عائشہ کی خودکشی قصوروار کون؟

محترم قارئین کرام: آج کا ٹاپک انتہائی حساس ہے ۔کیونکہ دو دن قبل احمد آباد کی ایک شادی شدہ لڑکی عائشہ نے خودکشی کرلی۔اگر وہ خودکشی سے قبل ویڈیو نہ بناتی اور اپنے والدین سے بات نہ کرتی تو شاید عائشہ کادرد اور اس کی تکلیف دنیا کے سامنے نہ آپاتی اور آج ہر ایک کا موضوع عائشہ نہ ہوتا۔ ہم اکثر خبریں پڑھتے اور سنتے ہیں کہ شادی سے بچنے کے لئے خودکشی،،امتحان میں ناکامی پر خود کشی،،گھریلو زندگی سے تنگ آکر خودکشی،،گیم کھیلنے نہ دیا تو خودکشی،،طلاق دینے پر خودکشی۔۔۔لیکن یہ بات سب سے زیادہ سنی اور دیکھی جاتی ہے کہ جہیزکے لالچی سسرالیوں نے بہو کو آگ میں جھونک ڈالا۔۔۔سسرال والوں کے بار بار پیسوں کے اصرار پر بہو کی خودکشی۔۔۔۔شوہر کی اذیتوں سے تنگ آکربہو نے خود کو آگ لگادیا۔۔۔پھانسی کے پھندے پر جھول گئی منی اور نہ جانے کیسی کیسی خبریں ہم روزآنہ سنتے ‘پڑھتے اور دیکھتے ہیں۔۔۔۔لیکن سراسری نظر دوڑا کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔۔۔اور اگر خودکشی کا معاملہ آزو بازو یا خاندان میں ہوں توافسوس کا فیصد تھوڑا زیادہ ہوجاتا ہے۔ اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔۔۔۔
دی انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق2012ء سے2015ء تک انڈیامیں 26771/اموات محض جہیز نہ ملنےیاکم ملنے کی وجہ سے ہوئی ہیں ، نیشنل کرائم بیروکے مطابق ساڑھے تین لاکھ مقدمات کورٹوں میں درج ہوئے ہیں ، جن میں عورتوں نے جہیز کی وجہ سے ہراسانی اورظلم وستم کئے جانے کی شکایتیں کی ہیں منیکاگاندھی نے ایک بار لوک سبھامیں اس کو حقیقت کو قبول کیاتھاکہ پچیس ہزارخواتین جہیز کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتاری جاچکی ہیں ۔ افسوس کامقام یہ ہے کہ یہ تعدادگھٹنے کے بجائے مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ جہیز کی اس قبیح رسم کی وجہ سے بہت سارے لوگوں نے پیٹ میں موجود معصوم کلیوں کوضائع کرنااوردنیامیں آنے سے قبل ہی اس کو نیند کے آغوش میں سلادئے جانے کاسنگین جرم کرناشروع کردیاہے۔ نتیجۃ لڑکوں کے مقابلہ میں لڑکیوں کی شرح پیدائش کم ہوگئی ہے۔

لیکن جس طرح سے عائشہ کا واقعہ ہماری نظروں کے سامنے سے گذرا۔۔۔اس نے ہمیں سراسری نظردوڑانے نہیں دی بلکہ رکنے پر سوچنے پر اور غوروفکر کرنے پر مجبور کردیا کہ ۔۔۔بے بس ‘غریب اور مجبور ماں باپ کی بیٹیاں آخر کیوں خودکشی کرتی ہے اور کیوں موت کو گلے لگاتی ہے۔۔۔عائشہ کی ماں باپ سے ہوئی فون پر بات چیت نے مجھے تڑپا کر رکھ دیا۔۔۔دل دہل گیا۔۔۔پھر اس نے خودکشی سے قبل ویڈیو بھی بنایا جس میں اس نے کہا کہ مجھے کسی سے کوئی بیئر نہیں ہے۔

اور نہ ہی کسی کا مجھ پر کوئی دبائو ہے میں اپنی مرضی سے یہ قدم اٹھارہی ہوں۔بس یہ سمجھ لیجئے کہ خدا کی دی ہوئی زندگی اتنی ہی ہوتی ہے او رمجھے اتنی ہی زندگی بہت سکون والی ملی ہے۔ عائشہ لڑائیوں کے لئے نہیں بنی ہے وہ تو محبت کے لئے بنی ہے۔ ہم اپنے شوہر عارف سے پیا رکرتے ہیں ہم اسے پریشان نہیں کرنا چاہتے۔۔۔وہ آزادی چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے ہم انہیں آزادی دے دیتے ہیں۔۔۔۔

لیکن عائشہ نے یہ کیا کردیا۔۔۔تھوڑا رک گئی ہوتی۔۔۔اپنے ماں باپ کی دی گئی قسموں کی لاج رکھ لی ہوتی۔۔۔۔۔لیکن کیا کرے بیٹیاں آخر جذباتی ہی ہوتی ہیں۔۔۔۔وہ اپنے ماں باپ کو کبھی پریشان نہیں دیکھ سکتی۔۔۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ زندگی ہی کو ختم کردیا جائے۔ ۔۔۔آخری فیصلہ لے لیا جائے۔۔۔نہیں بالکل بھی نہیں۔۔۔عائشہ نے بالکل بھی ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔۔ایسا قدم اٹھا کر ایک تو اس نے بزدل ہونے کا ثبوت دیا ہے اور اپنے پیچھے ایسے کئی سوالات چھوڑ گئی ہے جس کا جواب مل پانا شاید ناممکن ہوں۔۔۔۔
اس واقعہ کے بعد سوشل میڈیا پر عائشہ کی حمایت میںاور ا سکے سسرال والوں کے خلاف ایک سے بڑھ کر ایک پوسٹ وائرل ہونے لگیں۔۔۔کسی نے کچھ کہا تو کسی نے کچھ۔۔۔

بہت کم ایسی پوسٹ دیکھنے ملیں جس نے توازن والی بات کی۔۔۔برابر والی بات کی۔۔۔عارف کو اور اس کے سسرال والوں کو گالیاں دینے سے کچھ نہیں ہوگا۔۔عارف کو عارف بھی تو ہم لوگوں نے ہی بنایا ہے۔ اس کے ماں باپ نے بنایا ہے۔اسے کوس کر اسے بدنام کرکے کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔۔۔۔۔کیونکہ عارف جیسے بہت سارے اس ہندوستان کیا پوری دنیا میں بستے ہیں جو ماں باپ اوربیوی کے دو پاٹوں کے درمیان پس کر رہ جاتے ہیں ۔ان جیسے عارفوں کو سمجھ نہیں آتا کہ آخر وہ کس کا ساتھ دیں۔ادھر ماں باپ عارف کی غیر موجودگی میں عائشہ جیسی لڑکیوں کو طعنے دیتے ہیں غیر غلط بولتے ہیں اس کے ہر اچھے کام میں کیڑے نکالتے ہیں۔۔اسے بدلنے پر اتنا مجبور کردیتے ہیں کہ وہ آخر بدل ہی جاتی ہے اور پھر۔۔۔ہوتا کچھ یوں ہیں کہ ماں باپ عارف کو بٹھا کر بولتے ہیں کہ دیکھ بیٹا۔۔۔عائشہ بہت بدل گئی ہے۔۔۔حالانکہ عائشہ کو اتنا ٹارچر کیاگیا اتنا پریشان کیاگیا اوراتنا ہراساں کیاگیا کہ وہ بدلنے پر مجبور ہوگئی اور یہ اپنے لاڈلے سے کہتے ہیں کہ بیٹا تیری بیوی بہت بدل گئی ہے۔۔جبکہ حقیقت کچھ اور ہے۔
اور ادھر عارف اپنے کمرے میںرات کو اپنے ماں باپ کی زیادتیاں جب عائشہ سے سنتا ہے تو پریشان ہوجاتا ہے کہ آخر وہ کس کی سنے۔۔۔کس کی بات کو سچ مانے۔۔۔وہ بہت زیادہ پریشان ہوجاتا ہے ۔۔۔آخر وہ بھی خودکشی کا ہی سوچتا ہے ۔۔۔لیکن اس کے آس پاس والے جاہل لوگ اسے مشورہ دیتے ہیں کہ ارے بیوقوف وہ پاگل بیوی کے چکر میں کہاں اپنی جان دے رہا ہے بیویاںتو کئی مل جائیں گی مگر ماںتو ایک بار ہی ملے گی نا۔۔۔تو بیوی کو لات مار۔۔۔ہکال دے اسے۔۔۔بار بار کی کرکری سے بہتر ہےایک بار میں فائنل کردے۔۔۔۔یا پھر تو اسے بار بار جہیز او رپیسے لانے کے لئے مجبور کروہ خود تنگ آکر گھر بیٹھ جائے گی ۔۔۔تیرا بھی سکون اور تیرے ماں باپ کا بھی سکون۔۔۔۔

لعنت ہے ایسے سسرال والوں پر جو بیٹی بول کر بیاہ کرلاتے ہیں اور زندگیاں جہنم بنادیتے ہیں۔۔۔کئی گھرانے میں نے ایسے دیکھے ہیں جہاں دینداری کا صرف لبادہ اوڑھا ہوا ہے اندر ساری گڑ بڑ ہی گڑبڑ ہے۔ داڑھی ٹوپی جھبا تسبیح اور مسواک تو ایسے بتاتے ہیں جیسے کوئی فرشتہ ہو لیکن اگر گھر کے حالات معلوم کریں تو پتہ چلتا ہے کہ شیطان ان کے گھر سے ٹیوشن لیتا ہے۔۔۔میں اپنے دوست واحباب میں اکثر کہتا ہوں کہ اگرآپ کو کسی کے گھر اپنے خاندان کی بیٹی دینی ہوں تو پہلے اس گھر کی معلومات وہاں کی بہوئوں سے ضرور لیں لے۔۔سب معلوم پڑجائے گا۔۔۔کہ کتنا دکھاوا ہے اور کتنی Reality ہے۔

افسوس ہے صد افسوس ہے دوستو۔۔۔
بڑے بڑے علمائے کرام کے بیانات دن رات سنے جارہے ہیںچاہے پھرمولانا طارق جمیل صاحب ہو،مولانا اسرار صاحب ہو یاکسی اور بڑی ِشخصیت کے بیانات ہوں۔۔بس بیانات سنے جارہے ہیں۔۔۔عمل زندگی میں ایک روپئے کا بھی نہیں ہے۔ بیان سننے کے بعد واہ واہی کرتے ہیں اور پھر جو کرنے کا وہ کرتے چلے جارہے ہیں۔

کہاں سے ہمارے گھروں کے ماحول ۔۔۔آخر لاحول سے بدلیں گے۔۔۔نہیں بالکل نہیں۔۔۔

میں آپ کو ہمارے سماج کی ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔لڑکی والے پوچھتے ہیں ۔۔لڑکا کیا کرتا ہے ۔۔۔معلوم ہوتا ہے کہ لڑکاماشاءاللہ سرکاری ملازم ہے ۔۔۔پھر پوچھا جائے کہ کیا کیا لڑکا قرآن پڑھا ہوا ہے۔۔۔تو جوا ب ملتا ہے کہ نہیں اصل میں اسکول کالج سے فرصت نہیں ملی اور اب نوکری لگ گئی۔۔۔۔تو کہا جاتا ہے کہ ۔۔۔۔چلو کوئی بات نہیں اللہ ہدایت دینے والا ہے ۔۔۔۔تو پھر رشتہ پکا سمجھے۔۔۔۔۔۔دوستو یہ ہوگیا تصویر کا پہلا رخ ۔۔۔۔اب دوسرا رخ بھی دیکھ لیجئے۔۔۔۔پوچھا جاتا ہے کہ کیا لڑکا دین دار ہے ۔۔۔۔جواب ملتا ہے کہ ہاں دیندار ہیں ۔۔۔۔پھر پوچھا جاتا ہے کہ لڑکا کیا کرتا ہے ؟ تو جواب ملتا ہے لڑکا مدرسہ مکتب پڑھاتا ہے اور اس کی تنخواہ ابھی کم ہے آگے بڑھ جائے گی۔۔۔

تو پھر کیا ہم رشتہ پکا سمجھیں ؟؟؟۔۔۔۔جواب ملتا ہے کہ نہیں ۔۔۔ہم معافی چاہتے ہیں۔۔۔کم تنحواہ میں گذارا تھوڑا مشکل ہوجائے گا۔۔۔۔ہم بچی نہیں دے سکتے۔

پتہ یہ چلتا ہے کہ ہماری سوچ کے مطابق اللہ ہدایت تو دے سکتا ہے پیسہ نہیں ۔۔۔اور پھر ہم دیکھ رہے ہیں کہ دینداری کو ترجیح نہ دینے کے نتائج ہمارے سامنے آرہے ہیں۔

دوستو میری ایک کتاب ہے روح کا درد اس میں میں نے ایک مختصر کہانی لکھی تھی۔۔جس کا عنوان تھا ۔۔۔رشتہ مطلوب ہے۔۔۔آپ کو بھی سنا دیتا ہوں۔۔

کہانی کچھ یوں ہیں کہ ہائی سوسائٹی میں رہنے والی دنیادار لڑکے کی ماں امینہ آنٹی نے رشتے لگانے والی خالہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔۔۔دیکھو خالہ۔۔۔لڑکی اپنے کو زیادہ خوبصورت نہی ںبھی رہی تو چلتا۔۔۔مگر تھوڑی بہت دیندار رہنا۔۔۔۔وہ اس کے ماں باپ جہیز تو دینگے مگر اپنی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ۔۔ٹی وی موٹر کار فریج کے بدلے کوئی فلیٹ ہی دلادے تو وہ ان کی بچی کے لئے ہی کام میں آئے گا۔

تھوڑی اونچی پوری رہنا،ناک نقشہ تھوڑا ٹھیک ٹھاک رہنا۔۔ ایک بار دیکھے تو نظر نہ ہٹے۔

نماز روزہ کی پابند ماسٹرس ڈگری والی بچی دیکھو۔۔۔اور ہاں بڑی بڑی پارٹیز میں جانے کا سلیقہ بھی رہنا ان کے گھر والوں کو۔۔۔۔بس ایسا سمجھو حضرت فاطمہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا جیسی دیندار رہنا۔۔۔اس سے پہلے کہ امینہ آنٹی اپنی فہرست آگے بڑھا پاتی۔۔۔خالہ نے بات کاٹتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔انٹی۔۔۔یہ ہونا وہ نہیں ہونا۔۔۔تمہارا وہ دنیا دار نہ نماز کا نہ روزے کا۔۔۔بکریاں ہکالتے پھرتا۔۔۔کبھی یہ بکری تو کبھی وہ بکری پر نظر۔۔۔۔کیا تمہارے بیٹے میں حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ جیسے اوصاف ہیں جو تمہیں حضرت فاطمہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا جیسی لڑکی چاہئے۔۔۔۔اور امینہ آنٹی اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔۔۔

تو دوستو یہ حال ہے ہمارے معاشرے کا۔۔۔کہاں سے شروع کریں اور کہاں ختم کریں کچھ سمجھ نہیں آتا۔۔۔۔ماحول کو بہتر اور دیندار بنانے کے ساتھ ساتھ بچیوں اور بچوں کی دینی تعلیم پر سبھی فکر کرتے ہیں لیکن نتیجہ کیا نکل رہا ہے وہ ہم دیکھ رہے ہیں۔۔۔

لیکن کیا کبھی ہم نے جس طرح سےطلاق ثلاثہ اور سی اے اے اور این آرسی کی طرح جہیزکی لعنت کو ختم کرنے کے لئے دھرنے دئے ہیں۔ کیا اس کے خلاف کسی بڑے لیول پر آندولن اور روڈ شو کا اہتمام ہوا ہے۔ نہیں بالکل بھی نہیں۔۔۔اور ہوگا بھی کیوں کر۔۔کیونکہ ہم خوداس لعنت کو خودپر سوار کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ ۔۔

اکے دکے بہت کم ماشاء اللہ ایسے گھرانے ملیں گے جہاں قطعی تحفہ کے نام پر جہیز نہ لیا جاتا ہوں۔ ۔۔دراصل دوستو ہوتا کچھ یوں ہیں کہ جب ہمارے گھروں کی بیٹیاں شادی کی عمر کو پہنچنے لگتی ہیں تب سے ماں باپ فکر مندہونے شروع ہوجاتے ہیں کہ اب کیسا کریں گے۔خاندان کے بڑے لوگوں کو اطلاع دے دیں گے کہ ہم منی کی شادی طئے کررہے ہیں۔۔تاکہ وہ بھی جہیز دینے میں ہماری مدد کریں۔۔۔کوئی پلنگ دے دے گا۔ کوئی صوفہ دے دےگا۔کوئی پنکھا دے گا تو کوئی سنگھار دانا کے لئے پہلے سے حامی بھردے گا۔۔۔اور پھر رہی سہی کسر والدین کسی طرح سے ادھار سدھار لے کر قرضے لے کر پوری کردیتے ہیں۔ ۔اور کسی طرح منی کی شادی ہوجاتی ہے۔ ۔۔۔لیکن اب بات آتی ہے منے کی ۔۔۔کیونکہ منا بھی اب بڑا ہوچکا ہے اور اب وہ بھی شادی کی عمر کو پہنچ چکا ہے۔ لہذا اس کی بھی تو شادی کروانی ہے۔ ۔۔۔اب لڑکی چھننی سے چھاننے کے بعد ۱۰۰ سے ۲۰۰ لڑکیاں دیکھنے کے بعد فائنل ہوہی جاتی ہے۔اب۔۔۔ماں باپ نے منی کو جیسے جہیز دیا ہے ویسے کیا ۔۔۔۔اس سے بڑھ کر کی امید اپنے منے کے لئے اندرسے جگی ہوتی ہے۔ بظاہر بتاتے نہیں ہے کہ ہمیں جہیز چاہئے۔۔۔لیکن جہیز لے کرہی رہتے ہیں اور اگر لڑکی والوں نے جہیز دینے میں کسی طرح کی کمی بیشی کردی تو پھر مانو۔۔۔لڑکی کا جینا دوبھر کردیاجاتا ہے۔۔۔

اور نتیجہ عائشہ کی خودکشی کی شکل میں سامنے آجاتا ہے۔۔۔۔کیا کرے آخر ہمارا سماج ہی ایسا بنادیاگیا ہے کہ ہم مجبور ہیں جہیز دینے او رلینے کے لئے۔۔۔۔

لیکن میں کہوں گا کہ ایسے معاملات میں جلد بازی نہ کرتے ہوئے کوئی نتیجہ پر نہیں پہنچنا چاہئے۔ ۔۔۔پہلے پوری تحقیق کرلینی چاہئے کہ آخر معاملہ کیا ہے۔۔۔ہمارا معاملہ گودی میڈیا کی طرح ہوگیا ہے ادھرابھی کچھ ہوا نہیں کہ ہم منصف بن کر فیصلے سنانے بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔کیونکہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔۔۔دونوں ہاتھ ملانے پر ہی تالی بجتی ہے۔۔۔

میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ عارف اور اس کے گھر والے قصوروار ہیں۔۔۔ہاں وہ قصوروار ہیں لیکن ان کی زبانی بھی سن لینی چاہئے۔۔۔۔تاکہ ہمیں فیصلہ کرنے میں اور معاملہ سمجھنے میں آسانی ہو۔۔۔آخر میں یہی کہوںگا کہ خودکشی کسی مسئلہ کا حل نہیں ہوتا۔۔خودکشی حرام تو ہے ہی ساتھ ہی یہ بزدلی کی بھی نشانی ہے ۔۔۔مضبوط بنئے۔۔۔دیندارانہ ماحول پیدا کیجئے۔ اچھوں کی صحبت میں رہئے۔۔ٹی وی ، سیریلس دیکھنا بند کیجئے۔۔۔نمازوں کی پابندی کیجئے۔۔۔استغفار کی کثرت کیجئے۔۔۔ہمیشہ باوضو رہنے کی عادت ڈالئے۔۔۔اللہ سے دعا ہے کہ اللہ عائشہ کی بار بار مغفرت فرما ئیں۔۔۔اس کے گھر والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے۔۔۔ اگر عارف اور اس کے گھر والے قصوروار ہیں تو انہیں سزا بھی ملنی چاہئے۔۔۔

اللہ امت کی بیٹیوں کی اور بیٹیوں کی دونوں کی حرام کامو ںسے حفاطت فرما۔ان کی بہترین تربیت فرما۔۔ایک دوسرے کے دلوں میں خوب محبت عطا فرما۔۔۔ایک دوسرے کو معاف کرتے ہوئے لے کر چلنے والا بنا۔۔۔آپس کی نا اتفاقیوں کو محبت میں تبدیل کردے۔۔۔

چلئے دوستو بولا چالا معاف کرا۔۔۔اللہ آپ تمام کو بھی اپنی حفظ وامان میں رکھے۔۔۔زندگی باقی تو بات باقی۔۔۔رہے نام اللہ کا ۔۔۔اللہ حافظ۔۔۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔۔

 

syed farooq ahmed
About the Author: syed farooq ahmed Read More Articles by syed farooq ahmed: 65 Articles with 52246 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.