فیل کے لفظی معنی ہاتھی کے ہیں یہ واقعہ ۵۷۰ ء میں
پیش آیا ۔ ا س وقت صرف خانہ کعبہ ہی پوری دنیا میں مقدم اوربا وقارر گردانا
جا تا تھا اس سے اس کو نہ ماننے والے جلتے تھے اور پریشان بھی تھے اسوقت
ملک یمن کے بادشاہ جو خانہ خدا سے جلتا تھا اس نے اپنے ملک یمن میں اس طرح
کی عمارت بنائی اور اسے خوب چمکایا اور علان کر دیا کہ آئندہ مکہ میں کوئی
حج و طواف وغیرہ کے لئے نہیں جائے گا بلکہ اس عمارت ہی کو خانہ خدا مانتے
ہوئے اس کا طوا ف اورزیارت کی جائے گی۔ لیکن بہت زیادہ لوگوں نے اسے نہ
مانا اور مکہ میں ہی کعبۃاﷲ کا طواف اور زیارت کر تے رہے ۔ اس پر مکہ کے
لوگوں بہت دکھ تھا اس کے اظہار کے لئے ایک آدمی مکہ سے چلا اور اس عمارت
میں پاخانہ کر دیایہ دیکھ کر بادشاہ کو سخت غصہ آیا اور اس نے کعبۃ اﷲ کو
گرانے اور مسمار کرکے زمین کے بوس کر نے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ یہ کام بہت
بڑا تھا اور اسکا مقابلہ بہت زیادہ اقوام سے تھا اسلئے اس نے جنگی ہتھیار
کے طور پر سب سے بڑے جانور یعنی ہاتھی کا انتخاب کیا۔ خطہ نما عرب میں سب
سے بڑا جانور اونٹ کو مانا جاتا تھا اور اہل عرب نے ہاتھی کانام تو سنا تھا
مگر دیکھا تک نہ تھا اس لئے یمنی بادشاہ کا خیال تھا کہ عربی لوگ اسے دیکھ
کر خوف زدہ ہو کر بھاگ جائیں گے اسے یہ علم نہیں تھا کہ جس کے گھر کو مسمار
کرنے کے لئے یہ سامان تیار کیا جا رہا ہے وہ ان کا اورا س کی فوج جس میں
ہاتھی بھی شامل تھے کا رب اور خالق بھی ہے وہ بھلا اپنے گھر کو کیسے مسمار
ہونے دیگا ۔ یمنی بادشاہ نے دور ملک افریقہ کے جنگلوں سے ہاتھی منگوائے ان
کی تربیت کی اور ملک یمن سے چل پڑا جب حرم پاک کی حدود پر پہنچا اور حالات
کا جائزہ لینے کے لئے پڑاؤ ڈال دیا ۔ ان کے پڑاؤ کے علاقے میں حضرت
عبدلمطلب کے اونٹ چر رہے تھے یمنی فوج نے ان اونٹوں کو پکڑ لیا حضرت
عبدلمطلب کو پتا چلا تو وہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ وہاں پہنچے یمنی
بادشاہ سے اپنا تعارف کروایا کہ میں خانہ کعبہ کا متولی ہوں تم نے میرے
اونٹ پکڑے ہیں وہ میرے حوالے کر دو۔ یمنی بادشاہ نے کہا کہ میں اس گھرکو
گرانے آیا ہوں تم اس خانہ خدا کے کیسے متولی ہوجسے اپنے اونٹوں کی تو فکر
ہے مگر اس گھر کی کو ئی فکر نہیں ۔ حضرت عبدلمطلب نے بڑے صاف الفاظ میں
فرمایا۔ میں صرف اپنے اونٹوں کا مالک ہوں مجھے صرف ان کی فکر ہے اس گھر کا
مالک اپنے گھر کی خود حفاظت کرے گا ہمیں اس گھرکی حفاطت کی کوئی فکر نہیں
۔یمنی بادشاہ نے حضرت عبدلمطلب کے اونٹ واپس کر نے کا حکم دیا اور حضرت
عبدلمطلب اپنے اونٹ لے کر واپس آگئے ۔ مکہ میں پہنچ کر اہل مکہ کو اکٹھا
کیا انکو ساری صورت حال سے آگاہ کیا اور ان سے کہا کہ ہم سب مکہ خالی کر
دیں گے اور پہاڑوں میں چھپ جائیں گے۔ اس گھر کی اﷲ تعالیٰ خود حفاظت فرمائے
گااور ان سب نے مکہ شریف خالی کر دیا اور پہاڑوں میں جا کر پناہ لے لی ۔
دوسری طرف اﷲ تعالیٰ نے اپنی تدبیر فرمائی سب سے بڑے جانور کے مقابلے کے
لئے سب سے چھوٹے اور نازک پرندوں کے ذریعے یمنی فوج کوسبق سکھانے کی تدبیر
فرمائی اور ابابیل جو بمشکل سو یا ایک سو پچاس گرام کا پرندہ ہوتا ہے اس کے
جسم پر نہایت ہی نرم اور ملائم بال ہوتے ہیں ساتھ ہی چھوٹے چھوٹے لیکن لمبے
پر ہوتے ہیں کو خانہ کعبہ کی حفاظت اور دشمن کی فوج کے مقابلے پر معمور کر
دیا ۔ وہ ابابیل پرندے دنیا میں یہاں کہیں بھی تھے وہ سب اکھٹے ہوئے مذلفہ
کی پہاڑیوں سے تین تین کنکریاں لیں (ایک چونچ میں اور دو دونوں پنجوں میں )
وہاں سے سیدھی آسمان کی طرف پرواز کی اور جتنی بلندی پر جا سکتے تھے اڑے
لشکر کے اوپر آئے اور کنکریا ں گھرانا شروع کر دیں ان کی بلندی چارہزار فٹ
تک تھی کنکریاں جب زمین پر آئیں ان کی رفتار بندوق سے نکلنے والی گولی سے
تین گنا تھی راستے میں گندی فضا کے ذرات ان سے چپک گئے جس سے وہ زہرآلود
ہوگئیں تیز رفتاری کی وجہ سے فضا سے رگڑ کھانے سے بہت ز یادہ گرم ہو چکیں
تھیں وہ کنکریاں ہاتھیوں کی فوج پر برسیں اور جسے لگیں اسے گلا کر رکھ دیا
اور وہ پوری فوج کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کر دی گئی ۔
یہ واقعہ حضور اکرم رسول معظم محمد رسول اﷲ ﷺ کی پیدائش کے سال پیش آیا اور
سورہ فیل جو کہ قران مجیدمیں پارہ تیس اور سورہ نمبر ۱۰۵ ہے یہ سورہ اس
وقعہ کے تقریباً پنتالیس سال بعد نازل ہوئی اس وقت اس واقعہ کو آنکھوں
دیکھنے والے موجود تھے لیکن کفار مکہ یہ دیکھ اور سن کر بھی ایمان نہ لائے
۔ اﷲ تعالیٰ کا یہ واقعہ بیان کر نے کا مقصد لوگوں کو بتانا مقصود تھا کہ
اﷲ تعالیٰ ہر بڑی چیز کو بہت چھوٹی چیز سے مار سکتا ہے اگر کسی چیز کو
بچانا چاہے اس پر بھی قادر ہے اﷲ تعالیٰ سے دعاہے کہ اس نکتے کو سمجھنے اور
اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے آمین ۔
|