برصغیر میں اسلام کی اشاعت و تبلیغ صوفیۂ کرام و
اولیاے اسلام کی کوششوں سے ہوئی۔ ہند کی تاریخ کا مطالعہ کیجیے۔ اشاعتِ
اسلام کے کارواں کا تاریخی نظروں سے مشاہدہ کیجیے۔ مسلم سلاطین کا اقتدار
صدیوں رہا؛ لیکن ہند میں اسلام کی بہاریں سلاطین کی رہین منت نہیں بلکہ
اولیاے کرام کی کد و کاوش اور مساعی جمیلہ کا نتیجہ ہے۔ ان کی بارگاہیں
ہمیشہ دعوت و تبلیغ کا مسکن بنی رہیں۔ ان کے یہاں سے کتاب و سنت کی تعلیم
عام ہوئی۔ دلوں کی دُنیا میں انقلاب آیا۔ فکروں میں تبدیلی واقع
ہوئی۔گمرہی کی تہیں چاک ہوئیں۔ اس پہلو سے مولانا محمد عبدالمبین نعمانی
لکھتے ہیں:
’’اِس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے کہ برصغیر میں اگرچہ مسلم
حکمراں مدت تک حکمرانی کرتے رہے، لیکن اسلام کی روشنی اور روحانیت کا
اُجالا صوفیۂ کرام ہی نے پھیلایا، مسلم حکمراں تو حکومت کے دبدبے سے بھی
کسی کو مسلمان نہ بنا سکے، مگر اولیا اور صوفیہ نے لاکھوں کے دلوں میں
اسلام کا نور بھر دیا جیسا کہ خود غریب نواز کی زندگی کا مطالعہ کرنے والا
ہر حقیقت پسند اس کا اعتراف کیے بغیر نہ رہے گا۔
حضرت خواجہ غریب نواز نے تلوار نہیں اُٹھائی، مگر اخلاق و کردار اور کشف و
کرامات کی ایسی ضرب لگائی کہ دلوں کی دُنیا زیر و زبر ہو گئی، اندر چھپی
ہوئی کفر و شرک کی غلاظت چھٹتی نظر آئی اور آج پورے پاک و ہند اور بنگلہ
دیش میں اسلام کا نام لینے والوں کی جو کھیپ ہے، ان میں زیادہ تر افراد کا
وجود خواجہ غریب نواز کی مساعی تبلیغ اور ارشاد و ہدایت کا ہی مرہونِ منت
ہے۔‘‘ (برکاتِ خواجہ، مطبوعہ نوری مشن مالیگاؤں)
ہند میں دعوت و تبلیغِ اسلام کا نظام خواجہ غریب نوازکے وجودِ مسعود سے
مستحکم ہوا۔ گرچہ آپ کی آمد سے قبل کیرلا، سندھ و گجرات اور بعض علاقوں
میں اسلام کی کرنیں پھیل چکی تھیں؛ تاہم مجموعی طور پر پورے ہند میں اسلامی
نور خواجہ غریب نواز اور ان کے فیض یافتگان کے توسط سے عام ہوا۔ آپ نے اس
نظام میں استحکام کے لیے اپنے خلفا و تلامذہ، مریدین و مسترشدین کو تیار
کیا۔ جن کی کاوش ، جدوجہد اور عملی زندگی سے صالح انقلاب برپا ہوا۔ طبیعتیں
کشاں کشاں کھنچی چلی آئیں۔ شوریدہ افکار پاکیزہ ہو گئے۔ بجھی بجھی طبیعتیں
کھل اُٹھیں۔ خزاں دور ہوئی۔ بہاروں کے جھونکے چلنے لگے۔ جو بادل اجمیر مقدس
سے اُٹھے تھے؛ وہ کشورِ ہند پر چھا گئے۔ ابرِ کرم برسا۔ زور برسا۔ ایسا کہ
وادیاں جَل تھل ہو گئیں۔
دہلی میں فیضانِ خواجۂ ہند برسا۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے دہلی و
نواحِ دہلی میں دعوتی نظام پھیلایا۔ لوگ جوق در جوق تائب ہوتے گئے۔ شرک کی
فضا سمٹتی گئی۔ نورِ ایمان بستا گیا۔ خیالات کی وادیاں سیراب ہوئیں۔
خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے فیض یافتہ و خلیفہ خواجہ فرید الدین گنج
شکر نے پنجاب و مضافات کو منور کیا۔ ان کے نظام نے بھی اپنے خوش گوار نتائج
سے وادیوں کو سرشار کیا۔ خزاں رسیدہ ماحول باغ و بہار ہو گیا۔
حضرت گنج شکر کے خلیفۂ خاص حضرت محبوبِ الٰہی نظام الحق والدین کے ذریعے
چشتیت کے جام دہلی سے دور دور پہنچے۔ سمتوں میں فیض کے بادل گھرے۔ شرق و
غرب، شمال و جنوب میں فیض کی بارش ہونے لگی۔ بڑے بڑے شرکیہ مراکز میں اوس
پڑ گئی۔چراغِ کفر بجھنے لگے۔ شر کے مراکز میں اندھیرا چھا گیا۔ خیر کا
غلغلہ ہوا۔ اذانِ سحر گونج گونج اُٹھی۔ وہ علاقے جہاں گھنٹیاں بجتی تھیں؛
فضا گدلی تھی؛ آلودگی چھائی ہوئی تھی؛ یکایک توحید کے نغمے بلند ہونے لگے۔
محبتِ رسول ﷺ کی سوغات بٹنے لگی۔ نعت اقدس کے مصفیٰ اشعار سے فضا مشک بار
ہو گئی۔
ہمارے اسلاف نے اِس زمیں کو خونِ جگر سے سینچا۔ یہاں کی بادِ صبا اجمیر
مقدس کے فیض سے معمور ہے۔ یہاں کی فضا میں خواجۂ ہند کے سوزِ دروں کا اثر
ہے، نالۂ نیم شبی کا ارتعاش ہے۔ یہاں عزم کے اسباق تازہ ہیں، گرچہ پھر
یورشِ اقتدارِ شرک ہے۔ لیکن ہمیں فرنگی تخیلات اور شرکیہ افکار کی تہیں چاک
کر کے تعلیماتِ خواجۂ ہند سے بزم عرفاں کو سجانا ہے۔ پست ہمتوں کو توانائی
اور مایوسی کو یقیں کا توشہ دینا ہے۔ ان شاء اللہ وادی بھی ہماری ہو گی اور
گلشن بھی ہمارا؎
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر
عزائم کی سیج پر ہمیں اسلامی تعلیمات کافی ہیں۔ یاسیت کے اندھیروں میں ہمیں
اسلاف کی حیات کے ابواب سے درسِ عمل ملتا ہے۔ خواجۂ ہند کی تعلیمات کی
ترجمانی سفیرانِ عشقِ رسول ﷺ نے ہر عہد میں کی۔ منزل بہ منزل کاروانِ شوق
کے سالار کی حیات پڑھ جائیے۔ کیسے کیسے سالار موجود ہیں۔ اِسی ہند میں
مخدوم کلیر و مخدوم کچھوچھہ ہیں، خواجہ باقی باللہ ومجدد الفِ ثانی ہیں،
فضل حق خیرآبادی و اعلیٰ حضرت بریلوی ہیں، سرکارانِ مارہرہ و سرکارِ دیویٰ
ہیں، اکابرِ بدایوں و محدثین دہلی ہیں۔ سبھی کاروانِ اسلام کے سپہ سالار
اور جانشینانِ سلفِ صالحین ہیں، جن کے دَم قدم سے گلشن کی بہاریں ہیں۔ جن
کی تعلیمات میں خواجۂ ہند کا جمال بھی ہے اور مشائخ کرام کا جلال بھی۔ جن
کے نقوشِ قدم ہمارے لیے راہِ ہدایت ہیں اور نشانِ منزل ؎
ترے غلاموں کا نقشِ قدم ہے راہِ خدا
وہ کیا بہک سکے جو یہ سراغ لے کے چلے۔
٭ ٭ ٭
۱٧؍ فروری ۲۰۲۱ء
|