ماں کی عظمت کو سلام

انسانی زندگی خوشی اور غم کا امتزاج ہے۔ ہر موقع پر توازن اور اعتدال کو برقرار رکھنا دین اسلام کی بنیادی روح ہے۔ پوری زندگی ہے ہی امتحان لھذا کسی نہ کسی طرح ہمہ وقت آزمائشوں کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ دنیوی زندگی کے ان ہی کٹھن مرحلوں میں سے ایک ماں باپ میں سے کسی کی رحلت اور جدائی ہے۔ "ماں کی ممتا" تو ایک ضرب المثل بن چکی ہے۔ صحیح بخاری: حدیث نمبر:5999، صحیح مسلم: حدیث نمبر:6978 میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ "اللہ تعالٰی اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا ایک ماں اپنے بچہ پر مہربان ہو سکتی ہے"۔ اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ والہ و سلم سے بھی ماں کی بے لوث محبت پر مہر تصدیق ثبت ہوتی ہے۔ ماں دنیا کا سب سے انمول زیور ہے۔ دنیا میں ماں سب سے زیادہ پیارا رشتہ ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، ماں کے پاؤں تلے جنت ہے۔ حضرت شیخ سعدیؒ نے کہا ’’محبت کی ترجمانی کرنے والی اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف ماں ہے‘‘۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے کہا ’’سخت سے سخت دل کو ماں کی پرنم آنکھوں سے موم کیا جاسکتا ہے‘‘۔ الطاف حسین حالی نے کہا ’’ماں کی محبت حقیقت کی آئینہ دار ہوتی ہے‘‘۔مشہور مغربی دانشور جان ملٹن نے کہا ’’آسمان کا بہترین اور آخری تحفہ ماں ہے‘‘۔ اسی طرح شیلے نے کہا ’’دنیا کا کوئی رشتہ ماں سے پیارا نہیں‘‘۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے دانشوروں اور عالمی شہرت یافتہ شخصیات نے ماں کی عظمت اور بڑائی کا اعتراف کیا ہے۔ماں, ماں ہی ہوتی ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔ ماں کی محبت ایک بحر بیکراں کی طرح ہے ۔ ماں کی بے پایاں محبت کو لفظوں میں نہیں پُرویا جا سکتا ۔خلوص و ایثار کے اس سمندر کی حدود کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ، ہر مذہب اور ہر تہذیب نے ماں کو عظیم اور مقدس قرار دیا ہے ۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ماں ہر وقت ربّ رحیم کے آگے دامن پھیلائے رکھتی ہے اور قدم قدم پر اولاد کی حفاظت کرتی ہے ۔ خُدا ئے ذوالجلال نےاس کے عظیم تر ہونے کی پہچان اس طرح کرائی کہ اس عظیم ہستی کے قدموں تلے جنت رکھ دی ۔ اب جس کا جی چاہے وہ اِس جنت کو حاصل کر سکتا ہے ۔اِس کی خدمت کرکے ، اُس سے محبت کرکے اوراُسے عزت و احترام دے کر ۔ مشاہدات گواہ ہیں کہ ہر رشتے میں خود غرضی شامل ہو سکتی ہے مگر ماں کے رشتے میں کوئی خود غرضی نہیں ہوتی ۔ ماں ایک ایسا رشتہ ہے جو دُنیا میں سب سے زیادہ پُر خلوص اور بے لوث ہے۔ ہم دُنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں اُس کی دُعائیں سائے کی طرح پیچھا کرتی ہیں اور اُس کی دُعاوں سے بڑی سے بڑی مصیبت ٹل جاتی ہے۔ ایک عشرہ قبل ہم بھی ماں جیسی لازوال نعمت سے محروم ہوئے۔ ماں کی جدائی کے اس درد بھرے موقع پر جذبات کو الفاظ کا جامہ پہنانا عملا ناممکن ہے البتہ اس نعمت کی قدر کے حوالے سے اپنی بساط کے مطابق کچھ احساسات سپرد قلم کر رہا ہوں۔ جہاں دل دکھ سے بھرا ہوا ہے وہاں میں اللہ تعالٰی کا شکر بھی ادا کرتا ہوں کہ جب مجھے بیماری کی اطلاع ملی تو ضروری معاملات کر کے لندن سے اپنی ماں جی (جنہیں ہندکو زبان میں ہم پیار سے "بے بے جی" کہا کرتے تھے) کے پاس اسلام آباد آگیا، جہاں وہ زیر علاج تھیں۔ ورنہ کسی ہنگامی صورتحال میں آج کل کورونا ٹیسٹ وغیرہ کی شرائط پوری کرتے کراتے پہنچنے تک کم از کم چار دن لگ جاتے اور شاید زیارت اور جنازہ میں شرکت سے بھی محروم رہتے۔ اس طرح آخری دو ہفتے اپنی والدہ محترمہ کی خدمت کرنے، ان کے پاس بیٹھنے اور دعائیں لینے کا موقع نصیب ہوا۔ اللہ کریم کا فضل ہے کہ ہمارا گھرانہ علم دوست اور دیندار ہے۔ اس کا یہ اثر کہ آپریشن اور اس کے بعد کے انتہائی تکلیف دہ مراحل میں بھی ہم نے والدہ محترمہ کے منہ سے کوئی حرف شکایت نہیں سنا۔ ہر حال میں اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرتی رہیں۔ ہمہ وقت یہی کہتیں کہ اللہ جی نے یہ تکلیف بھیجی ہے اور وہی مجھے شفا دے گا۔ انہیں جب ذرا افاقہ ہوتا تو اللہ کی یاد میں محو ہوجاتیں۔ اس جان لیوا بیماری کے دوران نمازوں کے قضا کی فکر ہر وقت دامن گیر رہتی۔ وفات سے ایک دن قبل صاحبزادہ پیر سید محمد علی رضا شاہ صاحب بخاری سجادہ نشین آستانہ عالیہ بساہاں شریف جب عیادت کیلئے تشریف لائے تو دونوں ہاتھ دعا کے لئے اٹھا کر ان سے کہنے لگیں کہ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں دعا کریں کہ مجھے شفا عطا کر دے۔ البتہ قدرت کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں جن کے سامنے بالآخر ہمیں سر تسلیم خم کرنا ہی پڑتا ہے۔ میں اپنی والدہ کی وفات کے بعد آج خود کو بہت تنہا محسوس کررہا ہوں۔ میں اُن تمام لوگوں سے التماس کرتا ہوں جن کے ماں باپ ابھی بحیات ہیں کہ اپنے والدین بالخصوص ماں کی اُن کی دنیوی زندگی میں ہی قدر کریں، اُنہیں ہر ممکن خوش رکھنے کی کوششیں کرتے رہیں اور کبھی بھی انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچنے دیں کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی خوشنودی اور رضا ہے اور اسی میں ہماری دنیا و آخرت کی بھلائی بھی مضمر ہے۔ امی جی کی وفات پر جتنے بھی احباب نے پاکستان اور بیرون ملک سے تعزیت کی، جنازہ میں شرکت کی اور دعائیں دیں۔ اس پریشانی کے عالم میں ہمیں صبر و حوصلہ دیا۔ دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی ان سب کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ ہمارے دانست کے مطابق والدین کے لیے قرآنی دعائیں "رب ارحمہما کما ربینی صغیرا" اور ربنا اغفرلی ولوالدی و للمومنین یقوم الحساب" بہت جامع ہیں کیونکہ یہ اللہ تعالٰی نے ہمیں خود سکھائی ہیں۔ یاد رہے کہ والدین دنیا سے چلے بھی جائیں تو اولاد کے ذمے والدین کے حقوق کا سلسلہ منقطع نہیں ہوتا۔ ان کے لیے مغفرت اور درجات کی بلندیوں کی دعائیں کرتے رہنا چاہیے۔ ان کی طرف سے صدقہ جاریہ کا سلسلہ حسب توفیق جاری رکھنا باعث سعادت ہے۔

حضرت علامہ اقبال رح نے یورپ میں قیام کے دوران اپنی والدہ محترمہ کی وفات پر کچھ احساسات کا اظہار کیا تھا جو ہمارے حالات اور جذبات کی بھی عکاسی کر رہا ہے ۔۔۔۔

کس کو اب ہوگا وطن میں آہ ! میرا انتظار
کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار

خاک مرقد پر تری لے کر، یہ فریاد آؤں گا
اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آؤں گا

عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی
میں تری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسی

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
s
 

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 240803 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More