زمین جہاد

پچھلے دوتین عشروں سے ملک کےحالات تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیںاورملک میں اس وقت مسلمانوں کیلئے جسطرح زمین تنگ کی جارہی ہے وہ ناقابل بردداشت بات ہے، مسلسل مسلمانوں کیلئے کسی نہ کسی طرح سے تعصب کے پتھر برسائے جارہے ہیں، جو حکومتیں اقلیتوں کے محافظ ہونی چاہئے تھی وہی حکومتیں آج مسلمانوں پر ظلم ڈھانے والے تنظیموں اور شخصیات کے محافظ بنے ہوئے ہیں، 25 ، 30 سال پہلے سے مسجدوں ، مدرسوں کو نشانہ بنایا جاتارہا ہے۔ مسجدوں کو دہشت گردی کو بڑھاوا دینے والے مراکز کہا گیا ہے تو مدارس کو دہشت گردی کی تربیت دینے والے مرکز کہا گیا ہے۔ اس تعلق سے مسلمانوں کو کئی سالوں تک ذہینی طور پر پریشان کیا جاتا رہا ہے۔ اسکے کچھ عرصے بعد مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا پھر شریعت میں مداخلت کرتے ہوئے مسلمانوں کو مذہبی طور پر پریشان کیا جانے لگا۔ جہاد جوکہ اسلام میں الگ ہی مقام رکھتا ہے۔ اس جہاد کے معنوں کو غلط طریقے سے استعمال کیا جانے لگا ہے۔مسلسل لﺅ جہاد کے نام پر مسلم نوجوانوں کو پریشان کیا گیا،غیر مسلم لڑکیوں کو شادی کرنے والے مسلم نوجوانوں کو یہ کہہ کر بدنام کیا گیا کہ وہ غیر مسلم لڑکیوں سے شادی کرتے ہوئے انہیں اسلام میں لاکر جہاد کررہے ہیںیا پھر ان لڑکیوں کی زندگیاں تباہ وبرباد کررہے ہیں۔ حالانکہ مسلمان اس تعلق سے بارباروضاحت دے چکے ہیں ہیں ، جہاد کاشادی سےکوئی رشتہ نہیں ہے۔ اسلام میں صرف دوہی طرح کےجہاد فرض قراردئے گئے ہیں،جن میں "جہاد فی السبیل للہ" ہے جو کافروں ومشرکوں کے خلاف کھلے میدان میں جنگ لڑی جاتی ہے۔ اس سے لڑکیوں کے ساتھ زناکرنا یا زنا کے بعد ہونے والے نکاح کو جہاد نہیں کہا جاتا ، دوسری جہاد کی شکل" جہادالنفس " ہے۔جہاد النفس میں خواہشات کو ختم کرنے اورخواہشات سے لڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ پیار ویار بھی خواہشات کاہی حصہ ہے جس کی وجہ سے اس سے لڑنا بھی یا اس سے دوررہنا بھی نفس کا جہاد ہے۔ لیکن ملک کے شرپسندعناصرنے جہاد جیسے پاکیزہ لفظ کو بھگوڑے عاشقوںکے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ اس معاملے کو لیکر جہاں مسلمان حیران ہیں کہ آخر وہ کونسے نوجوان ہیں جو پانچ وقت کے نمازی ہوکر، اللہ کے احکامات کو مان کربھی لﺅ میریج کرنے چلے ہیں۔ اس معاملے کو لیکر شرپسندوں نے مسلمانوں کو بدنام تو کیا ہی ہے ، ساتھ ہی ساتھ ملک کے مختلف مقامات پر قانون بھی بنایا جانے لگا ہے۔ دوسری طرف جو مسلم نوجوان باصلاحیت ہوکر اپنے ملک کی خدمت کرنے کیلئے یوپی ایس سی میں نوکریاں حاصل کرنے کیلئے دن رات محنت کررہے ہیں ان مسلم نوجوان کو روکنے اورانکے حوصلوں کو توڑنے کیلئے پچھلے 2 سالوں سے نیا شوشہ چھوڑا گیا ہے۔ اوریہ شوشہ یوپی ایس سی جہاد کے نام سے ہے۔ بددماغ سنگھیوں کا کہنا ہےکہ مسلم نوجوان یوپی ایس سی میں شامل ہوکر آنے والے دنوں میں خلافت قائم کرنے کی تیاری کررہے ہیں،ہندوستان میں مسلم حکومت قائم کرنے کیلئے مسلم نوجوانوں کو پیسے دے کر یوپی ایس سی کی تیاری کروارہے ہیں ، انہیں مسلمانوں کیلئے ہی کام کرنے کاجذبہ دلوارہے ہیں۔ اسطرح کی فکر پیدا کرتے ہوئےانہیں ایک طرح سے جہاد کیلئے تیار کیا جارہا ہے اوریہی بات یوپی ایس سی جہاد ہے۔ جب یوپی ایس سی جہاد کو لیکر اٹھائے گئے شوشہ کے بعد خود یوپی ایس سی کے تمام افسروںنےایسا سنگھ پریوار کو جھٹکا دیا کہ وہ شرمندہ ہوکر خاموش ہوگئی۔ یوپی ایس سی کے افسروں نے کہا کہ یوپی ایس سی میں آنے والے ہر قوم کے نوجوان ملک کےلئے کام کرنے ا?تے ہیں ، دریں اثنائ ا?رایس ایس کی جانب سے ا?ئی اے ایس کوچنگ کیلئے چلائی جارہی" سنکلپ فاﺅنڈیشن" کا بھانڈہ پھوٹا تو آرایس ایس کی جانب سے پھیلائے جارہے انتشار پر روک لگی، جب ان تمام معاملات میں انہیں کوئی خاص شہرت اور طاقت ملتی دکھائی دینے لگی تو انہیں نے اب ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے ، جسے یہ لوگ زمین جہاد(لینڈ جہاد) کا نام دیا گیا ہے۔ لینڈ جہاد کو یہ لوگ ان زمینوں سے تشبیہ دے رہے ہیں جو مسلمانوں نے قبرستانوں ، مسجدوں اورمدرسوںکیلئے وقف کئے ہیں یا پھر سرکاری زمینوں کو مسجدوں ، قبرستانوں کیلئے حاصل کی ہیں۔ اس کے علاوہ فرقہ وارانہ فسادات کے دوران جلائے گئے یا نقصان ہوئے مکانات کے عوض جن فلاحی اداروں نے مسلمانوں کی بازآبادکاری کیلئے کالونیاں بنائی ہیںوہ تمام لینڈ جہاد میں شامل کئے جارہے ہیں۔ دراصل مسلمان پہلے کے مقابلے میں مالی ومعاشی اعتبار سے مستحکم ہونے لگیں ہیں اوراپنے مسائل کو حل کرنے کیلئے حکومتوں کے تلوے چاٹنے کے بجائے مخیر حضرات کے تعاون سے زمینوں کے لین دین میں اورزمینات کے صحیح استعمال میں آگے آنے لگے ہیں۔ اس لحاظ سے سنگھ پریوار کے لوگ بوکھلاہٹ کا شکار ہونے لگے ہیں، جب تک دنیا میں یہودی رہیں گے اس وقت تک دنیا کے مسلمان اطمینان سے نہیں رہے گے، اورجب ہندوستان میں سنگھی رہیں گے اس وقت تک ہندوستانی مسلمانوں کو چین سے بیٹھنے نہیں دیا جائےگا۔ جسطرح سے لوہا ، لوہے کو کاٹتا ہے اسی طرح سے مسلمانوں کو بھی لوہا بننے کی ضرورت ہے۔ آج سنگھ پریوار کی جانب سے اٹھائے جانے والی انگلیوں کا جواب دینے کیلئے مسلمانوں کو جوشیلے و جذباتی بیانات دینے کے بجائے ایسے طریقہ کار کو اپنانے کی ضرورت ہے جو طاقتور ، حکمت ، مضبوط ، قانونی اعتبار سے لڑنے کیلئے تیارہوسکیں، تعلیم کے شعبے میں مسلمانوں کو ا?گے لانے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہمارے نوجوان انتظامیائی امور میں داخل نہیں ہوتے، اس وقت حکومتیں مسلمانوں پر مسلت ہوتی ہی رہیںگی ، جو مسلمان یہ سمجھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کو سرکاری نوکریاں نہیں ملتی اورمسلم نوجوان اسکے اہل نہیں ہیں وہ سراسر غلط فہمی کا شکار ہیں۔ جو مسلمان قرآن کو اپنے ذہینوں میں محفوظ کرسکتے ہیں انکے لئے یہ دنیاوی چار کتابیں کونسی بڑی بات ہے۔ لیکن اسکے لئے صرف تائید کرنا اوررہنمائی کرناہی کافی ہے۔ مسلمانوں نوجوانوں کو جذباتی بنانے کے بجائے، تعلیم یافتہ بنائیں تو خودبہ خود ان میں جذبات آجائیںگے۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 174562 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.