خنجر سے خود کشی

میرِ سپاہ نا سزا ، لشکریاں شکستہ صف ۔،۔آہ وہ تیرِ نیم کش جس کا نہ ہوکوئی ہدف ۔
تیرے محیط میں کہیں گہرِ زندگی نہیں۔،۔ڈھو نڈھ چکا میں موج موج ،دیکھ چکا صدف صدف
ہمارے ہاں دانشوروں کی ایک ایسی کھیپ ہے جو سطحی سوچ کی حامل ہونے کے باوجود خود کو افلاطون سے کم نہیں سمجھتی۔ان کے ذہنِ نا رسا میں کسی کی مخا لفت برائے مخالفت کا کیڑاگھس جاتا ہے جو انھیں کبھی بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتا ۔وہ غلط ریفرنس اور غلط تاویلات کا سہارا لے کر اپنا قد کاٹھ بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بے سود۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپ اس وقت دنیا میں علم و فن کا باوا آدم بناہوا ہے ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کئی صدیاں قبل اس سائنسی ترقی کی داغ بیل مسلمان حکمرانوں نے ڈالی تھی لہذا موجودہ سائنسی ترقی ان کی عظیم کا وشوں کی مرہونِ منت ہے ۔ بے رحم وقت کا جبر،لہو لعب،رقص و سرور کی محافل لور محلاتی سازشوں کے باعث مسلمان حکمرانوں میں سائنسی ترقی کا علمی شعلہ دھیرے دھیرے دم توڑ تا چلا گیا جس سے ان کی عظیم سلطنت رو بہ زوال ہوتی چلی گئی۔اٹھارویں صدی میں یورپ میں احیائے علوم کی تحریک نے علم کی برتری اور فوقیت کا جو نعرہ بلند کیا اسی نے پورے عالم میں یورپی برتری کی دھاک بٹھا دی جس سے سائنسدانوں کی ایک ایسی کھیپ سامنے آئی جس نے اس کرہِ ارض کی تقدیر بدل کر رکھ دی۔محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ۔،۔ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند۔ کسی شاعر کا خواب نہیں تھا بلکہ حقیقی دنیا کی تسخیر کی غمازی کا نعرہ تھا ۔کسی نے اس پر بھرپور توجہ مرکوزنہ کی تو نتیجہ وہی زوال نکلا جس کا خدشہ تھا۔( کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے۔،۔ وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹو ہوا تارا۔)اہلِ دانش کی پیشن گوئی اپنے اندر ایک جہانِ علم و فن رکھتی ہے۔ اب اگر کوئی اس سے مستفید نہیں ہونا چاہتا تو اس میں کسی دانشور کا کیا قصور ہے؟(اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا ۔،۔ کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں)۔اب اگر کوئی قوم رقص و سرور اور عیاشی کو ہی مقصودِ زندگی سمجھ لے تو پھر ایجادات کی منزل تک اس کی رسائی کیسے ممکن ہو سکے گی؟سائنسی دنیا کسی کی باندھی نہیں ہے بلکہ جو کوئی بھی اس میدان میں قسمت آزمائے گا اپنا ثمر پا لے گا۔اگر پرانے وقتوں میں ہمارے آباؤ اجداد سائنسی میدان میں اپنی دھاک بٹھا سکتے تھے تو پھر اب کیوں نہیں؟

پہلی جنگِ عظیم کے بعد ایک نئی دنیا آباد ہوئی ۔سلطنتِ عثمانیہ تاش کے پتوں کی طرح بکھر کر رہ گئی ۔اس کے ہاتھوں میں کچھ بھی نہیں بچا تھا ۔ اپنے ہی غمخوار عدو بن کر سامنے آئے تھے۔ہر سو دشمن کی یلغار تھی اور مسلم امہ سہمے ہوئے پرندے کی طرح اہلِ صلیب کی یلغار میں تھی ۔مصطفے کمال اتا ترک کا کمال یہ تھا کہ اس نے معدوم ہوتی ہوئی ترک قوم کو ایک چھوٹی سی ریاست کا تحفہ دیاتھا۔ساری سلطنتِ عثمانیہ حصے بخروں میں تقسیم کر دی گئی تھی۔نئی نئی ریاستیں وجود میں آ گئی تھیں اور یوں مسلم امہ کی مرکزیت ختم کر دی گئی تھی۔کئی نئے ملک قومیت کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آئے جس سے دنیا میں میں قوم پرستی کازہر پھیلتا چلا گیا ۔اسی فکر سے مغلوب ہوکر روڈلف ہٹلر نے نطشے کے سپر مین کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کیلئے عظیم تر جرمنی کا نعرہ بلند کر دیا۔اٹلی کا مسولینی بھی اس قوم پرستی کی آگ میں کود گیا اور یوں دوسری عالم گیر جنگ نے جو تباہی مچائی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ایک دانشور قوم پرستی کی اس لعنت کو انسانیت کی تباہی سے موسوم کرتا رہا اور دنیا کو اس سے روکتا رہا لیکن کسی نے اس کی ایک نہ سنی۔وہ دور جرنیلوں ، طالع آزماؤں اور آمروں کا دور تھا ۔ شمشیر کے زور پر اقتدار چھینا جاتا تھا اور شمشیر کے زور پر ہی اسے قائم بھی رکھا جاتا تھا۔ کہیں کہیں جمہوریت ضرور تھی لیکن وہ بھی برائے نام تھی ۔ہوسِ ملک گیری وہ بنیادی عنصر تھا جو اس دور میں غالب تھا۔پورا ایشیا،افریقہ،لاطینی امریکہ،مشرقِ وسطی ان ممالک کی غلامی میں تھا جو خود کو عسکری لحاظ سے طاقتور سمجھتے تھے ۔ توپوں ، بحری جہازوں ،آبدوزوں اور ہوائی جہازوں کا مقابلہ نہتی اقوام کیلئے ممکن نہیں تھا لہذ اان کے گلوں میں غلامی کا پٹی ڈا ل کر اپنا محکوم بنا لیا گیا ۔ اس عظیم دانشور نے اس انسانیت کش رسم کو خیر باد کہنے کیلئے سب کومتنبہ کیا لیکن کسی نے اس کی نہ سنی ۔ہوسِ ملک گیری ذہنوں میں جگہ بنا لے تو پھر اسے کوئی نکال نہیں سکتا۔،۔( ان سارے خداؤں میں، بڑا سب سے وطن ہے ۔،۔ جو پیراہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے )

اس عظیم دانشور کی زندگی کے آخری چا ر ماہ کی یادداشتوں پر مشتمل ایک نادر کتاب ہے۔(اقبال کے حضور) ہے جسے نذیر نیازی نے مدون کیا تھا۔اس کتاب کی سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ علامہ اقبال ہرروز نیازی صاحب سے ایک ہی سوال پوچھتے ہیں کہ کیا دوسری جنگِ عظیم شروع ہو چکی ہے؟نذیر نیازی ہر روز نفی میں جواب دیتے ہیں۔یہ سلسلہ علامہ اقبال کی رحلت تک ایسے ہی سوال وجواب کی صور ت میں چلتا ہے ۔دوسری عالمی جنگ شروع نہیں ہوتی لیکن جیسے ہی علامہ اقبال ۲۱ اپریل ۱۹۳۸؁ کو داعیِ اجل کو لبیک کہتے ہیں ٹھیک ایک سال بعد دوسری جنگِ عظیم شروع ہو جاتی ہے۔علامہ اقبال کی پشین گوئی تھی کہ قوم پرستی کی زہر آلود سوچ پر یورپ نے جس شاخِ نازک پہ اپنا آشیانہ بنایا ہے اس کا نتیجہ تباہی و بر بادی کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔یہ علم و عرفان کی بحث نہیں تھی۔یہ علمی تفوق کی بات نہیں تھی۔یہ سائنسی ایجادات کا قصہ نہیں تھابلکہ یہ انسانی سوچ، فکر ،رویوں،تمدن ،تہذیب ،رسومات اور معاشرتی قدروں کے ادراک کا اظہار تھا۔سائنسی اور علمی ترقی تو پوری انسانیت کی میراث ہوتی ہے،کبھی اس میں ابن ھیشم ،کبھی رازی،کبھی ابنِ سینا، کبھی ابنِ عربی،کبھی عمرِ خیام ،کبھی ،گلیلیو، کبھی نیوٹن، کبھی ،آئن سٹائن اور کبھی کو پر نیکس پردہِ شہود پر نمو دار ہوتے ہیں۔سقراط ،بقراط،ارسطو، افلاطون،شیکسپیر،مولانا روم ،امام غزالی، غالب ، روسو ، والٹئیر ، ہیگل،کارل مارکس اپنے افکار کی خوشبو سے پوری دنیا کو معطر کرتے ہیں۔علم و فن ایک الگ بات ہے جس کا کسی ک کے تمدن اور تہذیب سے کو ئی سروکا ر نہیں ہوتا۔یونان کا ہیرو سقراط پاکستانی قوم کا بھی ہیرو ہے کیونکہ وہ انسانیت کی عظمت کے گیت گاتا ہے ۔ شیکسپیر کو پوری دنیا ان کی تحریروں کی وجہ سے عزت و احترام سے دیکھتی ہے۔دانشوروں کی عزت جغرافیائی حدود سے ماورا ہو تی ہے کیونکہ ان کا قلبِ سلیم انسانی عظمت کی آبیاری کرتا ہے۔ریاست تہذیب و تمدن کی پرچارک ہوتی ہے لہذا من پسند قوانین بناکر اقوام کو مفتوح کرنے کی سازشیں کرتی ہے ۔اب جس تہذیب کی بنیاد قوم پرستی پر ہو گی اس سے دنیا تباہ و بربادی کی نذر ہو جائیگی ۔تہذیب سے مراد حصولِ علم کی سوچ کی مذمت نہیں بلکہ قوم پرستی کے اس زہر کا ابطا ل ہے جس سے کروڑوں انسان لقمہ اجل بنے ۔اقوامِ متحدہ اسی قوم پرستی پر روک لگانے کیلئے معرضِ وجود میں آئی تھی لیکن بدقسمتی سے اپنے اہداف میں ناکام رہی۔،۔(تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خود کشی کرے گی۔،۔ جو شاکِ نازک پہ آشیاں بنے گا ناپائیدار ہو گا۔)

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 450906 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.