ویلنٹائن ڈے بمقابلہ شرم و حیا

پوری دنیا میں 14 فروری کا دن ویلنٹائن ڈے کے طور پر منایا جاتا ھے، دیکھا دیکھی پاکستان میں بھی اس دن کو بھرپور انداز میں منانے کی تیاریاں کی جاتی ہیں۔ پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں اس دن کو منانے یا اسکی مخالفت کے بارے میں دو مختلف رائے اور دو مختلف طبقے پائے جاتے ہیں۔ جہاں ایک طرف اس دن کو بھرپور طریقہ سے منانے کی تیاریاں ھو رہی ہوتی ہیں وہی پر اس دن کی مخالفت میں اک طبقہ کھل کر مظاہروں، ریلیوں، ورکشاپ کا انتظام کروا کر اس دن کی مناسبت سے ہونے والی خرافات کے متعلق آگاہی دے رہے ہوتا ہے۔ پاکستان میں 14 فروری کو کہیں تو یوم محبت و ویلنٹائن ڈے کے طور پر منایا جا رہا ہوتا ہے تو کہیں پر اس دن کو یوم شرم و حیا کے طور پر منایا جا رہا ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے پر کیوں منایا جاتا ہے اسکے بارے میں مختلف آراء ہیں۔ کچھ مورخین کے مطابق یہ دن تیسری صدی عیسوی میں شہنشاہ کلوڈیس نے ویلنٹائن نامی دو دو افراد کو پھانسی دے دی، انکی شہادت کو کیتھولک چرچ نے سینٹ ویلنٹائن ڈے منانے سے نوازا۔ شہنشاہ نے ان دونوں کو کیوں پھانسی دی وہ علیحدہ بحث ہے۔ کچھ مورخین کے مطابق 13 سے 15 فروری تک ، رومیوں نے لوپکرالیا کی عید منائی۔ مردوں نے ایک بکرے اور ایک کتے کی قربانی دی ، پھر خواتین کو صرف جانوروں کے چمڑے درے ماڑے۔بولڈر میں کولوراڈو یونیورسٹی کے ایک مورخ نول لینسکی کا کہنا ہے کہ رومن رومانٹک "نشے میں تھے۔ وہ ننگے تھے۔" لینسکی کا کہنا ہے کہ نوجوان خواتین دراصل ان مردوں کو مارنے کے لئے قطار میں لگ گئیں۔اس سفاکانہ دعوت میں باہمی جوڑے بنانے والی قرعہ اندازی بھی شامل تھی ، جس میں نوجوان مردوں نے خواتین کے نام برتن سے نکالے تھے۔ جس عورت کا قرعہ مرد کے نام کیساتھ نکل آتا تو اس مرد اور عورت کو اس اس تہوار کے ختم ہونے تک اک دوسرے کیساتھ رہنا ہوتا تھا اور اگر قرعہ اندازی میں نکلنے والی کا مرد سے ہم آہنگی ہوجاتی تو اس تہوار کے بعد بھی وہ اکٹھے رہ سکتے تھے, یہ تاریخی حوالے آپ خود گوگل پر بھی سرچ کر سکتے ہیں۔ کچھ عرصہ سے مغرب سے مرعوب پاکستانیوں کا اک وسیع حلقہ بھی ویلنٹائن ڈے کے حق میں کھل کر سامنے آچکا ہے، انکے مطابق ہر وہ بندہ جو اس عالمی تہوار کی مخالفت کرتا ہے کہ پتھروں کے دور کا انسان ہے (اسلامی تعلیمات کو یہ کم عقل لوگ پتھروں کے دور کی باتیں کہتے ہیں)۔ حالانکہ ان عقل کے اندھوں کو اس کھلی حقیقت کہ ویلنٹائن ڈے تو ظہورِ اسلام سے پہلے والے لوگوں کا تہوار ہے، اگر اسلام پر عمل کرنے والا پتھروں کے دور کا انسان ہے تو پھر ظہورِ اسلام سے پہلے والے انسان کو کیا کہنا چاہیے۔ پاکستان میں اس بدترین بداخلاقی کے اقدامات کو پروان چڑھانے میں سب سے زیادہ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا کردار ہے، اس دن کی مناسبت سے ٹی وی ڈرامے، اشتہارات اور خصوصی نشریات کا انتظام کیا جاتا ہے۔اخبارات اور میگزین میں خصوصی طور پر رنگین صفحات کی اشاعت کی جاتی ہے۔ چینلز کے اینکرز کیمرہ اور مائیک پکڑ کر سڑکوں پر، مارکیٹس میں، کالج اور یونیورسٹیز میں ویلنٹائن ڈے کے حق میں نوجوانوں سے دلائل لے رہے ہوتے ہیں۔ فلمی ستارے مسلمانوں کے تہواروں عیدین پر ٹی وی پروگراموں میں یہ فخریہ طور پر کہ رہے ہوتے ہیں ہم نے تو عید کا دن سو کر گزارتے ہیں، اس کے برعکس ویلنٹائن ڈے، Halloween، ہولی، دیوالی جیسے پروگرامز میں یہ سب بڑھ چڑھ کر شرکت کرتے ہیں۔

ویلنٹائن ڈے منانا ٹھیک ھے یا غلط، یہ غیر اسلامی ہے یا پھر غیر معاشرتی فعل؟ اس سے قطع نظر اک چھوٹا سا سوال آپ سب کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ کیا مجھے اور آپکو اپنی بہن، بیٹی کو کسی غیر محرم کیساتھ 14 فروری کے دن بغیر کسی روک ٹوک، بغیر کسی قانونی و شرعی پابندی سارا دن اور ساری رات گزارنے کی اجازت دینی چاہیے؟ مذہب اسلام تو ہمیں یہ درس دیتا کہ غیر محرم عورت کو آنکھ آٹھا کر بھی نہ دیکھا جائے۔ ہمیں کیا ھوگیا ھے؟ ہم کدھر جارہے ہیں؟ ہم مسلمانوں کے لئے ویلنٹائن ڈے طرح کوئی ایک دن محبت کا نہیں ہوتا، آؤ ہر روز محبت کا دن منائیں آؤ ہر دن اس طرح سے منائیں جیسا کہ مذہب اسلام محبت کرنے کا درس دیتا ہے، محبت کرنی ہے تو آؤ محبت کریں اپنی بیوی سے، آؤ محبت کریں اپنی ماں سے، آؤ محبت کریں اپنی بیٹی سے، آؤ محبت کریں اپنی بہن سے۔ آؤ محبت کریں اپنے شوہر سے، آؤ محبت کریں اپنے باپ سے اپنے بھائی سے، محبت کرنی ہے تو آؤ محبت کرنے کا طریقہ بھی شریعت مطہرہ سے سیکھیں۔ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم میں تو دوسرے مذاہب کیساتھ عبادت (جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم نے مدینہ کے یہودیوں کے عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کیوجہ سے مسلمانوں کو یہ ترغیب دی کہ یہودیوں کی عبادت میں مشابہت سے بچنے کے لیے نو اور دس محرم کے روزے یا پھر دس اور گیارہ محرم کے روزے رکھے جائیں)

میں بھی مشابہت کرنے کی سختی سے تردید ہے چہ جائیکہ ہم انکی رسومات کو اپنائیں۔ آؤ نوجوانوں اپنی آخرت کو محفوظ کریں، بے حیائی اور زنا سے بچیں، اپنی قبر، حشر اور یوم آخرت کے حساب کی فکر کریں۔
اگر یہ سب نہیں کرنا تو پھر ہمیں اپنے آپکو مسلمان کہنے کا کوئی حق نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ حدیث شریف کے مفہوم کے مطابق "حیا اور ایمان لازم ملزوم ہیں اور جب تم حیا نہ کرو جو چاہے کرو"۔
اللہ کریم ہم سب کو ھدایت نصیب فرمائے آمین ثم آمین

 

Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 207 Articles with 163593 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.