کسی بھی معاشرے میں صحافت کا کردار نہایت ہی اہمیت کا
حامل ہوتا ہے صحافی معاشرے کی آنکھ سمجھے جاتے ہیں علاقائی مسائل کو اجاگر
کرنا سرکاری انتظامیہ پر نظر رکھنا اور دیگر اس طرح کے معاملات کی نشاندہی
کرنا ان کے فرائض میں شامل ہے پریس کلب کلرسیداں اس حوالے سے اپنا بہت اہم
کردار ادا کر رہا ہے اس پریس کلب کے موجودہ صدر ثاقب شبیر شانی ہیں ان کیے
دور صدارت میں پریس کلب کو ایک خاص نام و مقام ملا ہے انہوں نے پریس کلب کے
ممبران کے مفاد میں بہت اہم اقدامات اٹھائے ہیں جن میں پرائیویٹ سکولز
ایسوی ایشن کے ساتھ معادہ جس میں پریس کلب کے ممبران کا ایک بچہ بلکل فری
اور باقی 50فیصد تک کی گنجایش حاصل کرسکیں گئے ان کی طرف سے یہ معاہدہ
صحافیوں کے بہترین مفاد میں ہے علاج و معالجے کے حوالے سے بھی وہ ایک
منصوبے پر کام کر رہے ہیں اس کے علاوہ بھی وہ صحافیوں کے مفاد میں اس طرح
کی دیگر پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں اور اپنے صحافی بھائیوں کی عزت و احترام
میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں ان کی صحافتی حوالے سے ایک بہت بڑی خوبی ہے
کہ ان کی تمام رپورٹس تحقیقاتی ہوتی ہیں ان میں کسی قسم کی کوئی کمی بیشی
کی گنجایش نہیں ہوتی ہے وہ لائق ترین اور زہین صحافی ہیں اکرام الحق قریشی
جو پریس کلب کے سرپرست اعلی ہیں ان میں واقع ہی سرپرست اعلی کی خوبیاں
موجود ہیں اور وہ بہت اچھے طریقے سے اپنے سحافی بھائیوں کی سر پرستی کر رہے
ہیں اور اپنے بہترین تجربے کی بنیاد پر وہ پریس کلب کی پالیسیوں کو چلا رہے
ہیں وہ صحافت میں بہت وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور نوائے وقت اخبار کی
نمائندگی کر رہے ہیں کلرسیداں کے تمام مقامی سیاستدان اس وقت تک مطمئن نہیں
ہوتے ہیں جب تک ان کی خبراکرام الحق قریشی نوائے وقت میں نہ لگائیں وہ
مقامی سیاست پر بھی عبور رکھتے ہیں ان کی بہترین پالیسیوں کی وجہ سے
کلرسیداں میں اخبار نوائے وقت کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہو چکی ہے پرویز
اقبال وکی نائب صدر ہیں ان کا شمار کلرسیداں کے لائق ترین صحافیوں میں ہوتا
ہے سرمد بٹ جو کہ سینئر نائب صدر ہیں وہ جہان پاکستان کی نمائندگی کر رہے
ہیں اور ساتھ ساتھ سیات بھی کر رہے ہیں دلنواز فیصل جنرل سیکریٹری ہیں اور
الیکٹرانکس میڈیا سے وابستہ ہیں ان کی ویڈیوز رپورٹس بہت مشہور ہیں عابد
حسین زاہدی جو ایگزیکٹو باڈی کے ممبر ہیں اور خبریں اخبار کی نمائندگی کر
رہے ہیں کچھ ٹائم پہلے تو وہ بہت زیادہ ایکٹو نظر آتے تھے لیکن ان دنوں کچھ
ٹھنڈے دکھائی دے رہے ہیں راجہ محمد سعید بھی ایگزیکٹو باڈی کے ممبر ہیں وہ
جنگ اخبار کی نمائندگی کر رہے ہیں ان میں ایک بہت اہم خوبی یہ ہے کہ ان کی
ہر خبر تحقیاتی ہوتی ہے ان کے پاس جب بھی کوئی خبر آتی ہے تو وہ ا س کو
شائع کرنے سے پہلے اس کا چاروں طرف سے جائزہ لیتے ہیں ان کی خبر پر کوئی
اعتراض باقی نہیں رہتا ہے وہ کلرسیداں کے چپے چپے سے خبریں ڈھونڈ لیتے ہیں
خاص طور پر سرکاری اداروں پر ان کی مکمل گرفت ہے ہمارے آس پاس جب کوئی
واقعہ ہو جاتا ہے تو ہمیں اس وقت علم ہوتا ہے جب راجہ سعید فون پر بتاتے
ہیں وہ نہایت ہی متحرک صحافی ہیں چوھدری عامر کمبوہ فنانس سیکریٹری ہیں ان
کی توجہ بھی زیادہ تر الیکٹرانکس میڈیا پر ہے مرزا عتیق الرحمن جوائنٹ
سیکریٹری ہیں اور وہ بھی الیکٹرانکس میڈیا سے وابستہ ہیں یاسر ملک سیکریٹری
اطلاعات ہیں اپنی میٹھی زبان کی وجہ سے اہم مقام رکھتے ہیں وہ ازکاراخبار
کی نمائندگی کر رہے ہیں پریس کلب کا زیادہ تر بوجھ انہوں نے ہی اٹھا رکھا
ہے جاوید اقبال مجلس عاملہ کے ممبر ہیں وہ صحافت کے میدان میں ہراول دستے
کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں خبریں زمین کھود کر بھی نکال لیتے ہیں وہ
سحافتی حوالے سے بہت زیادہ متحرک ہیں اساس اخبار کی نمائندگی کر رہے ہیں
قیصر اقبال ادریسی بھی مجلس عاملہ کے رکن ہیں ان کا شمار بہت اچھے لوگوں
میں ہوتا ہے شہباز رشید چوھدری بھی مجلس عاملہ کے رکن ہیں ان کا شمار بھی
پرانے صحافیوں میں ہوتا ہے خبر تو وہ کبھی کبھار ہی لگاتے ہیں لیکن ان کی
ایک خبر کے چرچے مہینوں بھر چلتے ہیں زاہد فاروق بھی مجلس عاملہ ہی کے رکن
ہیں ان کی صحافت کا زیادہ تر محوربہترین تعلیمی پالیسیوں کو فرغ دینا ہوتا
ہے راقم بھی ممبر ہوں مذکورہ تمام صحافیوں کی وجہ سے کلرسیداں کو ایک نام و
مقام حاصل ہے وہ دن رات محنت کر کے علاقائی مسائل اجاگر کرنے اور ان کو حل
کروانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں وہ نہ ہی کسی سے کوئی تنخواہ مانگتے
ہیں اور نہ ہی کوئی بھی معاوضہ مانگتے ہیں وہ عوامی مفاد میں سرکاری
انتظامیہ ،سیاستدانوں اور عام عوام سے بھی ٹکر لگا لیتے ہیں کبھی کوئی
سیاستدان دھمکیاں دیتا ہے کبھی کوئی پولیس والا ان کو ہر طرف سے مسائل کا
سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن وہ پھر بھی بغیر کسی رکاوٹ کے اپنا کام فی سبیل اﷲ
جاری رکھنے میں ہی اپنی جیت تصور کرتے ہیں جن مقامی سیاستدانوں، سیاسی و
سماجی شخصیات کو وہ اپنے کام کاج چھوڑ کر کوریج دیتے ہیں وہ آج تک ان کو
بیٹھنے کیلیئے پریس کلب کی سرکاری یا کوئی پرائیویٹ بلڈنگ بھی نہیں دے سکے
ہیں نہ ہی ان کو درپیش دیگر مسائل پر کوئی بھی توجہ دی گئی ہے منتخب
نمائندوں اور کلرسیداں پی ٹی آئی کے مقامی رہنماؤں کو اس اہم مسئلے پر
خصوصی دھیان دینا ہو گا باقی مسائل بعد میں ہی سہی لیکن پریس کلب کی بلڈنگ
کی فراہمی صحافیوں کا حق بنتا ہے جس میں بیٹھ کر وہ آپ لوگوں کو مزید
بہترین کوریج دے سکیں گئے
|