میں آج پہلی بار میاں صاحب کے دفتر آیا تھا میاں صاحب سے
میری دوستی کو دس سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے ملاقات بہت کم بلکہ بعض اوقات
تو مہینوں بعد ہو تی ہے میاں صاحب کا روباری شخصیت اورامیر آدمی ہیں ‘ عمر
کا شاندار حصہ گزارنے کے بعد اب بڑھاپے کی آخری حدوں میں داخل ہو چکے ہیں
پچھلے کئی عشروں سے دولت کی مہربان دیوی ان پر مسلسل دولت کی برسات جاری
رکھے ہوئے ہے میاں صاحب میں دولت مندوں والی بُو‘ اکڑ ‘غرور نام کو نہیں ہے
بلکہ دولت جائداد فیکٹریوں کو صرف اور خدا کا کرم احسان سمجھتے ہیں امیر
کبیر ہونے کے باوجود سیاست اقتدار کی راہداریوں سے دور رہتے ہیں صوفیا کرام
سے محبت انہیں اکثر کوچہ تصوف میں لے جاتی ہے جہاں بھی کسی نیک اﷲ کے بندے
کا پتہ چلتا ہے دوچار بار جا کر اچھی طرح تحقیق کے بعد وہاں پر لنگر اور
ضرورت مندوں میں دولت تقسیم کرتے ہیں نیک لوگوں کے رابطے میں رہتے ہیں
خاندانی دولت مند ہیں لیکن خاندانی دولت مندوں والی عیاشیوں غرور نام کو
نہیں ہے اولیاء اﷲ سے محبت اور صوفیا کرام کی صحبت کے طفیل سخاوت اور انسان
دوستی فطرت کا حصہ ہے یااولیاء کرام کی صحبت کا رنگ چڑھا ہوا ہے میں کئی
سال پہلے جب لاہور آیا تو کسی نیک انسان نے اِن کے سامنے میرا ذکر بھی اچھے
الفاظ میں کر دیا تو یہ مُجھ سیاہ کار کو بھی نیک سمجھ کر میرے پاس آگئے دو
چار رسمی ملاقاتوں کے بعد ہی میں اِن کی کسوٹی کے پیمانے پر پورا اُترا تو
ایک دن بولے پروفیسر صاحب میں نے اور میرے چنددوستوں نے ایک چھوٹی سی تنظیم
بنا رکھی ہے اُس میں ہم اپنی کمائی کا ایک خاص حصہ جمع کرتے ہیں پھر اُس
جمع شدہ رقم کو یتیم نادار بے آسرا بچوں کی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں میں نے
چند ملاقاتوں میں ہی دیکھ لیا ہے کہ آپ بلامعاوضہ خدمت خلق کے تحت لوگوں سے
بلا امتیاز ملتے ہیں آپ کے پاس زیادہ تر غریب اور سفید پوش لوگ آتے ہیں تو
آپ کے پاس جب بھی ایسے بچے جو یتیم ہوں جن کا اِس بے رحم معاشرے میں کوئی
مدد گار نہ ہو اور وہ اپنی غربت لاچارگی کی وجہ سے اپنا تعلیم کا سلسلہ
جاری نہ رکھ سکتے ہوں ہماری کچھ خاص شرائط ہیں جو بچہ اِن شرائط پر پورا
اُترتا ہو اُس کو میرے پاس ریفر کر دیا کریں تاکہ ہم اپنے مخصوص فنڈ سے اس
کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے میں اِن کی مدد کریں گے وہ مجھے یہ آفر دے کر
میاں صاحب چلے گئے اب وہ مہینوں بعد کبھی کبھار چکر بھی لگا لیتے یا پھر
ضرورت پڑنے پر میں اُن سے فون پر رابطہ کر کے ضرورت مند بچے کا بتا دیتا جب
بھی میرے پاس آتے تو ہمیشہ اصرار کر تے کہ کبھی میرے دفتر یا گھر تشریف
لائیں تو میں ہمیشہ اقرار کرتا کہ کسی دن ضرور آؤں گا لیکن میری بے پناہ
مصروفیت اور زندگی کے پہیے کی تیز رفتار حرکت کے باعث سالوں بعد بھی کبھی
اِن کے دفتر یا گھر جانے کا موقع نہ ملا پانچ سال پہلے میرے پاس ایک ضرورت
مند ہونہار پڑھنے کا شوقین لڑکا آیا جو یتیم ہو نے اور بے آسر گی کی وجہ سے
اپنی تعلیم مزید جاری نہیں رکھ پا رہا تھا جب آیا تو میں نے میاں صاحب کو
فون کر دیا اور بچے کو اُن کے پاس بھیج دیا یہ بچہ شوق ذوق سے پڑھنے لگا
کبھی کبھار میرے پاس آتا تو اپنی تعلیمی کامیابیاں بتا تا ساتھ میں میاں
صاحب کا ذکر بھی نہایت ادب و احترام سے کر تا اِس دوران مزید لڑکے بھی جو
غربت کی وجہ سے تعلیم جاری نہیں رکھ پا رہے تھے ان کو میاں صاحب کے پاس
بھیجا جو میاں صاحب کی شرائط پر پورا اُترتا وہ اُن کی آغوش شفقت میں سما
جاتا انُہی لڑکوں میں سے ایک لڑکا جو میں نے پانچ سال پہلے میاں صاحب کے
پاس بھیجا تھا پانچ سال محنت لگن سے پڑھ کر اب جب سرکاری نوکری پر لگا تو
مجھے فون کیا سر آپ کی دعاؤں اور شفقت اﷲ کے خاص کرم سے آج میں اچھی تنخواہ
پر سرکاری ملازم ہوں آپ کے پاس مٹھائی کے ساتھ آنا چاہتا ہوں ساتھ میں ایک
درخواست بھی ہے کہ آپ پلیز میرے ساتھ میاں صاحب کے دفتر چلیں ان کی مالی
مدد سے ہی آج میں غربت جہالت کے سلگتے ریگستان سے زندگی کے پر آسائش
نخلستان میں آیا ہوں میں میاں صاحب کا شکریہ ادا کر نا چاہتا ہوں اگر آپ
میرے ساتھ چلیں گے تو وہ بہت خوش ہو نگے وہ کئی بار اپنی اِس خواہش کا
اظہار کر چکے ہیں کہ کسی دن پروفیسر صاحب کو بھی میرے آفس لے کر آؤ لڑکے نے
اِس لجاجت سے کہا کہ میں انکار نہ کر سکا لہذا آج میں اُس ہونہار لڑکے کے
ساتھ میاں صاحب کے دفتر میں تھا میاں صاحب کا کمرہ لوگوں سے بھرا ہوا تھا
ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے ملازم کو حکم دیا شاندار چائے لوازمات کے ساتھ
ہمیں پیش کی جائے ہمیں وسیع کمرے کے ایک کونے میں بیٹھا دیا اور معذرت خواہ
اندا ز میں بولے آپ چائے وغیرہ لیں میں تھوڑا دفتر ی کام کر لوں پھر آپ کے
ساتھ خوب باتیں ہو نگی میں نے گرما گرم چائے کا کپ اٹھا یا اور میاں صاحب
کا ملاقاتیوں سے انداز گفتگو کاجائزہ لینے لگا کیونکہ میں اِس سے پہلے بہت
سارے نام نہاد لوگوں سے مل چکا تھا جو نمازی پرہیز گار سخاوت کر نے والے
لیکن جب ان کے معا ملات اپنے ملازمین سے برتاؤ دیکھا تو دوسرا ہی روپ سامنے
آیا ظاہری طور پر انہوں نے شرافت سخاوت نیکی کا لبادہ اوڑھا ہوا تھا لیکن
جب اُن کے کاروباری اور نچلے لوگوں سے تعلقات برتاؤ دیکھا تو انہیں بے
ایمان بے رحم غرور پایا میں اب میاں صاحب کو دیکھنے لگا کہ اﷲ نہ کرے یہ
بھی اُن میں سے تو نہیں میاں صاحب کا بیٹا اور مینیجر مختلف لوگوں کی
شکایات کا پلندہ لے کر حاضر تھے مجرموں کو میاں صاحب کے کٹہرے میں باری
باری پیش کیا جارہا تھا تینوں بندوں کا جرم ثابت ہو گیا تھا میاں صاحب نے
ہلکی پھلکی وارنگ کے بعد جب تینوں کو چھوڑ دیا کہ آئیندہ ایسے نہ کر نا تو
بیٹا اور مینیجر خوب گرجے میاں صاحب اِس طرح یہ لوگ ہمیں کھا جائیں گے تو
میاں صاحب بولے یار پچاس سالوں سے اﷲ دے رہا ہے اُسی کا یہ کھا رہے ہیں یہ
کونسا میرا کھا رہے ہیں کوئی مجبوری آگئی ہو گی چھوڑو معاف کر و اب بیٹے نے
ملازمین کے کھانے اور چائے پر اعتراض کیا کہ ہم دوپہر کا کھانا اور چائے
سارا دن ملازمین کو مفت دیتے ہیں مہنگائی بہت ہو گئی ہے اب اِس کو بند کر
دیں یا ملازمین سے پیسے لیں تو میاں صاحب پھر بولے یار یہ اﷲ کا خاندان ہیں
جب میں اِن کا کھانا چائے بند کر وں گا تو اﷲ میرا تمہارا بند کر دے گا میں
کبھی یہ ظلم نہیں کروں گا تو بیٹا بولا ہم جو مریضوں اور ملازموں کا مفت
علاج کرتے ہیں یہ اب بہت مہنگا ہو گیا ہے اِس کو بند کریں تو میاں صاحب پھر
بولے اگر اِن کا علاج بند کیا تو ہم لاعلاج بیماریوں کا شکار ہو جائیں گے
میاں صاحب مسلسل لوگوں میں بھلائی آسانی بانٹ رہے تھے بیٹا مینیجر روک رہے
تھے اِس طرح بہت سارے واقعات میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے آخر کار میاں
صاحب فارغ ہو کر ہمارے پاس آگئے میں گلے تک اُن کی محبت میں گرفتار ہو چکا
تھا ایسے لوگوں سے معاشرے زندہ اور سانس لے رہے ہیں میں نے تعریف کی تو
میاں صاحب بولے آپ بھی تو دن رات لوگوں کی مفت خدمت کرتے ہیں میرے پاس اﷲ
کا مال ہے میں دے رہا ہوں میں کونسا اپنے پاس سے دے رہا ہوں خوب گپ شپ کے
بعد جب ہم اٹھنے لگے تو میاں صاحب نے اپنے ملازم کو بلایا اور کہا جناب اب
مجھے جانے کی اجازت ہے وہ اپنے ذاتی ملازم سے اجازت اور احترام سے بات کر
رہے تھے میں اجازت لے کر نکل آیا بہت خوش کہ ایک بڑے آدمی سے ملاقات ہوئی
ایسے لوگوں سے ہی یہ دھرتی قائم ہے معاشرے زندہ ہیں ورنہ کب کے کوڑے کا
ڈھیر بن جاتے ۔
|