ریاکاری ایک ایسا عمل ہے جس کا تعلق دل اور نیت سے ہے اس
لئے اس کا ادراک وشعور دوسرے کو کم ہوتا ہے مگر ریاکار اس سے بخوبی واقف
ہوتا ہےکہ اس کے دل میں کیا چل رہا ہے اور کس نیت سے عمل کررہا ہے ؟ اس لئے
دوسرے کو اس بات کی اجازت بھی نہیں ہے کہ کسی کے عمل پر ریاکاری کا حکم
لگائے ، ہمیں حسن ظن کا حکم ہے ، حسن ظن ہی رکھنا چاہئے اور سوء ظن سے
پرہیز کرنا چاہئے ۔
ریا کاری اخلاص کی ضد ہے اور شرکیہ عمل ہے ۔ ریا کا مطلب ہے کہ اللہ کے
علاوہ دوسروں کو دکھانے کے لئے عمل کرنا جبکہ اخلاص کہتے ہیں اللہ کی رضا
اور اس کی قربت حاصل کرنے کے لئے عمل کرنا ۔ ریا میں اللہ کی رضا شامل نہیں
ہوتی ،وہاں عمل کرنے کا مقصددکھاوا، شہرت، تعریف، قدرومنزلت ا و ر دنیاوی
منفعت کا حصول ہوتا ہے ، اور ان مقاصد کی بنیاد پر کیا گیا عمل اللہ کے
مردود وباطل ہے ۔ اللہ کے یہاں عمل کی قبولیت کے لئے دو بنیادی شرطیں ہیں ۔
ایک عمل میں اخلاص کا پایا جانا اور دوسری عمل کا سنت کے مطابق انجام دیا
جانا یعنی وہی عمل اللہ کے یہاں قابل قبول ہے جو اخلاص کے ساتھ( اللہ کی
رضا کے لئے )کیا گیا ہو اور اسے سنت کے مطابق ادا کیا ہوگا۔ اس کا ذکر اللہ
تعالی نے اس آیت میں کیا ہے ، فرمان الہی ہے :
قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ
إِلَهٌ وَاحِدٌ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلا
صَالِحًا وَلا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا (الکہف:110)
ترجمہ: آپ کہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں (ہاں)میری جانب وحی
کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے ، تو جسے بھی اپنے پروردگار
سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت
میں کسی کو بھی شریک نہ کرے ۔
اس آیت میں اللہ رب العالمین ذکر کرتا ہے کہ جسے رب سے ملاقات کی امید ہے
وہ نیک عمل کرے اور اخلاص کے ساتھ عبادت کرے ،اس میں کسی کو شریک نہ کرے ۔
نیک عمل وہ ہے جو سنت کے مطابق کیا جائے گا اور اخلاص کے ساتھ عبادت یہ ہے
کہ عمل کرنے کا مقصد اللہ کی رضا ہو۔ اس لئے ہر وہ کام سنت کے مخالف ہو
مردود ہے اور اسی طرح ہروہ عمل یا عبادت باطل ہے جس میں اخلاص نہ ہو یعنی
اللہ کے لئے انجام نہ دیا گیاہو۔
مندرجہ ذیل سطور سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عمل میں ریا کاری کا وجود
اخلاص کے منافی ہے جبکہ قبولیت اعمال کے لئے اخلاص شرط ہے ۔ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ریاکاری کو صراحت کے ساتھ واضح الفاظ میں شرک قرار دیا
ہے جس کا ذکرآگے آرہا ہے یہاں مختصر طورپر ریاکاری کی شکلیں جان لیتے ہیں
تاکہ ہم خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی اس سے آگاہ کرکے بچائیں ۔
ریاکاری کی سب سے خطرناک قسم منافقوں سے متعلق ہے جو محض دکھاوے کے لئے
مسلم ہوتے ہیں ، دل میں کفر چھپاتا ہوتا ہے ، گویا اس کا سارا عمل لوگوں کے
دکھاوے پر مبنی ہوتا ہے ، اس لئے ان لوگو ں کو سزا بھی اللہ نے بہت خطرناک
رکھی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے : إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ
الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا (النساء:145)
ترجمہ: منافق تو یقینا جہنم کے سب سے نیچے کے طبقہ میں جائیں گے ، ناممکن
ہے کہ تو ان کا کوئی مددگار پالے۔
ریاکاری مسلمانوں میں بھی پائی جاتی ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی
امت پر اس کا بہت خطرہ محسوس کیا ہے اور اس سے بچنے کی تلقین کی ہے ۔
اکثرمسلمان بہت سے اعمال اس لئے انجام دیتے ہیں تاکہ لوگوں میں ان کی شہرت
ہو، جاہ ومرتبہ بڑھے ، دوردور تک اس کے کارنامے کا چرچا ہوایسے اعمال
ریاکاری میں داخل اور اخلاص سے خالی ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ریاکاری کی ایک
نوعیت یہ ہوتی ہے کہ پوشیدہ طورپر یا اکیلے میں کئے گئے اعمال وافعال کو
لوگوں سے بیان کیا جائےمثلا کوئی کہے میں نے اس قدر قیام اللیل کیا، میں نے
اتنی تلاوت کی ، میں نے اتنا ذکر کیا ، میں اتنا صدقہ کیا وغیرہ ۔ بعض لوگ
ریاکاری کا اظہار جسموں سے ، بعض وضع قطع سے اور بعض زبان وبیان سے کرتے
ہیں یہی وجہ ہے کہ عوام ایسے لوگوں کی شکلوں، لباسوں اور زبان وبیان سے
دھوکہ کھا جاتی ہے ۔ عیارومکار سمجھتے ہیں کہ ہم نے لوگوں کو دھوکہ دے دیا،
انہیں ڈھگ لیا مگر وہ اللہ کو ہرگز دھوکہ نہیں دے سکتے ہیں ۔ موجودہ زمانے
میں ریاکاری کی وبا ایسی عام ہے کہ کورونا سے بھی زیادہ سماج ومعاشرہ کو
اپنی لپیٹ میں لے رکھی ہے ۔ سماج کا ہر طبقہ اس بیماری کا شکار ہے ۔ مدارس
ومساجد کے رکھوالے، منبرومحراب کے نگراں ، کتاب وسنت کےداعی وشیدائی، میدان
صحافت وخطابت کے شہسوار اور مکتبات وتالیفات کے مالکان کی اکثریت پیشہ ور
نظر آتے ہیں۔چند کتابوں کی تصنیف کرنے والے، کسی ادارے کی امارت پالینے
والےاورعوام میں خطابت کی شہرت حاصل کرلینے والے کا غرور آسمان چھونے لگتا
ہے اور اخلاقی گراوٹ وپستی کا حال توبیان کرنے سے باہر ہے ۔
علمی طبقات کے علاوہ سماجی طبقوں میں بھی ریاکاری کوٹ کوٹ کر بھری ہے حتی
کہ پاکیزہ سے پاکیزہ رشتے دکھاوے پر مبنی ہیں۔ایک بیٹا باپ کی نظر میں
دوسرے بیٹوں سے اچھا بننے کی ناٹک کرتاہے ۔چاپلوسی اور دکھاوے کا خول
چڑھاکر تعلقات اورسماجی وقار بنانے کی کوشش کرتا ہےغرضیکہ دکھاوے کرنےوالے
/چاپلوسی کرنے والے /لوگوں کی ہاں میں ہاں ملانے والے کو سماج میں اچھا
گردانا جاتا ہے اور جو بھولا بھالاہو، شریف النفس ہو، لوگوں کو عیبوں پر
ٹوکنے والے والا، سچ بولنے والا ہو، خاندانی اور سماجی مظالم وناسور کو
مٹانے والے ہو اسے سماج کا بدترانسان مانا جاتا ہے ۔ ان باتوں کی وضاحت بہت
طویل ہوجائے گی ، قصہ مختصرانسانی زندگی میں ریاکاری کے بہت سارے مظاہر ہیں
، ان کا تعلق دلی مرض سے ہے ، اس مرض کا علاج خود ہی کرنا ہے کیونکہ ہم نے
خود ہی اسے اپنے اندر پال رکھا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ ریاکاری کے نقصانات کیا ہیں تاکہ ہم اس کے انجام کو جان
کر ڈریں اور اس مہلک مرض سے بچنے کی فکر کریں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے اپنی امت پرریاکاری کا خطرہ محسوس کرتے فرمایا:
إنَّ أخوفَ ما أخافُ عليكم الشركُ الأصغرُ الرياءُ ، يقولُ اللهُ يومَ
القيامةِ إذا جزى الناسُ بأعمالِهم : اذهبوا إلى الذين كنتم تُراؤون في
الدنيا ، فانظروا هل تجدون عندَهم جزاءً(صحيح الجامع:1555)
ترجمہ: میں تم پرسب سے زیادہ جس چیز کا خطرہ محسوس کرتا ہوں وہ شرک اصغر
کا خطرہ ہے اور وہ ریاکاری ہے، قیامت کے دن جب لوگوں کو ان کے اعمال کا
بدلہ دیا جائے گا تو ریا کاروں سے اللہ تعالی کہے گا : ان لوگوں کے پاس
جاؤ جن کو دکھانے کے لئے تم دنیا میں اعمال کرتے تھے اوردیکھوکیا تم ان کے
پاس کوئی صلہ پاتے ہو۔
ریاکاری دجال کے فتنے سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ
کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس نکل کر آئے، ہم مسیح
دجال کا تذکرہ کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ألَا أُخبركم بما هو أخوفُ عليكم عندي من المسيحِ الدجالِ قال قلنا بلى
فقال الشركُ الخفيُّ أن يقومَ الرجلُ يُصلي فيُزيِّنُ صلاتَه لما يرى من
نظرِ رجلٍ(صحيح ابن ماجه:3408)
ترجمہ: کیا میں تم کو ایسی چیز کے بارے میں نہ بتا دوں جو میرے نزدیک مسیح
دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہے؟ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:وہ پوشیدہ شرک ہے جو یہ ہے کہ آدمی نماز پڑھنے کھڑا ہوتا
ہے، تو اپنی نماز کو صرف اس وجہ سے خوبصورتی سے ادا کرتا ہے کہ کوئی آدمی
اسے دیکھ رہا ہے۔
اسی طرح مال وجاہ کی حرص ومحبت دین کے لئے کس قدر نقصان دہ ہے اس حدیث سے
اندازہ لگائیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :
ما ذِئبانِ جائعانِ أُرْسِلا في غنَمٍ ، بأفسدَ لَها من حِرصِ المَرءِ علَى
المالِ والشَّرَفِ لدينِهِ(صحيح الترمذي:2376)
ترجمہ:دو بھوکے بھیڑیئے جنہیں بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیا جائے اتنا نقصان
نہیں پہنچائیں گے جتنا نقصان آدمی کے مال و جاہ کی حرص اس کے دین کو
پہنچاتی ہے.
آج انفرادی اور اجتماعی طور پر امت کی تباہی، اختلاف وانتشار اور دینی مرکز
و جماعت میں لوٹ گھسوٹ اسی ریاکاری کے سبب ہے یعنی دینی کام اللہ کی رضا کے
لئے نہیں بلکہ جاہ وحشم اور مالی منفعت کے لئے انجام دئے جانے کے سبب
مسلمان تباہی وبربادی کے دہانے پر ہے۔
ریاکاری کے سبب سارا عمل مردود ہوجاتا ہے ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قالَ اللَّهُ تَبارَكَ وتَعالَى: أنا أغْنَى الشُّرَكاءِ عَنِ الشِّرْكِ،
مَن عَمِلَ عَمَلًا أشْرَكَ فيه مَعِي غيرِي، تَرَكْتُهُ وشِرْكَهُ(صحيح
مسلم:2985)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں بہ نسبت اور شریکوں کے محض بے پرواہ ہوں
ساجھی سے، جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس میں میرے ساتھ میرے غیر کو ملایا اور
ساجھی کیا تو میں اس کو اور اس کے ساجھی کے کام کو چھوڑ دیتا ہوں۔
یہ حدیث قدسی بتلاتی ہے کہ اگر کوئی کسی عمل میں اللہ کے ساتھ غیر کو شریک
کرلیتا ہے تو اس کا عمل اللہ کے یہاں مردود ہے ۔ذرا سوچیں کہ وہ عمل جو
خالص ریاکاری پر مبنی اور غیراللہ کے واسطے ہو اس کا انجام کیا ہوگا؟
اس بابت بہت سارے نصوص ہیں مگر سب کا احاطہ یہاں مشکل ہے ، آخر میں ریاکاری
کی خطرناکی سے متعلق ایک طویل حدیث کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں جو اس باب
میں خصوصا علماء کے لئے انتہائی قابل فکر ہے ۔ صحیح مسلم میں (4923) نمبر
حدیث ہے ۔ ناتل بن قیس خرامی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھتے ہیں اے شیخ!
مجھ سے ایک حدیث بیان کر جو تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی
ہو۔ترمذی(2382) میں شفیا اصبحی کا بیان ہےمیں آپ سے اللہ کا باربار واسطہ
دے کر پوچھ رہا ہوں کہ آپ مجھ سے ایسی حدیث بیان کیجئے جسے آپ نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو اور اسے اچھی طرح جانا اور سمجھا ہو۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ نے فرمایا: ٹھیک ہے، یقیناً میں تم سے ایسی حدیث
بیان کروں گا جسے مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے اور
میں نے اسے اچھی طرح جانا اور سمجھا ہے۔ پھر ابوہریرہ نے زور کی چیخ ماری
اور بیہوش ہو گئے یعنی اس حدیث کو بیان کرنے سے پہلے تین مرتبہ چیخ مار کر
بیہوش ہوگئے پھرحدیث بیان کی ۔ اندازہ لگائیں آج اس حدیث کو سن کر ہماری
کیا حالت ہونی چاہئے؟
اختصار سے حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن جب ہر امت گھٹنوں کے بل پڑی ہو گی تو
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کے لیے نزول فرمائے گا، پھر اس وقت
فیصلہ کے لیے سب سے پہلے ایسے شخص کو بلایا جائے گا جو قرآن کا حافظ یعنی
دین کا عالم ہو گا، دوسرا شہید ہو گا اور تیسرا مالدار ہو گا۔ حافظ شہرت کے
لئے قرآن کا علم حاصل کیا ہوگا، شہید شہرت کے لئے شہیدہوا ہوگا اور مالدار
شہرت کے لئے مال خرچ کیا ہوگا، ان کے اعمال میں ریاکاری ہوگی اخلاص نہیں
ہوگا جس کی وجہ سے اللہ کہے گا کہ ان لوگوں کو منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں
پھینک دو۔ اعاذنا اللہ من النار
یہ حدیث رونگٹے کھڑے کردینے والی ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عمل خواہ
کتنا ہی بڑا اور کتنا زیادہ کیوں نہ ہو اللہ کے یہاں کوئی وزن نہیں رکھے گا
اگر اس میں ریاکاری اور شہرت ہو بلکہ الٹا ریاکاری کے طور پر کیا گیا عمل
وبال جان ہوگا اور ایسی نیکی سے جنت ملنے کی بجائے جہنم میں منہ کے بل
گھسیٹ کر ڈالا جائے گا۔ اسی پس منظر میں قرآن کی یہ آیت ہے ، اللہ کا فرمان
ہے :
مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ
أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ،أُولَٰئِكَ الَّذِينَ
لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ
وَحَبِطَمَاصَنَعُوافِيهَاوَبَاطِلٌمَّاكَانُوايَعْمَلُونَ (هود:15-16)
ترجمہ: جو شخص دنیاوی زندگی اور اس کی زیب و زینت کو چاہے گا تو ہم دنیا ہی
میں اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے دیں گے اور کوئی کمی نہیں کریں گے،
یہ وہی لوگ ہیں جن کا آخرت میں جہنم کے علاوہ اور کوئی حصہ نہیں ہے اور
دنیا کے اندر ہی ان کے سارے اعمال ضائع اور باطل ہو گئے۔
ریاکارمنافق کی طرح خود کو بہت چالاک و زیرک سمجھتا ہے اور وقتی طور پر
انسانوں کو دھوکہ دے کر بہت خوش ہوتا ہےکیونکہ ریاکاری سے اس کی چاہت پوری
اور مقصود حاصل ہورہاہوتا ہے۔ وہ یہ بھول رہا ہوتا ہے کہ سینوں کا بھید
جاننے والا اس کے عمل سے باخبر ہے اور آخرت میں اس کی ریاکاریوں سے پردہ
اٹھانے والا اور لوگوں کے سامنے ذلیل ورسوا کرنے والا ہے، نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کا فرمان ہے : مَن سَمَّعَ سَمَّعَ اللَّهُ به، ومَن يُرائِي
يُرائِي اللَّهُ بهِ(صحيح البخاري:6499)
ترجمہ:(کسی نیک کام کے نتیجہ میں) جو شہرت کا طالب ہو اللہ تعالیٰ اس کی
بدنیتی قیامت کے دن سب کو سنا دے گا۔ اسی طرح جو کوئی لوگوں کو دکھانے کے
لیے نیک کام کرے گا اللہ بھی قیامت کے دن اس کو سب لوگوں کو دکھلا دے گا۔
ریاکاری کا بھیانک انجام جان لینے کے بعد ہمیں اس سے بچنے کی فکر کرنی
چاہئے اور یقینا مومن برے انجام سے ڈرتا اور ایسے عملوں سے بچتا ہے جس کا
انجام برا ہے ۔ ہمیں اس بات کی ہمیشہ فکر ہو کہ انسانوں کو دھوکہ دے کراللہ
سے چھپا نہیں سکتے اور اللہ کے ساتھ مکر کرکے اس سے بھاگ نہیں سکتے ۔وہ
ہرلمحہ ہمیں دیکھ رہاہے،مرکر اسی کی طرف جانا ہے اور ایک دن اس کا سامنا
کرنا ہے۔ اسی طرح ہمیں چاہئے کہ اپنے عملوں کو جس قدر ممکن ہوسکے مخفی
رکھیں اور مخفی طورپر عمل کرنے کی کوشش کریں جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کا فرمان ہے : مَنِ استطاعَ منكم أنْ يكونَ لَهُ خَبْءٌ مِنْ
عمَلٍ صالِحٍ فلْيَفْعَلْ(صحيح الجامع:6018)
ترجمہ:تم میں سے جو اپنے اعمال صالحہ کو چھپانے کی طاقت رکھتا ہے وہ چھپائے
یعنی اپنے نیک عملوں کو دوسروں سے چھپانے کی کوشش کرے۔
ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے عمل میں اخلاص کی دعا کرے اور اس دعا کا التزام
کرے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
يا أيها الناسُ ! اتَّقوا هذا الشِّركَ ؛فإنه أخفى من دبيبِ النَّملِ .فقال
له من شاء اللهُ أن يقولَ :وكيف نتَّقِيه وهو أخفى من دبيبِ النَّملِ يا
رسولَ اللهِ! قال: قولوا : اللهم إنا نعوذُ بك من أن نُشرِكَ بك شيئًا
نعلَمُه ، و نستغفرُك لما لا نعلمُه(صحيح الترغيب:36)
ترجمہ :اے لوگو ! اس شرک سے بچ جاؤ کیونکہ یہ چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ
پوشیدہ ہےتو صحابہ نے آپﷺ سے پوچھایا رسول اللہﷺ اگر یہ چیونٹی کے ریگنے کی
آواز سے بھی زیادہ مخفی ہے تو ہم اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا یہ
دعا کیا کرو: "اللهم إنا نعوذُ بك من أن نُشرِكَ بك شيئًا نعلَمُه،و
نستغفرُك لما لا نعلمُه "یا اللہ ہم اس بات سے تیری پناہ میں آتے ہیں کہ ہم
جانتے بوجھتے کسی کو تیرا شریک ٹھہرائیں اور لا علمی میں ہونے والی خطاؤں
سے تجھ سے بخشش کے طلب گار ہیں۔
|