عورت کا ہر روپ قابل احترام ہے!

8مارچ عالمی یومِ خواتین کی مناسبت سے

اسلام نے عورت کو ماں، بہن، بیٹی، بیوی؛ غرض ہر روپ میں احترام دیا ہے۔ اپنی رشتے دار خواتین کے علاوہ عام خواتین کے ساتھ بھی شرم و حیا کی حدود میں رہ کر حسنِ سلوک کی تعلیم دی ہے۔

عورت بحیثیتِ ماں:
عورت کو بحیثیتِ ماں اﷲتعالیٰ نے عظیم ترین مرتبہ عطا فرمایا ہے، کیونکہ ماں نہ صرف تکلیف در تکلیف کے بعد بچے کو جنم دیتی ہے بلکہ اس کی ابتدائی تربیت کی ذمے داری بھی ماں پر عائد ہوتی ہے۔ ماں کی گود اولاد کی اولین درس گاہ ہوتی ہے۔ جس بچے کو ماں کی گود میں درست تربیت فراہم کردی جائے وہ پوری زندگی اسی پر گامزن رہتا ہے، جیساکہ مشہور ہے: بچپن کی بچپن تک؛ اس لیے ہم بلا خوفِ تردید کہہ سکتے ہیں کہ بہترین اور صالح معاشرے کے قیام میں ایک ماں کا اہم ترین کردار ہوتا ہے۔

عورت بحیثیتِ بیوی:
اسلام نے عورت کو بیوی کے روپ میں بھی مرد کے برابر حقوق دیے ہیں اور شوہر کو باربار تاکید کی ہے کہ اپنی بیوی کے حقوق ادا کرے۔عورت کو جہاں اسلام نے بحیثیتِ بیوی مہر، نان نفقہ اور رہائش کے حقوق دیے ہیں، وہی اس بات کی بھی تاکید کی ہے کہ جیسا خود پہنو ویسا ہی انہیں پہناؤ اور جیسا خود کھاؤ ویسا ہی انہیں بھی کھلاؤ۔(سنن ابن ماجہ، حدیث:۱۸۵۰)

ﷲ کے حبیب ﷺ نے اس شخص کو سب سے بہتر مرد قرار دیا ہے جو اپنی بیوی (بچوں) کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئے۔ (سنن ترمذی، حدیث: ۳۸۹۵)

شوہر کو تاکید کی ہے کہ بیوی کو باندی نہ سمجھے، اسے مارنے ، پیٹنے سے اجتناب کرے۔(سنن ابن ماجہ، حدیث: ۱۸۵۰)

اس کی عزتِ نفس کا خیال رکھے اور اس کے ساتھ گالم گلوچ سے پیش نہ آئے، شیطان اس کی برائیاں دل میں ڈالے تو اس کی اچھائی کے پہلوؤں کو دل و دماغ میں تازہ کرے۔ جس طرح کوئی بھی شخص برائیوں کا مجموعہ نہیں ہوتا، اسی طرح بیوی بھی سرتاپا برائیوں کا مجموعہ نہیں ۔ تم اپنی بیوی کو اسی تناظر میں دیکھو۔ ساتھ رہنے سہنے کی وجہ سے شکوہ، شکایت اور اختلاف وتکرار کی نوبت کہاں نہیں آتی، لیکن اس کی وجہ سے کون اپنے آشیانے کو آگ لگاتا ہے؟ اگر تم سمجھو کہ تمہاری بیوی کو سخت تنبیہ کی ضرورت ہے تو اسے سمجھاؤ، ورنہ اس سے اپنا بستر علیحدہ کرلو، اگر اس سے بھی معاملہ درست نہ ہو تو ہلکی سرزنش کرسکتے ہو۔

اسلام نے شوہر کو بیوی کے نان، نفقہ، رہائش سمیت جملہ ضروریات کی کفالت کا پابند بنایا ہے، یوں عورت کو معاشی ذمے داری کے بوجھ سے نجات دی ہے۔ اس کے باوجود عورت کو ہر معاملے میں مرد کا دست نگر بھی نہیں بنایا، بلکہ مہر، وراثت وغیرہ کی صورت میں اسے معاشی استحکام بھی عطا فرمایا ہے۔جس طرح اسراف اور فضول خرچی منع ہے اسی طرح یہ بھی درست نہیں کہ بیوی کی جائز ضروریات کو بھی نظرانداز کیا جائے۔ شوہر پر لازم ہے کہ وہ بیوی بچوں کے اخراجات اور جائز ضروریات پوری کرے۔ جو شوہر مال دار ہونے کے باوجود اس معاملے میں بخل و کنجوسی سے کام لے تو شریعت نے ایسے شوہر کی بیوی کو اس کے مال میں سے بلااجازت و اطلاع بقدر ضرورت میانہ روی کے ساتھ خرچ کرنے کی اجازت دی ہے۔( بخاری شریف جلد۲ صفحہ ۸۰۸، سنن ابی داؤد، حدیث: ۲۱۴۲)

عورت کاملازمت کاحق:
اسلام عورت کے ملازمت کرنے پر کوئی قدغن نہیں لگاتا، بشرطیکہ اس کی وجہ سے عورت کی اصل (گھریلو) ذمہ داریاں متاثر نہ ہوں۔ عورت کے لیے شرم و حیا اور پردے کے ساتھ معاشی جدوجہد اور ملکی ترقی میں کردار ادا کرنے کی گنجائش ہے، البتہ اگر تمام عورتیں گھروں سے نکل کر معاشی جدوجہد اور ملکی ترقی میں کردار ادا کرنے میں لگ گئیں تو ان کے گھر کے نظام کا کیا ہوگا؟ بچوں کی تربیت کس طرح ہوگی؟ شوہر جو تھکا ماندہ گھر پہنچ کر باوفا بیوی کی خدمت و محبت کے سائے میں سکون کا متلاشی ہوتا ہے، جب میاں بیوی دونوں ہی گھر سے باہر ہوں گے تو یہ سکون کیسے مل سکے گا؟ شوہر کو تبسم بکھیرتے جس استقبال کی بیوی کی طرف سے طلب ہوتی ہے اس کا نعم البدل کیا ہوگا؟ یہ سوالات توجہ چاہتے ہیں۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں معاشرے میں یکساں عزت و احترام اور مقام و مرتبہ کے حامل ہیں۔ دونوں کی اہمیت مسلم ہے البتہ دونوں کا دائرۂ کار الگ الگ ہے۔ مرد کو جسمانی طاقت اور ذہنی صلاحیت کی وجہ سے چونکہ عورت پر خود اﷲتعالیٰ نے فوقیت دی ہے، اس لیے انتظامی امور اس کے سپرد ہیں، جبکہ گھریلو امور عورت کے ذمے ہیں، جن میں نسلِ انسانی کی بقا سب سے اہم ہے۔ اگر عورت کو انسان سازی کے علاوہ کوئی اور ذمے داری نہ بھی دی جاتی تو یہی ایک ذمے داری اس کے لیے کافی تھی۔ انسانیت کی بقا، انسانیت کے ارتقا اور معاشرے کی بھلائی و ترقی کے لیے مرد اور عورت دونوں کا باہمی تعاون و اشتراک لازمی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔اسلام نہ تو یہ کہتا ہے کہ ہر عورت معاشی دوڑ میں حصہ لے او رنہ ہی اُن خواتین کی حوصلہ شکنی کرتا ہے جو کسی مجبوری یا اور کسی سبب سے اس دوڑ کا حصہ بنناچاہتی ہیں۔

عورت بحیثیتِ بیٹی:
عورت کا یہ روپ بھی قابلِ احترام ہے۔ اگر اسلام نے بیٹے کی پیدائش کو رحمت قرار دیا ہے تو بیٹی کو بھی نعمت کہا ہے۔ اسلام سے پہلے نکاح کے لیے بیٹی سے اس کی رائے پوچھنے کا کوئی رواج نہ تھا۔ اسلام نے حکم دیا کہ رشتہ طے کرنے سے پہلے بیٹی سے اس کی رائے معلوم کی جائے۔نبی کریمﷺ نے بیٹی کی بہترین تربیت اور بالغ ہونے پر ان کے نکاح پر جنت میں اپنی معیت کی نوید سناتے ہوئے فرمایا ہے: ’’جس نے دو بیٹیوں یا بہنوں کی بالغ ہونے تک پرورش کی، وہ اور میں قیامت کے دن اس طرح اکٹھے ہوں گے (آپﷺ نے اپنے ہاتھ کی دونوں انگلیوں کو ملاکر اشارہ فرمایا)۔‘‘(سنن ترمذی، حدیث:۱۹۱۴)

آپﷺ کا معمول تھا کہ جب بھی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا تشریف لاتیں، آپ کھڑے ہوکر ان کا استقبال کیا کرتے اور خوشی کا اظہار فرماتے تھے۔ یہی محبت و شفقت دوسری بیٹیوں بلکہ ان کی اولاد کے ساتھ بھی تھی۔ حضرت زینب رضی اﷲ عنہا کی بیٹی حضرت امامہؓ نماز کے دوران جب کندھے پر سوار ہوجاتیں تو رکوع، سجدہ کے لیے انہیں نیچے اتار دیتے اور جب سجدے سے اٹھتے تو پھر کندھے پر بٹھالیتے تھے۔
بیٹی کے یہ حقوق صرف اس کی شادی سے قبل کے زمانے کے ساتھ یا اس زمانے کے ساتھ خاص نہیں جب وہ اپنے شوہر کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہی ہو، بلکہ اگر بیٹی مطلقہ ہوکر والدین کے گھر آئے، تب بھی اس کی کفالت کی تاکید کی گئی ہے، چنانچہ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے: ’’کیا میں تمہیں سب سے افضل صدقہ نہ بتاؤں۔ تمہاری وہ بیٹی جس کی تم کفالت کرو اور تمہارے سوا اس کا کوئی کمانے والا نہ ہو۔‘‘(سنن ابن ماجہ صفحہ ۲۶۱ مکتبہ میزان)

عورت بحیثیت بہن:
اسلام نے بہن کے احترام، اس کے ساتھ شفقت و ہمدردی کا درس دیا ہے۔ اسلام نے والدین کی میراث میں بہن کو بھی حق دار قرار دیا ہے۔ بھائی کی ملکیت میں بھی بہن کا حصہ رکھا ہے۔بھائیوں کو نہ صرف بہنوں کی عزت و ناموس کا محافظ بلکہ باپ کے بعد غیرشادی شدہ بہنوں کا کفیل بھی قرار دیا ہے، چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے تین بیٹیوں یا ان کی طرح تین بہنوں کی پرورش کی، انہیں سلیقہ سکھایا، ان پر ترس کھایا یہاں تک کہ اﷲتعالیٰ نے انہیں (نکاح کے ذریعے) بے نیاز کردیا تو اﷲتعالیٰ نے اس کے لیے جنت لازم کردی۔‘‘ اس پر ایک صحابی نے پوچھا: یارسول اﷲﷺ! اگر (تین کے بجائے) دو ہوں تب بھی؟ فرمایا: چاہے دو ہوں یا ایک ہی ہو (کنزالعمال جلد۱۶ صفحہ ۱۸۸، حدیث: ۴۵۳۸۵)

آپﷺ کی ایک رضاعی بہن تھیں حضرت شیماء رضی اﷲ عنہا، وہ جب بھی آپﷺ سے ملنے آتیں تو آپ انہیں بہت عزت دیتے اور بڑی شفقت سے پیش آتے تھے۔ غزوۂ حنین کے قیدیوں میں حضرت شیماء بھی شامل تھیں۔جب یہ قیدی خواتین کے ساتھ حضور اکرمﷺ کے سامنے حاضر کی گئیں تو آپ نے ان کے اعزاز و اکرام میں اپنی چادر مبارک بچھوائی تاکہ وہ اس پر بیٹھیں، پھر انہیں یہ صوابدیدی اختیار دیا کہ اگر یہاں میرے پاس رہنا چاہیں تو یہاں رہ لیں اور اگر واپس اپنی قوم میں جانا چاہیں تو آپ کو مکمل حفاظت کے ساتھ وہاں پہنچا دیا جائے گا۔ حضرت شیماء رضی اﷲ عنہا اس حسنِ سلوک سے بہت متاثر ہوئیں اور اسلام قبول کرلیا، پھران کی خواہش کے مطابق انہیں مکمل حفاظت کے ساتھ ان کی قوم میں واپس پہنچا دیا گیا۔ رخصت کرتے وقت حضور اقدس ﷺ نے انہیں تین غلام، ایک لونڈی، چند اونٹ اور چند بکریاں بھی ہدیہ فرمائیں۔ اسی پر بس نہیں، ان کے اعزاز میں ان کے قبیلے (بنوسعد) کے تمام قیدیوں کو، جن کی تعداد چھ ہزار (6000 ) تھی اور جن میں مرد، عورتیں اور بچے سبھی شامل تھے، آزاد فرمادیا۔ مزید احسان در احسان کا معاملہ فرماتے ہوئے قبیلہ بنوسعد کے تمام اموال و مویشی بھی واپس کرا دیے۔ اس شفقت و رحمت کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورا قبیلہ برضا ورغبت دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا۔ آپﷺ کا یہ طرزِعمل، رہتی دنیا تک ہر بھائی کے لیے اسوۂ حسنہ اور نمونۂ عمل ہے۔(سیرت ابن ہشام، صفحہ۵۱۷،۵۱۸)

دورِحاضر کا المیہ:
میراث کے باب میں اچھے خاصے مسلمان بھی بہنوں کی حق تلفی کرتے نظر آتے ہیں۔ اکثر لوگ تو اس بات کے قائل ہی نہیں کہ میراث میں بہن بھی حصے دار ہے او رجو لوگ کچھ اسلام کی معلومات رکھتے ہیں وہ اس بات کو مانتے تو ہیں، لیکن بہنوں کو وراثت میں حصہ دیتے پھر بھی نہیں۔ بلکہ کسی نہ کسی طرح ان سے معاف کرالیتے ہیں اور مطمئن ہوجاتے ہیں، حالانکہ یہ معافی دل سے نہیں بلکہ شرماشرمی میں ہوتی ہے اور شرعاً ایسی معافی کا کوئی اعتبار نہیں۔
 

M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 308305 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More