مشکل نکاح ۔۔۔ آسان زناء

پچھلے دنوں گجرات سے تعلق رکھنے والی عائشہ نامی نوجوان خاتون نے جہیز کے مطالبات سے تنگ آکر خود کشی کرنے کا منظر پیش کیا ، اس نوجوان عورت کی خودکشی کے بعد مانو کہ جہیز کے خلاف ایک تحریک شروع ہوگئی ہے اور ہر طرف سے مسلسل اس بات کی پکار سنائی دے رہی ہے کہ اب اور عائشہ کی موتیں برداشت نہیں ہونگی ، اب اور عائشہ کو جہیز کی بھینٹ چڑھنے نہیں دیا جائیگا۔ یہ بالکل اسی طرح کا معاملہ ہوا جب دہلی میں چلتی بس میں ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ جنسی تشدد کا معاملہ پیش آیا تھا اور اس معاملے کو نربھیا کا نام دے کر جنسی تشدد کے معاملات کو روکنے کے لئے قانون میں ترمیمات کئے گئے تھے۔ اب وہی حالات عائشہ کو لے کر سامنے آرہے ہیں ، ایسانہیں کہ بھارت میں جہیز، گھریلوتشدد، جنسی تشدد کے لئے قوانین موجود نہیں ہیں اور ایسابھی نہیں ہے کہ اسلام میں جہیز کا رواج ہے اور جہیز کی مخالفت میں پہلے کبھی مہم چلی نہیں ہواور نہ ہی فتوے جاری کئے گئے ہوں۔ جس طرح سے بھارت کا قانون جہیز، جنسی زیادتیاں ، خواتین کے حقوق کو لے کر قوانین بنے ہوئے ہیں بالکل اسی طرح سے اسلام میں بھی جابجا حقوق النساء، شادی کا طریقہ، مہر کی ادائیگی اور حقوق الزوجین کا بھی تذکرہ ہے اور اس پر عمل کرنے کی سخت ہدایتیںدی گئی ہیں لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے نہ تو قرآن سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے نہ ہی قرآن کے حقیقی پیغام کو عام لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ غرض کہ دین اسلام کو ہر کوئی اپنے اپنے طریقے سے چلانے کی کوشش کررہاہے اور جس میں جسکا زیادہ فائدہ ہواس طرح سے دینی احکامات معنوں کو پیش کرنے کی کوشش کررہاہے ۔ اسلام میں نکاح کو آسان بتایا ہے اور زناء کو مشکل اور حرام بتایا گیا ہے۔ لیکن حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں اس بات کااحساس ہوگا کہ نکاح مشکل ترین عمل ہوگیا، ایک نکاح کو انجام دینے کیلئے لاکھوں روپئے خرچ کئے جارہے ہیں جبکہ زناء کے عمل کو انجام دینے کیلئے محض چند سوروپئے اور بعض تو مفت میں بھی انجام دے رہے ہیں۔ جہاں نکاح کو فون کے ذریعے سے بھی انجام دیا جاسکتاہے وہیں اب سیکس اِن فون کا کانسپٹ عام ہوچکا ہے ۔ یہ سب اسلئے نہیں کہ ان باتوں پر قانون نہیں ہے بلکہ اسلئے کہ زمانے میں نام و نمود ، جہالت ، عیاشی ، مفاد پرستی ، دکھاوا، خرافات پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے، آسان شادی کا مطلب یہ نہیں کہ صرف مسجد میں نکاح پڑھا لیا جائے اور نکاح کے بعد ولیمہ کیا جائیگا، یا یہ بھی نہیں کہ کسی بڑے عالم کی موجودگی میں نکاح پڑھا لیا جائے تو فرض ادا ہوجائیگا، ویسے بھی اچھے عالم کے ذریعے سے نکاح پڑھانے کیلئے جو بڑے بڑے عالم کو مدعو کیا جاتاہے انکا ہدیہ بھی بڑا ہوتاہے ۔ غرض کہ مسلمانوںنے وہ تمام رواج قبول کرلئے ہیں جو غیرمسلمین کے رواج مانے جاتے ہیں، ایسے میں سوال یہ ہے کہ آخر مسلمان کونسے اسلام پر قائم ہیں؟۔ کیا رمضان میں روزے رکھنا ، دل میں جب آئے تب نماز پڑھنا، روزہ رکھنا اورایک دو دفعہ حج کرتے ہوئے الحاج بن جانا ہی اسلام ہے ؟۔ کیا اللہ نے انہیں اعمال کو ادا کرنے والوں کو مسلمان کہاہے ؟۔ کیا سورۃ النساء اور سورۃ البقراء کی آیتیں مسلمانوں کیلئے نہیں ہیں۔ سوال یہ بھی پیدا ہورہاہے کہ آج جو نام نہاد مفکران ، دانشوران ، اہل علم اور قلمکار جہیز کی مخالفت میں عائشہ کی موت کے بعد ہی جہیز کی مخالفت میں رونا کیوں رو رہے ہیں ۔ اسلام نے تو 1450سال پہلے ہی ان تمام رواجوں کو غیر شرعی قراردیا ہے تو آج اچانک ایسا واویلا کیوں؟۔ جہیز کے مطالبے پر موتیں نہ ہونے کا سلسلہ قانون بننے سے نہیں رُوکیں گی بلکہ امت کی ذہن سازی سے ہوگی ۔ جب انسان میں لالچ کا مادہ ختم ہوجائیگا اور اپنے بچوں کی خرید و فروخت ختم ہوجائیگی تب جاکر کہیں تبدیلی ممکن ہے۔ جس طرح سے مسلمان سور کے گوشت کھانے کو حرام سمجھتے ہیں ، شراب کے قریب جانے کو بھی خراب بات سمجھتے ہیں اور سود کو زناکے برابر سمجھتے ہیں بالکل اسی طرح سے کسی کے مال پر زبردستی دعویٰ کرنے ، اسلامی تعلیمات کے خلاف اپنی زندگی گزارنا اور نکاح کے آسان طریقے کومسخ کرتے ہوئے مشکل ترین عمل سمجھا جائے تو یقیناََجہیز کی لعنت ختم ہوگی ۔ نہ جانے مسلمانوں نے وہ کونسی روایت قائم کی ہوئی ہے جس میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں جہیزلئے جانے کی بات کہی جاتی ہے اور اس روایت کو برقرار رکھا گیا ہے، جبکہ اللہ کے رسول ﷺ نے خود بھی تو 7مرتبہ نکاح کیا تھا تو انہوں نے کس کس زوجہ سے جہیز لیا تھا اوراپنے دوسری شہزادیوں کو کتنے پلاٹس، اپارٹمنٹ ، سواریاں اور برتن جہیز میں دئے تھے اسکی کوئی دلیل کیوں نہیں پیش کرتاہے ؟۔ حضرت علی اور حضرت فاطمہ کی زندگی کا حوالہ دینے والے اس حوالے کو کیوں نہیں بنیاد بناتے ہیں جس میں حضرت عبدالرحمان بن عوف نکاح کرنے کے بعد آپ ﷺ کے سامنے آئے تو انکے کُرتے پر زعفران کا نشان دیکھا تو آپ ﷺ نے حضرت عبدالرحمان بن عوف سے سوال کیا کہ یہ نشان کیسا ہے تو عبدالرحمان بن عوف نے بتایا کہ میں نے نکاح کیا ہے، اس پر حضرت محمد ﷺنے یہ نہیں پوچھا کہ مجھے کیوں نہیں بتایا یایہ نہیں کہا کہ نکاح مجھ سے پڑھوالیتے تو وہ نکاح بابرکت بن جاتا بلکہ یہ کہہ دیا کہ ولیمہ کردو۔ بتائیں کہ دنیا میں حضرت محمد ﷺ سے بڑھ کر کوئی بابرکت شخصیت ہے کہ جو عبدالرحمان بن عوف نے انہیں بتائے بغیر نکاح کرلیا تھا، ہمارا کہنا یہ ہے کہ جو خرافات دین میں لائی جارہی ہیں انہیں روکیں ، اب ہمارے پاس اہل علم کی کوئی کمی نہیں بلکہ متقیوں کی کمی ہے اور جس دن تقوے والے پیدا ہوجائینگے اس وقت بڑی تبدیلی آئیگی اور اسکے لئے ہمیں اور آپ کو دین کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔


 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197686 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.