ہم تو ڈوبے ہیں صنم
تم کو بھی لے ڈوبیں گے
یہ شعر بے اختیار اس وقت یاد آیا جب دو خواتین نے ایک شخص کو بے روزگار
کرنے کی حماقت کی اور درحقیقت وہ صاحب ڈوبتے ڈوبتے اپنے ساتھ ان دونوں کو
بھی لے ڈوبے اور سب ہی اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے-
قصہ اس وقت شروع ہوا جب ایک ماڈرن خاتون نے اپنی سہیلی کے ساتھ اپنے ہوٹل
مینجر کی ویڈیو سوشل میڈیا پہ اپلوڈ کر دی-جہاں ایک جانب خواتین کا نظریہ
اپنے مینجر کا مذاق اڑانا اور دوسروں سے مذاق اڑوانا تھا مگر حالات کا
دھارا اس کے الٹ ہی بہہ نکلا-مینجر کو تنقید کا نشانہ بنانی والی دونوں
خواتین پاکستانی عوام کی بے تحاشا تنقید کی زد میں آ گئیں-
اسلامی جمہوریہ پاکستان جس کی قومی زبان اردو ہے وہاں رہنے والوں کو بارہا
یہ یاددہانی کروائی جاتی ہے کہ ابھی تک پاکستان کی قومی زبان اردو ہی ہے-جو
نا صرف بولی جا رہی ہے بلکہ اس زبان میں لکھی جانے والی کتابیں آج بھی پڑھی
جا رہی ہیں-کوئی بھی پاکستانی چاہے کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتا ہو اپنی
علاقائی زبان کے ساتھ اردو بولنا ضرور جانتا ہے-اردو زبان اب بھی ہمارے
نصاب کا حصہ ہے اور اس زبان میں بننے والے ڈرامے اب بھی پوری دنیا میں
مشہور ہیں-
مشہور ترکی اداکار ''ارطغرل'' اور ''بامسی'' تک پاکستان آ کر پاکستانی کے
ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اردو بولتے ہیں-اس کے برعکس ہمارے اپنے شہری ہی
اس زبان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں-
انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہونے کے باوجود آج بھی ہم انگریزوں کے غلام
ہیں-انگریزی بولنے والوں کو سر آنکھوں پر بیٹھایا جاتا ہے جبکہ انگریزی نہ
بول سکنے والوں کو ہم سرعام بے عزت کرنے کا حق بھی رکھتے ہیں-جب یہ ویڈیو
منظر عام پر آئی تو پاکستانی عوام نے بھرپور ردعمل کا اظہار کیا-اپنے
پیغامات، کمنٹس، پوسٹس، تحاریر اور لطائف کے ذریعے اس قوم نے انگریزی نہ
بول سکنے والے مینجر کی حمایت کی اور ان دونوں انگریز لبرل خواتین کو بے حد
تنقید کا نشانہ بنایا-
ذرائع کے مطابق کنولی کیفے جو کہ دارالحکومت اسلام آباد میں واقع ہے وہاں
دو خواتین دیا اور عظمی نے اپنے مینجر اویس سے ہونے والی گفتگو سوشل میڈیا
پہ وائرل کی-اس گفتگو میں دیکھا جا سکتا کہ کس طرح وہ دونوں اویس کا مذاق
اڑاتے ہوئے لوگوں کو یہ بتانا چاہ رہی ہیں کہ اتنی بری انگریزی کے باوجود
ہم انہیں نو سال سے اپنے کیفے میں برداشت کر رہے ہیں اور تنخواہ دے رہے ہیں-
ملازمین کو نکالنے کے لیے بہت سے طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں جس میں ان
کی عزت نفس مجروح نہ ہو-اس ویڈیو نے ہمارے معاشرے کے رویوں پہ ایک سوالیہ
نشان لگا دیا ہے-
کیا واقعی انگریزی ترقی کے لیے ضروری ہے؟
کیا واقعی اردو بولنے والے کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے؟
کیا زبان کے ذریعے ہی محنت کی جا سکتی ہے یعنی گونگے بہرے یا ہکلانے والے
افراد اس دنیا کے بے کار ترین انسان ہیں؟
کیا زبان محنت کا نعم البدل ہو سکتی ہے؟
کیا انگریزی بولنے والے یہ حق رکھتے ہیں کہ وہ کسی کو بے عزت کریں؟
کیا مالک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ملازم کے ساتھ اس طرح کا رویہ اپنائے؟
پاکستانی عوام نے اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار اس طریقے سے کیا کہ
کنولی کیفے کو ایک واضح پیغام مل گیا-انہوں نے اس گفتگو کو ایک ہلکی پھلکی
گپ شپ کہہ کر لوگوں کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی جبکہ دونوں خواتین نے اویس سے
کوئی معافی نہیں مانگی-
دوسری جانب کچھ اردو سے محبت کرنے والوں نے کیفے کے باہر مشاعرے کا انعقاد
کیا جبکہ کچھ اور متوالوں نے اردو کے حق میں آواز بلند کر کے اویس اور اردو
بولنے والوں کی حمایت کا اعلان کیا-
ایسے اقدامات کے بعد کنولی کیفے تاحال بند ہے-نہایت افسوس کی بات ہے کہ جن
لوگوں نے اپنے ملازم کے ساتھ ایسی حرکت کا ارتکاب کیا وہ اپنے ہی روزگار سے
ہاتھ دھو بیٹھے ہیں-جو گڑھا وہ اویس کے لیے کھود رہے تھے وہ ان کا ہی مقدر
بن گیا کیونکہ بائیکاٹ کنولی کیفے کا بھی ٹرینڈ چلایا جا رہا ہے تاکہ ذمے
داران کو اپنی غلطی کا احساس ہو-
ایسا ملک جو اسلام کے نام پہ حاصل کیا گیا وہاں آئے روز ایسے واقعات ہمیں
یہ احساس دلاتے ہیں کہ ہمارا تعلق اب اس دین سے کافی کم ہو چکا ہے-تبھی
ہماری زبان اور ہمارے ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ نہیں-اﷲ تعالیٰ ہمیں نیک
عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دوسروں کو اپنی زبان سے تکلیف دینے والی
برائی سے محفوظ فرمائے آمین ثم آمین
|