تحریک ختم نبوت 1953ء میں لاہور، لائل پور (فیصل آباد)
گوجرانوالہ، سیالکوٹ، ساہیوال،سرگودہا، راولپنڈی اور دوسرے تمام شہروں اور
قصبوں کی حالت یہ تھی کہ رضاکار اپنے اپنے بھرتی کے مراکز پر آتے، جسم پر
بڑی دلیری سے زخم لگاتے اور خون سے حلف نامے پر دستخط یا انگوٹھا ثبت کر
دیتے تھے۔ رضاکاروں کا یہ جذبہ گفتنی نہیں، دیدنی تھا۔ بس ایسے معلوم ہوتا
تھا جیسے ان نوجوانوں کے سینوں میں قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے دل دھڑکنے لگ
گئے ہیں اور یہ دنیا و مافیہا سے منہ موڑ کر خواجہ بطحاصلیﷺکی حرمت پر
قربان ہو جانا چاہتے ہیں۔ہندوستا ن تقسیم ہوا، خدادداد مملکت پاکستان معرض
وجود میں آئی، بدنصیبی سے اسلامی مملکت پاکستان کا وزیر خارجہ چودھری سر
ظفراﷲ خان قادیانی کو بنایا گیا۔ اس نے مرزائیت کے جنازہ کو اپنی وزارت کے
کندھوں پر لاد کر اندرون و بیرون ملک اسے متعارف کرانے کی کوشش تیز سے تیز
ترکردی، ان حالات میں حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ،
امیر کاروان احرار کی رگ حمیت اور حسینی خون نے جوش مارا، پوری امت کو ایک
پلیٹ فارم پر جمع کیا، مجاہد ملت مولانا محمد علی جالندھری رحمۃ اﷲ علیہ،
مجاہد اسلام مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اﷲ علیہ آپ کا پیغام لے کر ملک
عزیز کی نامور دینی شخصیت اور ممتاز عالم دین مولانا ابوالحسنات محمد احمد
قادری رحمۃ اﷲ علیہ کے دروازے پر گئے اور اس تحریک کی قیادت کا فریضہ انہوں
نے ادا کیا۔ مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اﷲ علیہ، مولانا مفتی محمد شفیع
رحمۃ اﷲ علیہ، مولانا خواجہ قمر الدین سیالوی رحمۃ اﷲ علیہ، مولانا پیر
غلام محی الدین گولڑوی رحمۃ اﷲ علیہ، مولانا عبدالحامد بدایونی رحمۃ اﷲ
علیہ، علامہ احمد سعید کاظمی رحمۃ اﷲ علیہ، مولانا پیر سر سینہ شریف رحمۃ
اﷲ علیہ، آغا شورش کاشمیری رحمۃ اﷲ علیہ، ماسٹر تاج دین انصاری رحمۃ اﷲ
علیہ، شیخ حسام الدین رحمۃ اﷲ علیہ، مولانا صاحبزادہ سید فیض الحسن رحمۃ اﷲ
علیہ، مولانا اختر علی خاں رحمۃ اﷲ علیہ، غرضیکہ کراچی سے لے کر ڈھاکہ تک
کے تمام مسلمانوں نے اپنی مشترکہ آئینی جدوجہد کا آغاز کیا۔
بلاشبہ برصغیر کی یہ عظیم ترین تحریک تھی۔ جس میں دس ہزار مسلمانوں نے اپنی
جانوں کا نذرانہ پیش کیا، ایک لاکھ مسلمانوں نے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت
کیں۔ دس لاکھ مسلمان اس تحریک سے متاثر ہوئے۔ ہر چند کہ اس تحریک کو مرزائی
اور مرزائی نواز اوباشوں نے سنگینیوں کی سختی سے دبانے کی کوشش کی مگر
مسلمانوں نے اپنے ایمانی جذبہ سے ختم نبوت کے اس معرکہ کو اس طرح سر کیا کہ
مرزائیت کا کفر کھل کر پوری دنیا کے سامنے آگیا۔ تحریک کے ضمن میں انکوائری
کمیشن نے رپورٹ مرتب کرنا شروع کی۔ عدالتی کاروائی میں حصہ لینے کی غرض سے
علماء اور وکلا کی تیاری، مرزائیت کی کتب کے اصل حوالہ جات کو مرتب
کرنابڑاکٹھن مرحلہ تھا اور ادھر حکومت نے اتنا خوف و ہراس پھیلا رکھا تھاکہ
تحریک کے رہنماؤں کو لاہور میں کوئی آدمی رہائش تک دینے کے لیے تیار نہ
تھا۔ جناب عبدالحکیم احمد سیفی نقشبندی مجددی رحمۃ اﷲ علیہ خلیفہ مجاز
خانقاہ سراجیہ نے اپنی عمارت 7 بیڈن روڈ لاہور کو تحریک کے رہنماؤں کے لیے
وقف کردیا۔ تمام تر مصلحتوں سے بالائے طاق ہو کر ختم نبوت کے عظیم مقصد کے
لیے ان کے ایثار کا نتیجہ تھا کہ مولانا محمد حیات رحمۃ اﷲ علیہ، مولانا
عبدالرحیم اشعر رحمۃ اﷲ علیہ اور رہائی کے بعد مولانا محمد علی جالندھری
رحمۃ اﷲ علیہ، مولانا قاضی احسان احمدشجاع آبادی رحمۃ اﷲ علیہ اور دوسرے
رہنماؤں نے آپ کے مکان پر انکوائری کے دوران قیام کیا اور مکمل تیاری کی۔
ان ایام میں شیخ المشائخ قبلہ حضرت مولانا محمد عبداﷲ رحمۃ اﷲ علیہ بھی
وہیں قیام پذیر رہے اور تمام کام کی نگرانی فرماتے رہے۔ 1953ء کی تحریک ختم
نبوت کے بعد مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ اور ان کے گرامی
قدر رفقاء مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی رحمۃ اﷲ علیہ، مولانا لال
حسین اختر رحمۃ اﷲ علیہ، مولانا عبدالرحمن میانوی رحمۃ اﷲ علیہ، مولانا
محمد شریف رحمۃ اﷲ علیہ، سائیں محمد حیات رحمۃ اﷲ علیہ اور مرزا غلام نبی
جانباز رحمۃ اﷲ علیہ کا یہ عظیم کارنامہ تھا کہ انہوں نے الیکشنی سیاست سے
کنارہ کش ہو کر خالصتاً دینی و مذہبی بنیاد پر مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان
کی بنیاد رکھی۔ اس سے قبل مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمۃ اﷲ علیہ،
چوہدری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ اور خود حضرت امیر شریعت رحمۃ اﷲ علیہ اور ان
کے گرامی قدر رفقاء نے مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم سے قادیانیت کو جو
چرکے لگائے وہ تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔ قادیان میں کانفرنس کر کے چور کا اس
کے گھر تک تعاقب کیا۔ نیز مولانا ظفر علی خاں رحمۃ اﷲ علیہ اور علامہ
محمداقبال ؒ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ ردِّ مرزائیت میں غیر فانی کردار
ادا کیا۔ مجلس احرار اسلام کی کامیاب گرفت سے مرزائیت بوکھلا اٹھی، مجلس
احراراسلام پر مسجد شہید گنج کا ملبہ گرا کر اسے دفن کرنے کی کوشش کی
گئی۔حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمۃ اﷲ علیہ صدر مجلس احرار نے ایک
موقعہ پر ارشادفرمایا کہ تحریک مسجد شہید گنج کے سلسلہ میں پورے ملک سے دو
اکابر اولیاء اﷲ ایک حضرت اقدس مولانا ابوالسعد احمد خاں رحمۃ اﷲ علیہ اور
دوسرے حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اﷲ علیہ نے ہماری رہنمائی کی اور
تحریک سے کنارہ کش رہنے کا حکم فرمایا، حضرت اقدس ابوالسعد احمد خاں رحمۃ
اﷲ علیہ بانی خانقاہ سراجیہ نے یہ پیغام بھجوایا تھاکہ مجلس احرار تحریک
مسجد شہید گنج سے علیحدہ رہے اور مرزائیت کی تردیدکا کام رکنے نہ پائے اسے
جاری رکھا جائے اس لیے اگر اسلام باقی رہے گا تو مسجدیں باقی رہیں گی، اگر
اسلام باقی نہ رہا تو مسجدوں کو باقی کون رہنے دے گا؟
مسجد شہید گنج کے ملبہ کے نیچے مجلس احرار کو دفن کرنے والے انگریز اور
قادیانی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اس لیے کہ انگریز کو ملک چھوڑنا
پڑا جبکہ مرزائیت کی تردید کے لئے مستقل ایک جماعت مجلس تحفظ ختم نبوت
پاکستان کے نام سے تشکیل پائی، ان حضرات نے سیاست سے علیحدگی کا محض اس لئے
اعلان کیا کہ کسی کو یہ کہنے کا موقعہ نہ ملے کہ مرزائیت کی تردید اور ختم
نبوت کی ترویج کے سلسلہ میں ان کے کوئی سیاسی اغراض ہیں۔ چنانچہ مجلس تحفظ
ختم نبوت پاکستان نے مرزائیت کے خلاف ایسا احتسابی شکنجہ تیار کیا کہ
مرزائیت مناظرہ، مباہلہ، تحریر و تقریر اور عوامی جلسوں میں شکست کھاگئی۔
جگہ جگہ ختم نبوت کے دفاتر قائم ہونے لگے، مولانا لال حسین اختررحمۃاﷲ علیہ
نے برطانیہ سے آسٹریلیا تک قادیانیت کا تعاقب کیا۔ مرزائیت نے عوامی محاذ
ترک کرکے حکومتی عہدوں اور سرکاری دفاتر میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش
و کاوش کی اور وہ انقلاب کے ذریعہ اقتدار کے خواب دیکھنے لگے۔
|