عالمی سطح پر وبائی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو دنیا
بھر میں وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 103ملین کی خطرناک حد پار کر چکی
ہے جبکہ2.23ملین سے زائد افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔تاہم یہ بات خوش
آئند ہے کہ ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ مسلسل تین ہفتوں
سے دنیا میں نئے متاثرہ افراد کی شرح میں کمی آئی ہے۔دنیا بھر میں وبا کے
شکار 57ملین سے زائد افراد اب تک صحت یاب بھی ہو چکے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت
کے سربراہ ٹیڈروس ایڈاہانوم گیبریسس نے حالیہ دنوں کہا کہ اگرچہ عالمی سطح
پر نئے کیسز کی تعداد میں کمی ضرور واقع ہوئی ہے مگر بدستور ایسے ممالک
موجود ہیں جہاں مریضوں کی تعداد میں اضافے کا رجحان ہے لہذا احتیاطی تدابیر
اور انسدادی اقدامات پر عمل پیرا رہنا لازم ہے۔
اس وقت وبا کے خلاف جنگ میں سب سے نمایاں پیش رفت دنیا کے اکثر ممالک میں
ویکسی نیشن کو قرار دیا جا رہا ہے مگر ویکسین کی منصفانہ تقسیم اور ہر ملک
کی ویکسین تک باآسانی رسائی بدستور ایسے چیلنجز ہیں جن پر قابو پاتے ہوئے
وائرس کو شکست دی جا سکتی ہے۔مغربی ممالک میں ویکسین کی زخیرہ اندوزی سے
مزید مسائل پیدا ہو رہے ہیں جو ویکسین کے عالمی تعاون "کووایکس" کے لیے بھی
خطرناک ہے۔اسی باعث اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئتریس سمیت
ڈبلیو ایچ او نےبھی متعدد مواقع پر زور دیا ہے کہ وبا سے مکمل چھٹکارہ صرف
اُسی صورت میں ممکن ہے جب ویکسین تک ہر ایک کی پہنچ ہو گی۔ویکسین کے حوالے
سے قوم پرستی یا تحفظ پسندی وبا کے مزید پھیلاو کا خطرہ بن سکتی ہے۔
ویکسین تیاری کے حوالے سے چین اُن چند خوش قسمت ممالک میں شامل ہے جہاں
ماہرین نے شبانہ روز محنت سے ویکسین کی تحقیق اور تیاری میں غیر معمولی
کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ چین کے صدر شی جن پھنگ نے گزشتہ برس مئی میں
ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کے 73ویں سیشن سے خطاب کرتے ہوئے یہ عزم ظاہر کیا تھا کہ
چین ملک میں ویکسین کی تیاری اور استعمال کے بعد اسے عالمی سطح پر دستیاب
عوامی مصنوعات کا درجہ دے گا۔ چینی صدر کے اس عزم کی تکمیل کی گئی ہے اور
آج چین دنیا کے ایسے ممالک کو امداد و حمایت فراہم کر رہا ہے جن کے پاس
وسائل محدود ہیں۔ابھی حال ہی میں چین کی جانب سے پاکستان کو پانچ لاکھ
ویکسین کا عطیہ کیا گیا ہے تاکہ ملک میں انسداد وبا کی کوششوں کو آگے
بڑھایا جا سکے۔پاکستان میں ویکسی نیشن کے مراحل میں سب سے پہلے ہیلتھ
کیئرورکرز کو ترجیح دی جائے گی جبکہ اس کے بعد ہائی رسک علاقے حکومت کی
توجہ کا مرکز ہوں گے۔وزیر اعظم عمران خان نے ویکسین کے تحفے پر چین کا
شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے تمام صوبوں میں ویکسین کی منصفانہ
تقسیم یقینی بنائی جائے گی۔
چین نے یہ تصور پیش کیا تھا کہ انسانی صحت کے اعتبار سے ایک ہم نصیب معاشرہ
تشکیل دیا جائے ،چینی حکومت نے اپنے ٹھوس عملی اقدامات سے اس تصور کو عملی
جامہ پہنایا ہے۔دنیا نے دیکھا کہ چین کے قول و فعل میں کسی قسم کا تضاد
نہیں آیا ہے ،چین جو کہتا ہے اس پر عمل کرتا ہے۔ترقی پزیر ممالک میں ویکسین
دستیابی کے سنگین چیلنج کو دیکھتے ہوئے چین پاکستان سمیت برونائی ،نیپال
،فلپائن،میانمار، کمبوڈیا، لاوس،سری لنکا، منگولیا ، فلسطین ،بیلاروس ،سیری
الیون ، زمبابوے ، استوائی گنی کو ویکسین فراہم کر رہا ہے جبکہ مزید اڑتیس
ترقی پزیر ممالک کو آئندہ مرحلے میں ویکسین فراہم کی جائے گی۔
چین ڈبلیو ایچ او کی سربراہی میں"کووایکس" ویکسین تعاون میں بھی فعال طور
پر شریک ہوتے ہوئے ترقی پزیر ممالک کی امداد جاری رکھے ہوئے ہے ،کئی ممالک
کے ساتھ ویکسین کے حوالے سے مشترکہ تحقیق اور پیداوار کو فروغ دیا جا رہا
ہے جبکہ دو چینی کمپنیوں سائنو فارم اور سائنو ویک کی تیار کردہ ویکسینز
متحدہ عرب امارات ، مراکش ، انڈونیشیا ، ترکی ،برازیل اور چلی کو برآمد کی
گئی ہیں۔
چین باقی دنیا سے اس لحاظ سے مختلف ممالک ہے کہ ویکسین کی فراہمی میں ایسے
ممالک کو ترجیح دی جا رہی ہے جنھیں اس وقت ویکسین کی شدید ضرورت ہے۔اس طر ح
چین اپنے طرزعمل سے ایک بڑے اور ذمہ دار ملک کا کردار بخوبی نبھاتے ہوئے
انسانیت کی خدمت میں پیش پیش ہے۔ چین کھوکھلے بیانات کی بجائےعملی اقدامات
پر یقین رکھتے ہوئے دنیا میں ویکسین کی منصفانہ تقسیم کے لیے بھر پور کوشش
کر رہا ہے اور ضرورت مند ممالک اور خطوں کو امداد فراہم کر رہا ہے ۔ یہی
وجہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ ممالک محفوظ اور موثر چینی ویکسین پر اعتماد ظاہر
کرتے ہوئے چین سے ویکسین کا حصول چاہتے ہیں۔ ایسے ممالک کی ایک بڑی تعداد
ہے جہاں چین کی تیار کردہ ویکسین لگانے کا آغاز ہو چکا ہے ، اور متعدد
حکومتی رہنماوں نے بھی چینی ساختہ ویکسین سب سے پہلے خود لگواتے ہوئے اس پر
اپنا بھرپور اعتماد ظاہر کیا ہے۔ان اقدامات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے
کہچین بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے
دیگر دنیا کے لیے ایک بہترین نمونہ تشکیل دے رہا ہے جس میں"انسانیت کی
ترقی" اور "مشترکہ مفاد" کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
|