ہر سال 14 فروری کا دن ویلنٹائن ڈے کے طور پر منایا
جاتا ہے- اس کو محبت کرنے والوں کے دن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے- دو محبت
کرنے والے اس مخصوص دن اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں- مغربی معاشرے میں
منایا جانے والا یہ دن ایک تاریخی پس منظر رکھتا ہے جس کے تحت مغربی معاشرے
میں اس دن کو نہایت عقیدت و احترام اور مذہبی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے-
ویلنٹائن ڈے کو سینٹ ویلینٹائن ڈے بھی کہا جاتا ہے اور اس کے متعلق دو
متضاد بیانات بھی موجود ہیں-ویلنٹائن ڈے کے بارے میں بک آف نالج کا اقتباس
ملاحظہ ہو جس میں لکھا ہے کہ
’’ویلنٹائن ڈے کا آغاز ایک رومی تہوار لوپر کالیا (Luper Calia) کی صورت
میں ہوا۔ قدیم رومی مرد اس تہوار کے موقع پر اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی
قمیضوں کی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے۔ بعض اوقات یہ جوڑے تحائف کا تبادلہ
بھی کرتے تھے۔ بعد میں جب اس تہوار کوسینٹ ’ویلن ٹائن‘ کے نام سے منایا
جانے لگا تو اس کی بعض روایات کو برقرار رکھا گیا۔ اسے ہر اس فرد کے لیے
اہم دن سمجھا جانے لگا جو رفیق یا رفیقہ حیات کی تلاش میں تھا۔ سترہویں صدی
کی ایک پراُمید دوشیزہ سے یہ بات منسوب ہے کہ اس نے ویلن ٹائن ڈے والی شام
کو سونے سے پہلے اپنے تکیہ کے ساتھ پانچ پتے ٹانکے اس کا خیال تھا کہ ایسا
کرنے سے وہ خواب میں اپنے ہونے والے خاوند کو دیکھ سکے گی۔ بعد ازاں لوگوں
نے تحائف کی جگہ ویلنٹائن کارڈز کا سلسلہ شروع کر دیا۔‘‘
14 فروری کا یہ ’یومِ محبت‘ سینٹ ویلنٹائن سے منسوب کیوں کیا جاتا ہے؟ اس
کے بارے میں محمد عطاء اﷲ صدیقی لکھتے ہیں
’’اس کے متعلق کوئی مستند حوالہ تو موجود نہیں البتہ ایک غیر مستند خیالی
داستان پائی جاتی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کے ایک پادری تھے
جو ایک راہبہ (Nun) کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے۔ چونکہ مسیحیت میں راہبوں
اور راہبات کے لیے نکاح ممنوع تھا۔ اس لیے ایک دن ویلن ٹائن صاحب نے اپنی
معشوقہ کی تشفی کے لیے اسے بتایا کہ اسے خواب میں بتایا گیا ہے کہ 14 فروری
کا دن ایسا ہے اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کر لیں تو اسے
گناہ نہیں سمجھا جائے گا۔ راہبہ نے ان پر یقین کیا اور دونوں جوشِ عشق میں
یہ سب کچھ کر گزرے۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اُڑانے پر ان کا حشر وہی
ہوا جو عموماً ہوا کرتا ہے یعنی انہیں قتل کر دیا گیا۔ بعد میں کچھ منچلوں
نے ویلن ٹائن صاحب کو’شہید ِمحبت‘ کے درجہ پر فائز کرتے ہوئے ان کی یادمیں
دن منانا شروع کر دیا۔ چرچ نے ان خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے
راہ روی کی تبلیغ پر مبنی قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال بھی مسیحی
پادریوں نے اس دن کی مذمت میں سخت بیانات دیے۔ بینکاک میں تو ایک مسیحی
پادری نے بعض افراد کو لے کر ایک ایسی دکان کو نذرآتش کر دیا جس پر
ویلنٹائن کارڈ فروخت ہو رہے تھے۔‘‘(منقول)
ایک زمانہ تھا کہ پاکستان میں ویلنٹائن اور ویلنٹائن ڈے کو کوئی جانتا تک
نہ تھا لیکن ٹی وی کے نت نئے چینلز اور سوشل میڈیا کی کاوشوں سے آج ہر شخص
ویلنٹائن ڈے کے نام سے متعارف ہو چکا ہے-ویلنٹائن ڈے سینٹ ویلنٹائن کی یاد
میں منایا جاتا ہے جس میں میں محبت کرنے والے جوڑے بڑے آپس میں ایک دوسرے
کو سرخ گلاب کے تحفے پیش کرتے ہیں- محبت کرنے والوں کے لئے ایک دن مقرر
کرنے والے اس دن سکون سے بیٹھ کر یہ حیوانی کھیل دیکھتے ہیں کہ کون لڑکی
اپنے گھر کی دہلیز پار کر کے اپنے محبوب سے ملنے جاتی ہے-اس دن کے دھوکے
میں آ کر کتنی لڑکیاں اپنی عزت سے ہاتھ دھو بیٹھیں-اس دن کے جھانسے میں آ
کر کتنی لڑکیاں بابل کی دہلیز کو ازدواجی زندگی شروع کرنے سے پہلے پار کر
گئیں-اس دن کے جھانسے میں آ کر کتنی لڑکیاں محبت کے نام پر اپنے والدین اور
گھر والوں کی محبت کو دھوکا دے بیٹھیں-اس دن کی تباہ کاریاں اتنی شدت
اختیار کر گئیں کہ بالآخر سرکاری سطح پر اس دن کا بائیکاٹ کیا جانے لگا-اس
دن کو ویلنٹائن ڈے کے بجائے ''حیا ڈے'' یعنی حیا کے دن کے طور پر منایا
جانے لگا-اس دن کو منانے کے بجائے لڑکیوں اور لڑکوں میں یہ شعور اجاگر کیا
جانے لگا کہ یہ دن ہماری تہذیب، ثقافت اور نظریات کی عکاسی نہیں کرتا-
یورپ کی اندھی تقلید میں کئی سال اس دن کو نہایت جوش و خروش سے منایا گیا
تھا-سوشل میڈیا پر بے تحاشا پروگرام منعقد کئے گئے-خصوصی ٹرانسمیشن چلائی
گئی، شادی شدہ جوڑوں کو بلوا کر ان کے ساتھ ہنسی مذاق کرنا، اسٹیج کو سرخ
گلابوں اور سرخ غباروں سے مزین کرنا،خصوصا سرخ لباس پہننا اور اور اس دن کو
کو خوبصورت کر کے دکھانے کے باعث یہ دن پاکستان میں بھی ایک تہوار کی طرح
منایا جانے لگا-شادی شدہ افراد اب بھی پاکستان میں اس دن کو نہایت اہتمام
سے منانے کا نہایت جوش و خروش سے منانے کا اہتمام کرتے ہیں-خواتین اپنے
شوہروں کے لیے کیک، چاکلیٹ، پرفیوم،پھول اور کسی اور تحفے کا کا اہتمام
کرتی ہیں جبکہ شوہر حضرات بھی اس دن اپنی بیگمات کو باہر سے کھانا
کھلانے،شاپنگ کروانے،اپنے دوستوں سے ملوانے، دعوتیں کرنے، اپنے میکے لیجانے
یا پھول اور تحائف دے کر اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ وہ ایک
ازدواجی تعلق میں منسلک ہوتے ہیں اس لیے اس دن کو منانا ان کے لیے حلال
ویلنٹائن ڈے تصور کیا جاتا ہے-حالانکہ اس تہوار کا ہماری ثقافت سے کوئی
تعلق نہیں نہ ہی ہماری اسلامی اقدار اس کی اجازت دیتی ہیں-
محبت کرنے والے دل کے لیے ہر دن محبت کا دن ہوتا ہے اور محبوب کے ساتھ محبت
کا اظہار کرنے کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا-بلاشبہ پھول اور دیگر تحائف
سے آپس میں محبت بڑھتی ہیں کیونکہ احادیث میں بھی یہ ذکر موجود ہے کہ آپس
میں تحائف دینے سے محبت پیدا ہوتی ہے- اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے روابط کسی
کے ساتھ اچھے قائم ہوں تو ہمیں چاہیے کہ اسے تحائف دیں لیکن خصوصا ایک دن
مقرر کر لینا وہ بھی ایسا دن جو غیرمسلموں کا دن ہے شرعاً جائز نہیں-
غیر شادی شدہ افراد کو اپنی محبت اپنے ہونے والے شریک حیات کے لیے چھپا کر
رکھنی چاہیے کیونکہ یہ ایک ایسا احساس ہے جیسے سیپ کے اندر موتی جو کہ
نہایت انمول اور قیمتی ہوتا ہے- اسلامی روایات اور حیا کے تقاضے ہم سے یہی
تقاضا کرتے ہیں کہ ہم اپنی محبتیں محرم رشتوں کے لیے مخصوص کر کے
رکھیں-نامحرموں کا ان محبتوں میں کوئی حصہ نہیں-محبت کرنا کوئی گناہ نہیں
لیکن محبت کے حصول کے لیے ناجائز طریقہ کار استعمال کرنا نا اخلاقی اقدار
کے منافی ہے-نوجوانوں کو چاہیے کہ اسلامی معاشرے کا تقدس پامال نہ کریں اور
اس دن کو ''یوم حیا'' کے طور پر منائیں-اپنی نگاہوں میں شرم و حیا کو قائم
رکھیں تاکہ سب بہن بیٹیوں کی عزتیں محفوظ رہیں اور ایک مثالی اسلامی معاشرے
کی تکمیل ممکن ہو سکے-اﷲ تعالیٰ ہم سب کو نیک اعمال کرنے اور اپنی اصلاح
کرنے کا موقع دے-آمین
|