اس بات میں کوئی شک نہیں خواتین کی ترقی میں ہی ملک
کی ترقی کس راز پوشیدہ ہے خواتین ترقی کریں گی تو ملک ترقی کرے گا دنیا بھر
میں مارچ کی 8تاریخ خواتین کے عالمی دن کے طور پر منائی جاتی ہے خواتین کا
احترام اسلام نے ہمیں سکھایا ہے زمانہ جاہلیت میں بیٹی کو پیدا ہوتے ہی
زندہ گاڑ دیا جاتا تھا مگر اسلام نے ہمیں عورت کا اصل مقام بتادیا اﷲ تعالی
نے جنت ماں کے قدموں میں رکھ دی ہے مگربدقسمتی سے ہمارے نظام نے ہمیں نہ
صرف اسلامی تعلیم سے دور کردیا بلکہ دنیاوی تعلیم بھی ہمارے بس میں رہنے نہ
دی آج بھی ہمارے معاشرے میں عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا ہے عورت کے
حقوق پہ بحث کوئی نئی بات نہیں کئی صدیوں سے عورت اپنے حقوق کے حصول کے لیے
جہدِ مسلسل میں ہے۔ وہی حقوق جن کی ادائیگی آج سے 14 سو سال پہلے اسلام کر
چکا۔ اسلام جس نے عورت کو عزت و مقام دیا۔ ورنہ اسلام کے آغاز سے پہلے عرب
میں عورت کو زندہ گاڑ دیا جاتا تھا۔ لڑکی کی پیدائش ایک نحوست سمجھی جاتی
تھی۔ عورت کو فساد کی جڑ سمجھا جاتا تھا۔ ہندو معاشرہ جو آج بھی عورت کو
مکمل حقوق دینے سے قاصر ہے۔ شوہر کے مرنے کے بعد عورت دوبارہ سے نارمل
زندگی گزارنے کا حق نہیں رکھتی۔ عورت کو ’’ستی‘‘ جیسی بے بنیاد اور غیر
انسانی رسم کے مطابق زندگی گزارنا پڑتی ہے۔مغربی معاشرے کی عورت جو کبھی
Feminism کی قائل تھی اب اُس معاشرتی آزادی سے تنگ آتی دکھائی دے رہی
ہے۔فرانس جیسے ترقی یافتہ ملک میں عورت کو ووٹ ڈالنے کی آزادی نہیں تھی کچھ
سال قبل عورت کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہوا۔ عورت جو مغربی معاشرے میں مرد
کے شانہ بشانہ معاشی ریس میں چلتی چلتی اب تھک چکی ہے۔ اس معاشرے میں جہاں
عورت کو مرد کے برابر کام کرنا پڑتا ہے۔ جہاں زندگی کی ساری سہولیات کے
حصول کے لیے انسان دن رات کام تو کرتا ہے مگر پیسے اور کام کی اس دوڑ میں
کہیں رشتے اور خاندان بہت دور جا چکے ہیں۔مشرقی معاشرہ جو ایک طرف تو غیرت
کے نام پر بہن و بیوی اور بیٹی کا قتل جائز سمجھتا ہے۔ دوسری طرف اسی
معاشرے میں کسی کی بھی بیوی، بہن اور بیٹی سڑک و بس سٹاپ اور گلی بازاروں
میں چلتی پھرتی خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہے۔ اس کم پڑھے لکھے اور غیر ترقی
یافتہ معاشرے میں اگر کوئی لڑکی بس کے انتظار میں ’’بس سٹاپ‘‘ پہ کھڑی ہو
تو ہر عمر کا مرد اُسے لفٹ دینے کیلئے تیار کھڑا ہوتا ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں
کسی مرد کو اپنی غیرت اور عزت تو محفوظ چاہیے مگر کسی دوسرے کی عزت انہی
سڑکوں پہ رُسوا کی جاتی ہے۔آج اکیسویں صدی کے اس نام نہاد مہذب معاشرے میں
عورت کی تعلیم اس کے حقوق اور آزادی پہ بات کرنے والوں نے کیا صحیح معنوں
میں عورت کو عزت دینے کی کوشش کی؟عورت کی تعلیم جس کی بات آج مغربی معاشرہ
کرتا ہے اس کے بارے میں احکام تو اسلام چودہ سو سال قبل دے چکا ہے۔ نبی
کریمؐ کے ارشاد کے مطابق’’علم کا حصول ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض
ہے‘‘ایسا پریکٹیکل مذہب جو صدیوں پہلے ہی عورت کے حقوق متعین کر چکا جو
عورت کو تعلیم کا حق دے چکا۔ اُسی مذہب کے پیروکار عورت کو عزت دینے میں
اتنے بخیل کیوں؟اسی پاکستان میں جو بنا ہی اسلام کے نام پر تھا آج بھی اس
معاشرے میں جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہیں اسے وراثت
میں حصے سے محروم رکھا جاتا ہے تو کہیں غیرت کے نام پہ اس کا خون بہایا
جاتا ہے۔دنیا میں ہر چیز کے کچھ منفی اور کچھ مثبت پہلو ہوا کرتے ہیں۔ مرد
چاہے مغربی معاشرے کا ہو یا مشرقی معاشرے کا اگر اس کی سوچ مثبت اور تعمیری
ہو۔ اگر وہ اخلاقیات کے اعلیٰ درجہ پہ ہو تو وہ عورت کو ہمیشہ عزت کی نگاہ
سے دیکھے گا۔ یہ اُس کی تربیت ہے جو اسے عورت کی عزت کرنا سکھاتی ہے۔ اور
مرد کی تربیت ماں کی گود سے شروع ہو کر خاندان کے ماحول سے ہوتی ہوئی
معاشرے کے طور طریقوں پہ ختم ہوتی ہے۔مثبت سوچ کے مالک لوگ نہ صرف عورت کو
عزت دیتے ہیں بلکہ انہیں خاندان اور معاشرے کا نہایت اہم رُکن کی حیثیت سے
قبول کرتے ہیں وہ اپنی ماں، بیوی اور بہن اور بیٹی ان سارے حوالوں سے عورت
کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اگر معاشرے کے مثبت پہلوؤں پہ روشنی ڈالتے
ہوئے کئی روشن مثالوں کو بیان کریں تو اسی معاشرے کا حصہ ہوتے ہوئے جدوجہدِ
آزادی میں سرگرم رہنے والی خاتون ’’فاطمہ جناح ماردِ ملت‘‘ کہلائیں۔معاشرے
کی فلاح اور رہنمائی کا بیڑا سَر پر اُٹھائے ہوئے دن رات مصروفِ عمل رہنے
والی بلقیس ایدھی،مسرت شاہین،ڈاکٹر صغری صدف اور ثمن رائے ایک منفرد اور
اعلیٰ سوچ رکھنے والی عظیم خواتین ہیں مسرت شاہین پوری دنیا کے لیے مثال
ہیں جو پیدا ہوتے ہی ماں کی شفقت سے محروم ہوگئی اور پھر سوتیلی والدہ نے
ظلم کے پہاڑ توڑ دیے مگر ہمت ہاری نہ خود کشی کی بلکہ پاکستان کی ٹاپ سپر
ہیروئن بن کرثابت کردیا کہ ارادے مضبوط ہوں تو کوئی دیوار انسان کا راستہ
نہیں روک سکتی مشکلات اور پریشانیاں انسان کو اپنی منزل سے ہٹا نہیں سکتی
بلکہ ان مشکلات کا مقابلہ کرکے اپنی زندگی کو مسرت سے بھرا جاسکتا اسی طرح
پلاک کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر صغری صدف نے بطور خاتون اپنا لوہا منوایا
پنجاب میں پنجابیوں کے لیے ریڈیوایف ایم 95کی بنیاد رکھی اور اسے پنجاب کا
نمبر ایک ریڈیو بنادیاجبکہ ڈی جی پی آر ثمن رائے نے کم وقت میں جتنا کام
کردیا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے ابھی حال ہی میں بلوچی بھائیوں کے ساتھ اظہار
یک جہتی کا دن منایا گیا اور اب 14مارچ کو کلچر ڈے منایا جائیگا ۔ ادبی
دنیا میں ایک اعلیٰ مقام رکھنے والی عظیم ادیبہ بانو قدسیہ کو بھی اشفاق
احمد جیسے ایک اعلیٰ پائیے کے محقق اور مدبر انسان کی معاونت حاصل
رہی۔افواجِ پاکستان میں بھرتی ہونے والی خواتین جو اپنی زندگی داؤ پہ لگا
کر فرض کی تکمیل کے لیے ہر روز ڈیوٹی پہ موجود ہوتی ہیں۔ انہی میں سے ایک
فلائینگ آفیسر مریم مختیار اس وطنِ عزیز کیلئے جان کا نذرانہ پیش کرنے والی
باہمت بیٹی کا جنم بھی تو اسی معاشرے میں ہوا تھا۔اٹامک اور نیوکلیئر فزکس
میں مہارت رکھنے والی اس قوم کی غیور ’’بیٹی‘‘ ڈاکٹر عافیہ صدیقی‘‘ بھی تو
کسی باپ کی بیٹی، کسی شوہر کی بیوی اور کسی بیٹے کی ماں ہے۔ کسی تہذیب میں
تو مرد عورت کی تعلیم میں روکاوٹ بنا تو کسی جگہ اُسی کی سپورٹ کرنے میں سرِ
فہرست رہا۔عورت اس معاشرے کا نہایت اہم جزو ہے۔ جس کے بغیر نہ نسلیں چل
سکتی ہیں نا قومیں بن سکتی ہیں۔ عورت کے وجود سے ہی زندگی ہے سوال یہ ہے کہ
’’عورت آخر چاہتی کیا ہے؟‘‘عورت عزت چاہتی ہے تحفظ چاہتی ہے۔ عورت تعلیم
حاصل کر کے زندگی کی دوڑ میں مرد کے ساتھ چلنا چاہتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے
کہ عورت کا حقیقی مقام سمجھتے ہوئے جو ایک ماں بھی ہے اور ایک بیٹی بھی وہ
بیوی ہے اور بہن بھی و معاشرے کی ترقی میں عورت کے کردار کو سمجھا جائے۔
تعلیم عورت کا بنیادی حق ہے۔ پڑھی لکھی ماں ہی پڑھے لکھے معاشرے کو جنم دے
سکتی ہے۔عورت کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر کے معاشرے اور آنے والی نسلوں
کے مستقبل کو روشن بنایا جا سکتا ہے اور ملک کی ترقی اور خوشحالی کا ایک
نیا دور شروع ہو سکتا ہے -
|