ہر قسم کے دنیاوی معاملات میں میڈیا کی مدد سے شعبہ صحافت
سے منسلک افراد نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرے کی
بہتری کے لئے جو کردار ادا کیا ہے اس جیسی مثال کسی اور شعبے سے وابستہ
افراد سے نہیں ملتی۔
چاہے امریکی سابق صدر (رچرڈ نکسن)سے متعلق واٹر گیٹ اسکینڈل ہو یا پاکستانی
تاریخ کا الجھا ہوا (مصطفی زیدی) کیس میڈیا نے ہمیشہ ہر معاملے کے منفی و
مثبت پہلوؤں سے متعلق تحقیقات پر مبنی مفصل رپورٹنگ کرتے ہوئے دیگر اداروں
سے آگے بڑھ کر ہی اپنا فرض ادا کیا ہے۔
صرف توضیحی و تفتیشی رپورٹنگ ہی نہیں بلکہ معاشی،معاشرتی و اقتصادی غرض یہ
کہ ہر قسم کے دنیاوی معاملات کے حل کے لئے میڈیا اپنا لوہا منواتا آیا ہے۔
بالکل اسی طرح کسی بھی دو یا دو سے زائد ممالک کے درمیان دوران جنگ یا
کشیدہ حالات میں معاملات کے حل کے لیے میڈیا نے ہمیشہ اپنا بھرپور کردار
ادا کیا ہے۔
ایسے حالات میں تمام فریقین کے مابین تنازعات کو مذاکرات کی میز پر حل
کروانے کے لیے میڈیا ثالثی کا کردار ادا کرنا بخوبی جانتا ہے۔
لیکن یہ سب اس وقت ہی ممکن ہے کہ جب میڈیا اس بات کا خیال رکھے کہ اس کی
جانب سے کی جانے والی رپورٹنگ کسی بھی تنازعے سے متعلق منفی یا مثبت اثرات
مرتب کر سکتی ہے کیونکہ یہ میڈیا رپورٹنگ ہی ہے کہ جس کی بدولت دو یا دو سے
زائد جنگی فریق ریاستوں اور ان کی عوام کے درمیان معاملات میں بہتری یا
بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے۔
لہذا میڈیا پر لازم ہے کہ وہ ایسے حالات میں غیر جانبدارانہ طور پر ثالثی
کا کردار ادا کرتے ہوئے تمام فریقین کو حالات جنگ سے نکل کر مذاکرات کے
ذریعے مسائل کا حل نکالنے پر امادہ کرنے کی کوشش کرے۔
دور حاضر کا ایک کڑوا سچ یہ بھی ہے کہ جو ملک جنگی حالات سے گزر رہا ہو اس
کا میڈیا اپنی ملکی سالمیت سے متعلق کچھ ریاستی اصولوں کا پابند ہو کر رہ
جاتا ہے کہ جیسے اس پر فرض کر دیا گیا ہو کہ وہ دوران جنگ کسی بھی قسم کی
رپورٹنگ اپنے ملکی مفاد کے لئے مثبت انداز میں ہی کرے گا اور صرف اتنا ہی
نہیں بلکہ بعض اوقات ایک ملک کا میڈیا دیگر حریف ممالک کے خلاف منفی
پروپیگنڈہ کرتا بھی نظر آتا ہے۔
ایسے حالات میں اگر دو ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو روکنے کے لیے
کسی تیسرے ملک کا میڈیا دو جنگی ممالک کے مابین مثبت رپورٹنگ کر کے جنگ
بندی کے لئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرے تو اکثر اوقات اس کی جانب
سے کی جانے والی رپورٹنگ کو سراہا نہیں جاتا کیونکہ شاید اب یہ عوام مثبت
خبر کی جگہ منفی پروپیگنڈے کو اولین ترجیح دینے لگی ہے۔
اگر میں بطور صحافی ماضی میں کچھ عرصہ خوشگوار رہنے والے پاک بھارت تعلقات
پر نظر ڈالوں توسال 2011 سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری دیکھنے
کو ملتی ہے۔جس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اس دوران دونوں ممالک کے میڈیا
چینلز پر مختلف امن پروگرامز متعارف کروائے گئے تھے جس میں سال 2010 سے
شروع کیا جانے والا پروگرام ''امن کی آشا'' سر فہرست رہا جس کی بنیاد
پاکستان کی جانب سے (جنگ گروپ) اور بھارت کی جانب سے (ٹائمز آف انڈیا)نے
رکھی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ16 دسمبر 2014 کو پشاور آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے کے
بعد بھارتی میڈیا نے پاکستان کے حق میں مثبت رپورٹنگ کی اور بھارت کے
سرکاری دفاتر اور تعلیمی اداروں میں باقاعدہ سوگ منایا گیا میڈیا پر بھارتی
شوبز ستاروں اور سرکاری وزراء نے اس واقعے پر اظہار افسوس کیا۔
میڈیا کے توسط سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مذید مستحکم بنانے کے
لئے کوششیں جاری تھیں مگر معاملات اس وقت بگاڑ کی طرف جانے لگے جب 14 فروری
2019 کو بھارت میں ہونے والے پلوامہ حملے کا الزام مودی سرکار کی جانب سے
پاکستان پر لگا دیا گیا۔ بھارت کی جانب سے لگائے گئے اس الزام پر پاکستان
کی طرف سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔
لیکن بھارتی سرکار بضد نظر آئی اور پلوامہ حملے کو جواز بناتے ہوئے بھارتی
جاسوس طیاروں کو 27 فروری 2019 کو پاکستان کی فضائی حدود میں داخل کردیا
گیا جس کے بعد پاکستانی دفاعی اداروں نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے طیارہ (مگ
21) مار گرایا اور پائلٹ ونگ کمانڈر (ابھی نندن) کو گرفتار کرلیا گیا۔
ان واقعات کے بعد دونوں ممالک کے میڈیا نے اپنے اپنے ملکی مفادات کو ملحوظ
خاطر رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف منفی پروپیگنڈے پر مبنی رپورٹنگ شروع
کردی اور سالوں کی محنت سے جاری ہونے والا امن پروگرام کھٹائی میں پڑگیا
یہی وجہ ہے کہ پاک بھارت تعلقات آج تک استوار نہ ہو سکے۔
دوسری جانب اگر کشمیر پر بات کی جائے تو مسئلہ کشمیر کا حل پاک بھارت
تعلقات کے لیے اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے یہی ایک تنازعہ ہے کہ جس کے
ممکنہ حل کے بعد پاک بھارت تعلقات کو مستقل مزاجی کے ساتھ بہتری کی جانب لے
جا یا جا سکتا ہے۔
لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے بھارت مقبوضہ کشمیر میں
مظلوم کشمیریوں پر مظالم کرتا آرہا ہے جس پر پاکستان کبھی سمجھوتہ نہیں کر
سکتا۔
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بھارتی دہشت گردی کی انتہا یہ ہے کہ کسی بھی وقت
بھارت کی جانب سے گولہ باری کر کے آزاد کشمیر کی فضا بھی خراب کر دی جاتی
ہے۔
جس کے بعد حالات مجبوری افواج پاکستان کو بھی ملکی دفاع کے لئے جوابی
کاروائی کرنی پڑتی ہے۔
لیکن بھارتی میڈیا ہمیشہ حق اور سچائی پر مبنی رپورٹنگ کرنے کے بجائے
پاکستان پر ہی الزام تراشی کرنا شروع کر دیتا ہے۔
جس پر پاکستانی میڈیا کو بھی ملکی مفادات کو اولین ترجیح دیتے ہوئے اپنے
ملک کا دفاع کرنا پڑتا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف بین الاقوامی میڈیا اور
اقوام متحدہ تک واضح پیغام پہنچانا ہوتا ہے۔
اس قسم کی منفی میڈیا رپورٹنگ سے دونوں فریقین اور پاک بھارت عوام کے
درمیان ایک دوسرے کے لئے نفرت انگیز جذبات پروان چڑھتے ہیں۔
15 جولائی 2016 کو ترکی کے صدر(رجب طیب ایردوان) کے خلاف فوجی بغاوت کا
گھناؤنا کھیل رچایا گیا جس کا مقصد کم و بیش ترکی کے صدر کو نظربند یا قید
کر کے ملک میں مارشل لاء نافذ کرنا تھا.
اس موقع پر باغی فوجیوں نے نجی و سرکاری تمام میڈیا چینلز کو اپنے قبضے میں
لے لیا تھا ایسے میں ترک صدر رجب طیب ایردوان نے سو شل میڈیا کے ذریعے عوام
کو ملکی غیر معمولی صورتحال سے آگاہ کیا اور مدد کی اپیل کی۔
سوشل میڈیا سے جاری ہونے والا یہ چھوٹا سا پیغام چند لمحات میں پاکستان
سمیت کئی ترک دوست ممالک کے میڈیا چینلز کی زینت بن گیا اور ترکی کی عوام
نے تاریخ رقم کرتے ہوئے گھروں سے نکل کر جان کی بازی لگاتے ہوئے باغی
فوجیوں سے طویل جھڑپوں کے بعد فوجی بغاوت کو ناکام بنا دیا۔
جنگی حالات میں کسی بھی ریاستی میڈیا پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ کہ وہ
اپنے ملک کی عوام کو کشیدہ حالات میں بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کی
تلقین کرتا رہے۔
اور ساتھ ساتھ ملکی مفاد کے لئے یہ رپورٹنگ کرتا رہے کہ اس کے دفاعی ادارے
حریف ملک پر سبقت حاصل کر رہے ہیں ایسی کشیدہ حالات میں ریاست کا مددگار
صرف اور صرف واحد میڈیا ہے جو کہ نہ صرف مثبت رپورٹنگ کرتے ہوئے عوام کو
صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے اور دفاعی اداروں پر بھروسہ کرنے کی تلقین کرتا
ہے۔
بلکہ ساتھ ساتھ حریف ممالک کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرنے کی کوشش کرتا ہے
تاکہ ففتھ جنریشن وار یعنی (میڈیا وار) کے ذریعے دشمن پر سبقت حاصل کی جا
سکے۔
یہ میڈیا ہی کی طاقت تھی کہ جس کا استعمال کرتے ہوئے 13/14 اگست 1947 کی
درمیانی رات (مصطفی علی ہمدانی) نے پہلی دفعہ ریڈیو پاکستان کا استعمال
کرتے ہوئے عوام تک (پاکستان مبارک ہو) کا پیغام پہنچایا آج تک اس تاریخی
پیغام کو سنہری الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے کیونکہ اس اعلان کے بعد تمام
پاکستانیوں بالخصوص مہاجرین کو سکون قلب حاصل ہو گیا تھا۔
ان تمام معاملات کو زیر غور لانے کا مقصد صرف اس بات کو سمجھنا تھا کہ
صحافتی اعتبار سے جنگ اور جنگ کی میڈیا رپورٹنگ کا مقصد کشیدہ حالات میں
ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے امن و امان کی صورتحال پیدا کرنا ہے۔
لیکن! صحافت میں غیر جانبداری اچھی بات ہے مگر کسی بھی ملک کا میڈیا اپنے
ریاستی مفاد پر کسی اور فرض کو ترجیح نہیں دے سکتا۔
|