پچھلے سال یعنی 2020ء کے ماہ فروری اور امسال ماہ فروری
میں ہی پاک و ہند کے دو نوجوان شادی شدہ لڑکا اور لڑکی کی خود کشی کے
واقعات پیش آئے اور دونوں نے مرنے سے پہلے ویران سنسان مقام پر کھڑے ہو کر
وڈیو بنائی اپنا درد اپنا دکھ بیان کیا ۔ انداز میں مماثلت تھی تو دونوں کے
درون خانہ مسائل میں ایک قدر مشترک تھی ۔ اپنوں کی طرف سے پیسوں کی مانگ
اور رقوم کا مطالبہ ۔ بہ سلسلہء روزگار دوبئی میں مقیم پاکستانی محنت کش
نوجوان صدام خان کے گھر والے اس کی تمام تر کاوشوں کے باوجود اس سے مطمئین
نہیں تھے وہ اس سے مسلسل مزید رقم کا مطالبہ کرتے تھے اور اس پر شک کرتے
تھے کہ وہ اپنی تمام کمائی ہمیں بھیجنے کی بجائے اس کا کچھ حصہ اپنے پاس
بھی رکھ لیتا ہے جسے جمع کر کے وہ بہت امیر ہو جائے گا اور اس کے باقی
بھائی غریب رہ جائیں گے ۔ اور اپنی ایسی ہی جلی کٹی سے اس کی دلآزاری کرتے
تھے جس سے دلبراشتہ ہو کر اس نے حرام موت کو گلے لگانے کا فیصلہ کر لیا اور
پھر اس پر عمل بھی کر گزرا ۔
احمدآباد بھارت کی عائشہ کے سفید پوش باپ نے اس کے اکلوتی بیٹی ہونے کے
ناطے اس کی شادی پر اپنی بساط سے بھی بڑھ کر خرچ کیا اپنے آڑے وقتوں کے لیے
بچا کر رکھا ہؤا ایک مکان بھی فروخت کر دیا اور اسے اچھا جہیز دیا ۔ مگر
شادی کے صرف دو چار ماہ بعد ہی شوہر اور سسرال والوں نے اسے کم جہیز کے
طعنے دینے شروع کر دیئے اور اس کے میکے والوں سے رقم کا مطالبہ کیا جو کہ
اس کے غریب باپ نے کسی طرح پورا بھی کر دیا ۔ مگر اس کے باوجود اس بچی کے
ساتھ بدسلوکی مار پیٹ اور مزید رقوم کے مطالبات کا سلسلہ جاری رہا ۔ تشدد
کے نتیجے میں اس کا حمل بھی ضائع ہو گیا تھا ۔ بار بار اسے میکے بٹھا دیتے
تھے اور پھر اپنی مانگ پوری ہونے یعنی بھیک ملنے کے بعد اسے واپس لے آتے
تھے ۔ اور وقت کے ساتھ حالات بد سے بد تر ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ عائشہ
سابرمتی ندی میں چھلانگ لگانے چلی گئی ۔
صدام خان کا تعلق ایک پسماندہ اور نیم خواندہ طبقے سے تھا اس کی گفتگو میں
سادگی تھی ۔ عائشہ گریجویٹ تھی میکے آ کر بیٹھی تو ماسٹرز کی تیاری کرنے
لگی ساتھ ہی ایک نجی بنک میں جاب بھی کر لی ۔ وہ اپنے باپ کی راج دلاری تھی
اس کا ایک شاندار تعلیمی ریکارڈ تھا یقیناً بات چیت میں روانی اور لہجے میں
پختگی بھی ہو گی اس کا اپنا ایک انداز ہو گا بولنے چالنے کا ۔ اور مرنے سے
پہلے اس نے جو وڈیو بنائی اس میں کسی بناوٹ اور بھید بھاؤ کا کیا سوال؟ وہ
ندی میں کودنے جا رہی تھی جھولا جھولنے نہیں ۔ مگر کچھ غیر جذباتی سیانوں
کو اس کا انداز فلمی لگا اس کے درد بھرے الفاظ فلمی ڈائیلاگ معلوم ہوئے وہ
ٹی وی ڈراموں کے اثر کا شکار نظر آئی اور والدین کی تربیت میں کمی کوتاہی
کا بھی ثبوت ملا ۔ اس کا قصور یہ تھا کہ وہ اپنے خاوند کے عشق میں گرفتار
تھی جو کہ اس کا کزن بھی تھا اور اسے پسند کرتا تھا ۔ مگر اس کی کسی اور
لڑکی سے بھی دوستی تھی جو عائشہ سے شادی کے بعد بھی جاری رہی بلکہ شادی کے
بعد وہ چور بن کے نہیں رہا شیر ہو گیا ۔ اور کھلم کھلا عائشہ کی موجودگی
میں ہی اس سے فون پر وڈیو کال تک کرتا اور اسے تحائف بھی دیتا ۔ یہ کون
لڑکی تھی اور اس کی کیا تربیت تھی اور خود عارف کتنا تربیت یافتہ تھا یہ
ایک الگ بحث ہے ۔ حقائق یہ سامنے آئے ہیں کہ اس لڑکی کے چکر میں اور اس کی
فرمائشیں پوری کرنے کے لیے عارف اپنی سسرال والوں سے جہیز کے نام پر رقوم
کا مطالبہ کرتا تھا جس میں اس کے گھر والوں کی بھی ایماء شامل ہوتی تھی ۔
مگر عائشہ کو کوئی رعایت حاصل نہیں ہوئی حالات بگڑتے ہی چلے گئے ۔ اس نے
اپنے ہرجائی شوہر سے بنا کر رکھنے اس کا دل جیتنےکی کوشش کی مگر ناکام رہی
۔ مر جانے کی دھمکی دی تو شوہر نے صلاح دی کہ مرنے سے پہلے وڈیو ضرور بنا
لینا تاکہ پولیس میرے پیچھے نہ آئے ۔
یکم مارچ کو عائشہ کے خاوند عارف کو گرفتار کر لیا گیا اور اس سے پوچھ گچھ
جاری ہے ۔ اور یہی بتایا جا رہا ہے کہ عارف کو نہ تو عائشہ کی موت پر ذرہ
برابر بھی افسوس ہے اور نہ اپنے کیے پر کوئی ندامت ۔ بلکہ اس نے عائشہ پر
بہتان تک باندھ دیا ہے کہ ضائع ہونے والا بچہ اس کا نہیں تھا ۔ یہ کیس کو
کمزور کرنے کا سب سے بڑا ہتھکنڈہ ہوتا ہے اگر ایسی بات تھی تو تبھی اسے
طلاق کیوں نہ دے دی؟ سسرال کے مال پر اپنی گرل فرینڈ کیوں پال رہا تھا ۔
جبکہ عائشہ کی موت کی اطلاع ملنے پر اس نے انسٹا پر جو سٹیٹس لگایا وہ یہ
تھا " کون چلا گیا ہے یہ اہم نہیں ہے ۔ کون اب بھی ساتھ ہے یہ اہم ہے " وہ
خود کتنا دودھ کا دھلا ہے اس کا اندازہ اس کے انہی الفاظ سے لگایا جا سکتا
ہے ۔ ایسا شخص جتنا بھی گر جائے کم ہے ۔ افسوس کہ عائشہ نے ایسے نیچ اور
ناقدرے شخص کے لیے اپنی جان گنوائی کسی کی ایک نہ سنی ۔ نہ اپنے ماں باپ کی
التجائیں منتیں قسمیں نہ اللہ رسول کے فرمان کا پاس کیا ۔ جس سوشل میڈیا کا
سہارا لے کر اس نے ساری دنیا پر اپنی مظلومیت اور بےکسی کو بےنقاب کیا اور
پورے سماج کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اسی سوشل میڈیا کی مدد اور توسط سے وہ
اپنی بات آگے پہنچا سکتی تھی انصاف اور نجات حاصل کر سکتی تھی ۔ وہ کس
بحران سے گزر رہی تھی کسی کو اس کا گمان تک نہ ہؤا اور اسی کے نتیجے میں اس
کی جان چلی گئی ۔
صدام خان کی اپنی خودکشی سے پندرہ منٹ پہلے بنائی گئی وڈیو سوشل میڈیا پر
وائرل ہوئی تو ہم نے اسے فیس بک پر سرچ کیا جہاں وہ مل گیا ساتھ ہی اس کے
سسر کی آئی ڈی بھی نظر آئی ہم نے اس کی وال کا وزٹ کیا تو پتہ چلا کہ خاصا
معقول بندہ ہے اور اپنے علاقے کے معززین میں شمار کیا جاتا ہے ۔ سینکڑوں
لوگوں نے اسے فالو کر رکھا ہے تو ہزاروں فرینڈز لسٹ میں موجود ہیں ۔ حیرت
کی بات ہے کہ یہ شخص اپنے داماد کے حال سے بےخبر تھا ۔ آخر وڈیو کال پر بات
تو ہوتی ہو گی ویسے تو مشرقی پردیسی دنیا کے سب سے بڑے جھوٹے ہوتے ہیں یہ
کبھی خود پر گزرنے والی کا حال نہیں سناتے لیکن آنکھیں اور چہرہ ضرور چغلی
کھاتا ہے حیرت کی بات ہے کہ صدام خان کی صورت اور حالت دیکھ کر بھی کبھی
کسی نے اس کی مشکلات و مصائب کا اندازہ نہیں لگایا بلکہ اسے جھوٹا ہی
گردانا جبکہ وہ دن اور رات دو دو نوکریاں کر کے خود کتوں سے بھی بدتر زندگی
بسر کر رہا تھا ۔ اس نے اپنے اکاؤنٹ پر ایک دن پہلے خود کشی کے موضوع سے
متعلق وڈیوز شیئر کیں سینکڑوں دوست اس کی لسٹ میں موجود تھے کسی نے دھیان
بھی نہیں دیا ہو گا کہ اس نے ایسا کیوں کیا ہے؟ کوئی تو اس سے پوچھتا اسے
روکتا اگلے روز اس نے خودکشی کرنے سے پہلے بارہ منٹ کی وڈیو بنائی اسے اپنی
ٹائم لائن پر پوسٹ کیا اور کتاب ہستی سے سائن آؤٹ ہو گیا ۔ اس کے اپنوں کا
گناہ اتنا بڑا نہیں تھا جتنی بڑی اس نے انہیں سزا دی ۔ اس کی بیوی اور چند
ماہ کے بچے کا کیا قصور تھا انہیں کس بات کی سزا ملی؟ صرف انہی کے بارے میں
سوچ لیتا تو شاید یہ نوبت نہ آتی ۔
زندگی بہت قیمتی ہوتی ہے صرف ایکبار ملتی ہے یہ بات سب جانتے ہیں اور اسی
زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لیے کیا نہیں کرتے ۔ اور کسی بھی انسان کا سب
سے بڑا حق خود اپنے آپ پر ہوتا ہے مگر جب کسی بھی وجہ سے وہ مایوسی و
نامرادی کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو دنیا اس کی نظروں میں ہیچ ہو جاتی ہے
اس کے دل سے موت کا خوف نکل جاتا ہے اور اسے اپنی ہر اذیت و کرب سے نجات کا
حل خود کو ختم کر لینے میں نظر آتا ہے ۔ ایسی کیفیت میں انسان کبھی تنہا نہ
رہے اپنا جو بھی مسئلہ ہے اپنی کسی قریب ترین اور بااعتماد ہستی کے علم میں
لائے اس سے مشورہ کرے ۔ کسی ظلم زیادتی یا ناانصافی کا سامنا ہے تو میڈیا
کا میدان موجود ہے اپنے حق کے لیے آواز اٹھائے اپنی بات آگے تک پہنچائے
مقابلہ کرے مگر خدا کے لیے خودکشی کا راستہ نہ چنیں ۔ بس اتنا سوچیں کہ
اللہ کو پسند نہیں ہے کہ کوئی اس کے پاس اس کے بلائے بغیر پہنچ جائے ۔
لہٰذا بن بلائے مہمان بننے کے بارے میں سوچیں بھی نہیں اور جو مہلت ملی
ہوئی ہے اسے اپنے کام میں لائیں اپنی دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کو سنوارنے
میں صرف کریں اپنے ارد گرد کی خبر رکھیں کہ کوئی غیر معمولی بحرانی کیفیت
میں تو نظر نہیں آ رہا؟ خود کشی کرنے والا اپنے ساتھ نجانے کتنوں کو بے موت
مار جاتا ہے ۔ ہم مانتے ہیں کہ جس پر گزرتی ہے اسی کو پتہ ہوتا ہے تو کیا
اللہ کو نہیں پتہ؟ پھر کیوں روکا گیا ہے حرام موت سے؟
(رعنا تبسم پاشا)
|