تاریخ دوبرجی چندہ سنگھ

علامہ اقبال کے تاریخی شہر سیالکوٹ کی تحصیل سمبڑیال سے مغرب کی جانب اور وزیرآباد سے مشرق کی جانب گیارہ کلومیٹر کے فاصلے پہ کوٹ خدایار نامی سٹاپ سے تقریبا" چار کلو میٹر شمال کی جانب تاریخی گاوں دوبرجی چندہ سنگھ واقع ہے جس کی ساری آبادی تقسیم ہند کے وقت جموں سے آئے مہاجرین پہ مشتمل ہےاس گاوں سے مغرب کی جانب عظیم تاریخی قصبہ سوہدرہ واقع ہے جبکہ شمال کی طرف کچھ کلو میٹر بعد دریائےچناب بہتا ہے ۔

یہ گاؤں کیسے معرض وجود میں آیا اس کی تاریخی حیثیت کیا ہے کن لوگوں نے اسے آباد کیا اور اس کا نام دوبرجی چندہ سنگھ کیسے پڑا ؟ یہ ساری باتیں آپ کو آئندہ صفحات میں پڑھنے کو ملیں گی ۔ تاہم آگے بڑھنے سے پہلے میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ میں نا تو کوئی مورخ ہوں جو تاریخ لکھنے بیٹھا ہوں اور تلاش کرنے کے باوجود نا ہی میں کسی مستند کتاب سے آپ کو حوالہ جات پیش کرسکتا ہوں حتی کہ مشہور کتاب " تاریخ سوہدرہ" بھی اس گاوں کے بارے میں کچھ نہیں بتاتی ، یہ ساری تفصیلات ڈاکٹر اشفاق حسین اور میری تحقیق پر مبنی ہیں جس کا ماخذ تقسیم ہند سے قبل اسی گاوں میں پیدا ہونے والے ایک کتاب کے مصنف اور لمبی عمر پانے والے سردار رائے سنگھ پتنگا صدر سکھ یونین پنجاب ( جن کا چند مہینے پہلے انتقال ہوا ہے ) اور کچھ دیگر بزرگوں کی روایات ہیں جنہوں نے کچھ باتیں اپنے بزرگوں سے سنی تھیں اور کچھ پرانے آثار اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے جو وقت گزرنے کے ساتھ اب معدوم ہوچکے ہیں ۔

ڈیرہ لسوڑی والا
آج جہاں دوبرجی گاوں واقع ہے اس سے تقریبا" ڈیڑھ کلو میٹر مغرب جنوب کی طرف کوئی ڈھائی تین عشرے پہلے تک زمان پہلوان کا ڈیرہ تھا جو اب ختم ہوگیا ہے یہاں لسوڑی یا لسوڑے( پھل کی ایک قسم جو اچار میں استعمال ہوتی ہے آج کل یہ بھی بہت کم ملتی ہے)کا بڑا سادرخت تھا جس کے ارد گرد سکھوں کی کافی تعداد جمع رہتی تھی اسی مقام پر سترہویں صدی کے وسط میں لاہور یا دہلی جاتے ہوئے مشہور افغان سپہ سالار احمد شاہ ابدالی کے فوجیوں کی سکھوں سے جھڑپ ہوئی جس سے سکھ یہاں سے بھاگ اٹھے۔

دوبرجی چندہ سنگھ
سردار رائے سنگھ کی تحقیق کے مطابق یہی وہ دور تھا جب یہاں سے بھاگنے والے سکھوں نے جنگل کے اردگرد دوبرجی ، گلاب گڑھ اور کشن گڑھ جیسے گاوں آباد کئے آج بھی یہ تینوں گاوں چونکہ جنگل کے کنارے واقع ہیں جس سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس دور میں ممکن ہے یہ جنگل ہی کا حصہ ہوں جہاں بھاگنے والے سکھوں نے ابتداء میں اپنے آپ کو چھپائے رکھا اور بعد میں یہ عارضی رہائش گاہیں مستقل گاوں کی شکل اختیار کرگئیں ۔

1746ء سے 1756ء تک احمد شاہ ابدالی نے لاہور اور دہلی پہ کئی بار حملے کئے لاہور یا دہلی جانے کے لئے پشاور سے آتے ہوئے یہ علاقہ چونکہ راستے کے کافی قریب ہے تو ذیادہ ممکن ہے کہ یہاں پہ سکھوں اور مسلمانوں میں ہونے والی یہ جھڑپ اسی دور میں ہوئی ہو ۔

ہمارے خیال میں دوبرجی چندہ سنگھ کی بناء سترہویں صدی کے وسط میں رکھی گئی اور چندہ سنگھ ہی وہ معزز سکھ تھے جن کے نام سے اس گاوں کو شہرت ملی ۔

گرودوارہ دوبرجی
جہاں آج بڑی جامع مسجد موجود ہے اس کے بالکل ساتھ حاجی بابر صاحب کا بڑا سا گھر ہے جہاں پاکستان آنے کے بعد ان کے بزرگوں نے رہائش اختیار کی۔ یہاں کوئی نصف صدی پہلے تک پیپل کا ایک بہت بڑا اور قدیم درخت موجود تھا جس کی شاخیں دور تک گئی ہوئی تھیں ،یہی وہ جگہ تھی جہاں دو میناروں والا سکھوں کا مقدس گردوارہ تھا اور یہاں گردوارے کے کچھ زمینی نشانات پاکستان بننے کے بعد تک واضح تھے سردار رائے سنگھ کے مطابق اس گردوارے میں سکھوں کے پانچویں روحانی گرو کی کچھ خاک (مردہ جلائے جانے کے بعد والی راکھ) دفن تھی اس وجہ سے یہ سکھوں کے نزدیک بہت متبرک و مقدس مقام تھا۔ لوگ یہاں سے شفاء حاصل کرنے کے لئے دیسی گھی کے چراغ جلاتے تھے آج بھی یہاں جو گھر ہے اس میں ایک کمرہ ہے جو " بابے والا کمرہ " کے نام سے مشہور ہے جہاں لوگ دئیے جلاتے اور سال بعد لنگر کا اہتمام کرتے ہیں ۔

چندہ سنگھ اس گاوں کا بانی یا کوئی بڑی ہستی ہوگا مینار کو برج بھی کہا جاتا ہے اسی وجہ سےگردوارے کے دو میناروں کی نسبت سے یہ دو برجی مشہور ہوگیا جسے چندہ سنگھ کی دوبرجی یا دوبرجی چندہ سنگھ کہا جانے لگا ۔ پاکستان بننے کے بعد اسی گردوارے کے صحن میں ایک سکھ نے جرات کی ایسی داستان رقم کی جس میں اٹھارہ مسلمان شہید ہوئے ۔

معرکہ حق و باطل
جیسے ہی تقسیم ہند کا اعلان ہوا فوری بعد مسلمان پاکستانی اور غیر مسلم جن کی اکثریت ہندو اور سکھوں پہ مشتمل تھی ہندوستانی علاقوں کی طرف ہجرت کرنے لگے ۔ ایسے میں ایک مذہبی سکھ نے اپنا گرو گھر چھوڑ کر ہندوستان جانے سے انکار کردیا جو مسلمان بھی گردوارے کے قریب پھٹکتا وہ اسے بندوق کا نشانہ بنا کر شہید کردیتا ، وہ اونچے لمبے گھنے پیپل پہ مچان بناکر بیٹھا رہتا حتی کہ ایک ایک کرکے اٹھارہ مسلمان اس لڑائی میں شہید ہوگئے ۔ جب اس سکھ کی شہرت دور دور تک پھیلی تو رندھیر باگڑیاں کے نامور مورخ اور بزرگ محمدعلی اور سوہدرہ کی مشہور روحانی شخصیت چن پیر کے والد صاحب گھوڑوں پہ سوار چند ساتھیوں کے ساتھ آئے اور اس بہادر سکھ کو انجام تک پہنچایا، شائد اسی معرکے میں گردوارے کو بھی مسمار کردیا گیا اور اسے ایک عام گھر کی شکل دے دی گئی ۔

Shahid Mushtaq
About the Author: Shahid Mushtaq Read More Articles by Shahid Mushtaq: 114 Articles with 77322 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.