|
|
پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک اسی دلہن کی تصویر وائرل ہے جس میں وہ
انتہائی خوبصورت لال لباس میں ملبوس جہیزسے لدے ایک چھکڑے کو بمشکل
گھسٹینے کی کوشش کر رہی ہے اور سجا سنورا دلہا بھی اسی چھکڑے پر سوار
ہے۔ اس تصویر پر لکھا ہے ’جہیز سے انکار کریں۔‘ |
|
یہ تصویر معروف پاکستانی ڈیزائنر علی ذیشان کی نئی برائیڈل کلیکشن ’نمائش‘
کا حصہ ہے جس کا مقصد نوجوان نسل میں جہیز کی صدیوں پرانی روایت کے خلاف
آگاہی فراہم کرنا ہے۔ |
|
اس سے قبل سنہ 2017 میں بھی وہ کم عمری کی شادیوں کے خلاف ’یو این ویمن
کیمپین‘ کا حصہ بنے تھے اور ڈیزائنر کی سنہ 2018 کیمپین بھی معاشرے پر سوشل
میڈیا کے ذریعے ڈالے جانے والے دباؤ سے متعلق تھی۔ |
|
حالیہ برائیڈل کلیکشن (نمائش) کو گذشتہ ہفتے کے اختتام پر لاہور میں منعقدہ
’ہم برائیڈل کوٹیور ویک‘ کے دوران پیش کیا گیا۔ اور پاکستان میں اقوام
متحدہ کے ادارہ برائے خواتین (یو این ویمن) نے بھی اس کلیکشن کی حمایت کی
ہے۔ |
|
|
|
اگر صرف تصویر کی بات کی جائے تو اس پر خاصا ردِعمل
سامنے آیا ہے جس میں تقریباً ہر شخص ہی جہیز جیسی رسم کی مخالفت کرتا نظر
آیا۔ |
|
لیکن جب انھیں معلوم ہوا کہ یہ تصویر شادیوں کا لباس
ڈیزائن کرنے والے ایک مہنگے ڈیزائنر کی نئی کلیکشن کا حصہ ہے جس کے ذریعے
وہ ملک میں رائج جہیز کی رسم کے خلاف آگاہی پھیلانا چاہتے ہیں۔۔۔ اور یو
این ویمن (پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین) نے اس کلیکشن کی
حمایت کی ہے۔۔۔ تو عوام کا ردِعمل کیسا ہوگا؟ ظاہر ہے ایک نئی بحث چھڑ گئی۔ |
|
کسی نہ کہا ’12 لاکھ کا لہنگا بیچتے ہوئے آپ جہیز کے نام پر پڑنے والے بوجھ
کے مسئلے کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں؟‘ |
|
’فیشن ایک عیاشی ہے۔۔۔ اگر آپ کو آگاہی پھیلانی ہی ہے تو کم مراعات یافتہ
طبقے کا بوجھ کم کرنے کا سوچ کر آگے آئیں۔۔۔‘ |
|
کسی نے تبصرہ کیا ’12 لاکھ کا لہنگا اپنی مرضی سے خریدنے اور بیٹی کو
لاکھوں کا جہیز دینے پر مجبور کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے‘۔۔۔ غرض جتنے
منھ اتنی باتیں۔ |
|
|
|
بی بی سی بات کرتے ہوئے علی ذیشان تھیٹر سٹوڈیو کی چیف مارکیٹنگ آفیسر حفصہ
بابر کا کہنا تھا کہ ’خود اپنی مرضی سے مہنگا لہنگا خریدنا آپ کی اپنی مرضی
پر منحصر ہے، اگر آپ کوئی مہنگی چیز خریدنے کی سکت رکھتے ہیں تو اسے خریدنے
میں کوئی حرج نہیں۔‘ |
|
’اور جب ہم علی ذیشان کی بات کرتے ہیں تو وہ جو کچھ بھی ڈیزائن کرتے ہیں وہ
ایک مخصوص طبقے کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے کرتے ہیں اور ان کے ڈیزائن
کردہ تمام ملبوسات ہاتھوں سے بنائے جاتے ہیں جن پر بہت محنت اور مہنگا کپڑا
لگتا ہے اور وہ کسی بھی صورت میں کوالٹی پر کمپورمائز نہیں کرتے اسی لیے ان
کی قیمت زیادہ ہوتی ہے۔‘ |
|
ان کا کہنا تھا کہ ’مہنگے لہنگے ڈیزائن کرنے کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ کسی
مسئلے کو اجاگر نہیں کر سکتے؟‘ |
|
حفصہ کے مطابق ہمارے پاس کئی ایسے گاہک بھی آتے ہیں جن کی خواہش ہوتی ہے کہ
وہ علی ذیشان کا ڈیزائن کردہ شادی کا لباس پہنیں لیکن ان کے سسرال والے ان
سے گاڑی اور جہیز جیسی ڈیمانڈ کر رہے ہوتے ہیں۔ |
|
ان کا کہنا تھا کہ جہیز صرف مڈل کلاس طبقے کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ امیر
لوگوں کے لیے بھی پریشانی کا سبب ہے۔ |
|
|
|
تو کیا مستقبل میں علی ذیشان اس مڈل کلاس طبقے کے لیے بھی کچھ ڈیزائن کرنے
کا ارادہ رکھتے ہیں جو ان کے ڈیزائن کردہ لباس پہننا تو چاہتے ہیں مگر
خریدنے کی سکت نہیں رکھتے؟ |
|
اس کے جواب میں حفصہ کا کہنا تھا کہ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے گاہگوں کی
خریدنے کی سکت کم ہو گئی ہے اور زیادہ تر لوگ چھوٹے پیمانے پر ’کووڈ شادیاں‘
کر رہے تھے لہٰذا اسی کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہم نے پہلی مرتبہ کورونا کے
دوران اپنے ڈیزائنز کو 50 فیصد کم قیمت میں سیل پر لگا دیا تھا جس میں بے
شمار لوگوں کو ان کے ڈیزائن خریدنے کا موقع ملا۔ |
|
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے گاہکوں کی مشکلات کا اندازہ ہے اور علی ذیشان
کے ڈیزائنز کو سب کے لیے افورڈیبل بنانے کے لیے وہ آگے بھی ایسے اقدامات
لیتے رہے گے جن میں لان کلیشن کی ریلیز بھی شامل ہے۔ |
|
حفصہ کے مطابق علی ذیشان اپنے ڈیزائنز کو صرف ایسے لوگوں تک محدود نہیں
رکھنا چاہتے جو مہنگے کپڑے خریدنے کی سکت رکھتے ہیں۔ |
|
ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بھی علی ذیشان نے کم عمری میں شادیوں اور کئی
دوسرے معاشرتی مسائل کے متعلق آگاہی پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ |
|
یاد رہے اس سے قبل سنہ 2017 میں بھی وہ کم عمری کی شادیوں کے خلاف یو این
ویمن کیمپین کا حصہ بنے تھے جس کے دوران ڈیزائنر نے سکول یونیفارم میں
ملبوس ایک بچی کو اپنے شو سٹاپر کی حیثیت سے ریمپ واک کے لیے منتخب کرتے
ہوئے اس مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی۔ |
|
|
|
رنگے برنگے ملبوسات والے ماڈلز کے بیچ اس سکول جانے والی بچی نے آسمانی اور
سفید رنگ کے یونیفارم ہر دلہن کے زیورات اور ایک سکول بیگ پہن رکھا تھا۔ |
|
سوشل میڈیا پر ملنے والے ردِعمل کے حوالے سے حفصہ کا کہنا تھا کہ ہم نے
زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پیغام پہنچانے کی کوشش کی ہے اور ہمیں بہت مثبت
قسم کے پیغامات مل رہے ہیں۔ |
|
Partner Content: BBC Urdu |