ہمیں برابری چاہیے,
ہمیں ہمارے حقوق دو،
ہمیں آزادی چاہیے،
لو میں بیٹھ گئی،
ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت دو،
میں نو سال کی تھی اور وہ پچاس سال کا میری آواز دبائی گئی اور اس کی آواز
آج بھی مسجد میں گونجتی ہے،
جناب یہ وہ سب نعرے ہیں جو اسلام اور پاکستان کی متوالیاں اور ٹرانس جینڈر
حضرات نے اسلام آباد و لاہور کی سڑکوں پر لگائے۔ جن کی ہوشربا صدائیں زمین
و آسمان میں گونجتی رہیں
ایک بات جو میری ناقص عقل سمجھنے سے بالاتر ہے وہ یہ کہ یہ مٹھی بھر عورتیں
اور ٹرانسجینڈر کس قسم کی آزادی کے سوالی ہیں۔ آپ جیسے منہ زور لوگوں سے تو
آزادی بھی پناہ کی طلبگار یے۔غیرت والی باپ بھائی اس طرح اپنی عزتوں کو پلے
کارڈ دے کر ان کے اوپر ذومعنی نعرے لکھوا کر تو کم از کم گھروں سے نہیں
نکالتے۔ ایک عورت جو مشکل سے کپڑے چڑھا کر آئی تھی میں یہ سوچ رہی تھی کہ
اتنے چست اور تنگ کپڑے اس نے چڑھائے کیسے ؟لیکن خیر "اس کا جسم اس کی
مرضی"اس محترمہ کا کہنا تھا کہ پاکستان سیکولر ملک یے ہم جو چاہیں کریں۔ایک
سوال جو میرے ذہن میں ابھرتا ہے کہ شاید ہم وہ وقت بھول گئے ہیں اور نا
شکری کی انتہا پر ہیں کہ یہی وہ دین حنیفہ تھا جس نےعورتوں کو زندہ درگور
ہونے سے بچایا۔جب کوئی آزادی نہیں تھی تو اس مذہب نے بہت ہی سچے اور کھرے
حقوق دلوائے۔ہم شکر کا سجدہ کرنے کی بجائے آج اس پاک نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم سے آزادی کی طالب ہے۔ وہ مقام عطا کروایا جو کسی بھی مذہب نے
نہیں دیا۔ اب بات کرتے ہیں برابری کی ۔
کونسی برابری اور کس سے برابری؟ مرد سے؟ ایک مسلمان ہونے کے ناطے میرا
ایمان ہے کہ جب قرآن نے کہہ دیا تو آنکھیں ادب سے جھکا کر مان لینے ہی میں
بقا کا پہلو چھپا ہے۔
اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ
"مرد عورتوں پر قوام یعنی (حاکم )ہے اس بنا پر کے ان میں سے ایک کو دوسرے
پر فضیلت حاصل ہے"
(سورہ نساء ۳۴القرآن)
کتاب حق نے کہہ دیا میں نے مان لیا کوئی دلیل نہ کوئی بحث۔ کام ختم بات
مکمل۔
اللہ نے عورت کو اتنا مقام دیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ کی بیٹی آتیں تو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم تعظیم میں کھڑے ہو جایا کرتے ہیں۔ وہ بیٹی جو جنت کے
شہزادوں کی ماں ہی ہے۔ اللہ کے شیر اسداللہ حضرت علی کی بیوی ہیں یہ وہی
ہیں جن کی وصیت تھی کی کہ میرا جنازہ رات کی تاریکی میں اٹھایا جائے تاکہ
میرے کفن کو بھی کوئی نامحرم نہ دیکھے ۔۔۔ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں
اپنا رول ماڈل انہیں کو بنانا ہے۔عورت حیا کا پیکر ہے۔عورت نام ہی پردے کا
ہے۔ڈھانپ کر رکھنے والی چیز تاکہ غلیظ نگاہیں اسکے پاک وجود سے نا
ٹکرائے۔یہ ایک انتہائی تکلیف دہ اور کربناک صورتحال ہے کہ ہمارے مذہب کی
توہین کی جا رہی ہے اور سوائے کچھ علماء حضرات کے کسی نے اسکے خلاف کوئی
بیان نہیں دیا۔ ہمارے وزیر محترم جناب فواد چوہدری صاحب مسجد وزیر خان میں
خود رقص کرتے اور ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے نظر آئے انہیں مذہب کے حق میں
کھڑے ہونے کا خیال کہاں سے آئے گا بھلا ۔۔۔مضحکہ خیز بات ہے ویسے۔۔۔۔۔۔
عورت مارچ کرنے کی اجازت ہے لیکن عورت مارچ کے خلاف دھرنا دینے کی اجازت
نہیں ہے کیونکہ اس وقت کورونا ہے
پی ڈی ایم کے جلسوں کی اجازت ہے لیکن عورت مارچ اور مذہب کی توہین کے خلاف
کھڑے ہونے کی اجازت نہیں کیونکہ اس وقت کورونا ہے
یاد رکھیے اس خالق دو جہان نے رسی دراز کر رکھی ہے ہماری بھی کی گئی
ہے۔ہماری حدیں مقرر اور متعین ہے۔ انہیں اگر کوئی بھی پار کرنے کی کوشش کرے
گا تو اس کا انجام بڑا خوفناک،دوسروں کے لئے عبرت ناک اور سبق آموز بنا دیا
جاتا ہے ۔اہل شعور کے لیے لوط علیہ السلام کی قوم کا حال سب کے سامنے ایک
سبق کی طرح ہے اس مارچ کو برا کہیئے۔ اور بڑا کہہ کر اس کار خیر میں اپنا
اپنا حصہ ڈالے۔ جس کی اجازت اسلام میں نہیں اس کی اجازت ہماری زندگیوں میں
بھی کہیں نہیں ہے دل میں ہی برا کہیں کیونکہ یہ ایمان کا سب سے ادنیٰ درجہ
ہے |