’’ پنشنرز بھی پیٹ رکھتے ہیں‘‘

 گزشتہ رو ز الیکٹرانک میڈیا پر سرکاری ملازمین کا تنخوا ہ میں اضافہ کے لئے احتجاج اور حکومت کا ان پر تشدد دیکھ کر افسوس کے ساتھ ساتھ انجانی سی خوشی بھی ہو رہی تھی ،خوشی کی وجہ یہ تھی کہ سرکاری ملازمین کے قدموں میں استقلال تھا اور وہ اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے تھے جس کا لا محالہ نتیجہ کامیابی کی صورت میں نکلنا تھا اور اس کامیابی کی پیچھے ہمارے من میں جو چور بیٹھا تھا وہ تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ پنشنرز کی پنشن میں اضافہ بھی متوقع تھا ۔لیکن ہمارے امیدوں پر اس وقت پانی پھیر گیا جب سرکاری ملازمین کے لئے تو پچیس فی صد الاونس اور بعد ازیں بجٹ میں تنخواہوں میں مزید اضافے کا بھی وعدہ کیا گیا مگر پنشنرز کے لئے کسی قسم کا امید افزا اعلان نہیں کیا گیا اور یوں وطنِ عزیز میں لاکھوں پنشنرز منہ دیکھتے رہ گئے ۔ آج کے دن متعدد عمر رسیدہ پنشنرز نے مجھ سے استفسار کیا کہ ’’ حکومت نے کتنی پنشن بڑھائی ہے ؟ ‘‘ جب میں جواب دیتا کہ ’’ بابا ! پنشن میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ۔بجٹ تک صبر کرو، انشا اﷲ ہو جائے گا ‘‘ ۔۔ بابا آسمان کی طرف منہ کر کے کہتا ’’ اﷲ ہم پر رحم کرے ‘‘ اور مجھے یہ شعر یاد آتا کہ
’’ شبِ سیاہ میں گم ہو گئی ہے راہِ حیات۔۔۔ قدم سنبھل کے اٹھاؤ بہت اندھیرا ہے ‘‘

بے شک آج کا جو حاضر سروس ملازم ہے ۔اس نے کل کو ریٹائرڈ ہو کر پنشنر ہی بننا ہے اور جو لوگ آج پنشن پر ہیں ۔وہ اپنی عمر کا قیمتی اور بڑا حصہ سرکار کی خدمت میں گزار چکے ہیں ۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی وہ سرکار کے حکم کی بجا آوری اور اپنے منصبی فرائض کی بجا آوری میں مصروف رہے تا آنکہ وہ پیری کے دور میں نہ پہنچے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پنشن پر جانے کے بعد زندگی کا ایک مشکل ترین دور شروع ہو جاتا ہے ۔ کسی نے بیٹے کی شادی کرنی ہے تو کسی نے بیٹی کے ہاتھوں کو مہندی لگانی ہے ۔ کسی کو کسی بیماری کا روگ لگ جاتا ہے کسی کو رزمرہ کی ضروریات اور بِلوں کی ادائیگی کی پریشانی سونے نہیں دیتی ۔ اس مہنگائی کے دور میں موجودہ پنشن پر روزمرہ کے اخراجات پورے کرنا تو جوئے شیر لانے سے کم نہیں ۔ گویا پنشنرز کے زندگی کا یہ دور بیشتر لوگوں کے لئے صراطِ مستقیم پر گزرنے کے مترادف ہوتا ہے ۔ اور یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ مہنگائی کا سب سے بڑا اثر ان ضعیف العمر پنشنئرز پر ہی ہوتا ہے با ایں وجہ یہی وہ لوگ ہیں جو ہر سال بڑی بے صبری کے ساتھ بجٹ کا انتظار کرتے ہیں ۔وہ یہ امید لگائے بیٹھے ہوتے ہیں کہ بجٹ میں ان کی پنشن میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا اور ان کے مشکلات میں کمی آئیگی ۔

موجودہ وزیر اعظم عمران خان جب ایوانِ اقتدار تک پہنچے تو دیگر پاکستانی عوام کی طرح پنشنرز اور ضعیف العمر افراد نے ان سے بے شمار امیدیں وابستہ کی تھیں کیونکہ ان کے خیال میں عمران خان ترقی یافتہ ممالک میں ضعیف العمر لوگوں کو حکومتِ وقت کی سطرف سے ملنی والے سہولیات ومراعات سے بخوبی واقف ہیں ،وہ جس طرح دوسرے ممالک کی اچھی چیزوں کو اپنے ملک میں نافذ کرنے  میں دلچسپی لیتے ہیں ،اسی طرح وہ پنشنرز اور ملک میں موجود تمام ضعیف العمر افراد کے لئے کوئی جامع پالیسی کا اعلان کریں گے ۔ مگر افسوس صد افسوس کہ عمران خان ابھی تک ایسا کچھ بھی کر نہ سکے ۔ گزشتہ روز جب احتجاج کرنے والے سرکاری ملازمین سے معاہدہ ہو گیا اور ان کے تنخواہوں میں اضافے کا اعلان ہوا مگر پنشنرز کا نام تک نہ لیا گیا تو پنشنرز کے لبوں پر فریاد آئی اور بقولِ شاعر۔۔ !!! ’’ یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے ۔۔۔ آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا ‘‘  یہ جو پنشنرز ہوتے ہیں ان کے دورانِ ملازمت خدمات تو ہوتے ہی یقینا ناقابلِ فراموش ہیں ‘ مگر پنشن کے بعد بھی ان کے خدمات ملک و قوم کی تعمیر میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ وہ نئی نسل کی پرورش اور تربیت میں اہم رول ادا کرتے ہیں وہ نئی نسل کی راہنمائی کے لئے شمع جلائے رکھتے ہیں۔
’’ سفر پیچھے کی جانب ہے قدم آگے ہے میرا ۔۔۔میں بوڑھا ہوتا جاتا ہوں جوان ہونے کی خاطر ‘‘
ملک میں ایک بڑی تعداد پنشن لینے والے کی موجود ہے ،مگر ان کی ایسی کوئی موثر تنظیم موجود نہیں جو ان کو اکٹھا کرکے احتجاج کر سکے اور حکومت کی توجہ اپنی مشکلات کی طرف مبذول کرا سکے ۔ بایں وجہ راقم الحروف اپنے قلم کے ذریعے حکومتِ وقت سے پر زور اپیل کرتا ہے کہ ان بے سہارا پنشنرز کو بجٹ کے وقت نہ بھولیں، یہ ملک کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں ۔ لہذا مناسب ہو گا کہ فوری طور پر ان کے پنشن میں اضافہ کا اعلان کر دے اور کسی وجہ سے فی الحال ایسا ممکن نہ ہو تو پھر بجٹ کے موقعہ پر ان کے پنشن میں کم از کم پچاس فی صد کا اضافہ کیا جائے کیونکہ پنشنرز بھی پیٹ رکھتے ہیں اور ضروریات ان کے بھی ہو تے ہیں ۔

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315557 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More