بعض اوقات کچھ باتیں ایسی ہوتیں جن کو کہنا سننا سوچنا
دیکھنا محسوس کرنا بہت آسان ہوتا مگر جب ان تمام احساسات کو قلم کی نوک پر
رکھ کر لکھنا بہت مشکل لگتا بالکل ایسے ہی جیسے اس کائنات کی سب سے پیاری
تخلیق عورت جس پر لکھنا اس لیے بھی مشکل ہے کوئی بھی لفظ اس کی خوبصورتی کو
بیان کرنے سے قاصر ہے۔عورت کی تخلیق وفا ' حسن ، بہادری، محبت ،محنت،جرات ،ذہانت
، قربانی دینے والی خصلت ، نڈر ،' اور اس جیسی بہت سی خوبیوں سے گندھی گئی
مٹی سے کی گئی ہے۔بلاشبہ اس کائنات میں دلکشی و حسن صرف عورت کے وجود سے
ہے۔یہ کائنات ایک ایسی شاعری کی مانند ہے جس کا ایک ایک لفظ عورت کے وجود
سے ہے۔۔عورت کے کونسے روپ کی تعریف کی جائے ہر روپ میں اپنی پہچان آپ ' ہر
روپ میں قدرت کا نایاب ہیرا ہر روپ میں زندگی کا احساس ' ہر روپ میں
مسکراتا شاہکار۔۔ہر روپ میں حیران کن۔کبھی وہ محترمہ فاطمہ جناح کے روپ میں
قوم کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کر کے زندگی کا مقصد العین سمجھاتی اپنی
مضبوطی سے دنیا کو حیران کرتی نظر آئی تو کبھی معصوم عورت کے روپ میں
گھرداری سنبھالتی نظر آتی ہے۔کبھی مریم مختیار اور پریسا اعظم جیسی فائٹر
پائلٹ کے روپ میں نڈر ہو کر ہواؤں کو چیرتی دشمن کو للکارتی نظر آتی ہے تو
کبھی پروین شاکر کی طرح نزاکت سے انہیں ہواؤں پر خوبصورت نغمے لکھتی نظر
آتی ہے۔کبھی شرمین عبید چنا کی طرح کامیاب دستاویزی فلم بنا کر اپنے ہاتھوں
میں با اعتماد مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھوں میں آسکر ایوارڈ پکڑے نظر آتی ہے تو
کہیں سر سبز ہریالے کھیتوں میں مشقت کرتی پسینے میں تر بتر گندم کے خوشے
ہاتھوں میں پکڑے ہمت سے مسکراتی نظر آتی ہے۔کبھی شمشار اختر کے روپ میں
سٹیٹ بینک کی پہلی خاتون گورنر جنرل کے عہدے پر فائز ہو کر بینکنگ کے شعبے
میں اپنا لوہا منواتی نظر آتی ہے تو کبھی عام محنت کش کے طور پرملوں '
کارخانوں میں لوہے کی مشینوں کو اپنے زور بازو سے چلاتی نظر آتی ہے۔ کبھی
آئی ٹی کی دنیا میں ارفع کریم کی طرح مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشینل کے
روپ میں نظر آئی تو کبھی عام عورت کی طرح رنگ برنگے کپڑوں پر خوبصورت
دھاگوں سے کشیدہ کاری کر کے اپنی الگ پہچان بناتی نظر آتی ہے۔کبھی استانی
کے روپ میں ملک کے کونے کونے میں علم کی شمع جلاتی نظر آتی ہے تو کبھی
ملالہ یوسف زئی کے روپ میں اپنے وجود پر علم کے نام پر برستی گولیوں کا
بہادری سے مقابلہ کرکے تعلیم نسواں کے لیے جدوجہد کرتی پاکستان کی پہلی
نوبل یافتہ خاتون کا اعزاز اپنے نام کرتی نظر آتی ہے۔کبھی کم عمر کوہ پیما
سلینا خواجہ کے روپ میں سنہری چوٹی کو سر کر کے کامیابی کا جھنڈا لہراتی
نظر آتی ہے تو کبھی پاکستانی کامیاب ترین تیراک کرن خان کے روپ میں پانی کی
لہروں کے سنگ سنگ لہراتی ہوئی قومی اور بین الاقوامی سطح پر کئی میڈل اپنے
نام کرتی نظر آتی ہے۔ کبھی ثانیہ نشتر جیسی کی طرح ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن
کی ڈائریکٹر جنرل کے روپ میں نظر آتی ہے تو کبھی بلوچستان کے سخت پہاڑوں
میں جان ہتھیلی پر رکھ کر ہیلتھ ورکر کے طور پر اپنے فرائض جانفشانی سے ادا
کرتی نظر آتی ہے۔۔عورت ہر روپ میں اپنی پہچان خودہے۔۔
|