آج کل عورت ہی اپنی عزت کی دشمن بنی ہوئی ہے کیونکہ ٹی وی
پرکوئی بھی اشتہاردیکھ لیں ،پبلیسٹی کے بورڈز پرنظردڑائیں یاٹی وی اینکرہوں
سب بے پردہ اورزناکی دعوت دیتی نظرآتی ہیں جس سے لگتاہے یقیناً یہ میرے
آقاﷺ کے دین پرنہیں چل رہیں۔ عورت کاتقدس کیاہے اوراس کاکس طرح احترم کرنا
چاہیے اس کیلئے کئی سوسال گزرگئے مگرہم آج تک عورت کی قدرنہ کرسکے جس طرح
ہمیں کرنی چاہیے جب ہم کسی کی بیٹی کواپنے بیٹے کے ساتھ بیاہ کرلے آتے ہیں
توکچھ دن اسے بیٹی کی طرح رکھتے ہیں اوروہ بھی ساس کو ماں کو درجہ دیتی ہے
مگرچھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے اس پیارمیں کمی آتی جاتی ہے پتہ نہیں یہ
وجہ کیا ہے ایک ساس کوصرف اتنا سوچنا چاہیے کہ اگرکوئی غلطی اس کی بیٹی سے
ہوتی توکیا وہ اس کے ساتھ جھگڑاکرتی اس سے بول چال چھوڑ دیتی نہین بلکہ اسے
سمجھاتی تویہ کچھ وہ بہوکے ساتھ کیوں نہیں کرتی اگراپنے بیٹے کا
قصورہوتوبہوکو باتیں سنائی جاتی ہیں اوراتنا تک کہا جاتا ہے کہ شادی سے
پہلے ایسا نہیں تھا اپنی بیوی سے پٹیاں پڑھتا ہے جس کی وجہ سے مردگھرسے
زیادہ باہرکا ماحول پسندکرتا ہے حالانکہ عورت کی وجود کانام نہیں بلکہ ایک
ہستی ہے جس میں اﷲ پاک نے انسانی تقاضوں کی تکمیل کی ہے اوراس کے تقدس کا
حکم فرمایا۔تمام رشتوں میں ماں،بیٹی،بہن،بیوی کے رشتے تقدس ہیں باقی رشتے
ان رشتوں کے سامنے پھیکے ہیں ماں کے بغیرگھردوزخ اورکھانے کوتیاررہتا ہے
بہن جیسا ہمدردرشتہ کوئی نہیں بیوی جیساہمراز اوردکھ سکھ کا ساتھی کوئی
ہوہی نہیں سکتا بیٹی کے بغیرگھرویران دکھائی دیتا ہے مگرہمارے معاشرے نے
ساس اوربہوکے رشتے کوگالی بنا کے رکھ دیا ہے اسی وجہ سے شادی سے پہلے لڑکی
یہ نہیں دیکھتی لڑکا کیسا ہے وہ پہلے ساس کے بارے میں انویسٹی گیشن کرتی ہے
ہمارے معاشرے میں ایسے جاہل خاندان بھی مل جاتے ہیں جوبیٹی کو پیرکی جوتی
سمجھتے ہیں اسی سوچ کے ساتھ گھرمیں نئی دلہن کواکثرجلدطلاق ہوجاتی ہے ،اس
قتل کردیا جاتا ہے یاوہ لڑکی خود زہرکھالیتی ہے ویسے جوبھی لڑکی شادی کرکے
آتی ہے اس کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ سب کو خوش رکھے کیوں ایک عورت کی جب
شادی ہوتی ہے توہ اس کارشتہ اپنے خاوندکے ساتھ ساتھ باقی گھروالوں سے بھی
ہوتا ہے اور ان کی ذمہ داریاں بھی جب دلہن قبول کرتی ہے تواس کیلئے راہیں
آسان ہوتی جاتی ہیں تہذیب میں فرق ہوسکتا ہے مگرعورت کی ذمہ داریوں میں فرق
نہیں ہوسکتا اگرماں ہے توبیٹے اوراﷲ کے درمیان رابطے کاذریعہ ہے اس رابطے
کی وجہ سے اﷲ پاک فرماتے ہیں’’میں کسی ماں کی دعارد نہیں کرتا‘‘عورت اگربہن
ہے توسراپہ غیرت ہے جواپنے بھائیوں اوردیگرافرادکے دلوں میں عورت کے تقدس
کوسلامت رکھتی ہے اگربیٹی ہے توپیاراورخلوص کا وہ خزینہ ہے جس کی حقیقت سے
انکارنہیں کیا جاسکتابیٹی کوخوداﷲ پاک نے باعث رحمت بنا کربھیجا ہے’’بیٹیاں
سب کے مقدرمیں کہاں ہوتی ہے، خداکوجوگھرہوپسندوہاں ہوتی ہیں‘‘ماں کے
بعددنیا میں بیٹی اوربہن کے رشتہ قابل تعظیم ہے شاعرنے کیاخوب کہاہے۔
اس کی تعظیم فرشتے بھی کرتے ہیں
اوڑھ لیتی ہے جوعورت حیا کی چادر
یہاں میں اس شخصیت کے کردار کے صرف ایک پہلو سے معمولی سا پردہ ہٹانے کی
جسارت کروں گا جو ہمارے لئے تو عملی نمونہ ہیں ہی لیکن معروف عیسائی مصنف
مائیکل ہارٹ نے بھی اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’سو عظیم آدمی‘‘ میں درجہ بندی کے
حوالے سے انھیں پہلے نمبر پر رکھا تھا۔ جی ہاں اس معروف عیسائی مفکر نے
پیغمبر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ والہ و سلم کو سب سے پہلے نمبر پر رکھا اور
اقرار کیا کہ آپ نے پوری بنی نوع انسان پر وہ انمٹ نقوش چھوڑے جو کسی دیگر
شخصیت کے بس کی بات نہیں تھی۔ مائیکل ہارٹ نے کسی مذہب اور رنگ و نسل سے
بالاتر ہو کر یہ درجہ بندی کی۔جب میں نے پیغمبر اسلام کی شخصیت کے ایک پہلو
کا جائزہ لیا تو چند حقائق منکشف ہوے۔ مجھے احادیث سے معلوم ہوا کہ بیشتر
کاروباری امور میں تو میرے آقا ﷺ اپنی زوجہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا سے
مشورہ کیا کرتے تھے، ان کے ساتھ بے انتہا پیار کیا کرتے تھے۔ جب پہلی وحی
نازل ہوئی تو کسی دوست سے مشورہ کرنے سے قبل سب سے پہلے اپنی بیوی حضرت
خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھا کو بتایا۔ حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالٰی عنھا کی وفات
کے بعد جب بھی کوئی چیز تقسیم کرتے تو حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کے گھر بطورِ
خاص بھیجتے۔تمام ازواج مطہرات کے ساتھ بے انتہا پیار کرتے تھے۔ گھر کے
کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ ایک دفعہ ایک زوجہ مطہرہ کے ساتھ باہر جا
رہے تھے۔ انھوں نے ایک جگہ پر مداری کا تماشا دیکھنے کی فرمائش کی۔ آپ نے
اپنی چادر میں ان کو چھپا کر تماشا دکھایا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا
کے بہت لاڈ اٹھایا کرتے تھے، ان کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت
عائشہ رضی اﷲ عنہا نے آقا ﷺ کے ساتھ ریس لگانے کی فرمائش کی اور آپ سے آگے
نکل گئیں۔پھر کافی عرصہ گزرنے کے بعد ایک بار آپ صلی اﷲ علیہ والہ و سلم نے
دوڑ کی فرمائش کی تو آقا ﷺ آگے نکل گئے اور مسکراتے ہوئے فرمایا ’’عائشہ یہ
گزشتہ دوڑ کا بدلہ ہے‘‘۔ جب وصال کا وقت قریب آیا تو آقا ﷺکی طبیعت کافی
خراب تھی۔ آپ ﷺ کی خواہش تھی کہ آنے والے چند ایام حضرت عائشہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنھا کے حجرہ میں گزارنے کیلئے اجازت لی۔قصہ مختصر احادیث کی کتب
میں اس طرح کی کثیر مثالیں موجود ہیں کہ نبی ﷺ کس طرح اپنی بیویوں کے ساتھ
دل لگی کیا کرتے تھے اور بہت سے معاملات میں ان کے ساتھ مشاورت کیا کرتے
تھے۔ اگر میں وہ احادیث پڑھوں تو لگتا ہے جیسے یہ سنتِ رسول اور بڑے اجر و
ثواب کا کام ہے۔ اور اگر میں غلط نہیں ہوں تو یہ حقوق العباد کے زمرے میں
بھی آتے ہیں کہ جن کی معافی شاید ممکن نہیں۔ میرے بیشتر احباب الحمد و ﷲ ان
احادیث پر من و عن عمل بھی کرتے ہیں اور میں اس کا چشم دید گواہ بھی ہوں
لیکن معاشرے میں اپنا شملہ اونچا رکھنے کے لیے ہمیشہ یہ تاثر دیتے ہیں کہ
’’ہم نے تو بیوی کو نیچے لگا کر رکھا ہوا ہے‘‘۔ گویا یہ بڑے فخر کی بات ہے۔
اب بہت سے دوست مجھ ناچیز پر بھی رن مرید ہونے کا فتویٰ دیں گے۔ ان کے
فتاویٰ، تنقید اور القابات سر آنکھوں پر، لیکن یہ سوچ کر فتویٰ یا القابات
دیجئے گا کہ آپ کی بہن، بیٹی بھی شاید کسی کی بیوی ہو یا مستقبل میں بننے
جا رہی ہو۔یا پھر آپ ان احادیث کو نعوذبا اﷲ مکمل طور پر جھٹلا دیں جن میں
ہمارے پیغمبر گھر کے کاموں میں اپنی ازواج مطہرات کا ہاتھ بٹاتے تھے،
بیویوں کے ساتھ بہت سے معاملات میں نرم رویہ رکھتے تھے، بیویوں کے ساتھ
دھیمے لہجے میں بات کرتے تھے۔ گھر کے اندر اپنے کئی کام خود انجام دیتے
تھے۔ اپنی بیگمات کی قدر کیجئے، انھیں پیار دیجئے، عزت دیجئے اور عزت
لیجیے۔ عزت اپنے گھر سے شروع ہوتی ہے۔ احقر کا یہ ماننا ہے کہ جس شخص کی
گھر میں عزت ہوتی ہے، دنیا بھی اسی کی عزت کرتی ہے۔ اس پر تھوڑا نہیں، بہت
سوچئے۔ شاید آپ کی زندگی کے بہت سے مسائل اسی غور و فکر سے ہی کم ہو
جائیں۔بیٹی کارشتہ اتنا انمول ہے کہ جب ہمارے پیارے آقا حضرت محمدﷺ کی
صاحبزادیہ آتیں توآپﷺ ان کیلئے اپنی کملی بچھا دیتے ۔ماں ،بہن اوربیٹی کے
بعدعورت کاروپ بیوی میں ملتا ہے جودکھ سکھ کی سانجھ اورآرام سکون کیلئے
بنایا گیا ہے.آپ ﷺامی عائشہ کی گودمیں سررکھ کر قرآن پاک پڑھتے تھے جبکہ وہ
حالت حیض میں ہوتی تھیں )بخاری297)۔آپﷺاپنی بیویوں کی کڑوی کسیلی باتیں
خندہ پیشانی سے برداشت کرتے)بخاری2581)۔آپﷺاپنی بیویوں کی بیماری کی حالت
میں انکی بیمارپرسی کرتے تھے)بخاری4141)۔آپ ﷺحضرت امی عائشہ کو نک نیم
عائشہ سے بلاتے تھے ۔نبی کریمﷺ اس بات کو پسندفرماتے کہ مومن اپنی بیوی کے
ساتھ ہنسے اورکھیل کودکرے) بخاری 6387) ۔حقوق کے معاملے میں اسلام زن وشوکا
حامل ہے لیکن ان کے کارہائے عمل مختلف ہیں اس دور کو ترقی یافتہ دورکہنے
والے یہی سمجھتے ہیں کہ مرد عورت کے حقوق میں مساوات کو غلط سمجھتے ہیں
مگروہ یہ یادرکھیں کہ عورت ہرمعاملے میں مردکی برابری کرسکتی ہے اورمیرے
اسلام نے عورت کو قانونی واخلاقی حیثیت سے مردکے برابرلاکھڑاکیا ہے فرق صرف
اتنا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کوفوقیت دے کرازدواجی زندگی گزاریں جس سے میاں
بیوی توخوش ہونگے اس کے ساتھ ہی بچوں کی تربیت بھی اچھی ہوگی اوراپنے ماں
باپ کی قدر کریں گے ہمارے معاشرے میں چھوٹی چھوٹی بات پر میاں بیوی جھگڑنا
شروع کردیتے ہیں جس پر قاری جمیل صاحب نے مجھے قرآن کریم کی آیت بتائی
ترجمہ:اورتم اپنی بیویوں کے ساتھ عمدگی سے زندگی بسرکروپس اگروہ تمہیں کسی
وجہ سے ناپسندہیں ہوسکتا ہے تمہیں ایک چیز ناپسندہومگرخدانے تمہارے لیے بہت
کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔حضورنبی کریم کا فرمان ہے تم میں سے بہترمومن وہ ہے
جو اپنی بیوی کے حق میں بہترہے (ترمذی 1162)عورت اپنے ہرمقام پرپورااترتی
ہے مگر حوس کے بھیڑیے کسی روپ میں بھی نہیں چھوڑتے ویسے ہمارے حکمران بڑے
بڑے دعوے کرتے ہیں کہ ایسے قانون بنائیں گے کسی کی جراٗت نہ ہوگی عورت
کومنہ اٹھا کردیکھے مگراس پرعمل کیا توصدر پرویزمشرف نے کیا آج کی عورت
اگرمعاشرے میں سراٹھا کرجی رہی ہیں تواس کا ساراکریڈٹ پرویزمشرف کوجاتا ہے
کیونکہ جتنا صدرپرویز مشرف نے عورت کو آزادی دی ہے کسی اورحکومت نے نہیں دی
عورت پرظلم کرنے والے مردنہیں ہوتے ہاں البتہ کئی ایسی مثالیں ضرورہیں جن
میں مردمجرم ٹھہرتے ہیں جیسے کہ ’’کاروکاری ونی ‘‘جیسی رسومات کی وجہ سے
عورتوں کویا توبھائی باپ کی وجہ سے قربانی دینی پڑتی یہاں تک کہ اپنی عزت
بھی نیلام کرنی پڑتی تھی ،چھوٹی عمرکی بچیوں کی شادی دادے نانے کی عمرکے
مردسے شادی کرانا،پیروں میں بیڑیاں ڈال کرقیدکروانا،وڈیروں،جاگیرداروں
اوران کے بیٹوں کااپنے کسی مزدوریامزارعے کی بیٹی بہن کے ساتھ زیادتی
یامردکے کسی جرم کی وجہ سے پنچائیت کے فیصلے پرعورت کو قتل تک کردیاجاتایہ
پنچائتی نظام دیہی علاقوں میں پایہ جاتا تھا اورآج بھی کچھ علاقوں میں اس
کے برے اثرات پڑے ہوئے ہیں اس نظام کے ذمہ داروہ لوگ ہیں جواپنے بچوں
اوراپنے علاقے کیلئے تعلیم کاانتظام نہیں کرتے تھانہ میں جیسے غریب
اورمظلوم لوگوں کے ساتھ سلوک کیاجاتا ہے پنچائیت بھی ایسے ہی کرتی ہے
پنچائیت کے قانون محنت کش اورمزدوروں پرمسلط کیے جاتے ہیں یہاں تک اپنی
جاگیرکی تقسیم کے ڈرسے قرآن پاک سے نکاح کروادیا جاتاتھا مگرلڑکیوں میں جب
سے تعلیم حاصل کرنے اورگھرگھرسکول کی سہولت کی وجہ سے اب ایسے واقعات بہت
کم ہوتے ہیں مگرافسوس کی بات یہ ہے کم سننے کوملتے ہیں یہ ختم کیوں نہیں
ہوجاتے ہونا تویہ چاہیے جیسے کوئی استانی بچیوں کوگھرمیں پڑھاتی ہے اسے
تعلیم کے ساتھ یہ شعوربھی دیناچاہیے کہ کبھی بھی اپنے حق کی
خاطرکمپرومائزمت کرنا۔میڈیا چاہیے جہاں بھی ہواپنے ملک کا عکس ہوتا ہے
مگرہمارے ملک کا میڈیا کسی جنسی ہراسگی کی خبرہو،عورت کی عزت پامال ہوئی
ہواسے ایسے بارباردکھائے گاکہ ایسے لگے گاہمارے ملک میں صرف یہی کام ہی
ہوتا ہے اورکچھ بھی نہیں میرے ایک دوست نے بتایا کہ میں کینیڈاگیا جسے بھی
بتاتامیں پاکستان سے آیا ہوں تواس نے کہا کہ آپ کے ملک میں روز کئی عورتوں
کی عزت لوٹی جاتی ہے آپ کا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اس میں باپ
کواپنیبیٹی کی عزت کا خیال کرنا چاہیے نہ کہ اسے پامال کرے بھائی کوبہن کی
آبروکا محافظ ہونا چاہیے نہ کہ ڈاکوتواس دوست نے کہا کہ ہمارے ملک میں
توامن اورپاکیزہ ہے باقی اچھے برے لوگ ہرملک ہرمعاشرے میں رہتے ہیں
توکنیڈارہائشی نے کہا پھرآپ کا میڈیا اتنا کیوں دکھاتا ہے کہ ملک کا چہرہ
ہی مسخ ہوجائے میں وزیراعظم عمران خان سے ریکویسٹ کروں گا کہ جیسے ان
احتجاج پرمیڈیا پر پابندی عائد کی تھی اسی طرح ایسی خبروں پربھی پابندی
ہونی چاہیے جن کی وجہ سے ہمارے ملک کی عزت پرکوئی انگلی اٹھائے اوران لوگوں
کوسرعام پھانسی کااعلان کرایا جائے تاکہ ایسے گھناؤنے جرائم سے ہماراملک
پاک ہوسکے۔ |