قومی ذریعہ تعلیم

پیش لفظ:
زبان دراصل ایک سماجی فعل اور کسی بھی قوم کے وجود ، بقاءاور اس کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ لہٰذا یہ ایک نسل سے دوسری نسل تک پُل کاکام دیتی ہے ۔ بعض دیگر اہم مسائل کی طرح، بدقسمتی سے ہماری حکومتیں ذریعہ تعلیم کے مسئلہ کو حل کرنے میں بھی ناکام رہی ہیں ۔ اس وجہ سے ملک میں تعلیم کے فروغ ،اس کی کیفیت اور ثقافت و سیاست نیز معیشت کے میدان میں ہم نے کھویا تو بہت کچھ ہے لیکن پایا بہت کم ہے۔ارباب اقتدار اور مراعات یافتہ طبقات کو تو روزِ اوّل سے ہی انگریزی ذریعہ تعلیم کا ”بخار“ چڑھاہواتھا لیکن چند سالوں سے عوام الناس بھی اس ”مرض“ میں تیزی سے مبتلا ہونے لگے ہیں اور ترقی بذریعہ انگریزی کا غلغلہ بلند ہے۔ حال ہی میں حکومتِ پنجاب نے پورے صوبے میں اوّل جماعت سے ”انگلش میڈیم“ کا آغاز کردیاہے ۔ اندریں حالات اس مسئلہ کو حقائق کے تناظر میں دیکھنا لازمی امر ہے ۔ حقیقت میں ہمارا حال کچھ ایسا ہوا جا رہاہے کہ:
قدم اٹھتے ہی بڑھ جاتی ہے منزل
بظاہر فاصلہ کم ہو رہا ہے

آئندہ سطور میں اردو کی تاریخی اہمیت، اس کی عالمی زبان ہونے کی حیثیت، جدید علوم کے حصول کے حوالے سے اس کی وسعت وصلاحیت اور ہر سطح پر رائج کرنے کی ضرورت پر اظہار خیال کیا جائے گا۔ اس حوالے سے دی گئی معلومات اور منہ بولتے ناقابل تردید حقائق کے ثبوت موجود ہیں جن کے یہاں اندراج کا یہ مختصر سا کتابچہ متحمل نہیں ہوسکتا۔ احقر نے اپنا پورا پتہ اور فون نمبر درج کردیا ہے لہٰذا عوام و خواص میں سے جو حضرات چاہیں متعلقہ حوالہ طلب کرسکتے ہیں۔ ان پہلوﺅں کے علاوہ ایک نہایت تلخ حقیقت، اُردو پر مختلف حملہ جات کا تذکرہ ‘بھی نہایت اختصار سے کردیا گیاہے ۔جس کی غرض اہل دانش و بینش اور اصحابِ اقتدار کی توجہ اس جانب مبذول کرانا ہے کہ ہماری قومی بلکہ اسلامی زبان غیروں سے بڑھ کراپنوں کے مظالم کا کیوں شکار ہو تی رہی ہے؟ جبکہ حکومت پنجاب کے متذکرہ بالا اقدام نے تواس کی انتہا کردی ہے ۔ فی الواقع اس کتابچہ کی تحریرکا فوری سبب بھی یہی قومی سانحہ بناہے ۔ نیز آغاز پر یہ بتا دینا بھی لازم ہے کہ احقر کسی لسانی یانَسلی عصبِّیت،علاقائی رقابت اور پیشہ ورانہ وابستگی سے بالا تر ہو کر درج ذیل تحریر سپر د قلم کررہاہے۔ میرا علمی میدان کیمسٹری ہے اور آباﺅ اجداد ہفت پشت سے پنجابی ۔البتہ عمر بھر علامہ اقبال کے اس شعر پر عمل کی مقدور بھر کوشش کی ہے
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیںبیگانے بھی نا خوش
میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

تاریخی اہمیت:
گلکرسٹ (ایک انگریز ) نے سب سے پہلے اُردو کوفورٹ ولیم کالج کلکتہ میں 1800ء میں اپنایا اور اس میں متعدد قابل قدر تصانیف مکمل کروائیں۔ 1918ء میں عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد ( دکن ) میں اسے بطور ذریعہ تعلیم اپنایا گیا۔ سائنس، انجینئرنگ ،آرٹس اورجملہ علوم ، ایم اے ، ایم ایس سی کی سطح تک ، اردو میں ہی پڑھائے جاتے رہے۔ اس کے بعد 1927ءمیں میڈیکل کی تعلیم بھی اُردو میں شروع ہوگئی۔ یہاں تک کہ 1948ء میں بھارت نے اس پر غاصبانہ قبضہ کرکے یہ سلسلہ ختم کردیا ۔ مشرقی پنجاب کے انجینئرنگ کالج رُڑکی میں 1935ءمیں ذریعہ تعلیم اُردو ہی تھی۔ اسی طرح آگرہ میڈیکل کالج 1938ءمیں ،اُردو اور انگریزی دونوں بطور ذریعہ تعلیم رائج تھیں۔ مزید یہ کہ 1941ء میں دہلی کالج میں یہی زبان ہی حصولِ علوم و فنون کا ذریعہ بنی۔ جامعہ ملّیہ دہلی میں نصف صدی تک تمام علوم اُردو میں پڑھائے جاتے رہے ۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے ایک میڈیکل گریجویٹ کو ملٹری ہسپتال کاکمانڈنٹ آفیسر بنایا گیا اور اس کا اردومیں طب پڑھنا آ ڑے نہ آیا ۔ 1935ءمیں برٹش میڈیکل کالج کونسل نے یہاں کے فارغ شدہ میڈیکل گریجوایٹس کو برطانیہ میں براہ راست ایف آر سی ایس کاامتحان دینے کی اجازت دی۔ ان سب سے بڑھ کر چشم کُشا امریہ ہے کہ 1807 ئ میں کلکتہ میڈیکل سکول میں انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی تعلیم دی جاتی تھی ۔ 1818ء میں لندن میں علوم شرقیہ کا ادارہ قائم کیاگیا۔ جس میں اٹھارہ اردو تصانیف کی گئیں۔ 1855ء میں یونیورسٹی کالج لندن، 1859ءمیں آکسفورڈ یونیورسٹی اور 1860ءمیں کیمبرج یونیورسٹی میں اردو کی تعلیم و تدریس شروع کی گئی ۔ متعد د حضرات نے لندن یونیورسٹی سے اردو میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بھی حاصل کیں ۔ اسی طرح پروفیسر رالف رسل نے اردو کو برطانیہ میں مقبول بنانے کے لیے اس کے استا د شعراءپر کتب تحریر کیں ۔ ملکہ وکٹوریہ اردو کی خوبیوں سے متاثر ہو کر اس کی اتنی شائق ہوگئی تھیں کہ اسے سیکھنا شروع کردیا۔ وہ بعض اوقات اپنی ڈائری بھی اردو میں تحریر کیا کرتی تھیں۔

غیر وں کی گواہی :
جب 1917ءمیں عثمانیہ یونیورسٹی میں تمام مضامین اردو میں پڑھانے کا سوچا جانے لگا تو اس غرض کے لیے تعلیمی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں سارے ماہرین ہندوستانی اور صرف ایک گورا (انگریز )تھا۔ اس کے علاوہ سب نے، ہمارے آج کل کے بلکہ پوری تاریخ پاکستان کے ارباب حل و عقد کی طرح، اسے رواج دینے کے راستے میں مشکلات کا تذکرہ شروع کردیا۔ بات کافی لمبی ہوگئی تو اس انگریز نے زور زور سے میز پرمُکّے مارتے ہوئے کہا:”تم کیا فضول بحث شروع کیے بیٹھے ہو ۔جب دو سو سال پہلے برطانیہ میں انگریزی کو لاطینی کی جگہ بطور ذریعہ تعلیم اختیار کئے جانے کی بات ہوئی توبالکل ایسے ہی دلائل دیئے گئے۔ چھوڑو اس فضول بحث کو اور اردو میں تراجم کا کام شروع کردو “۔ اس پر کمیٹی میں سناٹا چھا گیا اور ارکان بغلیں جھانکنے لگے۔کاش! اس گورے کی بات ہی مان کر اردو کو یوں اپنے وطن سے بے دخل نہ کیا جائے ۔ آج ہماری تعلیمی کمیٹیاں بھی عثمانیہ یونیورسٹی کی تعلیم کمیٹی کے مقام پر کھڑی ہیں۔ درحقیقت اردو ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ اس کا سبب کچھ اور ہے
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی سزا مرگِ مفاجات

لارڈ چیمس فورڈ ،وائسراے ہندکی انگریزی ذریعہ تعلیم کے حوالے سے 1917ئ میں دی گئی رائے بھی عقل و دانش کے دریچے کھولنے میں بہت مدد گارثابت ہوسکتی ہے۔ ایک موقعہ پر انہوںنے اس حوالے سے کہا:”مقامی طالب علم نوکریوں کی غرض سے ایک مشکل اور غیر ملکی زبان کو طوطے کی طرح رٹ تو لیتے ہیں لیکن حاصل شدہ علوم پر انہیں بہت کم عبور حاصل ہوتاہے۔ یہ تعلیم نہیں بلکہ تعلیم کامنہ چڑاناہے ۔“ واضح رہے کہ لارڈ صاحب نے یہ بات ماہرین تعلیم کے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی تھی ۔

جب عثمانیہ یونیورسٹی کے اردو ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کی صلاحیت کا 1935ءمیں، میڈیکل جنرل کونسل نے خوب جانچ پڑتال کے بعد جائزہ لیا تو رپورٹ دی :”اگر میڈیکل کی تعلیم انگلستان ، فرانس ، جرمنی اور ہالینڈ و دیگر اپنی اپنی زبانوںمیں دے سکتے ہیں تو بلاشبہ یہ اُردو میں بھی ممکن ہے جیساکہ اس یونیورسٹی کے فارغ التحصیل میڈیکل گریجویٹ ثابت کرچکے ہیں ۔ “

جان مولٹ سیکرٹری کونسل آف ایجوکیشن نے جب دہلی کالج کا معائنہ کیا تو تبصرہ کرتے ہوئے کہاتھا ”یہاں جو اردو میں تعلیم دی جاتی ہے اس کا معیار قابل تعریف ہے ۔ “روس میں بہت پہلے روسی اردو لغت تیار کی جاچکی تھی جسے اے پی ۔بارانی کوف نے تالیف کیا اور اس کے بعد کئی تصانیف کی گئیں جن میں سے ایک میں انیسویں صدی کے اردو شعراءکلام کا جائزہ لیاگیاتھا۔

بین الاقوامی زبان :
کشمیر کے نام پر نہ جانے کون کون اس قوم کا خون چو س رہاہے؟ ہمارے ہاں اردوغلام ہے جبکہ دوسری جانب حقیقت یہ ہے کہ آزاد ملک کی یہ ”غلام زبان “مقبوضہ کشمیر میں 1846ء سے رائج ہے ۔ وہاں کی سرکاری زبان اور میٹرک تک ذریعہ تعلیم ہے ۔ چین کی پیکنگ یونیورسٹی میں 1956ء سے اردو کا ڈگری کورس جاری ہے اور وہاں کے مشہور شاعر انتخاب عالم(چینی نام : چانگ شی شون ) سے اہل علم و دانش بخوبی واقف ہیں ۔ مشہور عالم مصری مغنیہ اُمِّ کلثوم نے علامہ اقبال کے شکوہ اور جواب شکوہ کا منظوم عربی ترجمہ گا کر عالم عرب میں تہلکہ برپا کردیا تھا۔

تاشقند یونیورسٹی میں اردو 1943ءسے پڑھائی جارہی ہے۔ تاجکستان میں بچے بچے کو کلام اقبال سے محبت ہے ۔ہرگھر میں ان کا اردو کلام موجود ہے۔ لہٰذا علامہ اقبال کا صدسالہ جشن ولادت وہاں دھوم دھام سے منایا گیاتھا۔ برما کا صوبہ اراکان اردو بولتا اور سمجھتاہے۔ وہاں اردوشناسوں کی کئی انجمنیں قائم ہیں۔ رحمن محمد جانوف ازبکستان کے اردو سکالر تھے ۔ وسطی ایشیا کی ریاستوں کا ہر اردو جاننے والا ان کا شاگر دتھا ۔ اس وجہ سے آپ پورے خطے میں ”استاد جی“کے نام سے معروف تھے ۔ اسی طرح ایک اردو دانشور تابش مرزا نے 1994ءمیں اردو ازبک اور اردو روسی لغت تیار کی ۔ ”استاد جی “کی بیٹی سیارہ جو اب بھی اردو پڑھاتی ہیں ،کو صدر پاکستان نے تمغہ حسنِ کارکردگی عطا کیا۔ اُردو اور اُزبکی زبان میں دس ہزار الفاظ مشترک ہیں ۔ ترکی کی تین یونیورسٹیوں میں اُردوکے شعبے موجود ہیں۔ بیس سے زیادہ ممالک کے قومی ریڈیو اردو میں باقاعدگی سے پروگرام نشرکرتے ہیں ۔ اوساکا میں 1922ءاور ٹوکیو میں 1945ءسے اردو پڑھائی جارہی ہے ۔ مصر کے طلباءپنجاب یونیورسٹی سے اُردو میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لے چکے ہیں۔

پیرس میں 1669ءمیں ”مدرسہ اشرافیہ “ قائم ہوا۔ مشہور فرانسیسی مستشرق پروفیسر گارسین دتاسی وہیں پڑھے اور بعد میں اردو کے پروفیسر تعینات ہوئے۔ پوری زندگی اس ”اپنے دیس میں پردیسی “ زبان کے فروغ کے لئے وقف کردی ۔ ان کی اردو میں پانچ تصانیف اس کی عالمی حیثیت و صلاحیت کے بطور ِگواہ اب بھی موجود ہیں۔ کینیا میں1963ءتک اردو پڑھائی جاتی رہی لیکن جونہی انگریز نکلے اور ملک آزاد ہوا تو سا تھ ہی اردو کو بیک بینی دوگوش باہر نکال دیا گیا۔ جنوبی افریقہ کی ڈبلن یونیورسٹی میں اب بھی بی اے تک اردو پڑھائی جاتی ہے ۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مشہور عالم استاد اور اسلامی مبلغ و مناظر جناب احمد دیدات کا تعلق بھی جنوبی افریقہ ہی سے تھا ۔ جو بیک وقت اردو اور انگریزی کے شعلہ بیان خطیب تھے۔ یہ امر بھی قارئین کے لیے دلچسپی کا حامل ہوگاکہ امریکی ،چینی ، فرانسیسی ،پرتگیزی اور اطالوی شعراءنے بھی ارود میں طبع آزمائی کی ۔ فرانسیسی پروفیسر گارسین دتاسی نے ملکِ پاکستان میں درد ر کے دھکے کھانے والی اردو کو دنیا میں انتہائی ترقی یافتہ زبانوں میں شمار کیا۔ یہاں قابل غور یہ افسوسناک امر ہے کہ ہر بار جب اردو پر اپنے ہی حملہ آور ہوتے ہیں تو دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اردو کا دامن تنگ ہے اور جدید علوم و فنون کے لئے ذریعہ تعلیم بننے کے قابل نہیں ہے۔ جن سے ہمارے دانشور اور اہل اقتدارعقل ودانش کی بھیک مانگتے ہیں نہ جانے ان کے دماغ کیوں اتنے چل گئے ہیں کہ صدیوں سے اس”زبان بے زبان “ کے لئے رطب اللسان رہے۔

وُسعت وصلاحیّت :
ماضی میں انگریزی کبھی بھی سائنسی زبان نہیں رہی۔ 1500ءتک اس پر فرانسیسی کاغلبہ تھا۔ پھر لاطینی کا طلسم چھا گیا ( جیساکہ عثمانیہ یونیورسٹی کی کمیٹی میں گورے نے تذکرہ کیا ) جب ان کے غلبہ سے نکلی تو بیکن اور نیوٹن جیسے سائنسدان پیداہوئے جنہوںنے ذاتی مشاہدے کو قومی زبان میں تحریر کیا اور اس کے بعد انگریزقوم میں بڑے بڑے سائنسدان پیدا ہونے لگے کیونکہ انہوںنے اپنی زبان میںسوچا اور اسی میں لکھابھی ۔ جہاں تک اردو کی وسعت وصلاحیت برائے ذریعہ تعلیم کا تعلق ہے تو اس پر ایک عالم گواہ ہے۔ دیگ میں صرف چند چاول پیشِ خدمت ہیں ۔:

یہ وہ زبان ہے جو قرآن اور آسمانی کتب کا ترجمہ کرسکتی ہے ، مختلف علوم وفنون پر بحث کرنے کے قابل ہے ۔اس وقت عربی کے بعد سب سے زیادہ اسلامی کتب و جرائد اُردو میں ہیں اور قرآن مجید کی ایک سو سے زیادہ تفاسیر موجود ہیں۔ مولانا مودودی ؒ کی بےشترکتب کا ترجمہ دنیا کی پچھتر زبانوں میں ہوچکاہے۔ بلکہ تمام مسلمانوں میں سب سے زیادہ بولی اور پڑھی جانے والی زبان بھی اُردو ہی ہے۔ سرسید احمد خان اور علامہ اقبال کے جذبات کی مکمل اور بھرپور ترجمانی کے لائق ثابت ہوچکی ہے اور دنیا کی معروف بین الاقوامی زبانوں میں پیش کردہ افکار کو کامیابی سے اپنے اندر سمو سکتی ہے۔ سرراس مسعود (سرسیّدکے پوتے اور وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ)کے بقول ”ہندوستان، جس نے انگریزی کو بطور ذریعہ تعلیم اپنا رکھاہے ۔ ایک ایسا لنگڑا اور اپاہج معلوم ہوتاہے جو اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے ہاتھ پاﺅں (اپنی قومی زبان اردو ) سے کام نہیں لیتا بلکہ وہ ان لکڑیوں کے سہارے اچھلتاہے (انگریزی ) جو یہاں سے چھ ہزار میل دور ایک ملک میں تیار ہوتی ہیں“۔اب سرتیج بہادر سپرو کی سنیے ۔ ”میں کئی یونیورسٹیوں کا ممتحن ہوں۔ عثمانیہ یونیورسٹی جہاں اردو ذریعہ تعلیم ہے، کے پرچے دیکھ کر مجھے احساس ہوتاہے کہ اس کے طلباءجو کچھ لکھتے ہیں سمجھ کر لکھتے ہیں جبکہ دوسرے صرف رٹا لگاتے اور یہی کچھ تحریر کرتے ہیں۔ “اس ضمن میں سابق وفاقی وزیر تعلیم ڈاکٹر افضل کے خیالات ملاحظہ ہوں۔ ”اردو میڈیم میں پڑھے ہوئے طلباءکے نتائج انگلش میڈیم والوں سے بہتر ہوتے ہیں “۔ ڈاکٹر محمود عالم پاکستان کے نہایت مشہور ماہر امراض قلب تھے ۔ انہوںنے میڈیکل سائنس پر متعدد کتب تحریر کیں۔ ان کی اُردو کتب نہایت سادہ زبان میں ہیں اور معمولی پڑھے لکھے شخص کی سمجھ میں آنے والی ہیں۔ اس طرح پاکستان کے ایک سابق چیف جسٹس جناب شیخ انوار الحق کے مطابق: ”بیسویں صدی کے آغاز تک اسسٹنٹ سرجن کلاس کی تدریس انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی ہوتی رہی ہے ۔ میڈیکل کی متعدد کتب کا ترجمہ اردو میں کیاگیا جو اب تک پرانی لائبریریوں میں موجود ہیں۔“ دیکھئے ! مقتدرہ قومی زبان کے سابق صدر نشین اور ممتاز ماہرتعلیم ، ڈاکٹر جمیل جالبی جو بطور وائس چانسلر بھی خدمات انجام دیتے رہے ہیں کیا فرماتے ہیں :”ایک زبان کی حیثیت سے ارود میں وہ ساری صلاحیتیں موجود ہیں ۔جو ذریعہ تعلیم کے لئے لازم ہوتی ہیں“۔ ڈاکٹر غلام السیّدین‘ علی گڑھ یونیورسٹی کے ٹریننگ کالج کے پرنسپل تھے اور بعد میں ریاست جموں وکشمیر کے ڈائریکٹر تعلیمات بھی رہے۔ ان کے بقول :”ایک اوسط طالب علم کے لئے یہ بہت مشکل ہے کہ وہ کسی مضمون کامطالعہ ایک غیر زبان میں کرے ۔ طلباءکی آدھی توجہ الفاظ پر ہوتی ہے اور آدھی مطلب پر ۔اس طرح بہت ساوقت اور محنت ضائع ہوجاتی ہے “۔ اب دیکھئے پنجاب یونیورسٹی کے ایک نہایت معروف وائس چانسلر اور مولانا ظفر علی خان کے بھائی پروفیسر حمید احمد خاں کا عمر بھر کا تجربہ کیا کہتاہے۔ ”میں نے انگریزی زبان کی تدریس و تحقیق میں عمر کا بڑا حصہ صرف کیا ہے اور میری معاش بھی اسی سے وابستہ ہے ۔ لیکن سچ پوچھیں تو پاکستان میں جتنا جلد اُردو کو ذریعہ تعلیم بنادیا جائے ،ہمارے لئے اتنا ہی بہتر ہے۔“

جب کسی زبان میں انسائیکلو پیڈیا طبع ہونے لگیںتو اسے ایک بین الاقوامی سطح کی زبان گردانا جاتاہے۔ اس وقت 28سے زیادہ اردو انسائیکلو پیڈیا لائبریریوں میں موجود ہیں جن میں سے کئی کی ضخامت 15جلدوں سے لے کر 23جلدوں تک ہے۔ دوسری طرف اردو لغات کے معاملے پر غور کریں ۔ 1996ءتک 669لغات طبع ہو کر مارکیٹ میں آچکی تھیں ۔ پاکستان میں اردو کی کارگزاری بحیثیت کامیاب ذریعہ تعلیم کے لیے بابائے اردو کے قائم کردہ اردو کالج اوراُردو سائنس کالج کراچی کی مثالیں موجود ہیں۔ جہاں1969ءسے تمام مضامین ہماری قومی زبان میں پڑھائے جار ہے ہیںاور اچھی خاصی تعداد میں کتب تصنیف کی جا چکی ہیں۔ اردو زبان میں انگریزی کے ایک ایک لفظ کے مقابلے میں تین تین لفظ موجود ہیں کوئی سوچ ،کوئی خیال اور کوئی نظریہ ایسا نہیں جو اس زبان میں ادا نہ کیا جاسکے۔ قومی اردو ۔ انگریزی لغت دو لاکھ الفاظ پر مشتمل ہے۔ یہ لغت دنیا میں کسی بھی موضوع پر انگریزی زبان کے مترادفات فراہم کرتی ہے اور دوسو سے زیادہ سائنسی علوم و فنون کااحاطہ کرتی ہے۔ علامہ اقبال کے اردو میں افکار عالیہ کاترجمہ دنیا کی تمام قابل ذکر زبانوں میں ہوچکاہے۔ یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق اُردو دنیاکی دوسری بڑی زبان ہے جبکہ اول نمبر پر چینی ہے۔ چینی زبان چونکہ صرف ایک ہی ملک اور دنیا کے محدود خطہ میں بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔ لہٰذا مجموعی طور پر عالمی سطح پر دیکھا جائے تو اردو اس وقت سب سے بڑی زبان ہے ۔

ہمارے انگریزی کے دلدادہ افسران بالا اور کار پردازان حکومت ملکی ماہرین کی آراءکو تو شاید زیادہ اہمیت نہ دیتے ہوں گے لیکن انہیں کم ازکم ایک غیر جانبدار غیر ملکی اور مشہور ماہر لسانیات نیپال کے آنند راج اُپادھیائے کی رائے پر تو دھیان دیناچاہیے۔ وہ کہتے ہیں ”اپنے پس منظر اور الفاظ معانی کے اعتبار سے اردو زبان بہت امیر ہے۔ اس کی گہرائی اور گیرائی سمندر جیسی ہے “ ذریعہ تعلیم اور سرکاری زبان کے حوالے سے اٹلی کے ماہرلسانیات ماﺅریسی ۔اوکی رائے میں ”اردو دنیا کی واحد زبان ہے جسے پوری دنیا میں رائج کیاجاسکتاہے۔ کیونکہ دنیا کی مقبول ترین زبانیں ادھوری ہیں“۔’ جادووہ جو سرچڑھ بولے‘ کے مترادف ایک اور اعترافِ حقیقت ملاحظہ کریں ۔ لاہور میں اردو اساتذہ کی ایک ایجوکیشن کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس کے اختتام پر برٹش ہائی کمشنر نے ایک پریس ریلیز جاری کی جس کے الفاظ یہ تھے ۔ ”2020ئ تک اردو دنیا کی مقبول ترین زبان بن جائے گی ۔“ البتہ جہاں تک بات ہماری سرکاری اردو پالیسیوں کا تعلق ہے تو اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتاہے
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

موجودہ سرکاری پالیسیوں کے تناظرمیں ، شریف برادران اور ان کے حواریوں کے محسن ‘ سابق صدر جنرل ضیاءالحق کے ایک بیان کا یہ اقتباس بھی نہایت قابل غور ہے :”قومی زبان کی حیثیت مسلمہ ہے۔ اس لئے درس و تدریس کو اُردو میں ہی اپنانا چاہیے۔ “ اسی طرح موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب کے ایک مسلم لیگی پیشرو غلام حیدر وائیں (مرحوم)نے بھی کئی بار دوٹوک الفاظ میں یہی رائے دی ،احکامات بھی جاری کئے لیکن وہ سب بھی وقت کی رو میں بہہ گئے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہاتھا
غیر ممکن ہے کہ حالات کی گُتھی سلجھے
”اہلِ دانش “ نے بہت سوچ کے الجھائی ہے

اُردو کی مندرجہ بالاخوبیوں اور قرار واقعی استحقاق کی بناءپر نامور ادیب اور دانش ور ڈاکٹر سیدعبداللہ‘ سابق پرنسپل اورنٹیل کالج نے دورانِ حیات (ایک ہی موقع پر )پچاس لاکھ پاکستانیوں کے دستخطوں پر مشتمل محضر نامہ ،اس وقت کے صدرِ مملکت کی خدمت میں پیش کیا کہ اس ”مظلوم“ پر مشقِ ستم کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے۔ یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق: اگر کسی زبان میں تین سے چار لاکھ تک اصطلاحات کا ذخیرہ موجود ہو تو وہ بڑے اعتماد کے ساتھ ہر قسم کے علوم وفنون کا ذریعہ تعلیم بن سکتی ہے جبکہ اُردو میں ایسی ساڑھے تین لاکھ اصطلاحات کئی سال پیشتر تک وجود میں آچکی تھیں ۔ اسی طرح، تنگ دامانی کا طعنہ سننے والی ہماری قابل فخر قومی زبان میں 250سے زائد سائنسی و سماجی علوم کے لئے اصطلاحات کا جامع ذخیرہ موجود ہے۔

بین الاقوامی اُفق اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی طرف نظر اٹھائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ امریکی ماہر لسانیات ڈونالڈ بیکر نے ذاتی استعمال کے لیے ”خوشنویس “کے نام سے سافٹ ویئر ایجاد کی جس پر کئی کتب شائع ہوچکی ہیں ۔ اُردو کی جدید ترین علوم و فنون کو اپنے اندر بہ طریقِ احسن سمونے کی صلاحیت کااندازہ اس امر سے بھی بخوبی لگایا جاسکتاہے کہ جونہی دفتری و طباعتی کاموں کے لئے کمپیوٹر زیر استعمال آیا تو تھوڑے ہی عرصہ میں کراچی میں ’نوری نستعلیق“اور” نظامی نستعلیق “کے ناموں سے سافٹ ویئر ایجاد کرلئے گئے اور کاتبوں کا کام حیرت انگیز طور پر، کمپیوٹروں نے شروع کردیا۔ جبکہ اِس وقت ایسے لا تعداد سافٹ ویئر بخوبی کام کررہے ہیں ۔ اس موقعہ پر یہ بات بلا خوف و تردید کہی جاسکتی ہے کہ پاکستانی قوم اور اس کی قومی زبان اردو کی صلاحیتوں کی کوئی انتہا نہیں ہے لیکن استعمار کے ایجنٹوں نے ان دونوں کو پابجولاں کررکھاہے۔ بقول احمد ندیم قاسمی
حُسنِ تخلیق کی دھرتی میں جڑیں کیا پھیلیں
تم نے انسان کو گملوں میں سجا رکھاہے

یہاں انسانوں کو تو خیر گملوں میں سجائے رکھاہی گیاجبکہ پنجاب میں بیچاری اردو کو اب گملوں سے نکال پھینکنے کے احکامات صادر ہوچکے ہیں۔ اس تناظر میں قابل صد افسوس بات یہ ہے کہ 1851ءمیں ایڈمنسٹریٹو بورڈ حکومت پنجاب کا اجلاس برائے انتخاب ذریعہ تعلیم ہوا تو سرکارِانگریز نے تویہ فیصلہ کیا کہ متحدہ پنجاب کے تمام سکولوں میں تعلیم بذریعہ زبان اردو ہی دی جائے اور اب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں یہ بچوں کے لیے ذریعہ تعلیم کے قابل نہیں رہی۔” ناطقہ سرپر گریبان ہے اسے کیا کہیے !“یہاں یہ بات بھی پیش نظررہے کہ آزادی کے فوراً بعد جب 1948ء میں پنجاب یونیورسٹی انکوائری کمیٹی نے ذریعہ تعلیم کے سوال پر دوبارہ غور و خوض کیا اور ہر طرح سے اس مسئلے کا جائزہ لیاتو قرار دیا کہ اردو انٹرمیڈیٹ تک ذریعہ تعلیم ہوگی ۔

قومی ماہرین تعلیم کا فیصلہ:
اب دیکھئے کہ ملّت پاکستان کے قومی رہنماﺅں اور ماہرین تعلیم نے ذریعہ تعلیم کے مسئلے پر کن آراءکا اظہار کیا ہے ۔ ڈاکٹر جمیل جالبی فرماتے ہیں :”عوام کی 99%اکثریت جو قوم کی اصل قوت ہے اردو کے حق میں ہے صرف ایک فیصد اقلیت انگریزی جانتی ہے ۔ “جسٹس (ریٹائرڈ ) شیخ انوارالحق کی رائے میں 60%طالب علم انگریزی میں فیل ہوجاتے ہیں لہٰذا انہیں ناکام قراردے دیا جاتاہے۔ ایک اور موقعہ پر ڈاکٹر سید عبداللہ مرحوم نے بھی یہی بات دہرائی تھی ۔ جسٹس ذکی الدین پال اس سے بھی آگے بڑھ کر حقیقت کی نقاب کشائی کرتے ہیں ۔ ”طلبہ کی اکثریت انگریزی میں فیل ہونے کے سبب ناکام قرار دی جاتی ہے جبکہ وہ دوسرے مضامین میں اچھے نمبر لے رہے ہوتے ہیں ۔ آخر اس قتل عام کا کون ذمہ دار ہے۔ “وہ مزید کہتے ہیں :”یہ غلط تعلیمی پالیسی کا شاخسانہ ہے جس کی بناءپر اردو کو اپنا مقام نہیں دیا جا رہا۔ جب تک ایک غیر ملکی زبان کو بالادستی حاصل ہے ہم ذہنی طور پر غلام ہی رہیں گے ۔میں قانون کے امتحانات کا کئی سال تک ممتحن رہاہوں۔ طلبہ انگریزی میں مافی الضمیر بیان نہیں کرسکتے ۔ ایسا محسوس ہوتاکہ طالب علم نفسِ مضمون کو تو جانتاہے لیکن اسے انگریزی میں ادا کرنے سے قاصر ہے۔ اس بناءپر کئی طلبہ فیل ہوجاتے ہیں۔ “ مشہور ادیب عبدالسّلام خورشید (مرحوم ) تحریک پاکستان کے دوران مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن پنجاب کے صدر بھی تھے ۔پاکستان بننے کے بعد اردو کے ساتھ سوتیلی ماں بلکہ ایک لونڈی کا ساجو سلوک روا رکھاگیا اس پر ان کا تبصرہ ابھی ایک کربناک صورت حال کی طرف اشارہ کرتاہے؟ ”ہماری قیادت کی یہ غلطی تھی کہ آزادی کے ساتھ ہی انگریزوں کی چال میں آگئی ۔ انگریزی کے تسلسل سے جو بیوروکریسی وجود میں آگئی اس نے نسلاً بعد نسلاً اپنی چودہراہٹ برقرار رکھنے کے لیے اردو کو کبھی قریب نہ آنے دیا اور شوشہ یہ چھوڑا کہ اردو میں صلاحیت کا فقدان ہے ۔ لہٰذا یہ نہ تو سرکاری زبان بن سکتی ہے اور اپنی بے سرو سامانی کے سبب ذریعہ تعلیم بننے کے قابل بھی نہیں ہے ۔“

پروفیسر اسماعیل بھٹی شعبہ انگریزی پنجاب یونیورسٹی کے سربراہ رہ چکے ہیں لہٰذا ذریعہ تعلیم کے مسئلہ پر ان کی رائے کو نظر انداز کرنا قطعاً قرین انصاف نہیں ۔ ان کی سوچ اور گہرے تجربہ کے مطابق: ”جب ہم انگریزی کو غیر معمولی تقدس دیتے ہیں تو اس وقت اس کے تہذیبی اور ذہنی اثرات کو فراموش کرجاتے ہیں ۔ دوسرے یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ ممتحنوں سے کہا جاتاہے کہ وہ نرمی برتیں ورنہ 90%طلباءفیل ہوجائیں گے۔ پہلی کوشش میں تقریباً15%طلباءہی پاس ہوتے ہیں ۔ ہمارے گریجویٹ خصوصی مضامین کو ایک غیر زبان میں پڑھنے کی وجہ سے ان پر عبور حاصل نہیں کرسکتے اور یوں ان میں تحقیقی اور تخلیقی صلاحیتیں پیدا ہی نہیں ہوپاتیں ۔ لہٰذا ایسی انگریزی تدریس ہمارے مالی اور افرادی وسائل کا ضیاع ہے ۔ “ اب ذرا غور فرمائیے کہ ایک طرف مندرجہ بالا چیختے چلاّتے حقائق ہیں اور دوسری طرف 1994ءمیں انگریزی کو جماعت اوّل سے لازمی مضمون کے طورپر پڑھانے کے لیے صوبہ پنجاب میں ایک ارب پینتالیس کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیاجبکہ ُاس سال ملک چھ کھرب نوے کروڑ روپے کا مقروض تھا۔ سائینٹفک سوسائٹی پاکستان، علی گڑھ میں سرسیّد کی قائم کردہ تنظیم کی جانشین ہے ۔ قیام پاکستان سے لے کر حالیہ برسوں تک وہ سالانہ اردو سائنس کانفرنس کراتی رہی ہے جن میں اعلیٰ تعلیمی اداروں ،یونیورسٹیوں اور سائنسی تحقیقی اداروں کے نمایاں ترین ماہرین تعلیم اور عملی تحقیق کرنے والے سائنسدان شریک ہوتے رہے ہیں۔ اس دوران سائنسی اور تحقیقی کام پر مشتمل مقالات مکمل طور پر اردو میں پیش کئے جاتے اور ان پر کھل کر بحث و تمحیص ہوتی رہتی ۔ ہر سال آخری اجلاس میں یہ قرار داد منظور کی جاتی کہ ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اردوکو ذریعہ تعلیم قرا ر دیا جائے ۔ ان کے علاوہ بھی ملک میں وقتاً فوقتاً اردو کی حمایت میں کانفرنسیں اور سیمینارمنعقد ہوتے رہے جن میں درج بالا مطالبہ بار بار سامنے لایا جاتارہا۔ ان کانفرنسوں کی صدارت کرنے والوںاور معروف شرکاء کے چند نمایاں نام لینا ہی اُردو کی اہمیت اور صلاحیّت کے لیے کافی ہے ۔

بابائے اردو مولوی عبدالحق ، خواجہ ناظم الدین (سابق گورنرجنرل متحدہ پاکستان ) ،ڈاکٹر سید عبداللہ (سابق پرنسپل اورنٹیل کالج )، سردار عبدالرب نشتر (سابق گورنر پنجاب )، قاضی عیسیٰ (بلوچستان کے نامور مسلم لیگی رہنما) پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلراور سینئر پروفیسر اوراکثر وزرائے تعلیم ، اختر حسین (سابق گورنرمغربی پاکستان ) ، چوہدری محمد علی (سابق وزیراعظم پاکستان )ڈاکٹر انور حسین (پاکستان اٹامک انرجی کمیشن ) اور لاتعداد جسٹس صاحبان بشمول جسٹس سجاد احمد جان ، جسٹس انوار الحق ، جسٹس ذکی الدین پال ، ڈاکٹر مظہر ڈین فیکلٹی آف سائنس ڈھاکہ یونیورسٹی ،ملک معراج خالد (سابق نگران وزیراعظم و سپیکر قومی اسمبلی )‘ڈاکٹر صلاح الدین احمد مرحوم(نامور ادیب )،مختار مسعود (سیکرٹری مرکزی حکومت و نامور اردو انشاءپرداز )‘ حنیف خاں (سابق سپیکر سرحد اسمبلی ) حکیم محمدسعید (ہمدرد) یوسف عبداللہ ہارون (سابق گورنرمغربی پاکستان ) ‘حفیظ جالندھری ،جسٹس شمیم حسین قادری ، صلاح الدین (ایڈیٹر جسارت )، راجہ ظفر الحق (سابق وفاقی وزیر اور مسلم لیگ ن کے سینئر نائب صدر )، نواب ذوالفقار ممدوٹ (ممتاز سیاسی رہنما) ڈاکٹر وحید قریشی (سابق پرنسپل اورنٹیل کالج) اور قاضی حسین احمد۔

قائد اعظم اور اُردو:
ہمارے سیاسی رہنما اٹھتے بیٹھتے ہر وقت قائد اعظم کے نام کی مالاجپتے رہتے ہیں ۔ ان کے یوم پیدائش اور یوم وفات پر بیان داغنا ضروری خیال کرتے ہیں اور خاص کر مسلم لیگ تو ان کی اصلی وارث کی رٹ لگاتے لگاتے کئی حصوں میں بٹ بھی جاتی ہے تو ہر دھڑا قائد کا اصلی وارث کہلانے پر اصرار کرتاہے۔ اب غور کیجئے کہ تحریک پاکستان کے دوران اور اس کے بعد قائد اعظم ؒکا اُردو کے نفاذ کے بارے میں کیا موقف تھا اور ان سے قبل متحدہ ہندوستان کے لیگی رہنما اردو کے لیے کس قدر جدوجہد کرتے رہے ،سچی بات تو یہ ہے کہ اردو ہندی تنازع862۱ء سے ہی شروع ہوگیاتھا۔ لہٰذا نظریہ پاکستان نے بلاشبہ اسی کی کوکھ سے جنم لیا اور یہی وہ زبان ہے جس نے پاکستان کی عمارت کی پہلی اینٹ کا کام دیا کیونکہ 1906ءمیں مسلم رہنماﺅں نے وائسرائے ہند سے اردو کے تحفظ کا مطالبہ کیاتھا۔1938ئ میں قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے پنڈت جواہر لال نہرو کے ایک استفسار پر جواب دیا:”مسلمانوں کا ایک اور مطالبہ زبان اور رسم الخط کے بارے میں ہے ۔ اردو ہماری عملاً قومی زبان ہے ۔ہم آئینی ضمانت چاہتے ہیں کہ اردو کے دامن کو کسی طریقہ سے متاثر نہ کیا جائے اور نہ تباہ ۔ “کاش !روح قائد کو اس کے نام لیوا بے پناہ اذیت کا شکار نہ کرتے کہ جس اردو کو سرفہرست رکھ کر وہ ایک ہندو لیڈر سے دوٹوک بات کررہے تھے ، اس کے جانشین اسے اپنے ایوانوںکے بعد پرائمری سکولوں تک سے بھی باہر نکال رہے ہیں !

جب کانگریس نے ”ہندی ہندوستانی ‘ ‘ کی مہم چلائی تو قائد اعظمؒ نے اس چال کا توڑ کرتے ہوئے 1935ءمیں واضح طور پر اعلان کیا :”ہمیں معلوم ہے کہ اس سکیم کا اصل مقصد اردو کا گلا دبانا ہے؟ یہاں پر مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے فتویٰ کا ذکر کردینا بھی خالی از دلچسپی نہیں جس کے تحت آپؒ نے فرمایا :”اس وقت اردو کی حفاظت دین کی حفاظت ہے ، اس کی حفاظت کرنا مسلمانوں پر واجب ہے ۔ لہٰذا قدرت کے باوجوداس سلسلے میں غفلت اور سستی کا مظاہرہ کرنا موجب ِگناہ ہوگا جس کا آخرت میں مواخذہ کیا جائے گا۔“ قائدِ اعظم ؒنے ایک بار علی گڑھ یونیورسٹی میں تقریر کے دوران 1941ء میں کانگریس کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے اور ملّت اسلامیہ ہند کے عزم صمیم کا یوں اظہارکیا !”مجھے پاکستان میں اسلامی تاریخ کی روشنی میں اور اپنی ثقافت نیز روایات کے تحت اور اپنی اردو زبان کو برقرار رکھتے ہوئے زندگی گزارنے دو ۔ “ اسی طرح ایک بار جب سرفیروز خان نون (سابق وزیراعظم پاکستان ) آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے اجلاس منعقدہ 1946ء میں بزبان انگریزی تقریر کرنے لگے تو آپ ؒ نے انہیں ٹوکتے ہوئے فیصلہ دیا :”پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی ۔ “ کیا اس حقیقت سے کوئی شخص انکار کرسکتا ہے کہ پوری تحریکِ پاکستان کے دوران ہر قابلِ ذکر مقام پر قائد اعظم ؒ نے اپنی نامشقی کے باوجود اردو میں ہی تقاریر کیں بلکہ ایک بار کہیں تقریر کے بعد اپنے ہمراہی قائدین کی محفل میں فرمانے لگے کہ ”میری اردو تو ٹانگے والوں جیسی ہے ۔ “ذرا غور کیجئے کہ اس نگہ بلند اور جاں پرسوز رہنمائے یگانہ کی بصیرت زیادہ تھی یا آج کے بونے لیڈروں کی جو نام نہاد ترقی کی بے بنیاد اور خالی خولی نعروں پر قائد کے واضح فرامین کی بڑی ہٹ دھرمی کے ساتھ عملی مخالفت کررہے ہیں۔

1948ءمیں جب بنگلہ دیش کے بابائے قوم اور اُس وقت کے طالب علم رہنما شیخ مجیب الرحمن نے کچھ دیگر علیحدگی پسند عناصر کے ساتھ بنگالی زبان کے حق میں شورش برپا کی تو قائد اعظم ؒمریض اور نحیف و نزار تھے ۔ دوسری طرف حکومتِ پاکستان کے پاس صرف ڈ کوٹہ طیارہ تھا جو کلکتہ ائیر پورٹ سے تیل بھروائے بغیرڈھاکہ نہیںجاسکتاتھا لیکن آپ کلکتہ ائیرپورٹ اُترناپسند نہیں کرتے تھے ۔ ان کی اردو بلکہ پاکستان کی وساطت سے اسلام سے کس قدر گہری وابستگی بلکہ شیفتگی تھی کہ جان جوکھوں میں ڈال کر ڈھاکہ جانے کا قصد کیا۔ جہاز کی مشین میں گنجائش سے زیادہ تیل ڈلوایا اور عازمِ سفر ہوگئے۔ ڈھاکہ پہنچنے پر دو ٹوک الفاظ میں اعلان فرمایا کہ ”پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان اردو ہی ہوگی ۔ “

قومی غیرت اور تشخّص :
پاکستانی یا اسلامی تناظر تو ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے ہی لیکن ہمارے کچھ ترقی پسند دانشوروں، لاعلم سیاسی رہنماﺅں اور نام نہاد ماہرین تعلیم کی تشّفی کے لئے عالمی سطح پر معاملات کو زیر غور لانا زیادہ قرین مصلحت ہوگا۔ ایک دفعہ آئر لینڈ کے ایک پادری نے‘ جو ایک کالج کے پرنسپل بھی تھے، نے بابائے اردو مولوی عبدالحق (مرحوم ) سے کہا :”اپنی زبان کی بہت تندہی سے حفاظت کرنا کیونکہ فاتح قوم سب سے پہلے مفتوح قوم کی زبان کو مٹاتی ہے ۔ کسی قوم کی زندگی اور روح اس کی زبان ہوتی ہے۔ ہمیں اس امر کا تجربہ ہے کہ ہمارے ملک میں بھی یہی کیاگیا۔“چواین لائی جب پہلی بار پاکستان آئے تو پریس کانفرنس کرتے وقت ترجمان نے ان کے کسی جملے کا غلط ترجمہ کردیا ۔فوراً انگریزی میں اسے کہاکہ اس کا مطلب یوں نہیں یوں ہے اور پھر کافی دیر تک خوبصورت انگریزی بولنے کے بعد چینی میں گفتگو شروع کردی ۔ جب 1949ءمیں چین میں انقلاب آیا تو اس وقت وہاں انگریزی رائج تھی اور لاتعداد مشن سکول اور کالج موجود تھے ۔ چین کا ٹیکنالوجی کے لحاظ سے یہ حال تھاکہ وہ کئی سال تک لاہور کی بیکو فیکٹری سے برقی کھڈیاں اور دیگر سازو سامان منگواتے رہے لیکن آزاد ہوتے ہی ماﺅز ے تنگ نے اعلان کیا :”چینی بچے ، چینی زبان میں چینی اساتذہ سے ہی جملہ علوم وفنون کی تعلیم پائیں گے۔ “چینی اساتذہ پر زور دینے کا پس منظر یہ ہے کہ ان کے بعض ساتھیوں نے تجویز دی تھی کہ ہم ابھی تدریسی لحاظ سے پسماندہ ہیں لہٰذا مشنری اداروں کے اساتذہ جو چینی اور انگریزی دونوں جانتے ہیں ، کو بطور اساتذہ بھرتی کرلیتے ہیں ۔ جس پر اس تجویز کو قبول کرنا گوارا نہ کیا گیا۔

فرانس میں جو شخص اپنی زبان کے سوا انگریزی کا کوئی لفظ جملے میں بولتاہے یا لکھتاہے جس کا فرانسیسی متبادل موجود ہو تو اسے جرمانہ کیاجاتا ہے اور اس پر باقاعدہ قانون سازی کی گئی۔ لہٰذا وہاں ”برگر“اور ”کوکا کولا“ جیسے الفاظ تک پر پابندی ہے ۔ اسرائیل 120 اقوام کے افراد پر مشتمل ہے اور یہ وہ قوم ہے جو اڑھائی ہزار سال تک پوری دنیا میں دھکے کھاتی رہی۔ ان حالات میں ان کی قومی زبان عبرانی کا کیا حال ہوچکاہوگا؟لیکن 1948ءمیں جونہی اسرائیل وجود میں آیا ہر درجے پر عبرانی کو رائج کردیا گیا۔ ایک موقع ایسابھی آیاکہ بچوں کو موسیقی اور کھیلوں کی تعلیم وتربیت کا سلسلہ انگریزی میں شروع کیا گیا تو اسرائیلی عبرانی اکیڈمی نے اس کا فوراً نوٹس لیا اور یہاں تک کہاکہ ”یہ منصوبہ کفر سے کم نہیں“ یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ اس وقت قارئین کو اردو کے حق میں مولانا تھانویؒ کے فتویٰ کے پیچھے ” مولویانہ انداز “ کی بجائے دلیل کی قوت نظر آ رہی ہوگی۔ کیونکہ غیروں کی زبان کسی قوم کے روحانی ،اخلاقی اور تہذیبی نظاموں کی تباہی کرتے ہوئے اس کے جسمانی تا روپود بکھیرنے کا بھی باعث بنتی ہے۔ بلاشبہ ہر قوم کی اپنی ثقافت ہوتی ہے جس کی اوّلین پہچان اس کی زبان ہوتی ہے ۔ زندہ قومیں اپنی مردہ زبانوں کو دوبارہ زندگی دے کر جادواں کرلیتی ہیں۔ یونانی زبان ایک مردہ زبان تھی جس کی جگہ مکمل طور پر لاطینی لے چکی تھی لیکن اہلِ یونان نے اسے حیاتِ نو بخشی اور خود بھی زندہ ہوگئے ۔ اس سلسلے میں اسرائیل اور عبرانی کی مثال تو اس وقت سامنے ہے ہی ۔ اسی طرح بھارت میں سنسکرت صرف ہندودھرم تک محدود ہوچکی تھی لیکن جب ہندو نے آزادی حاصل کی تو فوراً اس کی تعلیم لازمی قرار دے دی جبکہ دوسری طرف پاکستانی قوم کے دور ِحاضر تک کے حکمران اپنی زندہ و پائندہ زبان کوہر آن چَرکے ہی لگا تے رہے ہیں اور شاید اب آخری وارکی تیاری ہے جس کا آغاز ہوچکا۔

1945ءمیں ہزیمت خوردہ شہنشاہ ہیروہیٹو اور امریکن جنرل میک آرتھر آمنے سامنے بیٹھے امریکہ جاپان تعلقاتِ کا ر کا فیصلہ کررہے تھے تو شہنشاہ نے صرف ایک شرط پیش کی ۔”میرے نظام تعلیم اور جاپانی زبان کو نہ چھیڑنا۔“تباہی کے باوجود اسی تشّخص کے بل پر جاپان ابھرا اور چند سالوں میں پوری دنیا کا ”معاشی عفِریت “بن گیا۔ احقر نے جاپان میں قیام کے دوران خود ملاحظہ کیا کہ پورے ٹوکیو میں دودکانوں کے سوا کسی پر جاپانی کے ساتھ انگریزی میں سائن بورڈ نہ تھے جبکہ ہمارے ہاں ڈرائیوروں کی اکثریت ان پڑھ ہے اور شاہراہوں پر انگریزی میں ٹریفک اشارات لگے نظر آتے ہیں ایک فارسی شاعر نے کیا خوب کہاتھا:
ہمہ آہووانِ صحرا سَرخودِ نہادہ بَرکَف
بہَ امیدِآں کہ روزے بہَ شکارخواہی آمد
ترجمہ!صحرا کے تمام ہرن اپنی ہتھیلیوں پر سررکھے روزانہ آیا کرتے ہیں کہ شاید کسی روز تُو ان کے شکار کو آجائے ۔

لگتاہے ہمارے ارباب اقتدار نے بھی یہ سار ا اہتمام اسی لئے کررکھاہے کہ شاید کوئی گورا گزرے تو اُسے لسانی مشقت کا سامنا نہ کرناپڑے ۔

بابائے اُردو کو متذکرہ بالا ایک عیسائی مشنری کی نصیحت کی وضاحت درج بالامثالوں سے خوب ہوگئی ہوگی۔مزید دیکھیے! جب روسی ترکستان (موجودہ کرغیزستان ،تاجکستان ،قازقستان وغیرہ) پر کمیونسٹوں نے قبضہ کیا تو ان کی زبان ترکی وفارسی تھی جسے بدل کر فوراً روسی کردیا اورلاطینی رسم الخط کو اپنانے کا حکم دیا۔ ادھر جب مصطفی کمال پاشا نے نام نہادترقی کا سفر شروع کیا توترکی میں عربی رسم الخط کو بدل کر لاطینی کردیا ۔اس پر روسیوں نے فوری طور پر (متذکرہ علاقوں میں ) لاطینی رسم الخط کو ترک کرنے کے احکامات جاری کرکے روسی رسم الخط کا اجراءکردیا یعنی روسیوں نے رسم الخط تک کا مشترک ہونا گوار ا نہ کیاتاکہ ترکی کے ترکوں اور ان کے غلام ترکوں کے درمیان یہ کمزور ترین واسطہ بھی باقی نہ رہے ۔ اسی طرح سابق بلغاریہ پرروسی قبضہ کے وقت وہاں پندرہ لاکھ کے قریب مسلمان تھے۔ کمیونسٹوں نے آتے ہی ان کی زبان پر مکمل پابندی عائد کردی ۔ یہاں تک کہ بازاروں میں بول چال بھی جرم قرار دے دیا گیا۔ اگر کوئی شخص گھر سے باہر ایک لفظ بھی بولتا اورپکڑا جاتا تو اسے باقاعدہ سزا دی جاتی تھی ۔ گزشتہ صدی میں فرانس کے مرد آہن جنرل ڈیگال کئی سالوں تک برطانیہ میں مقیم رہے لیکن تمام ملکی اور بین الاقوامی کانفرنسو ں میں ہمیشہ فرانسیسی میں تقریر کیا کرتے تھے ۔ یہ مقام گہرے غور وفکر کا متقاضی اور ایک المیہ سے کم نہیں کہ پورا یورپ گھوم جائیے کہیں بھی انگریزی کو اس قدر پذیرائی حاصل نہیں جو پاکستان میں ہے اور آئے روز اس میں اضافہ ہوتا جا رہاہے ۔

ٹیکنالوجی کا بہانہ:
منجملہ دیگر کے‘ ایک بہت بڑی دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ انگریزی میڈیم ترقی کازینہ ہے ، ٹیکنالوجی کے حصول کا ذریعہ ہے اور پسماندگی دور کرنے کا امرت دھارا ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا مغرب میں فرانس اور جرمنی بلکہ تقریباً پورا یورپ پسماندہ ہے ؟ اگر وہ اپنی زبانوں میں تدریس وتحقیق کررہے ہیں تو کیا ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں ؟اسی طرح مشرق میں جاپان ،چین اور کوریا کی ترقی کیا انگریزی کے مرہون منت ہے ؟کوریا ساٹھ کی دہائی میں پاکستان کے پانچ سالہ منصوبوں سے استفادہ کے لئے ان کی نقول لے کر جایا کرتاتھا کیا اس نے ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھنے کے لیے انگریزی اور انگریزی ذریعہ تعلیم کا امرت دھارا استعمال کیا ہے ؟ دوسرے پہلو سے دیکھیںتو روس سے ہم نے سٹیل مل کی ٹیکنالوجی لی،کوریا کے میزائل سسٹم سے استفادہ کیا ، چین نے ٹیکسلا میں سول اور فوجی اہمیت کے کئی کارخانے لگا کردیئے اور اب ائیر فورس کے لئے ”تھنڈر “جہاز کی تیاری میں تعاون کررہاہے۔ مزید برآں فرانس نے کامرہ کمپلیکس میں ہوائی جہازوں اور دیگر نہایت اہم شعبوں میں تعاون کیا۔ سوچئے تو سہی !کیا یہ ساری ٹیکنالوجی بزبان انگریزی آ رہی ہے ؟ اور کیا اس کی ترقی و نشوونما ان ممالک میں انگریزی پڑھ پڑھ کر بلکہ ”رٹ رٹ “ کر پایہ تکمیل کو پہنچی ہے ؟ قرآن مجید میں دلائل کے بعد اکثربار یہ فرمایا جاتاہے کہ ”کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟ “

اُردو پر حملے:
اس مظلوم (زبان اردو ) پر حملوں کی کچھ جھلکیاں ملاحظہ فرمائیے اور اس دوران اس امر پر بھی توجہ مرکوز رکھئے کہ یہ حملے کب سے جاری ہیں‘ کِن لوگوں نے تقسیم سے قبل اس پر وار کئے اور اب کون لوگ اس بیچاری کے درپے ہیں ؟ وہ عناصر کوئی بھی ہوں لیکن ایک قدر ان سب میں بلاشبہ مشترک ہے ۔ وہ متذکرہ بالا جملہ حقائق و دلائل سے منہ موڑے اپنی ”طاقت “کے بل پر اسے کچلنے پر کمر بستہ ہیں لیکن یہ بات شاید پیش نظر نہیں کہ “مظلوم کی آہ سے بچوکہ وہ عرش الٰہی کو بھی لرزا کے رکھ دیتی ہے ( حدیث رسول کا مفہوم )۔ یہ تو خیر ایک جلد معترضہ تھا۔ آمدم برسر مطلب :
1849ء میں سکھ دور کے اختتام پر اردو پنجاب کے دفاتر اور عدالتوں میں رائج کی گئی ۔ اس پر پہلا حملہ 1862ءمیں ہوا۔ اُردوکے خلاف ایک زور دار مہم چلائی گئی ۔ چنانچہ سررابرٹ منٹگمری، گورنرپنجاب نے تمام کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کا اجلاس طلب کیا ۔ اکثر شرکاءنے اردو کے حق میں تقاریر کیں اور یہ حملہ ناکام ہوگیا نتیجتاً اردو ہی کا رِسرکار کی زبان رہی ۔ اس سخت جان زبان پر دوسرا حملہ 1882ءمیں ہوا۔ لہٰذا”ہنٹر تعلیمی کمیشن “قائم کیاگیا۔ ایک سوالنامہ جاری کیاگیا اور اردو کی پنجاب سے بے دخلی کا تمام انتظام پورا کرنے کے اشارے ملنے لگے ۔ اگرچہ عوامی سطح پر اس حوالے سے سخت بے چینی پائی جاتی تھی ۔ لیکن عوام تو ہر دور میں مجبورہی رہے ہیں ۔ خوش قسمتی سے سر سیّد احمد خان اس کمشن کے ممبر تھے جنہوںنے اپنی ذہانت اوراُردو سے بے پناہ محبت کے بل پر اس حملے کو بڑے ٹیکنیکل طریقے سے ناکام بنادیا۔ تیسرا حملہ 1908ءمیں ہوا جب ڈاکٹر بی سی چیٹرجی نے پنجاب یونیورسٹی کے جلسہ تقسیمِ اسناد میں صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ”پنجاب میں اردو کی جگہ پنجابی رائج کی جائے۔“ مسلمانان ِپنجاب کا اس پر شدید ردعمل ہوا ۔ چنانچہ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس بلایاگیا جس میں علامہ اقبال ؒ،سرشیخ عبدالقادر ، سر محمد شفیع ، مولانا شاہ سلیمان پھلواری ، سرعلی امام اور مولوی محبوب عالم ، ایڈیٹر ’پیسہ اخبار‘ کے علاوہ دیگر مسلم زعماءشریک ہوئے۔چنانچہ اردو کی حمایت میں ایک نہایت زوردار قرا ر داد منظور کی گئی اور ساتھ ہی چیٹر جی کی تجویز سے شدیداختلاف بھی ریکارڈ کروایا گیابلکہ یہاں تک قرار دیاگیا کہ یہ تجویز صوبہ کے لئے نہایت مُضر ہے ۔ اس طرح تقسیم ہند سے پہلے اردو پر یہ تیسرا اور زور دار حملہ بھی ناکام ہوااور 1947ء تک اردو کی حیثیت برقرار رہی۔جہاں تک اس امرکاتعلق ہے کہ بے کس و لاچار اردوپر پاکستان میں اپنوں کے ہاتھوں کتنے پے درپے حملے کئے گئے تو یہ تحریر کسی لحاظ سے بھی ان کے تذکرہ کی متحمل نہیں صرف اتنا اشارہ کافی ہے کہ پاکستان کے ہر دستور میں اسے قومی زبان قرار دیا گیا لیکن اس کے نفاذ کے لیے وقت مانگا گیا۔ کبھی دس سال اور کبھی پندرہ ۔اس کے باوجود عملاً اسے پسپائیوں کے سوا کچھ نہ ملا۔ کبھی کوئی دور ایسا آیا بھی کہ اس کے نفاذ کا تو نہیں بلکہ اس کی حمایت کا غلغلہ بلند ہوا ،چند ادارے قائم کئے گئے اور بعض اقدامات کا اعلان بھی کیاگیا لیکن یہ سب کچھ سیکنڈے نیویاممالک کے سپیدہ ءسحر سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں تھا کہ جیسے وہ طلوعِ آفتاب کے آثار پیدا کرکے غائب ہوجاتا ہے ۔ لہٰذا ان کا اقدامات مقدر بھی یہی ٹھہرا۔ درحقیقت اردو کی علامہ اقبال اور قائد اعظم کے پاکستان میں کہانی اس کی اپنی زبانی سنیں تو یہ زبان حال سے کہتی دکھائی دیتی ہے۔
جِن چراغوں سے شبستانِ حکومتِ رشک طور
ان چراغوں میں نہیں ہے روشنی میرے لئے

نقصانِ عظیم:
موجودہ حالات میں تمام طبقات کے اہلِ شعور اور محب وطن حضرات اور تنظیموں یا جماعتوں کو اس بات پر گہرے غور و فکر کے تحت سوچنا چاہیے کہ برسراقتدار طبقہ انگریزی ذریعہ تعلیم یا میڈیم کے جس بخار میں مبتلا ہے اور آہستہ آہستہ عوام الناس کو بھی اس کا مریض بنادیا گیاہے ، کا حقیقی نقصان بلکہ ناقابل تلافی نقصان کیاہوگا؟اس کا سب سے بڑا نقصان لارڈ میکالے کی توقع کے عین مطابق ذہنیتوں کی تبدیلی ہوگا۔ اس غرض کے لئے مندرجہ بالا حقائق کے ساتھ ساتھ ذاتی مشاہدے میں آنے والی تین مثالیں امر واقعہ کو بالکل واضح کردیں گی ۔
1۔ راقم کے ایک دوست ائیر فورس میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔ ان کے صاحبزادے سے بوقت ملاقات دریافت کیاکہ بیٹے کبھی اردو کتب کامطالعہ بھی کیا ہے ؟ جواب نفی میں تھا ۔ سبب پوچھا تو کہنے لگے۔ ”انکل اردو میں کوئی سٹینڈرڈ کی کتاب موجود ہی نہیں ہے ۔“الامان والحفیظ! اُردو کی عظمت کے ترانے سارا زمانہ گائے (متذکرہ بالا تمام امثال کو ذہن میں رکھئے۔)اور صاحبزادے کی نظر میں اردو میں کام کی کوئی کتاب ہی نہیں۔ واضح رہے کہ اس نوجوان کا ایک نہایت دیندار اور نیک خاندان سے تعلق ہے کہ جن کے دادا نے ضلعدار ہوتے ہوئے بھی درویشانہ زندگی گزاری اور مولانا اشرف علی تھانویؒ کے معتقدخاص تھے۔
2۔ ایک صاحبہ لبرٹی مارکیٹ لاہورمیں ایک دوست کی دکان پر تشریف لائیں ۔ باتوں باتوں میں فرمانے لگیں (نہایت سنجیدگی کے ساتھ )کہ اسلام پر عمل ہوتا دیکھنا ہے تو امریکہ کی مثال سامنے رکھیں ۔شاید موصوفہ کسی ایسے سیارے پر رہتی رہتی لاہور میں اتری ہوں گی جہاں امریکہ کے عراق اور افغانستان بلکہ پوری دنیا میں مظالم کی خبریں نہیں پہنچتی ہوں گی ۔
3۔ ایک دفعہ جب قیامِ مسقط کے دوران (جہاں راقم یونیورسٹی میں بطور ”ریسرچ ایڈوائزر“کام کررہاتھا)ایک دوست کو‘ سعودی عرب میں بہتر ملازمت کے سبب روانگی کے وقت‘ الوداع کہنے ائیرپورٹ کی طرف جا رہے تھے تو ان کے انگریزی میڈیم کے پروردہ صاحبزادہ سے پوچھا۔ ”بیٹا ! سعودی عرب جانا کیسا لگ رہاہے ؟“جواب ملا ۔”انکل میں خوش نہیں ہوں، لیکن چلو پاپانے فیصلہ کرہی لیا ہے تو ٹھیک ہے “۔ باقی بات سننے سے پہلے یہ امرذہن میں رہے کہ ان کے والد ِگرامی ور دادا جان کی نیک نفسی اور ارضِ پاک سے محبت بے مثال تھی ۔ با پ کا دل سرزمین حجاز میں جانے پر بلیوں اچھل رہاتھا اور صاحبزادہ صاحب اداس۔ اداسی کی وجہ پوچھنے پر رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔ صاحبزادہ کہنے لگا :”وہاں دہشت کی فضا ہے، گھٹن ہے اور لوگوں پر ظلم کیا جاتاہے “۔ اس کی مراد سعودی عرب میں نافذ اسلامی نظام تعزیرات سے تھی ۔ اس موقعہ پر علامہ اقبال ؒکے کچھ اشعار زیر غور لائے جائیں تو واقعتاً پتہ چلتا ہے کہ ”میڈیم کابخار“ کس طرح ملّی موت پر منتج ہوتااور کیا کیا گل کھلاتاہے ۔
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لاالہ الا اللہ!
یا پھر:
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم تو سمجھے تھے کہ لائے کی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلاآئے گا الحاد بھی ساتھ
اور پھر یہ دیکھئے کہ ۔
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہوجائے ملائم تو جدھر چاہے اسے پھیر

ایک مفروضہ یہ سامنے لایا جاتاہے کہ اس طرح اردو میڈیم اور انگلش میڈیم کافرق ختم ہوجائے گا اور امیر و غریب میں مساوات قائم ہوجائے گی ۔ کیا ان سکولوں کے لاکھوں بچے کہ جنہیں پینے کا پانی میسر نہیں ، رفع حاجت کے لئے اساتذہ تک کے لیے کوئی سہولت نہیں، بیٹھنے کو بعض اوقات ٹاٹ بھی میسر نہیں ہوتے اور ناکافی عمارات کے سبب بچے درختوں کے نیچے پڑھنے پر مجبور ہوتے ہیں ‘ نام نہاد انگلش میڈیم میں تعلیم حاصل کرکے کئی پشتوں سے امیر و کبیر بچوں کے برابر ہوجائیں گے ؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر ایسے سکولوں کے بچے رٹ رٹا کر پاس ہوبھی جائیں گے تو میاں مٹھو قسم کے طوطوں سے زیادہ ان کی حیثیت (مراعات طبقہ کے سامنے ) کچھ نہیں ہوگی ۔ چند سال پہلے تک لاہور کا ایک گرلز کالج بَڑکے ایک بہت بڑے درخت کے نیچے قائم تھا ۔صاف ظاہر ہے وہ کالج کسی ”پوش “ آبادی کا تونہیں تھا ۔ مقام افسوس ہے کہ گزشتہ صدی کی نویں دہائی میں لاہور میں ہی ایک مڈل سکول (یا غالباً پرائمری ) ایسا بھی تھا کہ چھٹی کے وقت اس کے اساتذہ ملحقہ سرکاری ہسپتال کی لیٹرین میں اپنا سامان رکھ کر جاتے اور اگلے روز آکر نکالتے اور سکول لگالیتے تھے ۔ماشاءاللہ اب ایسے سکولوں کے بچے ترقی کی منازل بڑی تیزی سے طے کرنے لگیں گے ۔ افسوس صدافسوس کہ :تیرے جوتے پر چمک ہے اس کے ماتھے پر نہیں۔‘

اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ نظام تعلیم و تدریس میںبنیادی تبدیلیاں لائی جائیں اور اساتذہ کو نظم و ضبط کا پابند بنایا جائے ۔ اب دیہات تک میں اکیڈمیوں کی وبا پھیل چکی ہے ۔ سرکاری سکولوں اور کالجوں میں اساتذہ و طلباءکی دلچسپی صرف حاضری تک محدود رہتی ہے ۔ احقرکے اپنے آبائی علاقے میں ایک روز ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نے غیر حاضراساتذہ کو معطل کیا تو دوسرے روزسینیٹر صاحب نے ان سب کو بحال کروادیا ۔ ان حالات میں انگریزی ذریعہ تعلیم کا امرت دھارا کیارنگ دکھائے گا ؟جو طلبہ اردو میں کتابیں پڑھ پڑھا کر پاس ہوجاتے تھے اب صرف ناکامی کا منہ ہی دیکھیں گے۔ کیونکہ طلباءکو اپنی زبان میں جو کچھ سمجھ آجاتی ہے اس سے بھی عاری ہوجائیںگے ۔ یہ بھی سننے میں آ رہاہے کہ پنجاب میں پاکستانی طبلے پر امریکی تھاپ اور ڈالروں کی جھنکار کے تحت اردوکے رقصِ بسمل کا اہتمام کیا جا رہاہے۔ ایسے میں ایک ہندو شاعر آنند نرائنُ مُلّا چشمِ تصور میں یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں ۔
گو لاکھ ہو رنگت پھولوں میں خوشبو جونہیں تو کچھ بھی نہیں
اس ملک میں چاہے ہُن برسے اُردوجو نہیں تو کچھ بھی نہیں

غیرآئینی اور غیر جمہوری اقدام:
ہمارے ملک میں آج تک برسراقتدار رہنے والے سیاستدان خواہ موجودہ ہو ں یا گزشتہ ادوار کے ، آئین اور جمہوریت کابہت تذکرہ کرتے ہیں ۔ قطعِ نظر اس کے کہ انہوں نے بذات خود قانون شکن آمروں کی گود میں پرورش پائی ہو یا ان کے سہارے سیاست میں آکر ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے ہوں ۔ اسی تناظر میں جائزہ لیں تو باقی دساتیر کو ایک طرف رکھتے ہوئے 1973ء کے آئین کو لیجئے ۔ اس کے مطابق 14اگست 1988ء تک پاکستان میں نفاذ اردو کا کام ہر لحاظ سے مکمل ہوجانا چاہیے تھا کیونکہ آئین کی دفعہ نمبر(ا)251اس امر کی یقین دہانی کراتی ہے لیکن ہر آنے والا دن قومی زبان کو پیچھے دھکیلنے کی خبر لے کر آتاہے ۔ اردو کو سکولوں میں ذریعہ تعلیم کے طور پر منسوخ کرکے وہاں انگریزی رائج کرنا ایک سراسر غیر آئینی قدم ہے۔ لہٰذا ایسے فیصلوں اور اقدامات کی آئین و اخلاق ہردو اجازت نہیں دیتے۔ اس موقعہ پر صوبائی یا علاقائی زبانوں کا معاملہ سامنے آسکتاہے لیکن اسے ایک بدیشی زبان کو رائج کرنے کی دلیل قطعاً قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ان کی ترقی کے اقدامات سے مفرنہیں لیکن ان سب پر انگریزی کو مسلط کرنا کونسی جمہوری روش ہے ؟ اگرچہ یہ مسئلہ قدرے پیچیدہ ہے اور بد قسمتی سے اردو سندھی ،کشمکش بھی جنم لے چکی ہے لیکن یہاں ایک بزرگ کے قول سے خاصی رہنمائی ملتی ہے ۔ وہ فرمایا کرتے تھے (مذہبی تناظر میں ) کہ ”مختلف فرقوں کے پیروکارایک دوسرے کی فقہ کے رائج ہونے کے راستے میں تو مزاحم ہیں لیکن انگریز کی فقہ بلکہ دین (نظام ِحیات ) کو سب نے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا ہوا ہے ۔ “ انگریزی ذریعہ تعلیم (صوبہ پنجاب تک ) کے حق میں ایک کونے سے یہ آواز بھی اٹھتی ہے کہ نصابات تیار ہوچکے ہیں اور فیصلہ ہوگیا ہے، لہٰذا اسے کیسے بدلیں ؟یوں تو پاکستان کی تاریخ میں ارباب اقتدار نے خود کئے ہوئے لا تعداد فیصلے بدلے ہیں لیکن سب سے بڑی مثال جوہر آباد میں پاکستان کے دارالحکومت کا فیصلہ ہے جس کی شہادت کے طور پر وہاںاب تک کچھ عمارات بھی موجود ہیں۔ بعدازاں قومی مفاد میں اس فیصلے کو بدلا گیا اور اسلام آباد کے نام سے نیا شہر آباد کرکے اسے ملک کا دارالحکومت بنادیا گیا۔ اسی طرح ماضی قریب میں مسلم لیگ (ن) نے میثاقِ جمہوریت کے تحت آئندہ انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا جسے تبدیل کرکے الیکشن میں بھرپور طریقہ سے حصہ لیا گیا۔

حرف آخر:
رہی بات عوام الناس اور اقتدار کی غلام گردشوں سے باہر کے حضرات کی تو جن کے دل پر یہ تحریر دستک دے وہ ہر آئینی اور جمہوری ذریعہ اختیار کرکے اپنے ملک اور دینِ اسلام سے آئندہ نسلوں کے کٹ جانے سے بچاﺅ کی تدابیر کریں ۔ یعنی انگریزی ذریعہ تعلیم کے فیصلے کو تبدیل کروانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ رہا سوال کہ کون کیا کرے ؟ کیسے کرے اور کب کرے ؟ اس کا جواب ہر شخص کے پاس خود موجود ہے ۔کیونکہ ”جو کام ہمیں کرنا ہواس کے لئے طریقے بہت اور جو نہ کرنا ہو اس کے لئے بہانے بہت“ کہا جاسکتاہے کہ آئندہ نسلیں انگریزی ذریعہ تعلیم کے تحت پڑھ لکھ کر اپنے ملک اور دین اسلام سے کس طرح کٹ جائیں گی تو اس ضمن میں درج ذیل عبارت پر نہایت سنجیدگی سے غور فرما کر فیصلہ خود کرلیجئے ۔
ایک بار بابائے اُردو مولوی عبدالحق مرحوم نے فرمایاتھا :”زبان کسی قوم کی جان ہوتی ہے اس کا گلا گھوٹنا گویا قوم کا گلا گھوٹناہوتاہے۔ “ان کے اس قول کی صداقت کے لیے ذیل میں لارڈمیکالے کی بات سنیں تو خوب وضاحت ہوجاتی ہے۔ جب اس نے 1835 ءمیں فارسی کو بے دخل کرکے اخلاقی ‘روحانی اور لسانی لحاظ سے مسلمانوں کے قلوب و اذہان پر قبضہ کا پروگرام بنایا تو کہا:”ہم ایک ایسا طبقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں جو رنگ وخون کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہو گا مگر مزاج، طبیعت ، رائے ،اخلاق و عادات اور فہم و فراست کے لحاظ سے انگریز“۔اب اس کے بہنوئی چارلس تریولین کی بات پر غور کیجئے ۔ وہ فرماتے ہیں :”اگر مسلمان قدیم علوم کی تعلیم حاصل کرتے رہے تو وہ ہم سے خوش نہیں رہ سکتے ۔ وہ دوبارہ بالادستی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ۔ لیکن جدید تعلیم یافتہ طبقہ ہمیں غاصب اور دشمن کی بجائے دوست سمجھے گا۔ یہ لوگ ہندوستانی کم اور انگریز زیادہ ہوں گے۔ وہ ہم سے نفرت کرنے کی بجائے ہمیں اپنا محسن سمجھیں گے اور ہماری مشابہت کو اپنی معراج تصور کریں گے ۔ گو محمڈن ازم ، (اسلام ) سخت مادے کا بنا ہواہے ۔ تاہم وہ نوجوان جس نے انگریزی تعلیم حاصل کی ہو ، اپنے آبائی طریقے پر شریعت کی تعلیم حاصل کرنے والے سے بالکل مختلف بن جاتاہے۔ “یہاں بصد افسوس کہنا پڑتاہے کہ لارڈ میکالے اور اس کے ساتھیوں نے مسلمان نسلوں کو اغوا کرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا اس پر اسلام کے نام لیوا اوراکثردینداروں کے حمایت یافتہ رہنما بھی بڑے زور و شورسے عمل پیرا ہیں۔
Sharif Nizami
About the Author: Sharif Nizami Read More Articles by Sharif Nizami: 2 Articles with 3456 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.