ایچیسن کالج کے رجسٹرار کی طرف سے کسی ایسے شخص کے نام
لکھا ایک خط سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے کہ جس مڈل کلاس سے تعلق رکھنے
والے کسی شخص نے اپنے بیٹے کو ایچیسن میں داخل کرانے کی کوشش کی اور بڑے
فخریہ انداز میں اپنی سالانہ آمدن اٹھارہ لاکھ یعنی ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ
بتائی۔میرے جیسے شخص کے نزدیک ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ آمدن ایک بہت بڑی رقم
ہے اور اس شخص کا فخر بجا تھا کیونکہ اگر آپ سرکاری ملازم ہو تو اتنی آمدن
کے لئے کم از کم آپ کا گریڈ بیس میں ہونا لازمی ہے اور بیس گریڈ کوئی چھوٹی
بات نہیں، آدمی ایک بڑا افسر ہوتا ہے۔مگر ایچیسن والوں نیمیرے جیسے اس شخص
کو اس کی اوقات یاد دلا دی کہ بھائی آپ معمولی آمدنی والے شخص ہو اور اتنی
کم آمدن والے کے بیٹے پر ایچیسن کے دروازے بند ہیں۔تم بیس گریڈ میں ہو یا
درمیانے کاروباری ، تمہارا تعلق اس طبقے سے نہیں کہ جس کی پرورش انگریز نے
بڑے نازونعم سے کی تھی اور جو آج بھی ذہنی طور پر پاکستان کا کم اور
انگلستان کا زیادہ وفادار ہے۔
ایچیسن کالج کے رجسٹرار کے اس خط نے میرے ذہن میں بہت سے سوالوں کو جنم دیا
ہے۔پچھلے سترسے زیادہ سالوں ہر حکومت یکساں نظام تعلیم کی بات کرتی رہی ہے۔
مگر ہر دور میں ایچیسن کالج حکومت کی پہنچ سے بالا رہا ہے۔عام آدمی کا اس
سے کوئی تعلق نہ تھا نہ ہے اور شاید نہ ہو گا۔ایک آدھ دفعہ عام آدمی کے
بچوں کے لئے چند نشستوں کا اہتمام کیا بھی گیا مگر نہ تو وہ بچے اس ماحول
میں پنپ سکے اور نہ ہی اس ماحول نے ان بچوں کو قبول کیا۔ ایچیسن انگریزوں
نے اپنے پروردہ وڈیروں، پیروں اور زمینداروں کے بچوں کے لئے بنایا تھا کہ
ان کے بچوں کو حکمرانی کی تربیت دی جا سکے ۔وہ بچے اس کالج میں تمیز اور بد
تمیزی کے وہ گر سیکھتے تھے کہ اپنے سے برتر کے ساتھ کتنا اچھا سلوک کرنا ،کس
قدر تمیز سے پیش آنا اور کیسے بچھ بچھ جانا بلکہ اس کے سامنے لیٹ لیٹ جانا
ہے اور جہاں کوئی غریب اور کمزور آدمی کا سامنا ہو تو بد تمیزی کے وہ نایاب
جوہر دکھانے ہیں کہ غریب آدمی دوبارہ کبھی اس کے سامنے بولنے اورسر اٹھانے
کی جرات نہ کر سکے، ہر ظلم برداشت کرے اور اپنے حق کیلئے اظہار بھی گناہ
سمجھے۔یہ ہوتا رہا ہے اور آج بھی ہو رہا ہے۔ گورے اور غیر ملکی انگریز تو
چلے گئے مگر اس ملک پر کالے انگریزوں کا راج اب بھی قائم ہے جو غلامی کے
عہد کی پالیسیوں پر آج بھی اسی طرح عمل پیرا ہیں۔ غریب لوگ کل بھی غلام تھے
آج بھی غلام ہیں۔ہمارا قانون،ہمارا نظام انصاف اور ہمارے سب رسم ورو اج ا
ٓج بھی طبقاتی ہیں ۔ کچھ تھوڑی بہت تبدیلی اس لئے ہے کہ لوگوں میں ننھا منا
سا شعور بیدار ہوا ہے جوبس غنیمت ہے۔
یکساں نظام تعلیم سے یاد آیا کہ وقت بدل گیا ہے۔ آج سوچ کا دور ہے تحقیق کا
دور ہے۔ یکساں نظام تعلیم تو سوچ اور تحقیق کی موت ہے۔ آپ سکولوں کو مخصوص
کتابوں اور مخصوص باتوں کا پابند کر دیں گے تو اساتذہ میں نئی سوچ کہاں سے
آئے گی، وہ تحقیق کس لئے کریں گے۔ اس سے پہلے بھی تعلیم کے شعبے میں
جوتحقیق ہو رہی ہے اس کا معیار انتہائی مایوس کن ہے۔ ہماری تحقیق مدرسوں
میں صحت اور صفائی کی صورت حال، طلبا کے رویے یا امتحانی نظام کی خوبیوں
اور خرابیوں کی نشاندہی سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ چند مخصوص عنوانات شکلیں بدل
بدل کر سامنے لائے جاتے ہیں حقیقت میں کوئی نئی بات کرنے سے ہمارے دانشور
قاصر ہیں۔ دنیا بہت آگے جا چکی ہے۔ بچوں کو یکساں سلیبس اور نظام تعلیم کی
بجائے یکساں مواقع فراہم کرنے کی بات کی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔دنیا کے بہت
سے مملک میں اس پر کام ہورہا ہے۔ یکساں نظام تعلیم (Equality of Education)
کی بجائے (Equity of Education)کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس نئی سوچ کے مطابق
ہر بچے کو ریسورسز، فنڈز اور نصابی ضروریات میں ہر چیز یکساں مہیا کی جائے
۔تعلیم بچے کا بنیادی حق ہے اور یہ اسے بغیر کسی تعصب کے تمام وسائل کے
ساتھ مہیا کی جائے۔یکساں نظام تعلیم میں بچوں کوایک جیسا پڑھا کر یہ سمجھا
جاتا کہ سکول نے اپنا فرض پورا کر لیا ، بچے کو کہاں کس چیز کی کمی تھی اس
سے سکول کو کوئی غرض نہیں ہوتی۔جبکہ Equity کی صورت میں آپ کو دیکھنا ہوتا
ہے کہ ہر طالب علم کو کامیابی کے لئے ہر طرح کے وسائل پر مکمل دسترس ہو۔
Competency based Education بھی ایک نیا انداز ہے۔ ہاورڈ اور MIT میں اس پر
بہت کام ہو رہا ہے۔ ان کے خیال میں کوئی بچہ نالائق نہیں ہوتا۔ بعض بچے
انتہائی تیز، بعض تیز اور بعض سست سیکھنے والے ہوتے ہیں۔ مگر سیکھنا سب کا
حق اور سکھانا سکول کی ذمہ داری ہے۔ ابتدائی کاسوں میں اساتذہ کا فرض ہے کہ
جو بچہ دو گھنٹے میں سیکھتا ہے اسے دو گھنٹے دیں جو تین گھنٹے میں سمجھتا
ہے اس پر تین گھنٹے خرچ کریں اور اگر کوئی بچہ انتہائی سست سیکھنے(Very
Slow Learner) والا ہے اور اسے سمجھانے اور دوسرے بچوں کے ساتھ چلانے کے
لئے چار پانچ گھنٹے بھی درکار ہیں تو وہ اس بچے کا حق ہے اور استاد اور
سکول کی ذمہ داری۔دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ۔ جتنی ایجادات اور
کارنامے Slow Learners سے موسوم ہیں ان کی مثال نہیں ملتی۔ایڈیسن اور جابر
بن حیان جیسے سینکڑوں لوگوں کودنیا نے نالائق قرار دیا لیکن کسی کی معمولی
توجہ سے آج یہ لوگ دھرتی کا جھومر ہیں۔
حکومت کو چائیے کہ اچھے سکولوں کواپنے دئیے ہوئے سلیبس کا پابند کرنے کی
بجائے سلیبس کے بنیادی خدوخال طے کرنے کے بعد ان سکولوں کو ایک خاص دائرہ
کارکے اندر رہتے ہوئے اپنے انداز میں پڑھانے کی مکمل آزادی دے دے۔ ایک
پابند دائرہ کار میں رہتے ہوئے نصاب کا تھوڑا فرق اور نصابی سرگرمیوں کا
مختلف انداز تو بہتری کو جنم دے گا۔ البتہ ضرورت ہے کہ حکومت ہر اچھے سکول
کو پابند کرے کہ وہ اپنی انرولمنٹ کا پچیس (25) فیصد کوٹہ عام ، ہونہار اور
مستحق طالب علموں کو دیں۔ان بچوں کی نامزدگی چاہے حکومت خود کرے مگر ان کا
داخلہ سمیت ہر چیز فری ہو۔ماضی میں کسی ایسی پالیسی کے نتیجے میں پرائیویٹ
تعلیمی ادارے فیس معاف تو کر دیتے مگر داخلہ فیس اتنی زیادہ مانگ لیتے کہ
غریب آدمی داخلہ فیس کے پیسے نہ ہونے کے سبب اپنے حق سے محروم رہ جاتا۔
|