’’ویلنٹائن ڈے ‘‘ تاریخ کے آئینے میں

ہر تہوار چاہے اس کا تعلق مذہب سے ہو یا ثقافت سے ،اس کا ایک تاریخی پس منظر ہوتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے بھی ایک کھوکھلی تاریخ رکھتا ہے مگر اس تاریخ سے قطع نظر،یہ ’’دن‘‘ اب مغرب میں محبت کے اظہار،بے قرار دلوں کے قرار اورمچلتے ہوئے جذبوں کے لیے گردو غبار کا دن بن گیاہے۔ مغرب خاندان کے ادارے سے محروم ہوچکا ہے، یہ ادارہ چونکہ خوشیوں کے تمام خوشوں کا اصل مرکز ہوتا ہے، اس لیے اس ادارے کے ٹوٹنے سے مغرب کی تمام خوشیاں چند بے ہودہ رسموں ،فرسودہ تہواروں، بے حقیقت دنوں اور ہنگاموں تک محدود ہوگئی ہیں۔اس کے برعکس مشرق میں خاندانی نظام قائم ہے جس کی وجہ سے ہر گھر خوشیوں کا گہوارہ بنا ہوا ہے۔ ہر گھر میں قہقہے چھوٹتے اور خوشی کے شگوفے پھوٹتے ہیں۔ اسی لیے ہماری تہذیب میں خاص ’’خوشیوں کے دن‘‘بہت کم ہیں۔

مسرت بھی عبادت بھی:
اسلامی تہذیب میں خوشیا ں بھی عبادت میں شامل ہیں۔ خوشیاں منانا،خوشیوں کا اہتمام کرنا ،خود خوش رہنا اور دوسرے کو خوش رکھنا،کسی سے ملاقات کے وقت اس سے مسکراکر ملنا ،معصوم بچوں کو دیکھ کر انہیں بے تابانہ گود میں لے لینا، ان سے محبت کرنا ،شفقت سے ان کا بوسہ لینا،خوشی کے وہ مظاہرہیں جن کے نمونے روزانہ گلیوں ،بازاروں اور محلوں میں نظر آتے ہیں۔اگرچہ اسلام میں بھی خوشیاں اور تہوار زندگی کا حصہ ہیں مگر اسلامی تہذیب نے ان خوشیوں کے آغاز کو بھی اﷲ کی یاد ،عبادت اورسجدۂ شکر سے جوڑدیا ہے۔ اسی لیے مسلمانوں کے دو عظیم تہوار عید الفطر اور عید الاضحی کا آغاز، سجدۂ شکر سے ہوتا ہے۔ یہ سجدہ اس بات کا اعلان ہے کہ خوشی کے اس موقع پر بھی میں نفس کے قابو میں نہیں ہوں اور اپنے رب کے دروازے پر حاضر ہوں۔ یہ حاضری اور حضوری اس بات کا وعدہ، اس عہد کا اعادہ اور اس یقین کا اظہار ہے کہ میں خوشی کے بے پناہ خوشے چننے کے باوجود بھی اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑوں گا۔ وہ کام نہ کروں گا جو میرے مالک کو ناپسند ہے۔ یہ عہدوپیمان ہماری خوشیوں ،تہواروں اور نئے موسموں میں سادگی،متانت، سنجیدگی، بردباری اور میانہ روی کے رنگ گھولتاہے ۔

اصلی اور نقلی خوشی:
اچھے دنوں میں اچھے لوگوں کو یاد کرنا،ان لوگوں کو یاد کرناجن سے درد کے رشتے بندھے ہوئے ہیں ،ان دنوں کو یاد کرنا جن کی یاد دل کو بے چین کردیتی ہے اوران چہروں کو یاد کرنا جن سے مل کر دل کی کلی کھل جاتی ہے ۔ان رفیقوں ،ساتھیوں اورہم سفروں کو یاد کرنا جن کی یادوں کے عکس آج بھی موسم بہار کے گلاب کی طرح تاز ہ ہیں اور ان پر شبنم کے موتی اس طرح چمک رہے ہیں جس طرح بہار کی پہلی صبح فاختہ کی چونچ کے اوپر شبنم کا موتی ٹھہرگیاہو اور صرف تتلی کو چمکتاہوا نظر آرہا ہو۔خوشیاں کون نہیں مناتا اور یہ کسے اچھی نہیں لگتیں جب ہرسو خوشی کا عالم ہو تو ایسا منظر کس کو بُرا لگتاہے مگر مسرت اور بے حیائی ،شوخی اور پھکڑپن،خوشی اور بازاری پن میں بے پناہ فاصلہ ہے۔

خوشی کے جذبات کے اظہار کا مطلب یہ تو نہیں کہ دوسروں کے جذبات مشتعل اور مجروح کردیے جائیں۔ سرمستی اور سرشاری میں بہت فاصلہ ہے۔ ان فاصلوں کو بر قرار رکھنا ہی تہذیب کا حسن اور تمدن کا کمال ہے۔ زندگی نہ بھڑک اٹھنے کا نہ بجھ جانے کا نام ہے بلکہ زندگی سلگتے رہنے کا نام ہے۔

عریانی کا خود کاشتہ پودا:
ویلنٹائن ڈے کے موقع پر اخبارات میں نوجوانوں،بوڑھوں،بچوں کے جو جذبات شائع ہوتے ہیں، ان پیغامات میں ہماری اقدار بدلتے ہوئے معاشرتی رویے،فرد کی بے چارگی ، رسم ورواج کے نام پر فطری جذبات کچلنے کی روایت،زندگی کو زندگی کے بجائے قید خانے میں تبدیل کرنے کا عمل ،قربتوں،فاصلوں،ہجر و وصال کے موسموں کی کہانیاں،ملنے اور بچھڑنے ،بچھڑ کرہمیشہ کے لیے بچھڑجانے کی کہانی،ٹوٹے ہوئے دلوں کے نغمے،روتی ہوئی آنکھوں کے آنسو،غرض دنیا بھر کے سلسلے ان پیغامات میں موجزن ہوتے ہیں۔ان پیغامات پرخوشی یا مشتعل ہونے کی بجائے ہمیں اپنی طرز حیات ،معاشرے اورمعاشرتی رویوں کا بغور جائزہ لینا ہوگا۔محبت بذات خود جرم ہے نہ محبت کا اظہار مگر اس محبت کو نکاح کے روحانی اور نورانی پیکر میں ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔’’ویلنٹائن ڈے‘‘ خوشی کے نام پر ایک ایسا خود کاشتہ پودا ہے جسے فحاشی،عریانی کے جلومیں مادر پدر آزاد مغربی تہذیب نے سینچا ہے۔ اسے مشرق کی سر زمین میں جگہ دینا اپنی تہذیب و ثقافت پر عدم اعتماد کی علامت ہے۔ مشرقی اور اسلامی تہذیب کے پاس خوشیوں کے اوربہت سے دن ہیں۔ اس مانگے تانگے کی ثقافت کی کیا ضرورت ……! جس کے ’’وجود‘‘ سے مغرب کی برہنہ تہذیب امڈتی چلی آتی ہے ۔ آئیے !اب ویلنٹائن ڈے کی تاریخ کی طرف چلتے ہیں۔

بے شرمی کی تاریخ:
اس کے متعلق جو روایت سامنے آتی ہے وہ صرف انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کی ہے جس میں لکھا ہے:
ویلنٹائن ڈے کے بارے میں سب سے پہلی روایت روم میں قبل مسیح کے دور سے ملتی ہے۔ جب روم کے بت پرست مشرکین15 فروری کو جشن مناتے تھے جو Feast of the wolf یا Feas of Lupercaoius کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ جشن وہ اپنے دیوی دیوتاؤں کے اعزاز میں انھیں خوش کرنے کے لیے مناتے تھے ۔ ان دیوی دیوتاؤں میںPan(فطرت کا دیوتا) Februata Jano(عورتوں اور شادی کی دیوی) Pastoral gol Lupercalius(رومی دیوتا جس کے کئی دیویوں کے ساتھ عشق و محبت کے تعلقات تھے) شامل ہیں۔ اس موقع پر ایک برتن میں تمام نوجوان لڑکوں کے نام لکھ کر ڈالے جاتے تھے جس میں سے تمام لڑکے باری باری ایک پرچی اٹھاتے اور اس طرح قرعہ اندازی کے ذریعے منتخب ہونے والی لڑکی اس لڑکے کی ایک دن ، ایک سال یا تمام عمر کی ساتھی(Sexual Companion) قرار پاتی۔ یہ دونوں محبت کے اظہار کے طور پر آپس میں تحفے تحائف کا تبا دلہ کرتے اور بعض اوقات شادی بھی کر لیتے تھے۔

اسی طرح ویلنٹائن کارڈز پر دکھائے جانے والے نیم برہنہ اور تیر کمان اٹھائے ہوئے، ’’کیوپڈ‘‘ (Cupid) اس کی تصویر بھی ویلنٹائن کی خصوصی علامت ہے اور رومن عقیدے کی رو سے وینس (محبت اور خوب صورتی کی دیوی) کا بیٹا ہے جو کہ لوگوں کو اپنے تیر سے نشانہ لگا کر محبت میں مبتلا کردیتا ہے۔

عیسائیت کا اثر:
جب روم میں عیسائیت منظر عام پر آئی تو عیسائیوں نے اس جشن کو اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی ۔ اس مقصد کے لیے 14فروری کی تاریخ کا انتخاب کیا گیا جس دن رومیوں نے ایک عیسائی پادری’’ ویلنٹائن‘‘ کو سزائے موت دی تھی۔ واقعہ یوں ہے کہ رومی بادشاہ Claudius-II کے عہد میں روم کی سر زمین مسلسل کشت و خون کی وجہ سے جنگوں کا مرکز بنی رہی اور یہ عالم ہوگیا کہ ایک وقت میں Claudius کو اپنی فوج کے لیے مردوں کی تعداد بہت کم نظر آئی، جس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ روم کے نوجوان اپنی بیویوں کو چھوڑ کر پردیس لڑنے کے لیے جانا پسند نہیں کرتے تھے۔ بادشاہ نے اس کا حل یہ نکالا کہ ایک خاص عرصے کے لیے شادیوں پر پابندی عائد کردی تاکہ نوجوانوں کو فوج میں آنے کے لیے آمادہ کیا جائے۔ اس موقع پر ایک پادری ’’سینٹ ویلنٹائن‘‘ نے خفیہ طور پرنوجوانوں کی شادی کروانے کا اہتمام کیا۔ جب یہ راز فاش ہوا تو بادشاہ Claudiusکے حکم پر سینٹ ویلنٹائن کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال کر سزائے موت کا حکم سنا دیا گیا ۔ جیل میں یہ پادری جیلر کی بیٹی کو دل دے بیٹھا جو روزانہ اس سے ملنے آیا کرتی تھی۔ لیکن یہ ایک راز تھا کیونکہ عیسائی قوانین کے مطابق پادریوں اور راہبوں کے لیے شادی یا محبت کرنا ممنوع تھا ۔ اس کے باوجود عیسائی ویلنٹائن کی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ جب رومی بادشاہ نے اسے پیشکش کی کہ اگر وہ عیسائیت کو چھوڑ کر رومی خداؤں کی عبادت کرے تو اسے معاف کردیا جائے گا۔ بادشاہ اسے اپنی قربت دے گا اور اپنی بیٹی سے اس کی شادی بھی کردے گا لیکن اس نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکار کردیا۔ جس کے نتیجے میں اسے رومی جشن سے ا یک دن پہلے ۱۴ فروری ۲۷۰ ء کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ مرنے سے پہلے اس نے جیلر کی بیٹی کو ایک خط لکھا جس کا خاتمہFrom Your Valentine‘‘ کے الفاظ سے کیا۔
بہت سے ویلنٹائن کارڈز پر لکھے جانے والے Greetingsکے الفاظ From Your Valentine‘‘ اسی واقعے کی یاد تازہ کر نے کے لیے ہیں۔

ویلنٹائن کے نام سے کم از کم تین مختلف پادری ہیں اور تمام کی ’’موت‘‘ کا دن ۱۴ فروری ہے۔۴۹۶ء میں یورپ Gelasius نے سرکاری طور پر ۱۵ فروری کے رومی فیسٹول Lupercaliaکو بدل کر ۱۴ فروری کو سینٹ ویلنٹائن ڈے منانے کا اعلان کیا اور لاٹری کے ذریعہ لڑکی کے انتخاب کی رومی رسم میں یہ رد و بدل کیا کہ پرچی میں نوجوان لڑکی کے نام کی بجائے عیسائی پادریوں کے نام لکھے جاتے اور تمام مرد اور عورتیں ایک ایک پرچی اٹھاتے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ہر مرد یا عورت جس عیسائی پادری کے نام کی پرچی اٹھاتا اسے اگلے سال تک اسی پادری کے طور طریقوں کو اپنانا ہوتا تھا۔ Œ
ایک عیسائی پادری ’’ویلنٹائن‘‘کے حوالے سے منایا جانے والا یہ دن اس ’’یوم‘‘کی تاریخ ، تہوار،رسوم ورواج، تحریف درتحریف کے عمل سے گزرکر تاریخ میں ایسی شرمناک شکل اختیار کرچکا ہے جس کی عملی،عقلی، فکری بنیادیں ابھی تک مغرب بھی تلاش کررہاہے۔

’’ ویلنٹائن ڈے‘‘کی تاریخ ہمیں روایات کے انبارتلے دبی ملتی ہے۔ روایات کے یہ دفتر ’’اسرائیلیا ت‘‘ سے بھی بدتردرجے کی چیز ہیں،جہاں تک ویلنٹائن کا تعلق ہے جس کے نام سے یہ دن منسوب کیا گیا ہے تو اصل حقیقت یہی ہے کہ کوئی مستند روایت اس کے متعلق نہیں ہے، یہاں تک کہ اس نام کے بھی کئی ایک سے زائد افراد کا ذکر ہے جس سے مختلف روایات منسوب ہیں۔

لوگوں نے اپنے سفلی جذبات کی تسکین کے لیے سینٹ ویلنٹائن کے حوالے سے کیا کچھ تخلیق کیا؟ اس کی ہلکی سی جھلک درج ذیل روایتوں میں بیان ہوئی ہے جس کا مطالعہ مغربی تہذیب میں بے حیائی،بے شرمی کی تاریخ کے آغاز کا اشارہ دیتاہے ۔

محبت کا دیوتاحسن کی دیوی
’’ویلنٹائن ڈے‘‘کے آغاز کے بارے مختلف باتیں زبان زد عام ہیں۔بعض کے نزدیک یہ وہ دن ہے جب سینٹ ویلنٹائن نے روزہ رکھا تھا اور لوگوں نے اسے محبت کا دیوتا مان کر یہ دن اسی کے نام کردیا۔کئی شرکیہ عقائد کے حامل لوگ، اسے یونانی کیوپڈ(محبت کے دیوتا)اور وینس(حسن کی دیوی) سے موسوم کرتے ہیں۔یہ لوگ کیوپڈ کو ویلنٹائن ڈے کا مرکزی کردار کہتے ہیں جو اپنی محبت کے زہر بجھے تیر نوجوان دلوں پر چلاکرانہیں گھائل کرتا تھا۔ تاریخی شواہد کے مطابق ویلنٹائن کے آغاز کے آثار قدیم رومن تہذیب کے عروج کے زمانے سے چلے آرہے ہیں۔‘‘

جشنِ زرخیزی:
14فروری کا دن رومن دیوی دیوتاؤں کی ملکہ ’’جونو‘‘کی یاد میں یوم تعطیل کے طورپر منایا جاتاتھا۔اہل روم ملکہ جونو کو صنف نازک اور شادی کی دیوی کے نام سے موسوم کرتے تھے جب کہ 15فروری’’ لیوپرکس‘‘ دیوتا کا دن مشہور تھا اور اس دن اہل روم جشن زرخیزی مناتے تھے ۔اس موقع پر وہ پورے روم میں رنگا رنگ میلوں کا اہتمام ہوتا تھا اورجشن کی سب سے مشہور چیز نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے نام نکالنے کی رسم تھی۔اس رسم میں لڑکیوں کے نام لکھ کرایک برتن میں ڈال دیے جاتے اور وہاں موجود نوجوان اس میں سے باری باری پرچی نکالتے اور پھر پرچی پرجس لڑکی کا نام لکھا ہوتا تھا وہ لڑکی جشن کے اختتام تک اس نوجوان کی ساتھی بن جا تی ۔‘‘یوں اُن دونوں کو شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا۔

خفیہ شادیاں:
ایک دوسری روایت کے مطابق شہنشاہ کلاڈلیس دوم کے عہد میں روم کی سرزمین مسلسل جنگوں کی وجہ سے کشت وخون اور جنگوں کا مرکز بنی رہی۔ ایک وقت کلاڈلیس کی اپنی فوج کے لیے مردوں کی بہت کم تعداد میسر آئی۔ جس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ روم کے نوجوان اپنی بیویوں اور ہم سفروں کو چھوڑ کر پردیس لڑنے کے لیے جانا پسند نہ کرتے تھے۔ اس کا شہنشاہ کلاڈلیس نے یہ حل نکالا کہ ایک خاص عرصے کے لیے شادیوں پر پابندی عائد کردی تاکہ نوجوانوں کو فوج میں شمولیت کے لیے آمادہ کیا جائے، اس موقع پر سینٹ ویلنٹائن نے سینٹ ماربس کے ساتھ مل کر خفیہ طور پر نوجوان جوڑوں کی شادی کروانے کا اہتمام کیا، ان کا یہ کام چھپ نہ سکا۔ شہنشاہ کلاڈلیس کے حکم پر سینٹ ویلنٹائن کو گرفتار کرلیاگیا اور اذیتیں دے کر 14فروری270ء کو (بعض روایتوں کے مطابق 269ء میں) قتل کردیا گیا، اس طرح 14فروری سینٹ ویلنٹائن کی موت کے باعث اہل روم کے لیے معتبر ومحترم دن قرار پاگیا ۔‘‘

محبت کا شہید:
14فرو ری اور ویلنٹائن کے متعلق ایک روایت یہ بھی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں روم میں ویلنٹائن نام کا ایک پادری ، ایک راہبہ(Nun) کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہوگیا۔ چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لیے نکاح ممنوع تھا، اس لیے ایک دن ویلنٹائن نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لیے اسے بتایا کہ اسے خواب میں یہ بتایا گیا ہے کہ ۱۴ فروری کا دن ایسا ہے کہ اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ جسمانی تعلقات بھی قائم کر لیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا۔ راہبہ نے اس پر یقین کر لیا اور دونوں جوش عشق میں سب کچھ کر گزرے۔

کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا جو عموماً ہوا کرتا ہے یعنی ان دونوں کو قتل کر دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد چند لوگوں نے انھیں محبت کا شہید جان کر عقیدت کا اظہارکیا اور ان کی یاد میں یہ دن منانا شروع کردیا۔

ایک اور ویلنٹائن:
ایک روایت یہ بھی ہے کہ:
سینٹ ویلنٹائن نام کا ایک معتبر شخص برطانیہ میں بھی تھا۔یہ بشپ آف ٹیرنی تھا جسے عیسائیت پر ایمان کے جرم میں 14فروری کو پھانسی دے دی گئی تھی۔ کہاجاتاہے کہ قید کے دوران بشپ کو جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی اور وہ اسے محبت بھرے خطوط لکھا کرتاتھا۔ اس مذہبی شخصیت کے ان محبت ناموں کو ’’ویلنٹائن‘‘ کہاجاتا ہے ۔چوتھی صدی عیسوی تک اس دن کو تعزیتی انداز میں منایا جاتا تھا لیکن رفتہ رفتہ اس دن کو محبت کی یادگار کا رتبہ حاصل ہوگیا اور برطانیہ میں اپنے منتخب محبوب اور محبوبہ کو اس دن محبت بھرے خطوط ’’پیغامات‘‘ کا رڈز اور سرخ گلاب بھیجنے کا رواج پاگیا۔‘‘

برطانیہ سے رواج پانے والے اس دن کوبعد میں امریکا اورجرمنی میں بھی منایا جانے لگا تاہم جرمنی میں دوسری جنگ عظیم تک یہ دن منانے کی روایت نہیں تھی۔ برطانوی کاؤنٹی ویلز میں لکڑی کے چمچ14فروری کو تحفے کے طور پر دیے جانے کے لیے تراشے جاتے اور خوب صورتی کے لیے ان کے اوپر دل اور چابیاں لگائی جاتی تھیں جو تحفہ وصول کرنے والے کے لیے اس بات کا اشارہ ہوتیں کہ ’’تم میرے بند دل کو اپنی محبت کی چابی سے کھول سکتے ہو۔‘‘جیسے جیسے یہ دن گزرتا گیا سال بہ سال اس میں مختلف قسم کے افعال، رسومات اور رجحانات بھی شامل ہوتے رہے۔ ایسے ہی یہ دن چند توہمات کا بھی شکار ہوگیا، مثلاً

توہمات:
کچھ لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے کواگر کوئی چڑیا کسی عورت کے سر پر سے گزر جائے تو اس کی شادی ملاح سے ہوتی ہے۔ اگر عورت کوئی چڑیا دیکھ لے تو اس کی شادی کسی غریب آدمی سے ہوتی ہے، جب کہ زندگی بھی خوش گزرے گی اور اگر عورت ویلنٹائن ڈے پر کسی سنہرے پرندے کو دیکھ لے تو اس کی شادی کسی امیر کبیر شخص سے ہوگی اور زندگی ناخوش گزرے گی۔امریکا میں روایت مشہور ہے کہ:
’’14فروری کو وہ لڑکے اور لڑکیاں جو آپس میں شادی کرنا چاہتے ہیں سٹیم ہاؤس جاکر ڈانس کریں اور ایک دوسرے کے نام دہرائیں جونہی رقص کا عمل ختم ہوگا اور جو آخری نام ان کے لبوں پر ہوگااس سے ہی اس کی شادی قرار پائے گی۔‘‘

زمانہ قدیم سے مغربی ممالک میں یہ دل چسپ روایت بھی زبان زد عام ہے کہ اگر آپ اس بات کے خواہش مند ہیں کہ یہ جان سکیں کہ آپ کی کتنی اولاد ہوگی توویلنٹائن ڈے پر ایک سیب درمیان سے کاٹیں۔پھر کٹے ہوئے سیب کے آدھے حصے پر جتنے بیج ہوں گے اتنے ہی آپ کے بچے پیداہوں گے۔اٹلی میں غیر شادی شدہ خواتین سورج نکلنے سے پہلے کھڑکی میں کھڑ ی ہوجاتی ہیں اور جو پہلا مرد ان کے سامنے سے گزرتا ہے ان کے عقیدے کے مطابق وہ ان کا ہونے والا خاوند ہوتاہے۔

ویلنٹائن ڈے پر مبارک بادی کا رڈ کا رواج :
تحریری طور پر ویلنٹائن کی مبارک باد دینے کا رواج 14ویں صدی عیسوی میں ہوا۔ابتدا میں رنگین کاغذوں پر واٹر کلر اور رنگین روشنائی سے کام لیا جاتاتھا جس کی مشہور اقسام کروسٹک ویلنٹائن، کٹ آؤٹ اور پرل پرس ویلنٹائن کارخانوں میں بننے لگے۔ 19صدی کے آغاز پر ویلنٹائن کارڈزبھیجنے کی روایت باقاعدہ طور پر پڑی جو اَب مستقل حیثیت اختیار کرچکی۔‘‘

ان روایتوں کے سرسری مطالعے سے یہی اندازہ ہوتاہے کہ لوگوں نے اپنی خوابیدہ تمناؤں کو لفظوں کے کوزے میں کفنا دیا ہے۔ انسانی جذبات کی ناکامیاں،محرومیاں،زندگی کے اداس لمحے، کچلی ہوئی خواہشات ،دبے ہوئے ارمان، جنہیں معاشرے کی غلط رسوم ورواج کے باعث فطری نشوونما،ارتقاء اور اظہار کا موقع نہیں ملا۔ اس معاشرے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کے پیر ہن میں اپنی تمام شرارتیں لے کر سماگئے ہیں۔ جن معاشروں میں انسانی جذبات کا احترام نہ ہو،انسان کے فطری مطالبات کو شائستہ اور شریفانہ طریقے سے پورا کرنے کا کوئی نظام نہ ہو اور زندگی میں حرکت، حرارت، مسرت، خوشیاں چند مخصوص لوگوں کا مقدر بن جائیں تو بغاوت مذہبی شخصیات کے مقدس ایام کے لبادے میں اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ ’’سینٹ ویلنٹائن‘‘ زندہ ہوتا تو وہ بھی اپنے نام پر ہونے والے ان جرائم کو دیکھتے ہی شرم سے پانی پانی ہو جاتا۔

ویلنٹائن کی تعداد:
تاریخ کے مطابق ویلنٹائن نام کے تین سینٹ ہوگزرے ہیں، ان تینوں میں سے دو کے تیسری صدی عیسوی میں سرقلم کردیے گئے تھے۔ ان میں سے کسی کا تعلق ایسی کسی تقریب سے نہ تھا،نہ ہی ان میں سے کوئی دنی وی محبت کے جذبے سے ہی آشنا تھا۔ ’’اکانومسٹ‘‘کی ایک رپورٹ کے مطابق ویلنٹائن ڈے بہار کی آمد پر پرندوں کی مسرت کے اظہار کی علامت ہے۔

انگریزی میں ویلنٹائن پر سب سے پہلی نظم چوسر نے (1382ء میں) ’’پارلیمنٹ آف فاؤلز‘‘ کے زیر عنوان لکھی تھی ۔ اس میں انسانوں سے کہا گیا ہے وہ اپنی جنس تبدیل کرنے کے لیے کسی نہ کسی پرندے کا انتخاب کریں۔ علم الانسان کے کئی ماہرین کے خیال میں یہ دن سردی کے خاتمے پر منایا جاتاتھا اور لوگ بکرے کی کھال اوڑھ کر ہر اس عورت پرپل پڑتے تھے جو انہیں نظر آتی تھی۔

اس تناظر میں ہم سوچتے ہیں کہ کیا ’’یوم ویلنٹائن‘‘ ایک مقدس دن کے طور پر طلوع ہوتاہے؟ وہ تین اشخاص جن کا نام ویلنٹائن تھا اپنے دین پر چلنے کے جرم میں قتل کردیے گئے؟ ان کی قربانی کیا اس دن کے لیے تھی کہ عیسائی اور مغربی دنیا ان کے لہو سے اپنے دلوں کی جلن کو مٹاڈالے؟ مغربی تاریخ میں قرون وسطیٰ کی ایک اور تقریب سینٹ اوسوالڈ کے نام سے موسوم ہے۔ اس روز 29فروری کو ہر چار سال بعد لیپ کے سال کے موقع پر عورتیں کھل کرسامنے آتی ہیں۔اگر لیپ کا سال نہ ہواور فروری کا مہینہ 28تاریخ کو ختم ہونے والا ہو تو وہ رومن کیتھولک چرچ میں جاکر سینٹ اوسوالڈ کی یاد میں عبادت کرتی ہیں۔ایک اور دن سینٹ جارج کی یاد میں 23اپریل کو منایا جاتا ہے جو شیکسپئیر کا یوم پیدائش بھی ہے۔اس روز گلابوں اور کتابوں کے تحفے دیے جاتے ہیں۔

بکری اور کتے کی قربانی:
ویلنٹائن ڈے 14فروری کو ہی کیوں منایا جاتاہے ؟ بعض مؤرخین اس کی وجوہات یوں بیان کرتے ہیں کہ فروری کا وسط اہل روم کے لیے زمانہ ٔ قدیم سے متبرک سمجھا جاتا تھا۔ 14فروری کو رومی موسم سرما اور گرما کا عین درمیان سمجھتے تھے۔ان کا عقیدہ یہ دوموسموں کے ملاپ کا دن ہے ،اس دن اہل روم گھروں کو خصوصی طور پر صاف کرتے تھے۔ پورے گھر میں نمک اور خاص قسم کی گندم، جسے ’’سپلٹ‘‘ کہا جاتا تھا، بکھیر دیتے تھے۔

گھروں میں خوشبودار اگربتیوں کو سلگایا جاتاتھا۔ اہل روم کا کہنا تھاکہ یہ زراعت کے دیوتا’’FAUNUS‘‘کا دن ہے ۔اہل شہر اس دن’’FAUNUS‘‘کے مقدس غار کے گرد جمع ہوجاتے ۔پادری مقدس دعائیں پڑھتے اور اس کے بعد ایک بکری کی قربانی اچھی فصلوں جب کہ ایک کتا روحانی درجات بلند کرنے کے لیے قربان کیا جاتا۔اس رسم کے بعد جوان لڑکے بکری کا سرباریک باریک کاٹ دیتے ،ان ٹکڑوں کو رسیوں سے باندھتے اور پھر انہیں بکرے اور کتے کے خون میں ڈبوتے۔ اس خون کو وہ مقدس خون کہتے تھے،بعد ازاں وہ ان رسیوں کو لے کر شہر اور کھیتوں میں پھر تے تھے۔ روم کی خواتین ان رسیوں کو بطور تبرک اپنے بدن سے مس کرتی تھیں۔

اہل روم کا خیال تھا یہ رسیاں شہر میں گھمانے سے شہر میں خوشحالی آئے گی،کھیتوں میں لے جانے سے فصلیں اچھی ہوں گی اور خواتین کو مس کرنے سے خواتین کے ہاں اچھی، صحت مند اور پاک باز اولاد پیداہوگی۔یہ روم کا قدیم تہوار تھا۔مورخین کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ تہوار بدلتا رہا یہاں تک کہ ویلنٹائن کا واقعہ پیش آیا اور اس تہوار نے ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کی شکل اختیار کرلی۔ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے ایک اور دل چسپ حقیقت بھی بیان کی جاتی ہے۔

جنسی اختلاط کا دن:
15فروری سے دنیا بھر میں پرندوں کے جنسی اختلاط کے دن شروع ہوتے ہیں ۔ ان نر اور مادہ پرندے ملاپ کرتے ہیں۔انڈے دیتے ہیں اور پھر پرندوں کے مادہ ان انڈوں پر بیٹھ جاتی ہے۔انگریزی میں اس موسم کو ’’میٹنگ سیزن‘‘ کہا جاتاہے ۔ٹھیک اس موسم میں ویلنٹائن ڈے منانے کی ایک وجہ یہ حقیقت بھی ہے۔مؤرخین یہ کہتے ہیں ویلنٹائن کہا کرتا تھا:
’’جس موسم میں پرندے آپس میں ملتے ہیں اس میں انسان ایک دوسرے سے کیوں دور رہیں……؟؟‘‘
لہٰذا اس نے روم کے نوجوانوں کی شادیاں ان ایام میں شروع کرائیں۔

تاریخ بتاتی ہے کہ اوّل اوّل یورپ میں یہ تہوارتو منا یا جاتا رہا لیکن زیادہ شہرت نہ پاسکا ۔1414ء میں ’’اینگ کوٹ‘‘ کے مقام پر جنگ ہوئی ۔اس جنگ میں ڈیوک آف آرینز کی بیوی گرفتار ہوگئی۔ملکہ کو ٹاور آف لند ن میں قید کردیا گیا ۔فروری 1415ء کو ڈیوک نے اپنی بیوی کے نام ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے ایک نظم لکھی۔ یہ نظم کا رڈ پر لکھوائی اور یہ کارڈ ٹاور آف لندن بھجوادیا۔یہ دنیا میں ویلنٹائن ڈے کا پہلا کارڈ تھا۔بعد ازاں برطانیہ کے بادشاہ ایڈورڈہفتم نے اس نظم کی موسیقی تیار کروائی ،یہ موسیقی برطانیہ کے موسیقار جان لیڈگیٹ نے ترتیب دی تھی۔ یہ ویلنٹائن ڈے کا گیت تھا۔ ملکہ وکٹوریہ نے ویلنٹائن ڈے پر کارڈ تقسیم کرنے شروع کیے۔ ملکہ ہر سال فروری کے دوسرے ہفتے کے آخری دن سوقیمتی اور خوشبودار کارڈ اپنے عزیز واقارب کو بھجواتی تھی ۔ملکہ کی پیروی میں دوسرے عمائدین نے بھی کارڈ بنوانے اور تقسیم کرنے شروع کردیے۔ یوں ویلنٹائن ڈے پر کارڈز بھجوانے کی رسم شروع ہوگئی۔

بھیڑ کی کھال میں لڑکیاں:
ویلنٹائن ڈے کے اس پس منظر سے آگاہی کے بعد یہ کہنا مشکل نہیں کہ یہ ایک مکمل عیسائی اور مغربی تہوار ہے اوراس تہوار کی کم ازکم ساٹھ مختلف قسمیں ہیں جن میں بے راہ روی کا سبق مشترک ہے۔ پانچ سوسال پہلے مذہب سے بے زار لوگوں نے ایک ایسی رسم کی داغ بیل ڈالی جو ان کے نزدیک مقدس اور ان کی نفسانی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بھی ہے۔

مقدس اس لیے کہ اہل روم اپنے دیوتا لیو پرکس کو خوش کرنے کے لیے ایک رسم ادا کرتے تھے۔اس رسم میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپناساتھی چنا کرتے تھے۔ طریقہ کار یہ ہوتا کہ لڑکیاں بھیڑ کی کھال میں خود کو چھپالیتی تھیں، لڑکے باری باری آتے، بیر کی چھڑی سے لڑکی کی پشت پر ہلکی سی ضرب لگاتے ،ضرب لگنے پر اگر لڑکی اپنی جگہ چھوڑ دیتی تو لڑکا اسے لے کر چلاجاتا اور اگر لڑکی جگہ نہ چھوڑتی تو لڑکا آگے بڑھ جاتا۔یہ رسم اس وقت ختم ہوتی جب آخری لڑکی بھی اپنی جگہ چھوڑ دیتی۔ اس دن کو ’’یوم محبت‘‘ اور رسم کو ’’سینٹ ویلنٹائن ڈے‘‘ کانام دیاگیا ۔

زانی پادری:
تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ روم کے جیل خانے میں ایک ایسے شخص کو مقید کردیاگیا جو راتوں کو لوگوں کے گھروں میں گھس کر عورتوں کے ساتھ زیادتی کیاکرتا تھا ۔اس قید ی کا نام پادری سینٹ ویلنٹائن تھا، جس کے نام سے اس تہوار کو منسوب کرکے شہرت دی گئی۔ جس جیل میں اسے قیدی بناکر رکھا گیا تھا اس جیل کے داروغہ کی بیٹی اپنے والدکو روزانہ کھانا دینے جیل آیا کرتی تھی۔ پادری نے کسی طریقے سے اس لڑکی کو اپنی طرف مائل کرلیا جس کے نتیجے میں اسے جیل سے رہائی نصیب ہوئی۔ اس نے کچھ عرصہ داروغہ کی بیٹی کے ساتھ گزارا اور ایک دن اسے چھوڑ کر ایسا غائب ہوا کہ کچھ سراغ نہ ملا۔
ان رسموں یا باتوں میں سے کس رسم یا بات کا اطلاق ٹھیک طرح سے سینٹ ویلنٹائن ڈے پر ہوتاہے اس کے بارے میں کوئی رہنمائی نہیں ملتی۔یورپ کے بعض ملکوں نے اس تہوار میں بڑھتی ہوئی فحاشی کو دیکھ کر اس تہوار پر مکمل پابندی عائد کردی تھی بلکہ ریاستی طاقت کے ذریعے اسے بالکل ختم کردیا تھا مگر برطانیہ کے بادشاہ چارلس دوئم نے نہ صرف اس تہوار کو دوبارہ شروع کیا تھابلکہ اس کی سرپرستی بھی کی۔

دولت کمانے کا ذریعہ:
یورپ کے بعد جب یہ تہوار امریکا پہنچا تو امریکی تاجروں نے اسے دولت کمانے کا بہترین ذریعہ بنا لیا۔ اس تہوار کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے انہوں نے اس میں طرح طرح کے رنگ بھرنے شروع کیے۔ جب لوگوں کی دل چسپی اس تہوار میں بڑھنے لگی تو ان تاجروں نے بھرپور طریقے سے مالی فوائد سمیٹنا شروع کردیے۔ ہزاروں ڈالرمالیت کے ویلنٹائن کارڈ جاری کردیے گئے، جس سے انہیں لاکھوں ڈالر کا منافع ملا۔تاجروں کی پرکشش ترغیبات کی وجہ سے منافعے کی رقم کروڑوں ڈالر تک پہنچ گئی ۔پاکستان میں چند سالوں کے دوران ویلنٹائن ڈے کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچانے میں انہی تاجروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ہاتھ ہے جو نت نئے طریقوں سے اس کی تشہیر کرتی ہیں اور بعد ازاں اپنی مصنوعات کی فروخت سے پیسہ کماتی ہیں۔

پاکستان میں ویلنٹائن ڈے:
پاکستان میں یہ تہوار برگرفیملیز، مختلف این جی اوز اور نام نہاد قلم کاروں کے ذریعے اپنے پاؤں پھیلانے کی کوششیں کررہاہے۔ اس کے علاوہ ہمارا الیکٹرونک میڈیا بھرپور طریقے سے اس کی تشہیر کررہاہے۔رہی پرنٹ میڈیا کی بات تو وہ بھی آہستہ آہستہ اسی نقش قدم پر چل رہا ہے۔ سینٹ ویلنٹائن ڈے کے بارے میں فضول دلائل کے ذریعے مسلمانوں کو قائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں کہ اس تہوار کو منانے میں دینی اعتبار سے کوئی حرج یا برائی نہیں ہے۔یقینا آزاد خیال لوگوں کے لیے اس تہوار میں اعتراض والی کوئی چیز نہیں ہے لیکن وہ اس حقیقت سے کیوں آنکھیں چراتے ہیں کہ اگراس تہوار میں کوئی برائی نہیں تھی تویورپ کے بعض ملکوں نے اس پر کیوں پابندی عائد کی تھی……!! کیایورپ و امریکا میں عیسائی قوم بھی اسی شان و شوکت سے مسلمانوں کا کوئی تہوار مناتی ہے؟ لازماً اس کا جواب نفی میں ہے۔

ہندؤوں نے سینٹ ویلنٹائن ڈے کا تہوار ہندوستان میں منانے کو اپنی ثقافت پر حملہ قرار دیا سوچیے! ایک غیر مسلم دوسرے غیر مسلم کے تہوار کو اپنی ثقافت کے لیے خطرہ قرار دے رہاہے اور ایک ہم ہیں کہ والہانہ انداز میں غیرمذہب کے تہوار کا خیر مقدم کررہے ہیں۔ مذہب سے قطع نظر اگر ذاتی حوالے سے دیکھیں تو بھی ایک شریف اور سنجیدہ شہری کے لیے یہ سوائے بے ہودگی کے کچھ نہیں ۔کیا کوئی غیرت مند اس بات کو برداشت کرے گا کہ کسی غیر مرد کا پیغام الفت اس کی بیوی ،بیٹی یا بہن کے لیے آئے یا وہ ٹی وی،ریڈیواور اخبارات کی زینت بنے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تہوار کے ذریعے ہماری اسلامی روایات کو تباہ اور معاشرتی اقدار کو برباد کرنے کی سازش ہورہی ہے۔ مغرب اور غیر مذاہب کے تہوار منانے کے یہ کون سے طریقے ہیں اور ان کی سرپرستی کیا معنی رکھتی ہے! سینٹ ویلنٹائن کی بے معنی اور غیر اخلاقی محبت کا پرچار کرنے والے اپنی تہذیب پر بدنما داغ ہیں۔ پاکیزہ جذبوں کے حوالے سے یورپ یا امریکا ہماری کیا رہنمائی کریں گے جو خود ان لطیف جذبوں سے ناآشنا اور گمراہیوں کے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔مسلمانوں میں بسنت جیسے ہندوانہ تہوار کے بعد عیسائی قوم کے پادری سینٹ ویلنٹائن کے مکروفریب پر مبنی داستان کو ہم پر زبردستی کیوں لادا جارہا ہے؟ قوم کو اس تہوار کی نسبت سے ناچ گانے اور عیش عشرت کے اندھے کنوئیں میں دھکیل کر آخر کن لوگوں کے عزائم کی تکمیل کی جارہی ہے۔
ویلنٹائن ڈے کے اس تاریخی پس منظر سے آگاہی کے بعد کوئی صاحب بصیرت انسان اس بات سے انکاری نہیں ہوسکتاہے کہ یہ یوم اوباشی کلی طور پر فحاشی، عریانی ،بے حیائی اور بد تہذیبی پر مبنی ہے۔ باعث افسوس ہے کہ اب مسلمان بھی اس بے حیا،بے شرم اور دوسروں کی بیٹیوں کی عزت پر ڈاکا ڈالنے والے عیسائی پادری کی روایات کو زندہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

جنسی بے راہ روی کا فروغ:
تاریخ ’’ویلنٹائن‘‘ کو محبت کا جذبہ رکھنے والا ایک بزرگ کہے یا بدکردار انسان ، یہ ایک الگ بحث ہے مگر یہ بات ایک اٹل حقیقت ہے کہ’’ویلنٹائن ڈے‘‘بے حیائی کو فروغ دینے کا باعث ہے۔ اس کا مقصد صرف اور صرف عورت اور مرد کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہے اور جنسی بے راہ روی کو محبت کا لبادہ پہنانا ہے ۔ایک مسلم معاشرہ اس بات کی قطعی طور پر اجازت نہیں دیتا کہ ایک مرد غیر عورت کو یا ایک عورت کسی غیر مرد کو پھول پیش کرے اور اس کے ساتھ اخلاقیات کی حدود عبور کرلے۔چاکلیٹ، کارڈز اور پھولوں کے تحفوں کے ساتھ ساتھ لو اسٹوریز پر مشتمل کتب اور فحش فلمیں ایک دوسر ے کو پیش کریں۔یہ رسومات اہل مغرب کے لیے تو ٹھیک اور بھلی ہیں مگر ہمارے معاشرے کے منہ پر ایک طمانچہ ہیں……!

 

Abdul Waris Sajid
About the Author: Abdul Waris Sajid Read More Articles by Abdul Waris Sajid: 53 Articles with 52226 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.