پاکستان کا حصول مسلمانوں کے
اتحاد و اتفاق کا ایک ناقابل یقین نتیجہ تھا برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں
نے یہ سوچے بغیر کہ ان کا شہر پاکستان کا حصہ بن سکتا ہے یا نہیں ہر نعرے
کا ایک جواب دیا پاکستان کا مطلب کیا لَا اِلہَ اِلّٰا اللہ ، لے کے رہیں
گے ۔۔پاکستان بن کے رہے گا ۔۔ پاکستان۔ اُس وقت اکثریت کا ایک ہی مطالبہ
تھا اور وہ تھا پاکستان۔ پاکستان بنا تو کچھ ہی عرصے بعد سیاسی جوڑ توڑ
شروع ہوگئی لیکن وہ سب کچھ سیاسی تھا ملک کے لیے ہر ایک مخلص تھا۔ کرپشن
اگر تھی بھی تو اس میں حکومت اور سربرہان حکومت کا نام نہ آتا تھا ۔ ساٹھ
کی دہائی میں پاکستان ترقی کی راہ پر چل نہیں دوڑ رہا تھا کم از کم تاریخ
اور کتا بوں میں یہی درج ہے اور چشم دید گواہ ابھی بفضل تعالیٰ حیات ہیں ،پھر
اسی دہائی کے اواخر تک قومی اتحاد میں جو دراڑیں پڑیں اُس نے ملک کو دو
ٹکڑے کرکے چھوڑا۔ اس مرحلے کے بعد اب ایک بار پھر ملک تاریخ کے بدترین دور
سے گزر رہا ہے اگر چہ یہ جملہ ہر دور میں بولا جاتا رہا ہے تاہم آج حقیقت
میں ایسا ہی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ سوائے بلوچستان میں چند ایک عاقبت نا
اندیش اور خود غرض لوگوں کے ملک میں نااتفاقی نہیں ہے۔ بلوچوں کی بھی
اکثریت جن میں وہاں کے پختون بھی شامل ہیں پاکستان کی سا لمیت کی ضرورت سے
انکار نہیں کرتے۔ فاٹا اور وزیرستان جو سب سے زیادہ مشکل اور مصیبت میں ہے
سمیت ہر ایک ملکی حالات کی درستگی کے لیے دعا گو ہے ۔ دشمن کی چالیں اور
سازشیںبھی جاری ہیں اور وہ کسی بھی زاویے سے کوئی کوتاہی نہیں کررہا۔ کبھی
وہ بریلوی دیوبندی کا تنازعہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے کبھی شیعہ سنی اور
کبھی اقلیتوں کو ملک کے خلاف ابھارنے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ ہمیں توفیق دے
کہ ہم خود کو دشمن کے ہر حربے سے بچا سکیں۔ فی الوقت دشمن نے قومی سلامتی
کے حامل اور ذمہ دار اداروں کو نشانہ بنانے کا عزم کیا ہوا ہے ۔ 2 مئی کو
ایبٹ آباد میں اسامہ کی مبینہ ہلاکت کے بعد فوج سے جو شکایتیں قومی سطح پر
کی گئیں بالکل بجا تھیں لیکن بین الاقوامی سطح پر ہماری فوج کو جس طرح
نشانہ بنایا گیا وہ یقینا بد نیتی پر مبنی تھا۔ اُس کے بعد پے در پے کچھ
ایسے واقعات ہوئے جس نے دشمن کے ارادوں کو مزید خوراک بہم پہنچائی۔ اِن
واقعات میں خروٹ آباد ، مہران بیس اورکراچی رینجرز کے واقعات شامل ہیں۔ اب
دیکھا جائے تومہران بیس کے علاوہ یہ سارے واقعات انفرادی سطح کے ہیں اور نہ
صرف قابل مذمت بلکہ انتہائی قابل مذمت ہیں اور ان واقعات میں ملوث افراد کو
یقینا قرار واقعی سزا ملنی چاہیے اور انہیں صرف اس لیے نہیں چھوڑدینا چا
ہیے کہ ان کا تعلق فوج سے ہے بلکہ اِن کی سزا اس لیے سخت ہونی چاہیے کہ اِن
کے انفرادی فعل سے اِن کے ادارے کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے ۔ باوجود
اس کے کہ فوج نے حکومت کو پیشکش کی کہ وہ جو بھی فیصلہ کرے فوج اُس پر عمل
درآمد کرے گی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اُس کے خلاف تنقید کا طوفان
اٹھادیا گیا ہے یہ سوچے بغیر کہ چاہے اچھا ہے یا بُرا اسی ادارے نے ملک کی
حفاظت کی ذمہ داری نبھانی ہے اور یہ بھی مد نظر رہے کہ دہشت گردی کے خلاف
یہی فوج مسلسل برسر پیکار ہے ہر روز یہ اپنے کئی شہیدوں کو اس وطن کی مٹی
کے سپرد کرتی ہے۔ کیا ان کے نفسیاتی دبائو کا اندازہ لگانے کی کوشش کی گئی
ہے ۔ فوج انہی سپاہیوں سے مل کر بنی ہے ۔ افراد کی کوتاہیوں کو تنقید کا
نشانہ بنا نے کی بجائے اداروں کی شکست وریخت ہماری قومی صحت کے لیے انتہائی
خطرناک ہوگی لیکن مصیبت یہ ہے کہ جرات اور انصاف سے کام لینے کی بجائے کہ
انکی خامیوں کی اصلاح کے لیے کوشش کی جائے ہم اِن اداروں کو بیخ و بن سے
اکھاڑ دینے کے درپے ہوجاتے ہیں اور اس میں ہمارا بچپن کی سرحدوں کو بالکل
ابھی ابھی عبور کرتا ہوا اور لڑکپن کی سرحدوں سے ہنوز دور الیکٹرانک میڈیا
ایک خطرناک رول ادا کررہاہے۔ غلطیوں کی نشاندہی کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت
لے جانے کی کوشش میں مصروف مختلف چینلز اپنے مالکان اور سیاسی ہمنوائوں کو
خوش کرنے کے شوق میں مصروف قومی سلامتی اور سا لمیت سے بے خبر اپنی دوڑ
میںدوڑے جا رہے ہیں۔ ایک فوج پر ہی کیا موقوف ہر ادارے کی معمولی غلطی کو
مسلسل تنقید کا نشانہ بنا کر اُسکو دنیا کے سامنے اس قدر ذلیل کر دیا جاتا
ہے کہ بین لاقوامی طور پر بھی یہ تذلیل فرض سمجھ لی جاتی ہے۔ ایک مثال پی
آئی اے کی دوں گی ۔ہم سب جانتے ہیں کہ اس کی کارکردگی روبہ زوال ہے لیکن
خدا جانے کب ایک بار اسکی کسی فلائٹ میں چوہا نکلا اور پھر ہر نیوز چینلز
کے مزاحیہ شو میں اس کو اس قدر اچھالا گیا کہ کوئی اس سے سفر کرنا بھی چاہے
تو نہ کرے اور جو تھوڑی بہت آمدن تھی وہ بھی ختم ہوکرادارہ تباہی کے کنارے
پر پہنچ گیا۔ اسی طرح ریلوے بھی اگر سیاستدانوں سے کچھ بچ گیا تھا تو اُسے
تو با لکل ہی نا کارہ سمجھ لیا گیا ہے۔کہنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ
غلطیوں اور خامیوں کی نشاندہی نہ ہو۔ ضرور ہو لیکن تنقید برائے تنقید اور
تنقید برائے اصلاح میں فرق محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ اب کی بار ہم واقعی
تاریخ کے نازک موڑ سے گزر رہے ہیں بجائے اداروں کو نشانہ بنانے کے حکومت
اور سیاستدانوں پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے کہ وہ قوت فیصلہ پیدا کرے اور
قوت فیصلہ تب ہی آتی ہے جب خلوص اور نیک نیتی ہو ،قومی مفاد ذاتی مفاد سے
بالا تر ہو۔ ہر لفظ یہ سوچ کر بولا جائے کہ اس کا ملک و قوم پر کیا اثر
ہوگا۔ فوج اور آئی ایس آئی بھی حکومت کے ما تحت ادارے ہیں۔ حکومت اور سیاست
دان اپنا کردار اتنا مضبوط بنا لیں کہ وہ اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے
پر انہیں مجبور کر سکیں۔ یہ درست ہے کہ طا لع آزما جرنیلوں نے قومی مفاد کو
نقصان پہنچا یا لیکن جس طرح وہ ’’ تخت نشین ‘ ‘ کئے گئے اُن حالات اور اُس
سیاسی کردار کا ایک ایک لفظ اب بھی ہر پاکستانی کو یاد ہے اور جس طرح ہمارے
سیاستدان اور چغادری قانون دان خود کو ہر جرم سے پاک قرار دے رہے ہیں ایسا
نہیں ہے۔ جب جو اختیار کی منزل تک پہنچا بہت کم ایسے ہوں گے کہ انہوں نے
قومی مفاد کو اپنی ذات پر ترجیح دی ہوگی۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ
گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے۔ یہ وقت ایک دوسرے کو گالیاں دینے کا
نہیں ہے محا سبے اور خود احتسابی کا ہے۔ ملک کو صرف اپنی ذمہ داری سمجھنے
اور اس ذمہ داری کو پورا کرنے کا ہے۔ دوسروں کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے کا
ہے دشمنی کا نہیں بلکہ ان غلطیوں اور کوتاہوں کی درستگی کے لیے ایک دوسرے
کی مدد کرنے کا ہے نہ کہ اپنے دل کا بغض نکالنے کے لیے دوسروں کی غلطیوں کا
بوجھ بھی ’’ دشمن‘‘ کے سرڈال دیا جائے جیسا کہ فوج کے معاملے میں کیا جا
رہا ہے کہ وزارت داخلہ کے ماتحت رینجرز کے ظلم کو بھی فوج کے نامہ اعمال
میں لکھ دیا گیا ہے۔ یقینا وہ ایک گھناؤنا جرم تھا جو وقوع پزیر ہو چکا
لیکن اُسے دن میں کم از کم پچاس دفعہ ہر چینل سے دکھانے کا مقصد کیا ہے؟
تاکہ مزید سبکی ہو؟ اور یہ پہلو بھی مد نظر نہیں رکھا جا رہا ہے کہ ہر بار
مرتے ہوئے بچے کو دیکھ کر اُسکے گھر والوں کو ازسر نو اذیت دی جارہی ہے یہ
نوجوان پاکستانی تھا اور یہ دکھ ہر پاکستانی محسوس کرتا ہے اب یہ منظر ہر
ایک دیکھ چکا سب کو معلوم ہو چکا۔ لیکن خدارا اس انفرادی فعل کو اپنے ملک
کے انتہائی قابل احترام اور اہم اداروں کی تباہی کا باعث مت بنائیے خود
اپنے ملک کو عالمی طا قتوں کے لیے پلیٹ میں رکھ کر پیش کرنے سے گریز کرنا
چاہیے اگر ایسا ہی ہے کہ اس ملک کی فوج اس کی حفاظت نہیں کر سکتی تو ہمارے
سیاستدانوں کو جن میں بہرحال کچھ پڑھے لکھے لوگ بھی موجود ہیں اور ہمارے
الیکٹرانک میڈیا کے ’’پیران کامل‘‘ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ ہمارے اس اقرار
کا مطلب کیا ہوگا خود دوسروں کو دعوت دینا ۔مجھے کیا کسی بھی محب وطن
پاکستانی کو کسی ایسے شخص سے جس نے جرم کیا ہویا جس نے حفاظت میں کو تاہی
برتی ہو کوئی ہمدردی نہیں ہوسکتی لیکن یوں ہر انفرادی فعل پر فوج کو بدنام
کرنا بھی کوئی حب الوطنی نہیں بلکہ سمجھی یا نا سمجھی میں جو بھی ہے ملک کو
نقصان پہنچانا ہے ۔ صرف اپنا فرض ادا کریں فریق مت بن جایئے ورنہ کہیں ایسا
نہ ہو کہ ووٹ اور نام کماتے کماتے دنیا میں اپنی شناخت کھو دیں۔ |