تحریر:سحرش ریاض ۔منڈی یزمان
انسان ذی شعور مخلوق ہے۔حفظ ماتقدم کے طور پر اپنے لئے کوئی بھی فیصلہ لے
سکتا ہے ۔
’’اگر تم یتیموں سے بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند
آئیں ان میں سے دو دو، تین تین،چار چار سے نکاح کر لو لیکن اگر تمہیں
اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی سے کرو‘‘(سورہ
النساء)
قدرتی طور پر لڑکے اور لڑکیاں تقریباً تعداد میں برابر پیدا ہوتے ہیں لیکن
ایک بچی میں بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی قوت مدافعت ایک لڑکے کی نسبت زیادہ
ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی عمر میں لڑکوں کی شرح اموات لڑکیوں کی نسبت
زیادہ ہوتی ہے۔ جنگوں میں مرد شہید ہوتے ہیں۔ عورتوں کی اوسط عمر بھی مردوں
سے زیادہ ہوتی ہے۔ معاشرے میں رنڈوے مردوں کی نسبت بیوہ عورتیں زیادہ ہوتی
ہیں۔ عالمی سطح پر عورتوں کی تعداد مردوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ مغربی
معاشرہ ہو یا اسلامی ایک شادی شدہ مرد اپنی بیوی کے علاوہ کئی دوسری عورتوں
سے بھی تعلقات رکھتا ہے جو کہ ہتک آمیز بات ہے اور عورت کے لئے عدم تحفظ کا
باعث ہے۔ دوسری طرف یہی معاشرہ ایسا مرد جس کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں اس
کو قبول نہیں کرتا حالانکہ تعدادازواج کی صورت میں عورت پوری عزت اور حفاظت
کے ساتھ نہایت باوقار زندگی بسر کر سکتی ہے۔
زمانہ جاہلیت میں کثرت ازواج کا رواج عام تھا اسلام نے اس کی حد متعین کر
دی ۔ عام طور پر عورتیں کمزور طبعیت کی مالک ہوتی ہیں ایک دوسری کو کمتر
سمجھتی ہیں جس سے فساد کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلتا ہے ۔اسلام نے
مرد کے طبعی اور فطری تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے چار شادیوں تک کی اجازت
دی ہے جس میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ آج کے دور میں
دوسری شادی کو شجرممنوعہ کی حیثیت دے دی گئی ہے ۔
''عورت اگر مرد کی دوسری شادی کو شرک کا درجہ دیتی ہے تو نعوذباﷲ اس نے خود
کو خدا کے رتبے پر فائز کر رکھا ہے ''
میرا گھر..... میرے بچے...میرا شوہر....میری راجدھانی... میری سلطنت...میری
کائنات…
یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں بے حیائی کو فروغ مل رہا ہے۔آنکھوں میں سپنے
سجائے ماں باپ کی دہلیز پر بوڑھی ہوتی لڑکیاں، غریب ماں باپ اپنی اپنی بیٹی
کے اچھے بر کے انتظار میں قبروں میں جا اترتے ہیں ۔معاشرے کی اس ستم ظریفی
نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے دیکھتے ہیں کہ ایک سے زیادہ شادیاں
کرنے کا عمل کس طرح معاشرے پر مثبت اثرات ڈال کر رحمتوں اور برکتوں کا موجب
بنتا ہے اور مجھے امید ہے جو لوگ دل سے حسدکینہ اور ہندوانہ معاشرتی رسوم و
رواج کو نکال کر یہ تحریر پڑھیں گے ان پر ضرور یہ دلائل اثر کریں گے ۔
اس عمل سے مسلم لڑکیاں بن بیاہی اپنے بالوں میں چاندی اترتے نہیں دیکھیں گی
نہ ہی والدین راتوں کو بچیوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند رہ کر جاگتے
رہیں گے
ذات باری تعالیٰ کی دی ہوئی اس چھوٹ سے لڑکیوں کو معاشرتی اور سماجی سطح کے
مطابق اپنی مرضی کے انتخاب میں بھی آسانی رہتی ہے ۔رزق کی ذمہ داری اﷲ
تعالیٰ کی ہے اس معاملے میں پریشان ہونا بے وقوفی ہے۔جب لوگ آمدن قلیل ہونے
کے باوجود اپنا کنبہ بغیر کسی پلاننگ کے بڑھاتے ہوئے پریشان نہیں ہوتے تو
دوسری شادی میں کیا حرج ہے۔اصحاب رسول ﷺ آمدنی نہ ہونے کے باوجود بیواؤں کو
سہارا دیتے تھے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ عورت ہی عورت کی سب سے بڑی دشمن ہے جو
اپنی دوسری بہنوں کا دکھ سمجھنے کو تیار ہی نہیں۔ اسلام نے اگر دو تین یا
چار شادیوں کی اجازت دی ہے تو اس سے عورت کو وہ عزت اور تحفظ فراہم کیا ہے
جو ایک خود کفیل عورت جتنا مرضی کما لے حاصل نہیں ہو سکتا۔
عورتوں کی تعداد مردوں سے کئی گنا زیادہ ہے کچھ مرد چرس ،جوئے اورشراب جیسی
بری عادتوں میں مبتلا ہیں جو عورت کی ذمہ داری اٹھانے کے قابل ہی نہیں ہیں
اور اگر ان کی شادی ہو بھی جائے تو بات طلاق تک جا پہنچتی ہے -
آج کے دور میں عورتوں کا تعلیمی میدان میں برتر ہونا،ملازمتوں پر بھی
عورتوں کے قابض ہونے کی وجہ سے بہت سے مرد بے روزگار ہیں ۔
بہت سے مردوں کو اپنے ملک میں کام نہ ملنے کی وجہ سے باہر کے ملکوں کا رخ
کرنا پڑتا ہے۔ بہت سی ترجیہات اور وجوہات کی بنا پر غیر مسلم لڑکیوں سے
شادی ان کی مجبوری بن جاتی ہے جس کا خمیازہ اپنے ملک کی بن بیاہی مسلم
لڑکیوں کو اٹھانا پڑتا ہے ۔بے حیائی اور فحاشی اس قدر ہے کہ لوگ دوسری شادی
میں شرم اور گرل فرینڈ رکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں جس کی نوبت طلاق بنتی
ہے اور بچیاں پھر سے والدین کی دہلیز پر آ بیٹھتی ہیں ۔ہر مرد فطرتأ عاشق
مزاج ہوتا ہے اس کی فطرت کے حساب سے اﷲ نے جنت میں بھی اسے 70 حوروں کی
بشارت دی ہے جبکہ عورت کو بناؤ سنگھار کا شوق ہوتا ہے بسا اوقات اکتاہٹ کی
بنا پر بڑھاپے تک پہنچتے دونوں ایک دوسرے کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں
کرتے ۔میری کم علمی کے مطابق یہ بہت کم حقائق ہیں لیکن ان سے نظریں چرانا
بھی مشکل ہے انہی کی وجہ سے مسلم معاشروں میں بچیاں مناسب رشتوں کی عدم
دستیابی کی وجہ سخت پریشانی کا شکار ہیں ۔ہم ایسے اسلامی معاشرے میں رہتے
ہیں جہاں مرد کو ناجائز تعلق نبھانا آسان ہے اولاد کے جھنجھٹ سے بھی بچا
رہتا ہے دوسری یا تیسری شادی کر کے ذلیل و رسوا ہوجاتا ہے۔انصاف کی بات
کریں تو انصاف پسند مرد دو شادیاں کر کے بھی انصاف پسند ہی رہے گا ۔ عورت
کنواری ہو،مطعلقہ ہو یا بیوہ اپنی رہائش،کھانے پینے سے لے کر مرنے تک مرد
پر انحصار کرتی ہے لہذا بہتری اسی میں ہے کہ صالح مردوں سے ان کے دوسرے
تیسرے یا چوتھے نکاح کر دئے جائیں تاکہ وہ ان کو پاک رکھ سکیں ۔آج کے فتنہ
فساد کے دور میں مرد کو دوسری شادی سے روکنا، طلاق پر مجبور کرنا یا کسی
طلاق یافتہ سے شادی کو معیوب سمجھنا اﷲ تعالیٰ کی حدود کی خلاف ورزی کرنا
ہے اور معاشرے میں فساد پھیلانے کا موجب ہے۔اس میں سب سے اہم کردار عورت کا
ہے اسے چاہئے کہ اپنے ظرف کو وسیع کرے۔ دوسری عورتوں کے دکھ کو سمجھے نہیں
تو آنے والے وقت میں اس کی بیٹیاں ماں کی دہلیز پر بیٹھی اچھے رشتوں کی
تلاش میں بوڑھی ہو جائیں گی ۔
پہلی شادی اگر والدین کرتے ہیں تو دوسری مرد پسند سے کرتا ہے۔ ہوتی دونوں
عورتیں ہی ہیں ان کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ سوتن بننے سے گریز کریں ۔
معاشرے میں بے حیائی بڑھے گی تو لوگ گناہ سے کیسے بچیں گے؟ جائز طریقوں میں
سے ایک نکاح ہے ۔
اگر دو عورتیں مل بانٹ کر چلیں تو دونوں زیادہ آرام سے رہ سکتی ہیں شوہر
بھی ڈرتا ہے۔
خواتین اگر سوتن کے فوائد جان لیں تو خود اپنے شوہر کی دوسری شادی کرائیں ۔
مگر عورت کا دماغ عورتوں کے حقوق کی (نام نہاد) تنظیموں نے خراب کر رکھا ہے
۔
اس معاشرے میں اقتدار رکھنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ ان پڑھ،چھوٹے اور
انتہائی غریب طبقوں کو فیملی پلاننگ کی زیادہ سے زیادہ ترغیب دی جائے۔ پڑھے
لکھے اور برسرروزگار لوگ اپنے اپنے کنبے کو بڑھائیں تاکہ اچھے اور مثبت لوگ
معاشرے کو فائدہ پہنچائیں۔
اگر ایک فقیر کے گھر سے دس فقیر بچے اور ایک فیکڑی مالک کا ایک آرمی آفیسر
بچہ نکلے تو یہ آنے والے دور کے لئے نقصان دہ ہے۔ یہ وہ اسلامی ملک ہے جہاں
اسلامی حدود کا خیال رکھنے والاذلت کا شکار ہوتا ہے اور سر عام گناہ کرنے
والے کی تعریف اور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے
اﷲ ہم سب کا حامی و ناصر ہو! آمین
|