ماتھے سے نشان غائب

قریب1450 سال سے مسلمانوں کو اسلام کی تعلیمات ملتے رہے ہیں ،جتنی تعلیمات حقوق اللہ کے تعلق سے ہیں اُس سے کہیں زیادہ تعلیمات حقو العباد کی بھی ہیں ،دنیا میں نماز ،روزہ،حج،زکوٰۃ کے تعلق سے جہاں مسلمان عمل کرتے ہیں وہیں حقوق العبادکے تعلق سے بھی بعض لوگ مسلسل خدمت انجام دے رہے ہیں۔ دورِ حاضر کی بات کی جائے تو مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ جہاں مالدارہے وہیں ایک طبقہ غرباء مساکین کا بھی ہے۔ایسے میں مسلمان کی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ ان غریب ومسکینوں کی مددکیلئے آگے آئیں ،کیونکہ یہ بھی عبادت ہے۔آئے دن یہ بھی دیکھاجاہاہے کہ آج ہماری مسجدیں عالیشان ہوتی جارہی ہیں ،برقی قمقموں ومخملی قالینوں سے لیز مسجدوں میں عبادت تو ہورہی ہے لیکن عبادت کا وہ مزہ نہیں رہاجس میں ماتھوں پر سجدوںکے داغ ہوا کرتے تھے۔اتنی آرام دہ مسجدیں بنائی جانےلگی ہیں کہ اُمت مسلمہ ہماری مسجد اچھی ہو،ہماری مسجد اچھی ہو،ہماری مسجد میں چار اے سی لگے ہیں توتمہاری مسجد میں دو اے سی لگی ہیں ،ہماری مسجدمیں دو انچ کا مخملی قالین ہے تو تمہاری مسجدمیں چارانچ کا قالین ہے۔ہمارے یہاں کولر کا پانی ہے تو تمہارے یہاں مٹکے کا پانی ہے۔اس طرح کے مقابلہ آرائی کی وجہ سے اب عبادتیں کم دکھاوا زیادہ ہونے لگاہے۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اللہ کے رسولﷺ کے دورمیں بھی اسی طرح کی فرشیں ایسی ہی تھیں ،کیا اللہ کے رسولﷺ کے دورمیں بھی مسجدیں ایسی ہی عالیشان تھیں ،کیا اللہ کے رسولﷺ چاہتے تو اس طرح کی قالین،فرش ودیواریں دیدہ زیب نہ ہوتی،یقیناً ہوسکتی تھی،لیکن آج یہ کونسی مقابلہ آرائی ہے کہ اُمت ثواب جاریہ اور ثواب دارین کی آڑمیں کروڑوں روپئے خرچ کررہی ہے،اگر ضرورت ہوتو خرچ ہونابھی چاہیے۔لیکن ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کیلئے اس طرح کارواج اُمت مسلمہ میں جاری ہے وہ شائدہی درست ہے۔اُمت مسلمہ کا ایک بڑا حصہ آج بھی غریبی ومفلسی میں زندگی گذار رہاہے،مگر ان حالات پر نظر ڈالنے کیلئے کوئی تیارنہیں ہے اور نہ ہی اُمت کیلئے کوئی آگے آنا چاہتاہے۔مددکیلئے اگر کوئی آگے آتابھی ہے تولاولشکرکے ساتھ اسٹیج پر براجمان ہوتاہے۔انفرادی امدادپر کسی کی نظرنہیںپڑتی۔ جو لوگ اللہ کے گھروں کو آباد کرنے کی خواہش رکھتے ہیں وہ رکھیں ،لیکن اللہ کے گھروں کو جنت نما بنانے کی کوششیں کہاں تک درست ہیں ۔جس قوم کے بچے دو وقت کی روٹی کیلئے ترستے ہوں،جس قوم کے بچے اعلیٰ تعلیم کیلئے پریشان ہیں،جس قوم کے بچے بے روزگاری کا شکارہیں،جس قوم کی بچیاں جہیز کے نام پر بن بیاہی ہیں،جس قوم کی بیوائیں اپنی زندگی کو لیکر فکر مندہیں،جس قوم کےبزرگ اپنے نااہل بچوںکی وجہ سے سڑکوں پر زندگیاں گذارنے پر مجبور ہیں ،اُن کیلئے مددکرنے سے زیادہ مسجدوں میں لاکھوں روپئے کے جھومر لگانا اہم ہوچکاہے۔بعض لوگ سوشیل میڈیا پر یہ کہہ رہے ہیںکہ مسجدوں اور مدرسوں پر خرچ کرنے کے عمل کو تنقید کرنے والے فتنہ بازہیں اوریہ لوگ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ دوسری خرافات بھی قومِ مسلم میں ہیں ۔یقیناً آج مسلم قوم پوری طرح سے خرافات میں ہے،نت نئے رسم ورواج میں یہ لوگ ملوث ہیں ،لیکن مسجدیں تو اللہ کا گھر ہیں اور مدرسے دین کے قلعے ہیں،تو کیا اللہ کے گھر اور دین کے قلعوں کا موازانہ جاہلوں کے رسم ورواج اور عیاشی کے ساتھ کیاجاسکتاہے؟نہیں نا۔تو پھر کیوں ان باتوں کا موازانہ کیاجاتاہے،اللہ کے گھر کے ساتھ ساتھ اللہ کی مخلوق کے گھرکو بھی آبادکرنا دین اسلام کے ہرفرد کی ذمہ داری ہے۔جس وقت اُمت میں ایسے مستحق لوگوںکی پریشانی دور ہوگی تو سمجھیں کہ ہم نے حقوق العبادمیں بھی سبقت حاصل کی،ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں ماتھے سےسجدے کاداغ ہٹانے کے بجائے غریب کے ماتھے سے پریشانی کے شکن ہٹانے کیلئے پیش رفت کرنا چاہیے۔

 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 175866 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.