا مشاہدہ ہے، جس شخص کو وقت کی اہمیت کا جتنا ادراک ہوتا ہے وہ اپنے وقت کا اسی قدر صحیح استعمال کرتا ہے، وقت کی پابندی اور وقت کا صحیح استعمال آدمی کی کامیابی کا بڑا سبب ہے، اسی لیے دنیا کی جتنی بھی کامیاب شخصیات کی زندگی کو اگر دیکھا جائے تو وقت کی پابندی ان کی زندگی کا اہم عنصر نظر آئے گا۔
YOU MAY ALSO LIKE: