اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی

’’ویلنٹائن ڈے‘‘ پر نکلتے غیرت کے جنازے!

ویلنٹائن ڈے کے موقع پر اخبارات میں نوجوانوں،بوڑھوں،بچوں کے جو جذبات شائع ہوتے ہیں، ان پیغامات میں ہماری اقدار بدلتے ہوئے معاشرتی رویے،فرد کی بے چارگی ، رسم ورواج کے نام پر فطری جذبات کچلنے کی روایت،زندگی کو زندگی کے بجائے قید خانے میں تبدیل کرنے کا عمل ،قربتوں،فاصلوں،ہجر و وصال کے موسموں کی کہانیاں،ملنے اور بچھڑنے ،بچھڑ کرہمیشہ کے لیے بچھڑجانے کی کہانی،ٹوٹے ہوئے دلوں کے نغمے،روتی ہوئی آنکھوں کے آنسو،غرض دنیا بھر کے سلسلے ان پیغامات میں موجزن ہوتے ہیں۔ان پیغامات پرخوشی یا مشتعل ہونے کی بجائے ہمیں اپنی طرز حیات ،معاشرے اورمعاشرتی رویوں کا بغور جائزہ لینا ہوگا۔محبت بذات خود جرم ہے نہ محبت کا اظہار مگر اس محبت کو نکاح کے روحانی اور نورانی پیکر میں ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔’’ویلنٹائن ڈے‘‘ خوشی کے نام پر ایک ایسا خود کاشتہ پودا ہے جسے فحاشی،عریانی کے جلومیں مادر پدر آزاد مغربی تہذیب نے سینچا ہے۔ اسے مشرق کی سر زمین میں جگہ دینا اپنی تہذیب و ثقافت پر عدم اعتماد کی علامت ہے۔ مشرقی اور اسلامی تہذیب کے پاس خوشیوں کے اوربہت سے دن ہیں۔ اس مانگے تانگے کی ثقافت کی کیا ضرورت ……! جس کے ’’وجود‘‘ سے مغرب کی برہنہ تہذیب امڈتی چلی آتی ہے ۔ آئیے !اب ویلنٹائن ڈے کی تاریخ کی طرف چلتے ہیں۔اس کے متعلق جو روایت سامنے آتی ہے وہ صرف انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کی ہے جس میں لکھا ہے:
ویلنٹائن ڈے کے بارے میں سب سے پہلی روایت روم میں قبل مسیح کے دور سے ملتی ہے۔ جب روم کے بت پرست مشرکین15 فروری کو جشن مناتے تھے جو Feast of the wolf یا Feas of Lupercaoius کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ جشن وہ اپنے دیوی دیوتاؤں کے اعزاز میں انھیں خوش کرنے کے لیے مناتے تھے ۔ ان دیوی دیوتاؤں میںPan(فطرت کا دیوتا) Februata Jano(عورتوں اور شادی کی دیوی) Pastoral gol Lupercalius(رومی دیوتا جس کے کئی دیویوں کے ساتھ عشق و محبت کے تعلقات تھے) شامل ہیں۔ اس موقع پر ایک برتن میں تمام نوجوان لڑکوں کے نام لکھ کر ڈالے جاتے تھے جس میں سے تمام لڑکے باری باری ایک پرچی اٹھاتے اور اس طرح قرعہ اندازی کے ذریعے منتخب ہونے والی لڑکی اس لڑکے کی ایک دن ، ایک سال یا تمام عمر کی ساتھی(Sexual Companion) قرار پاتی۔ یہ دونوں محبت کے اظہار کے طور پر آپس میں تحفے تحائف کا تبا دلہ کرتے اور بعض اوقات شادی بھی کر لیتے تھے۔

اسی طرح ویلنٹائن کارڈز پر دکھائے جانے والے نیم برہنہ اور تیر کمان اٹھائے ہوئے، ’’کیوپڈ‘‘ (Cupid) اس کی تصویر بھی ویلنٹائن کی خصوصی علامت ہے اور رومن عقیدے کی رو سے وینس (محبت اور خوب صورتی کی دیوی) کا بیٹا ہے جو کہ لوگوں کو اپنے تیر سے نشانہ لگا کر محبت میں مبتلا کردیتا ہے جب روم میں عیسائیت منظر عام پر آئی تو عیسائیوں نے اس جشن کو اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی ۔ اس مقصد کے لیے 14فروری کی تاریخ کا انتخاب کیا گیا جس دن رومیوں نے ایک عیسائی پادری’’ ویلنٹائن‘‘ کو سزائے موت دی تھی۔ واقعہ یوں ہے کہ رومی بادشاہ Claudius-II کے عہد میں روم کی سر زمین مسلسل کشت و خون کی وجہ سے جنگوں کا مرکز بنی رہی اور یہ عالم ہوگیا کہ ایک وقت میں Claudius کو اپنی فوج کے لیے مردوں کی تعداد بہت کم نظر آئی، جس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ روم کے نوجوان اپنی بیویوں کو چھوڑ کر پردیس لڑنے کے لیے جانا پسند نہیں کرتے تھے۔ بادشاہ نے اس کا حل یہ نکالا کہ ایک خاص عرصے کے لیے شادیوں پر پابندی عائد کردی تاکہ نوجوانوں کو فوج میں آنے کے لیے آمادہ کیا جائے۔ اس موقع پر ایک پادری ’’سینٹ ویلنٹائن‘‘ نے خفیہ طور پرنوجوانوں کی شادی کروانے کا اہتمام کیا۔ جب یہ راز فاش ہوا تو بادشاہ Claudiusکے حکم پر سینٹ ویلنٹائن کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال کر سزائے موت کا حکم سنا دیا گیا ۔ جیل میں یہ پادری جیلر کی بیٹی کو دل دے بیٹھا جو روزانہ اس سے ملنے آیا کرتی تھی۔ لیکن یہ ایک راز تھا کیونکہ عیسائی قوانین کے مطابق پادریوں اور راہبوں کے لیے شادی یا محبت کرنا ممنوع تھا ۔ اس کے باوجود عیسائی ویلنٹائن کی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ جب رومی بادشاہ نے اسے پیشکش کی کہ اگر وہ عیسائیت کو چھوڑ کر رومی خداؤں کی عبادت کرے تو اسے معاف کردیا جائے گا۔ بادشاہ اسے اپنی قربت دے گا اور اپنی بیٹی سے اس کی شادی بھی کردے گا لیکن اس نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکار کردیا۔ جس کے نتیجے میں اسے رومی جشن سے ا یک دن پہلے ۱۴ فروری ۲۷۰ ء کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ مرنے سے پہلے اس نے جیلر کی بیٹی کو ایک خط لکھا جس کا خاتمہFrom Your Valentine‘‘ کے الفاظ سے کیا۔
بہت سے ویلنٹائن کارڈز پر لکھے جانے والے Greetingsکے الفاظ From Your Valentine‘‘ اسی واقعے کی یاد تازہ کر نے کے لیے ہیں۔

ﷲ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس کی زندگی کا ایک مقصد ہے ۔انسان کو اشرف المخلوقات بھی اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی زندگی جانوروں کی طرح بے مہار نہیں گزرتی۔ وہ انسان کیسا جو دوسرے جانداروں کی طرح زندگی کے دن گزار کر دنیا سے چلا گیا۔انسانی زندگی میں اگر عزت اور وقار کی کمی ہوتو زندگی شرمندگی بن جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں اس مقولے پر کوئی دھیان نہیں دیتا اُلٹا ہمارے نوجوان اپنی زندگی کا مقصد حیات ’’عشق و محبت‘‘ کو بنائے نظر آتے ہیں۔

ہمارے ہاں رائج ادب وثقافت اور ٹی وی پر چلنے والے ڈراموں اور بھارتی فلموں میں پیش آنے والے عشقیہ مناظر نے پوری نوجوان نسل کو مریض عشق بنا دیا ہے ۔سکول اور کالجز میں عشق کے چکر اور گھروں سے بھاگنے والی لڑکیوں کے واقعات میں تیزی سے اضافہ اس کی دلیل ہیں۔ ویلنٹائن ڈے ایسے لوگوں کے لیے بہترین موقعہ ہوتا ہے کہ وہ اسی دن اپنی خباثت کا مظاہر ہ کرسکیں اور کسی کی بہن یا بیٹی کو اپنی محبوبہ قرار دے کر اسے پھول، کارڈ یا کوئی تحفہ دے کر محبت کا پیغام دے سکیں۔کچھ بھولے بھٹکے ایسی جگہ بھی ہاتھ ڈال بیٹھتے ہیں جہاں سے انہیں ’’محبت‘‘ کا جواب بڑے انوکھے انداز سے ملتاہے۔ عاشق جب سر بازار ’’محبوبہ ‘‘ سے جوتے کھارہے ہوتے ہیں اور جی بھر کر پٹائی ہونے کے بعد بالآخر جب ان کی جان خلاصی ہوتی ہے تو یہ کہنے پر کہ’’ تم تو میری بہن ہو۔‘‘ چودہ فروری کے روز پاکستان کے کئی شہروں میں بالخصوص ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔

حید رآباد کے علاقے لا ل باغ میں چند منچلے لڑکوں نے لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ کی۔ ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے آوازے کسنے پر لڑکیوں نے مل کر ایک لڑکے کو پکڑ لیا اور اس کی زبردست چھترول کی، لوگوں کے جمع ہونے پر اور مدافعت کرنے پر لڑکے نے نہ صرف لڑکیوں سے معافی مانگی بلکہ بہن کہہ کر اپنی جان بچائی ایک دوسرے اخبار نے یہ دل چسپ خبر یوں شائع کی کہ : ویلنٹائن ڈے کے موقع پر سرگودھا کے ایک نوجوان نے سٹیلائٹ ٹاؤن میں اپنی محبوبہ کو پھولوں کا تحفہ دیا تو اس کے بھائیوں نے دیکھ لیا اور اس نوخیز عاشق کو بے حد زدوکوب کیا۔ اس دوران محلہ داروں کے جمع ہونے پر نوجوان سے کہا گیا کہ وہ لڑکی کو بہن کہے پھر اسے چھوڑا جائے گا وگرنہ پولیس کے حوالے کردیا جائے گا۔ نوجوان نے اپنی محبوبہ کو بہن کا ’’خطاب‘‘ دیا اور کہا کہ اب بہن کو ہی پھول دے دیں جس پر اس کی جان چھوٹی۔

خان گڑھ کے نواحی علاقے موضع مونڈ میں 97ء کے ویلنٹائن ڈے پر اس وقت دل چسپ صورت حال بن گئی جب لڑکی کے والدین نے محبوبہ کو پھول دینے کے لیے آنے والے عاشق پر کتا چھوڑدیا ۔روزنامہ خبریں کے مطابق پپوراہی نامی ایک عاشق مزاج شخص ویلنٹائن ڈے کو اپنی مبینہ محبوبہ کے لیے پھول لے کر گیا تو لڑکی کے والد کو پتا چل گیا جس پر اس نے نام نہاد محبوب پر اپنا شکاری کتا چھوڑ دیا اور عاشق بیچارہ پھول پھینک کر بھاگ نکلا۔

’’میں پاگل نہیں ،سنگدل محبوب کی بے وفائی میرے ضمیر کا بوجھ بن چکی ہے اور میرے اوسان خطا ہوچکے ہیں۔ خدارا مجھے اس دنیامیں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا جائے تاکہ میں اپنی بربادی کا کھلے بندوں ماتم تو کرسکوں۔‘‘اس خواہش کا اظہار گوجرانوالہ کے دارالامان میں مقیم زہیرالنساء زارانے ایک روزنامہ اخبارکے نام ایک پیغام میں کیا۔زارا نے کہا کہ وہ ایک باعزت گھرانے سے تعلق رکھنے والی تعلیم یافتہ لڑکی ہے۔اس کی بربادی کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ میں تھرڈائیر کی طالبہ تھی کہ ایک نوجوان خرم نے اسے جھوٹی محبت کے پھندے میں پھانس لیا اور شادی کرنے کا جھانسہ دے کر اس کی عزت سے کھیلتا رہالیکن بعد ازاں اس نے اسے ٹھکرادیا۔جب زارا کے ’’عشق‘‘ کے بارے میں اس کے والدین کو علم ہوا تو انہوں نے اس کی نسبت ایک ڈاکٹر سے طے کردی اور وہ پیاگھر سدھار گئی۔زارا کے ڈاکٹر شوہر سردار احمد سے دوبچے بھی پیدا ہوئے لیکن اپنے عاشق سے رابطہ رکھنے پر اس کا ہنستا بستا گھر اجڑ گیا اور اس کے خاوند نے بیٹا بیٹی چھین کر اسے گھر سے نکال دیا لیکن اس کے عاشق خرم نے اسے یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کردیا کہ’’تم اپنے بچوں کی سگی نہیں ہوتو میں تمہیں کیسے رکھ سکتاہوں‘‘۔ زارا نے کہا کہ کچھ عرصہ بعد اس کے والدین نے اس کی چھوٹی بہن سے اس کے سابق خاوند سے شادی کردی جو اپنے گھر ہنسی خوشی آباد ہیں لیکن زارا برباد ہوکر رہ گئی۔ والدین نے ایک مرتبہ پھر اس کا گھر بسانے کی کوشش کی اور گجرات کے موضع ساروکی میں اکرم نامی شخص سے اس کی دوسری شادی کردی جو بسلسلہ روزگار مسقط میں مقیم تھا اور بیوی کو ہمراہ مسقط لے گیا۔زارا کے بقول وہاں وہ خوش وخرم زندگی گزاررہی تھی کہ خدانے اسے ایک بیٹے اور بیٹی سے سرفراز کردیا لیکن اس کے عاشق نے اسے مسقط خطوط لکھنے شروع کردیے، چنانچہ اس کے خاوند نے یہ صورت حال دیکھ کر اسے طلاق دے دی اور بچہ چھین کر پاکستان واپس بھجوادیا۔زارا دوسری مرتبہ برباد ہوکر پھر خرم کے پاس آئی لیکن خرم نے اسے اپنانے سے انکار کردیااور نکاح کے بغیر تعلقات قائم رکھنے کا مشورہ دیا۔زارابے وفا عاشق کی مسلسل بے وفائی سے ہوش وحواس کھو بیٹھی، جس پر اس کے گھر والوں نے اسے لاہور پاگل خانہ میں داخل کروادیا، جہاں 14ماہ رہنے کے بعد وہ صحت یاب ہوکرگھر واپس آگئی لیکن اکثر اوقات وہ پھر ہوش وحواس کھوبیٹھتی اور آپے سے باہر ہوکر اہل خانہ کو سخت پریشان کرتی چنانچہ اسے گوجرانوالہ کے دارالامان میں داخل کروادیا گیا ۔اب زارا گوجرانوالہ کے دارالامان میں مقید اپنی ناکام محبت اور برباد ازدواجی زندگی پر ماتم کناں ہے۔خبریں کے نام اپنے پیغام میں اس نے درخواست کی ہے اسے دارالامان سے رہائی دلائی جائے تاکہ وہ مسلسل ناکامیوں اور پچھتاوے کی آگ میں جل مرنے سے بچ سکے تاہم وہ کہیں نوکری کرکے اپنی باقی ماندہ زندگی باعزت طریقے سے گزارنے کی خواہش مند ہے۔زارا نے اپیل کی ہے کہ اسے کسی دینی مدرسہ میں داخل کروادیا جائے تاکہ وہ دینی تعلیم حاصل کرکے اپنے گناہوں کا کفارہ اداکر سکے۔

یہ ہماری نسل نو کے اخلاقی جنازے کی چند جھلکیاں ہیں جنھیں جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ ایسے اخلاق باختہ واقعات طالب علموں کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ اگر مغرب کی پیروی کی روش ختم نہ ہوئی اور حیا باختگی کے ان واقعات کا سد باب نہ کیا گیا تو ہم دین، تہذیب و ثقافت سے عاری ہوں گے ہی کل کلاں ایسے واقعات ہماری بیٹی یا بہن سے بھی پیش آئیں گے۔
تاریخ ’’ویلنٹائن‘‘ کو محبت کا جذبہ رکھنے والا ایک بزرگ کہے یا بدکردار انسان ، یہ ایک الگ بحث ہے مگر یہ بات ایک اٹل حقیقت ہے کہ’’ویلنٹائن ڈے‘‘بے حیائی کو فروغ دینے کا باعث ہے۔ اس کا مقصد صرف اور صرف عورت اور مرد کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہے اور جنسی بے راہ روی کو محبت کا لبادہ پہنانا ہے ۔ایک مسلم معاشرہ اس بات کی قطعی طور پر اجازت نہیں دیتا کہ ایک مرد غیر عورت کو یا ایک عورت کسی غیر مرد کو پھول پیش کرے اور اس کے ساتھ اخلاقیات کی حدود عبور کرلے۔چاکلیٹ، کارڈز اور پھولوں کے تحفوں کے ساتھ ساتھ لو اسٹوریز پر مشتمل کتب اور فحش فلمیں ایک دوسر ے کو پیش کریں۔یہ رسومات اہل مغرب کے لیے تو ٹھیک اور بھلی ہیں مگر ہمارے معاشرے کے منہ پر ایک طمانچہ ہیں……!


 

Abdul Waris Sajid
About the Author: Abdul Waris Sajid Read More Articles by Abdul Waris Sajid: 53 Articles with 58987 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.