“میں نوکری کروں یا پھر گھر دیکھوں“ ملازمت پیشہ خواتین اپنے گھریلو مسائل کس طرح حل کرسکتی ہیں؟

image
 
“افف اتنا پھیلا ہوا ہے گھر اور کھانا بھی بنانا ہے“ صفیہ دفتر سے گھر آئی تو گھر کی بری حالت دیکھ کر چکرا کر رہ گئی۔ صفیہ اور اس کا شوہر دونوں ملازمت کرتے تھے جبکہ ان کی بیٹی ملازمہ کے پاس ہوتی تھی جسے سنبھالنے کے دوران وہ کوئی دوسرا کام نہیں کرپاتی تھی۔ زین صفیہ کے جانے کے بعد دفتر جاتا تھا اور اس کی عادت تھی کہ وہ سارا گھر پھیلا دیتا تھا یہاں تک کہ اپنا گیلا تولیہ بھی دھوپ میں ڈالنے کی زحمت نہیں کرتا تھا۔ صفیہ صبح دفتر جاتی تھی اور شام کو واپس آکر کھانا پکاتی اور ساتھ ساتھ پورے گھر کو بھی صاف ستھرا رکھتی تھی۔ اس کے علاوہ بچی جو ماں کے لئے ترس رہی ہوتی تھی اسے دیکھ کر بھی صفیہ کا دل کڑھتا تھا۔ اتنی محنت اور قربانیوں کے باوجود صفیہ کی زندگی میں سکون کی چند گھڑیاں نہیں تھیں۔ کم و بیش ہر ملازمت پیشہ عورت کی یہی کہانی ہے ۔ نیچے ہم ذکر کریں گے ان مشکل حالات کا جن کا سامنا تقریباً ہر نوکری پیشہ خاتون کو کرنا پڑتا ہے ۔
 
1۔ گھر داری میں کوئی رعایت نہیں برتی جاتی
کھانا پکانا ہر حال میں خاتون کی ذمے داری رہتا ہے۔ اگر مشترکہ خاندانی سسٹم ہو تو بھی کھانا بہو سے ہی پکوایا جاتا ہے بھلے وہ سارا دن کی تھکی ہوئی کیوں نہ ہو۔
 
2۔ بچے نظر انداز ہوتے ہیں
غریب ہو یا امیر ، بچے کو ہر حال میں ماں کی گود اور قربت چاہئیے ہوتی ہے ۔ جو نہ ملنے کی صورت میں بچوں میں ضد اور چڑچڑاپن آجاتا ہے ۔ دوسری طرف مائیں بھی بچوں سے لاڈ پیار کرنا چاہتی ہیں مگر وقت کی کمی کے باعث ایسا نہیں کر پاتیں۔
 
3۔ چھٹی والے دن بھی کوئی چھٹی نہیں
مرد پورا ہفتہ کام کریں تو چھٹی والا دن سو کر یا آرام کر کے گزارنا چاہتے ہیں اور ان کو یہ سہولت میسر آ بھی جاتی ہے- دوسری طرف خواتین کی چھٹی کے دن بھی کوئی چھٹی نہیں ملتی کیونکہ ان کو سارے ہفتے کے رکے ہوئے کام اسی دن نمٹانے ہوتے ہیں۔ اور اگر کوئی مہمان، خاص طور پر سسرال سے کوئی ملنے آجائے تو دعوت کا اہتمام لازمی کرنا پڑتا ہے۔
 
4۔ شوہر اور گھر والوں کی ناراضی
ظاہر ہے گھر اور نوکری کرتے ہوئی خاتون کے پاس اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ وہ سب کو برابر کا وقت دے سکے تو اس صورتِ حال میں اکثر شوہر صاحبان کا موڈ خراب ہوجاتا ہے اور وہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کی بیوی کو تو ان کا کوئی خیال ہی نہیں- اسی طرح بہن بھائی یا سسرالی عزیز بھی وقت نہ دینے کی وجہ سے ناراض رہتے ہیں۔
 
5۔ “کماتی ہے ، پیسے کی تو ریل پیل ہوگی“
ملازمت پیشہ خواتین کے بارے میں ایک عام خیال یہ ہے کہ ان کی ملازمت ان کی ضرورت نہیں بلکہ شوق ہے اس لئے وہ جو کماتی ہیں اپنی ذات پر اڑا دیتی ہیں۔ اس لئے گھر والے اور رشتے دار ان سے اکثر قرض اور مالی امداد کا مطالبہ کرتے ہیں اور پورا نہ ہونے کی صورت میں ناراض ہوجاتے ہیں۔ شادی بیاہ یا سالگرہ کے موقعوں پر بھی ان سے قیمتی تحائف کی توقع رکھی جاتی ہے۔
 
6۔ اپنے لئے وقت نہیں بچتا
گھر، نوکری، بچے اور خاندان نمٹاتے ہوئے اپنی ذات کہاں کھو جاتی ہے کچھ پتا ہی نہیں چلتا۔ ملازمت پیشہ خواتین کی ایک بڑی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ ان کے پاس اپنی تفریح، سکون اور مشاغل پورے کرنے کے لئے وقت نہیں رہتا۔
 
image
 
مسائل سے کیسے نمٹا جائے؟
1۔ ہر کام کے لئے وقت مقرر کریں
سب سے پہلے تو گھر اور نوکری کو دو حصوں میں بانٹ دیں۔ گھر کے مسائل دفتر اور دفتر کے مسائل گھر تک نہ لے کر جائیں۔ اس کے بعد ہر کام کا ایک وقت مقرر کریں کتنے بجے سونا ہے، جاگنا ہے اور بچوں کو کتنا وقت دینا ہے یہ ایک ٹائم ٹیبل بنا لیں اور اس پر عمل بھی کریں۔
 
2۔ چھٹی والے دن کو زیادہ سے زیادہ کارآمد بنائیں
ہفتے بھر کے کپڑے دھو کر استری کرلینا، ادرک لہسن اور دیگر مصالحے تیار کرلینا، گوشت دھو کر اور کچھ کھانے بنا کر فریز کرلینا یہ کچھ ایسے کام ہیں جو ہفتے کے ہفتے کر لیے جائیں تو باقی کے دنوں میں سہولت ہوجاتی ہے۔
 
3۔ گھر والوں سے مدد لیں
گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کے لئے گھر والوں سے مدد لینے میں کوئی برائی نہیں۔ لوگوں کو آپ کی محنت کا احساس ہونا چاہیے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ انھیں بھی تھوڑی تھوڑی زمے داریاں سونپیں۔ مثلاً کپڑے دھوتے ہوئے بہن یا نند کو مدد کے لئے کہا جاسکتا ہے اسی طرح بچوں کو اسکول چھوڑنے یا لانے کی زمے داری اپنے شوہر کو دی جاسکتی ہے۔ گھر والوں کو اس بات کا پابند بنائیں کہ اپنے کاموں کو وہ خود کرنے کی عادت ڈالیں جیسے اپنا کمرا سمیٹنا، ڈسٹنگ اور پودوں کو پانی دینا وغیرہ۔
 
4۔ نا کہنا سیکھیں
ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ اخلاقیات کی پابندی کرنا ایک بہت اچھی چیز ہے لیکن حد سے تجاوز کرتی فرمائشیں پوری کرنا اپنے علاوہ لوگوں کے ساتھ بھی ناانصافی ہے کیونکہ اس طرح وہ ہر ضرورت کو خود پورا کرنے کے بجائے آپ کے محتاج رہیں گے۔ اس لئے جو کام یا فرمائش پوری کرنا آپ کے بس سے باہر ہو اس کے لئے نرمی سے منع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
 
5۔ اپنے لئے وقت نکالنا ضروری ہے
آپ اپنے آپ کو خود اہمیت دیں گی تو باقی لوگ بھی دیں گے اور اگر آپ ہی خود کو نظر انداز کردیں گی تو کسی اور کو بھی آپ کی پرواہ نہیں رہے گی۔ اس لئے اپنے لئے روزانہ کچھ وقت ضرور مقرر کریں جس میں آپ وہ کریں جس میں کو ذہنی سکون ملتا ہو جیسے باغبانی یا کوئی اچھی کتاب پڑھنا وغیرہ۔ تھوڑی دیر کے سکون سے آپ اگلے دن کے چیلینجز سے نمٹنے کے قابل ہوجائیں گی۔
 
image
 
6۔ پریشانیاں بانٹنے سے کم ہوتی ہیں
اگر آپ اپنے مسائل اپنی حد تک رکھتی ہیں تو یہ ایک اچھی عادت ہے لیکن کبھی کبھار دوسروں سے ان مسائل کا یہ دفتر میں ہونے والی پریشانیوں کا ذکر کرنا ایک تو آپ کے ذہنی تناؤ کو کم کرے گا اور ہوسکتا ہے گھر کا کوئی فرد آپ کی پریشانی کم کرنے میں مددگار ثابت ہو۔ اس کے علاوہ کبھی کبھی اپنی پریشانیاں بانٹ لینے سے آپ کے آس پاس لوگوں کو آپ کی محنت اور قربانیوں کا احساس رہے گا
 
گھر والوں سے گزارشات
گھروالوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو خاتون بھی نوکری کرتی ہیں وہ بھی آپ کی طرح ایک انسان ہی ہیں۔ انھیں رعایت دینا سیکھیں ۔ اس کے علاوہ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ وہ جو بھی کماتی ہیں گھر پر ہی خرچ کرتی ہیں اس لئے غیر ضروری فرمائشوں سے گریز کریں اگر آپ کی بہن یا بھابھی اچھا لباس پہن کر دفتر جارہی ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے پاس پیسوں کی ریل پیل ہے بلکہ یہ ان کی ضرورت ہے ۔ کوشش کریں کہ گھر میں ملازمت کرنے والی خاتون کا زیادہ سے زیادہ ہاتھ بٹائیں تاکہ ان کو بھی کچھ پل راحت کے مل سکیں۔
 
شوہر کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟
ملازمت کرنے والی خواتین کے شوہر کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی بیگم کی ذمہ داریاں بانٹیں ۔ میاں بیوی کو گاڑی کے دو پہیئے یوں ہی نہیں کہا جاتا۔ اگر آپ کی بیوی مالی مشکلات میں آپ کا ساتھ دے رہی ہے تو آپ کا بھی فرض ہے کہ ان کے مسائل حل کرنے میں ان کی مدد کریں۔ اپنے ذاتی کام مثلا کپڑے استری کرنا، تولیا جگہ پر رکھنا ، بچوں کی دیکھ بھال میں ہاتھ بٹانا ایسے کام ہیں جو آپ بھی کرسکتے ہیں اس کے علاوہ بیگم کو گھمانا پھرانا ایسی چیزیں ہیں جو ان کی ذہنی تھکن کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ آپ دونوں کے رشتے کو مضبوط کرنے کا سبب بھی بنے گا۔
YOU MAY ALSO LIKE: