|
|
اوپر موجود تصاویر کا موازنہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ
دونوں ہی تصویریں ہمارے معاشرے میں موجود برائیوں کی حقیقی عکاس ہیں۔
ہم سوشل میڈیا پر جہیز کو لاکھ برا بھلا کہہ لیں لیکن جب اپنے گھروں
میں جہیز کے خلاف عمل کرنے کا وقت آتا ہے تو ہم سب ہی منہ چھپا لیتے
ہیں۔ ایک طرف جہیز کی لعنت ہے اور دوسری طرف لڑکی اور اس کے گھر والوں
کی شادی کے لئے لڑکے سے بھاری تنخواہ، چمچماتی گاڑی اور الگ گھر کا
مطالبہ۔ یہ دو تصاویر جب سے سوشل میڈیا پر آئی ہیں مردوں کو عورتوں اور
عورتوں کو مردوں پر تنقید کرنے کے لیے جیسے ایک نیا راستہ مل گیا ہے۔
لیکن ایسا کیوں ہے؟ کیوں شادی جیسے مخلص رشتے کے لئے ہمارے اپنے جیون
ساتھی سے مطالبات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ کوئی ہمارے معیار پر پورا اترتا
ہی نہیں اور شادی کرنا مشکل سے مشکل کام بنتا جارہا ہے۔ |
|
لڑکیوں کے مطالبات اتنے کیوں بڑھ گئے ہیں؟ |
جہیز کے مطالبات پر تو سب ہی بات کرتے ہیں لیکن اب شادی کے لئے لڑکیاں بھی
کڑی شرائط رکھ دیتی ہیں۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کمانے
اور معاشی طور پر گھر چلانے کی ذمہ داری لڑکوں پر ہوتی ہے اس کے علاوہ شادی
کے لئے ایسی لڑکی تلاش کی جاتی ہے جو گوری، لمبی، پتلی، اعلیٰ تعلیم یافتہ
اور گھریلو کام کاج میں ماہر بھی ہو جبکہ اس کی عمر بھی پچیس سال سے زیادہ
نہ ہو۔ سوچنے والی بات ہے کہ جب کوئی لڑکی اتنی خوبیوں سے مالا مال ہوگی تو
آخر اس کے بھی ارمان ہوں گے اس لئے اگر وہ اپنے لئے بھاری تنخواہ والے شوہر
کی ڈیمانڈ کر رہی ہے تو اس میں وہ کچھ اتنا غلط بھی نہیں اور اگر اس کو
بدلنا ہے تو اس کے لئے لڑکے اور اس کے گھر والوں کو بھی کسی آسمانی حور کے
بجائے اسی دنیا میں بسنے والی عام لڑکیوں سے رشتے داری کرنی چاہئے۔ |
|
|
|
جہیز کے خلاف باتیں سب کرتے ہیں لیکن عمل
کوئی نہیں دکھاتا |
جہاں تک بات جہیز کی ہے تو یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ جہیز ایک لعنت ہے لیکن
ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے حقیقی زندگی میں جہیز لینے یا دینے سے
انکار کیا ہو؟ بلکہ جہیز کے علاوہ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں سے ان کے حسن
وخوبصورتی اور سگھڑاپے سے متعلق اور بھی توقعات رکھی جاتی ہیں جو پوری کرنا
کسی انسان کے بس کی بات تو نہیں ہے۔ |
|
|
|
مالی مطالبات رشتے کو کمزور کرتے ہیں |
جب تک باتوں کے بجائے ہم صحیح معنوں میں ایسی فضولیات کو اپنی زندگی سے
نکال کر باہر نہیں پھینکیں گے ہمارے مسائل کبھی حل نہیں ہوں گے۔ صرف
تصویریں بنا کر عورتوں کا مرد اور مردوں کا عورتوں کو نشانہ بنانا کافی
نہیں ہے بلکہ عملی طور پر دونوں کو ہی اپنے رویوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت
ہے۔ زندگی بھر کے رشتے مالی ترجیحات کو سامنے رکھ کر قائم کرنا اخلاقی
کمزوری کے ساتھ رشتے کے اندر خلوص اور بھروسے کی کمی بھی ظاہر کرتا ہے بلکہ
ان رشتوں کو قائم کرنے کے لئے تو اخلاق، کردار اور شرافت کومدِنظر رکھنا
چاہیے تاکہ زندگی کا سفر طے کرنے میں آسانی ہو۔ جہاں جہیز کے مسئلے نے
لڑکیوں کو خودکشی کے لئے مجبور کیا ہے وہیں لڑکیوں کے "پرفیکٹ دولہے" کی
تلاش نے مردوں کے ذہنی تناؤ میں بھی اضافہ کیا ہے۔ غلطی دونوں جانب ہے اس
لئے سدھار کے لئے قدم بھی دونوں جانب سے اٹھانا ہوگا. |