تحریر: مہوش کرن، اسلام آباد
خبر تھی کہ تین فٹ کے باتھ روم میں بند 35 سالہ خاتون کو ڈیڑھ سال سے بعد
آزاد کرالیا گیا۔ خاتون کی شادی کو 17 سال ہو چکے اور تین بچوں کی ماں بھی
ہیں۔ عورت کی دونوں ٹانگیں تنگ جگہ پر اتنا لمبا عرصہ بند رہنے کی وجہ سے
مڑچکیں، شدید نقاہت کا شکار اور کپڑے نہایت گندے ہو رہے ہیں۔ شوہر کا کہنا
تھا کہ دماغی مریضہ ہے لیکن اس کے پاس میڈیکل رپورٹس موجود نہیں ہیں جبکہ
وہ کمزوری اور کھل کر نہ بول پانے کے باوجود بھی اپنا اور اپنے بچوں کا نام
بآسانی بتا رہی ہے۔ عورت شوہر کی طرف سے بری طرح تشدد کا شکار ہے۔ خبر یہ
بھی ہے کہ 27 سالہ خاتون روتے ہوئے اپنی کہانی سنا رہی ہے کہ کس طرح اس کے
شوہر نے اسے مارا پیٹا اور تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ اس کا چہرہ سوجا ہوا
اور ایک آنکھ پر گہرا نیل پڑ چکا ہے، وہ بتا رہی ہے کہ وہ دو معصوم بچوں کی
ماں ہے اور ہر طرح سے خاوند اس پر تشدد کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ معصوم بچوں
کے سامنے بھی مارنے اور چیخنے سے گریز نہیں کرتا۔
اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ عورت مائی خیراں، خالہ رشیدہ، بے چاری سلمیٰ،
صباء یا سائرہ ہے تو ذرا ٹھہریے۔۔۔ یہ عورتیں نہ تو مسلمان ہیں اور نہ ہی
ان کا تعلق پاکستان سے ہے۔ رام رتی کا تعلق ہریانہ، بھارت سے ہے جبکہ دوسری
خاتون ایما مرفی یورپ سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ خبریں بین الاقوامی میڈیا کی
زینت بن چکی ہیں۔
بھارت خود کو سیکولر اور لبرل ملک کہلواتا ہے مگر وہاں پر خواتین کی حالت
ناگفتہ بہ ہے۔ ٹیکنالوجی اور تعلیم میں ایشیا میں سب سے آگے ہونے کے
دعویدار بھارت کی ایک تہائی عورتیں کسی نہ کسی ظلم و جبر اور زیادتی کا
شکار ہونے کے باوجود پولیس کو رپورٹ نہیں کرواتیں۔ اس معاملے میں امریکا کا
حال بھی ابتر ہی نظر آتا ہے جہاں ایک سروے رپورٹ کے مطابق 84 فیصد خواتین
اپنی پوری زندگی میں کسی نہ کسی قسم کا تشدد برداشت کرتی ہیں۔ جس میں چھری،
چاقو کے وار سے لے کر ہڈی توڑنا، جسم پر سگریٹ سے جلانا، منہ اور آنکھ پر
بری طرح مارنا، جسمانی و جنسی پرتشدد رویہ بھی شامل ہے۔
خاتون کی تخلیق نرم نازک پھول کی ماند رکھی گئی ہے۔ جیسی تخلیق ہے ویسا ہی
برتاؤ کرنے اور اس کا خیال رکھنے کے بھی احکامات رب کائنات کی جانب سے دیے
گئے ہیں۔ ایسے میں دنیاوی لحاظ سے بڑی معیشتوں، دنیا کو اپنی انگلیوں پر
چلانے کے دعوے داروں اور دنیا کا رکھ رکھاؤ، طور طریقہ اور زندگیوں کو
بدلنے کے عزائم کرنے والوں کے ہاں ناجانے خاتون ہی بدترین زندگی گزارنے پر
کیوں مجبو رہے۔
ہم کچھ دیر کو پلٹ کر اپنوں کی جانب آئیں تو باہر کی چمک سے متاثر کچھ
خواتین بھی ویسے ہی طور طریقے اپنانے پر سر کھپاتی دکھائی دے رہی ہیں۔
آزادی نسواں کی ریلیوں کے نعروں میں وہاں کی عورت سے مماثل آزادی کی مانگ
کی جارہی ہے۔ اچھائی کہیں سے بھی ملے حاصل کرنی چاہیے مگر جب ہمیں دو طرفہ
حالات کا مکمل ادراک ہو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ انجانے میں ہم اس کا مطالبہ
کررہی ہوں جو ہمارے لیے ہر لحاظ سے بد سے بدترین ہو۔ اور پھر آپ جس ماحول
اور معاشرے میں رہتے ہیں وہاں کے کچھ طور طریقے اور رہنے کے آداب ہوتے ہیں،
ان کو اپنانے سے آپ کی زندگی آسان اور پرسکون بھی رہتی ہے۔ مغربی معاشرہ
قطعی طور پر ہمارا معاشرہ نہیں ہے۔ ہم کیسے یہ مطالبات کررہے ہیں کہ ہمیں
بھی ویسی آزادی ملے جیسی وہاں ہے۔ حقیقت میں آزادی اور آوارگی کا فرق بھی
ہمیں معلوم ہونا چاہیے۔
اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ آپ سے جڑے رشتے آپ سے وہ طلب کرتے ہیں جو ان کا حق
ہے تو آپ اس کو غلط معنی اور دوسرا رنگ دیتے ہیں یہاں یقینا آپ ہی غلط ہیں۔
آپ کی ذمے داری آپ کا شوہر پوری کررہا ہے تو وہی آپ پر اس کی ذمے داریاں
ہیں اور وہ آپ کو ہر صورت پوری کرنی ہوں گی۔ اگر غیر مرد یعنی بوائے فرینڈ
کے ساتھ بغیر شادی کے جسمانی تعلق قائم کیا جائے تو یہ آزادی اور آپ کا حق
ہے جبکہ شوہر اپنا جائز حق استعمال کرے اس پر آپ جنسی تشدد کا الزام عاید
کردیں کیا یہ انصاف ہے۔؟
چلیں بھارت میں تو جو مذہب مانا جاتا ہے اور وہاں جو کلچر رائج ہے اس میں
عورت کو سمجھتے ہی پیروں کی جوتی ہیں۔ پھر جوتی سے تو یہی سلوک کریں گے۔
اور مغربی ممالک والے تو بے چارے ہر مذہب سے ہاتھ دھو کر لادین ہی ہو چکے
ہیں تو بھلا انہیں عورت کی عزت و تحفظ کے بارے میں کیسے معلوم ہوسکتا ہے۔
بقول علامہ اقبال؛
تہذیب فرنگی ہے اگر مرگ امومت
ہے حضرتِ انساں کے لیے اس کا ثمر موت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں ا سی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت
لیکن کیا ہم بھی بھول گئے ہیں کہ ہمارا دین کامل اس بارے میں کیا کہتا ہے
یا شاید ہمیں پتا ہی نہیں ہے۔ طلاق کو اور عورت کی آزادی کو رنگ برنگے
انداز میں دکھایا جائے جبکہ جہاں اسلام طلاق کو ناپسندیدہ قرار دینے کے
باوجود ناگزیر حالات میں اس کی اجازت دیتا ہے ساتھ ہی ساتھ مطلقہ عورت کے
حقوق بیان کرتا ہے وہیں پر حدیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم یہ بھی بیان کرتی ہے
کہ ’’جس عورت نے بغیر کسی وجہ کے اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کیا وہ جنت
کی خوشبو نہ پائے گی۔‘‘ (ترمذی)
دین اسلام تو وہ ہے جس نے مرد و عورت دونوں پر ایک دوسرے کے حقوق متعین
کرنے کے بعد مرد کو بھاری ذمے داری دے کر عورت کو گھر کی ملکہ بنایا، اسی
لیے مرد کو ایک درجہ فضیلت دے کر دوسری طرف عورت کو بحیثیت ماں، باپ پر تین
درجہ فضیلت بھی دے ڈالی۔ ساتھ ہی مرد وعورت کے کام یعنی فرائض بھی متعین کر
دیے، جیسا کہ حدیث میں موجود ہے؛ ’’مرد اپنے اہل پر نگراں اور ذمے دار ہے
اور اس کی ذمے داری کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
’’عورت اپنے شوہر کے گھر اور (تربیت) اولاد کی نگراں ہے۔ ‘‘ (بخاری)
جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہ جیسی ہستی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بطور
شوہر کپڑے دھوتیں، سر میں تیل ڈالتیں، کنگی کرتیں اور بستر وغیرہ کا خیال
کرتی تھیں تو ہم کون ہوتے ہیں اپنا کھانا خود گرم کر لو کا نعرہ لگانے
والے۔ اگر آپ نے یا میں نے اپنے شوہروں کے چار کام کر لیے تو کون سا ان پر
کوئی احسان کیا ہے بلکہ یہ تو آخرت کا زبردست سودا ثابت ہو سکتا ہے بشرطیکہ
ہماری نیت میں اخلاص ہو۔ اس معاملے میں جو دنیا دار ہیں وہ فیمینزم کے چکر
میں پھنس رہی ہیں اور جو دین دار ہیں وہ یہ کہہ رہی ہیں کہ ان سب کاموں کو
ہم پر اﷲ نے فرض نہیں کیا۔
حضرت اسماء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ
ہم عورتیں تو گھردراری، بچوں کی تربیت، مال و عزت کی حفاظت میں مصروف رہتی
ہیں جبکہ مرد باہر جا کر نماز با جماعت وغیرہ ادا کرتے ہیں، جہاد میں شریک
ہوتے ہیں تو کیا عورتوں کو بھی برابر کا ثواب ملے گا۔ ان کے استفسار پر آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے اجر حاصل کرنے کے معاملے میں اتنی جامع گفتگو کرنے پر
نہ صرف تمام صحابہ کرام کے سامنے آپ کو سراہا تھا بلکہ جواب میں فرمایا تھا
کہ، ’’اگر ایک عورت فرائض ِ زوجیت ادا کرتی ہے، شوہر کی موافقت و
فرمانبرداری کرتی ہے تو اسے بھی مرد کے برابر اجر ملے گا۔‘‘۔ (حوالہ تذکرہ
صحابیات، بحوالہ مسند احمد)
تو شکر کریں اتنے معمولی سے کام کر کے جو آپ کو ویسے بھی اپنے لیے کرنے ہی
ہوتے ہیں مثلا آپ اپنا یا بچوں کا کھانا تو پکائیں گی نا، اسی طرح کپڑے بھی
دھوئیں گی تو بھلا سارا مسئلہ شوہر سے ہی کیوں ہے۔؟ خدارا اپنے شعور کی
آنکھیں کھولیں اور دیکھیں کہ یہ کچھ بھی نہیں سوائے آپ کی بربادی کے سامان
کے، کیونکہ آخر میں آپ ہی اکیلی رہ جائیں گی۔ بھلا مشرق اور مغرب کا کیا
مقابلہ۔؟اپنے آپ کو پہچانیں، آپ بڑی قیمتی ہیں، خود کو ضائع ہونے سے
بچائیں۔ ذرا سوچیں کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اماں ہاجرہ کو شیر خوار
بچے کے ساتھ تپتے صحرا میں تن تنہا چھوڑے جا رہے تھے تو کیا وہ بین کرنے
اور طعنے دینے بیٹھ گئی تھیں؟ نہیں بلکہ انہیں یقین تھا کہ اﷲ ان کا صبر
ضائع نہیں کرے گا۔
تو جو مرد بحیثیت باپ، بھائی، شوہر یا بیٹا اپنے زیرِ دست عورتوں کے ساتھ
ظلم کرتے ہیں وہ برے ہیں، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ سب مرد برے ٹھہرا دیے
جائیں اور ایک برے مرد کا بدلہ دوسرے تمام مردوں سے لینا شروع کر دیا جائے۔
اس کے بجائے اپنی اولاد کی تربیت کے لیے پرزور کام شروع کریں، اپنے اور ان
کے باپ کے لیے تو بس دعا ہی کر سکتی ہیں۔ اور نہ ہی کسی برے مرد کی وجہ سے
اسلامی نظامِ زندگی کو برا کہنا مناسب ہے۔ کیا کبھی رب کی کہی بات غلط ہو
سکتی ہے۔؟ وہ رب جو اپنے علاؤہ کسی اور کو سجدے کی اجازت دیتا تو وہ عورت
کے لیے اس کا شوہر ہوتا۔ وہ رب جو خلافِ شریعت بات کے علاؤہ عورت کو خاوند
کے ہر حکم کی پاسداری کا حکم دیتا ہے۔ بالکل نہیں بلکہ ہمارے سوچنے سمجھنے
کا انداز، ہماری تربیت اور سمجھانے کا طریقہ ضرور اصلاح طلب ہے۔ اپنی قسمت
پر روتے رہنے کے بجائے اپنے آس پاس موجود لوگوں کے آنسو پونچھیں، جو سکون
آپ کو نہیں ملا وہ آرام دوسروں کو دینے کی کوشش کریں اور اپنی نسلوں پر جان
توڑ محنت کر جائیں۔
ذرا سوچیں آپ کیسا محسوس کریں گی کہ کل کو معاشرے کے بہترین لوگ، جو دنیا
کے کامیاب ترین انسان نظر آ رہے ہوں اور دین و آخرت کی کامیابی کے لیے ہر
لمحہ سرگرداں ہوں، وہ آپ ہی کی آغوش میں پل بڑھ کر جوان ہوئے ہوں اور آپ کی
زیر تربیت رہ کر اس قابل بنے ہوں کہ معاشرے میں ترقی و فلاح کے جھنڈے گاڑ
سکیں۔ یقینا اس کے ثمرات آپ کو دنیا میں ہی کھانے کو مل جائیں گے۔ اپنے صبر
پر اجر ملنے کا انتظار قیامت تک اٹھا رکھیں، بس اپنے حصے کی ذمے داریاں اور
فرائض پورے کر کے مرتے دم تک عبادت کا ثواب حاصل کرتی جائیں۔ آپ معمار
انسانیت ہیں، اپنا آپ پہچانیں اور اقبال کے ان افکار کو جانیں۔۔۔
رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے
روشن ہے نگہ، آئینہ دل ہے مکدر
بڑھ جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے
ہوجاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر
آغوش صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے
وہ قطرہ نسیاں کبھی بنتا نہیں گوہر
|