دن کے گیا رہ بج رہے تھے ا مّا ں
نے جا کے ٹی وی آن کیا اور کمر ے سے ہا نک لگائی: ” صفورہ ،سعدیہ بھئی آجاؤ
ڈرامہ شروع ہو رہا ہے “
لو ڈشیڈنگ کی وجہ سے آج کل پرائم ٹائم ڈرامہ رپیٹ ٹیلی کا سٹ میں ہی دیکھتی
تھیں اسلیئے صبح جلدی جلدی کا م نمٹانے کی کرتیں کہ ڈرامہ تسلی سے دیکھ
سکیں۔امّا ں خلافِ معمول کچن کا کام جلد سمیٹ چکی تھیں،اس لئے پو چا لگا تی
صفورہ ا ور کپڑے دھوتی سعدیہ کو تب سے بُلا رہی تھیں،تینو ں تھکن کے با
وجود مِل بیٹھ کرڈرامہ دیکھ کے آسو دہ سی ہوجا تیں۔ڈرامہ دونوں بہنیں خا
موشی سے دیکھنا پسند کرتی تھیں،لیکن ان کی امّاں کو اگرچہ تبصرہ کر نی کی
پُرانی عا دت تھی۔اُس کے سا تھ یوں نہیں ہو نا چا ہئیے تھا ۔فلاں نے بے
چاری ہیروئن کے ساتھ دھو کا کیا حالا نکہ کتنے وعدے کر رہا تھا وغیرہ وغیرہ
،کبھی کبھی امّا ں اتنا وا ویلا کر تیں کہ ڈرامہ نا ہو حقیقت ہو۔۔۔۔!!
صفو رہ نے جلدی سے کا م ختم کیا اور منہ پر پا نی کے چھپا کے ما ر کر،اپنے
دوپٹے سے منہ خشک کر تی کمرے میں آ گئی ۔ٹی وی کے بجائے اپنی امّا ں کی طرف
دیکھتے ہو ئے پو چھنے لگی:” شروع ہو گیا کِیا؟؟“
ارے یہ موہے منحوس کمرشلز ہی آ رہے ہیں پچھلے آدھے گھنٹے سے۔۔۔!!صفو رہ کی
ما ں نے کو ُسنے کے انداز میں بد مزہ ہوتے ہوئے کہا۔
”ہاں امّا ں یہ کمر شلز سارے ڈرامے کا مزہ کِرکِرا کر دیتے ہیں۔۔!“سعدیہ
کہتے ہوئے نیچے فر ش پر ہی بیٹھ گئی،کپڑے گیلے تھے ۔ صفورہ نے بھی اس کی با
ت کی تائید کی۔اِسے ڈرامہ دیکھتے ہو ئے سا نپ سُونگھ جا تا تھا،دل چا ہا تو
کوئی با ت کر لی ورنہ چُپ چا پ ٹی وی سکرین پر چلتی پھرتی حسین لڑکیوں،بڑے
بڑے گھروں کو محویت سے تکتی اور دل ہی دل میں سو چتی کہ ”زندگی اس قدر حسین
بھی ہو سکتی ہے“ڈرامہ شروع ہو چکا تھا۔
امّاں دیکھنا کتنا دلکش چہرہ ہے!صفورہ نے اسکرین پر فُل پوز میں نظر آتے
ہیروئن کے چہرے کو رشک سے دیکھتے ہو ئے کہا۔سعدیہ کی محویت میں کوئی فرق
نہیں آیا تھا۔وہ بھی لو گو ں کی طرح حُسن پر ست تھی لیکن اسکی حُسن پسندی
اور بہت سی چیزوں کی بھی قا ئل تھی ،اِسے حُسن الفاظ میں،کردارمیںبھی
چاہیئے ہوتا تھا۔بِنا کردار کے حسین لو گ ایسے پیڑکی طرح لگتے جو ہرا بھرا
ہو نے کے باوجود بُور نہیں اُٹھا تا یا جس میں میں پھل نہیں لگتاکردار وہ
پھل ہے جو ہر ایک کے پا س نہیں ہو تا!!
”ہوں“ اسکی ماں کے لہجے میں ڈھیروں تا سف دَر آیا۔صفورہ تو امّاں کی
”ہوں“کے پیچھے چھپے تا سف کو نہ سمجھ پائی،لیکن سعد یہ نے ما ں کے لہجے کی
تلخی کو اچھی طرح محسوس کیا تھا۔وہ چپ تھی ،اُسے چپ ہی رہنا چاہئے تھا۔
”بیٹیاں ہوں تو بہت حسین ورنہ نہ ہوں!!!!“امّاں نے بے بسی ،مایو سی سے کہتے
ہوئے بلآخر دل کی با ت نکا ل ہی دی۔
لیکن اُن کے لہجے کی کڑواہٹ بتا رہی تھی کہ وہ خو د ہی کو اس کا قصور وار
سمجھتی ہیںلیکن وہ نہیں جا نتی تھیں کہ ان کی یہ با ت کسی دل کے زخموں کو
چھیڑپھاڑ کر ایک بار پھر ہرا کر دے گی امّا ں کی با ت کے کا نٹے سعدیہ کے
وجود میں پیوست ہو چکے تھے،خون ان نا دیدہ زخموں سے رَس رہا تھااور نمکین
پا نی کی اِک لہر اسکی پلکوں کی باڑ کو گیلا کر چکی تھی اُس نے ایک نظر
اپنی ماں کو دیکھا،جس کے چہرے پر زمانے بھر کا درد تھا جو وہ اُٹھائے
اُٹھائے تھکنے لگی تھیں!!ڈرامے میں اسکی دلچسپی تقریباََ ختم ہو چکی تھی،وہ
اپنی تقدیر کے ڈرامے کے با رے میں سو چھ رہی تھی کہ صفو رہ بو لی:”کککیوں
ہو نا چا ہئے بیٹیوں کو خو بصو رت۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟“
”لو اور سنو اگر لڑکیاں گو ری چٹی اور خوبصو رت ہوں تو ان کے رشتے خو د چل
کے آ تے ہیں!!“امّا ں نے صفو رہ کے احمقا نہ سو ال پر ہا تھ نچا کے زہر خند
مسکراہٹ سے کہا۔دَردَر جھا نک چکنے کے با وجود اپنی کم صورت بیٹیوں کے لئے
منا سب رشتہ نہیں ڈھونڈسکی تھیں اور اس کی بیٹیوں کی عمر کی لڑ کیاں بیا ہی
جا چکی تھیں۔کسی کو زیا دہ عمر پہ اعتراض ،تو کسی کو سا نولی رنگت پہ،جبکہ
دونوں پڑھی لکھی اور سلیقہ شعار تھیں لو گو ں کو شا دی کے لئے لڑ کیا ں
نہیں چا ہئے ہو تی بلکہ انھیں حسن کی دیویاں اپنے گھروں میں سجا نے کے لئے
چا ہئے ہوتی ہیں جن کو وہ فخر سے دوسروں کو دِکھا سکیں۔امّاں اپنی جگہ ٹھیک
تھیں لیکن نا جا نے کیوں سعدیہ کو شدت سے محرومی اور بے مائیگی کے احسا س
نے آ گھیرا تھا وہ محرومیوں،بے رحمیوں سے لڑتے لڑتے ،نہ ہا رنے کے با وجود
ابھی خود کو ہا را ہو ا محسوس کر رہی تھی
زما نہ چا ہے انہیں کچھ بھی کہے وہ سہہ سکتی تھی ” لیکن ایک ماں اپنی کوکھ
سے جَنی بیٹیوں کو !!“وہ اس سے آگے سو چنے کی متحمل نہ ہو سکی۔
امّاں کے سا منے اس نے یوں پُوز کیا جیسے امّا ں نے عا م سی با ت کی ہو ۔اس
عا م سی با ت میں جو کرّب تھا وہ امّاں کے سا تھ اس کی ذات کا بھی تھا۔اگر
وہ بھی دوسری لڑکیوں کی طرح خوبصورت ہوتی تو کبھی اس کی ماں کے لبّوں سے بے
چارگی کے الفاظ نہیں نکلتے۔
کا ش! ہم لڑکیوں کو اپنے چہرے خود تراشنے کی اجازت ہو تی تو کوئی لڑکی اپنی
قسمت کو الزام نا دیتی اور نا ہی کسی لڑکی کی ذات حقا رتوں کا نشا نہ بنتی
آج وہ خود کو بے وقعت،بے بس اور بے تو قیر تصور کر رہی تھی کم ما ئیگی کا
احسا س اسے اتنی شدت سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا،کم صورت ہو نے کا احسا س
اِسے پچپن سے دلا یا گیا تھا اس احسا س سے لڑتی وہ جو ان ہوئی تھی،لوگو ں
کی طنزیہ نگاہوں سے مقابلہ کر تی وہ بہت نڈرہو گئی تھی اسے لو گو ں کے بے
داغ چہروں کے پیچھے چھپے داغدار کر داروں سے کوئی سروکار نہیں تھا۔وہ اپنی
دنیا آپ بنا رہی تھی کسی محرومی اور بے ما ئیگی کے احسا س کے بغیر اِک ایسی
دنیا جو بہت مضبوط تھی جہاں کسی کی حقا رت کا جھو نکا داخل نہیں ہو سکتا
تھامگر آج وہ دُکھ کی شدتوں کے سا تھ احسا سِ محرومی کی ضربو ں کو اپنے
وجود میں داخل ہوتے دیکھ کر ،ہا ر گئی ’’ارے دیکھنا اس کا شو ہر کتنا ظا لم
ہے ۔۔۔؟؟“
پتہ نہیں ڈرامہ کس نہج پر تھا اور اس کے کر داروں کے درمیان کیا چل رہا
تھاجب امّاں نے درد بھری آواز میں اسے کہا سپاٹ نگا ہوں سے وہ ٹی وی اسکرین
دیکھتی ہوئی سو چنے لگی کہ یہ زخم تو وجود کے ہیں آج نہیں تو کل بھر جائیں
گے پر میری روح کے سڑے زخموں کا کیا کوئی مداوا نہیں؟کیا یہ ہمیشہ ہی نا سو
ر رہینگے؟؟؟امّاں ٹھیک ہی کہتی ہے ،میں صرف اپنے با رے میں خود غرض بن کے
نہیں سوچ سکتی!امّا ں کو جو پریشا نی ہما ری وجہ سے اٹھا نی پڑی ہے وہ
سعدیہ بی بی تمہارے احسا س کے ٹو ٹے گروندوں سے کہیں زیا دہ ہے۔پتہ نہیں یہ
لڑکیاں جوان ہو تے ہی ماں باپ کو بوجھ کیوں لگنے لگتی ہیں اِک ایسا بوجھ جو
وہ کسی بے گا نے کو سونپنے کوفکر مند رہتے ہیںبو جھ وجود کا ہو تو جیسے
تیسے اٹھ جا تا ہے،کوئی نہ کوئی سہا را دے دیتا ہے مگر کیا احسا سوں،جذبوں
کا گلہ دبا نے کے بعد قلب میں دل دھڑکتا ہے؟؟؟؟؟؟کیا حسرتوں اور خواہشوں پر
سے اپنا اختیار اٹھا لینے سے روح میں سسکیاں نہیں برپا ہو تیں؟؟؟تو پھر
زندہ لاشے کوئی کیوں اُٹھائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی مخمل میں ٹاٹ کا پیوند
کیوں لگائے۔۔۔گہن زدہ چہروں کا مقدر رونا ہوتا ہے ۔۔۔۔سعدیہ ابھی سے دل پہ
لے لی (وہ خود سے ہمکلام ہوئی)ابھی تو تاریکیوں بھری رات با قی ہے۔۔!!!!
ختم شد |