بلا عنوان

اس تحریر کا عنوان بے حسی، لا تعلقی، خود غرضی رکھ سکتا تھا مگر جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ تحریر میں نہیں لا سکتا میں اس معاشرے کا حصہ ہوں جو کے خود غرضی، بے حسی سے بھرپور اپنیے آپ میں گم دوسروں سے لاتعلق لوگوں کا ایک گروہ ہے، مجھ جیسے چند لوگ ہوں گے جن کی آنکھ سے بے بس مریم کی موت پر آنسو نکل آئے ہوں گے، میں جانتا ہوں ہم بزدل ہیں نہ ہی کچھ کر سکتے ہیں نہ ہی آواز اتھا سکتے ہیں، جب کہ لوگ معاشرے کے بگڑنے کا جعلی ماتم منانے یا ذہنی لذت سمیٹنے میں مصروف ہیں تب بھی ہم فقط بزدل بن کر آنسو بہانے میں مصروف رہیں گے، یہ آنسو بھی جھوٹے ہیں جان لیں کے یہ طفل تسلی ہے جو ہم خود کو دے رہے ہیں کہ ہم درد مند دل رکھتے ہیں-

یہ مسئلہ کسی معالج کے اناڑی پن کا نہیں ہے یہ مسئلہ ہے کہ ہم شتر مرغ کی مانند سر ریت میں دبا رہے ہیں، ہم نے نکاح کو مشکل بنایا ہوا ہے جیسے شادی کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، لوگ پہلے کیرئر بنانے میں عمر گذارتے ہیں پھر اپنے اسٹیٹس میچ کے پیچھے پڑجاتے ہیں، والدین جانتے بوجھتے بھی طرح دئے رکھتے ہیں، یا پھر خود غرضی کا شکار رہتے ہیں، جنس انسان کی بنیادی ضرورت ہے جب وقت پہ کھانا، پینا ہماری ضرورت میں شامل ہے تو ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کے جنس کا بھی وقت ہے کتنا روک سکتا ہے ایک انسان، روزہ کی حالت میں بھی اگر ہم خود کو کھانے پینے سے روکتے ہیں تو ایک مقرر وقت تک اس کے بعد ہم اگلی صبح تک آذاد ہوتے ہیں کھانے پینے میں کیوں رب الکائنات نے رمضان کے مہینے میں فقظ روزے کی حالت میں جنس پر پابندی لگائی ہے اس کے بعد کیوں اجازت دی گئی ہے؟ اسلام فظرت انسانی سے ہٹ کر کوئی بات نہیں کہتا ضبظ نفس کی بھی حد مقرر ہے تو کوئی کس حد تک اپنے نفس کو روک سکتا ہے کس حد تک انسانی فطرت سے اجتناب کر سکتا ہے، مجھے ایک افسانے کے الفاظ یاد آ رہے ہیں جس میں ایک تماش بین ایک ناچنے والی عورت کی کسی مذہبی بات پر اس کو کہتا ہے کہ طوائف کی زبان سے ایسی باتیں اچھی نہیں لگتیں تو وہ خاتون کہتی ہیں کہ ہم جیسی طوائفوں کی وجہ سے آج تمہارے گھر کی بہن بیٹیاں بہت حد تک محفوظ ہیں ورنہ اس معاشرے میں بھیڑیے گھوم رہیں ہیں جو ہماری وجہ سے ٹھنڈے ہو جاتے ہیں اور تمہاری بہن بیٹیوں کی عزتیں محفوط رہتی ہیں، بخدا میرا یہاں مقصد کچھ اور نہیں میں صرف یہ سمجھانا چاہ رہا ہوں کہ ہم اپنے مذہب کی تعلیمات اور معاشرے کی روایات پہ چل کہ اس معاشرے کے لوگوں کو بھیڑیا بننے سے روک سکتے ہیں وگرنہ کبھی زینب اور کبھی مریم اس طرح ہی مرتی رہیں گی یاد رکھیں ہمارے اپنے گھروں میں بھی کوئی زینب اور مریم موجود ہے۔
 

Sheeraz Khan
About the Author: Sheeraz Khan Read More Articles by Sheeraz Khan: 19 Articles with 23330 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.