عالمی سطح پر وبا کے باعث اقتصادی سماجی شعبہ بری طرح
متاثر ہوا ہے اور دنیا کے سبھی ممالک وبائی اثرات سے نکلنے کے لیے ممکنہ حد
تک کوششیں کر رہے ہیں۔ دنیا میں ویکسی نیشن کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی
کہ جلد صورتحال معمول پر واپس آ جائے گی مگر پاکستان سمیت دنیا کے اکثر
ممالک میں سامنے آنے والے نئے کیسز کے بعد بدستور سخت اقدامات اپنانا
حکومتوں کی مجبوری بن چکی ہے۔وبائی صورتحال میں چین میں قیام کے دوران اس
بات کو شدت سے محسوس کیا ہےکہ عوامی رویے انسداد وبا کی کلید ہیں۔عوام اگر
بنیادی ضوابط پر عمل پیرا رہے اور اپنے انفرادی اور اجتماعی رویوں میں
تبدیلی لائے تو کوئی شک نہیں کہ وبائی صورتحال سے بہتر طور پر نمٹا جا سکتا
ہے۔
وبا کے باعث سامنے آنے والے چیلنجز کا تذکرہ کیا جائے تو دنیا کے لیے سب سے
بڑا چیلنج اقتصادی بحالی کا ہے۔معاشی سرگرمیوں کی بحالی کے ساتھ ساتھ
روزگار کی فراہمی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پانا عوام کے بنیادی
مفادات سے مطابقت رکھتا ہے، اکثر ممالک نے سود کی شرحوں میں اضافہ کیا ہے ،غربت
میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے جبکہ روزگار کا تحفظ ایک بڑا چیلنج بن کر ابھرا
ہے۔اس غیر معمولی صورتحال میں ایسے ممالک جہاں سماجی تحفظ کا مضبوط نظام
موجود ہے ، وہاں تو شائد عوام کو وسیع پیمانے پر مسائل کا سامنا نہیں ہے
لیکن ترقی پزیر اور غریب ممالک میں صورتحال قدرے گھمبیر ہے۔محدود وسائل کے
حامل ممالک میں ان مسائل سے نمٹنا ایک پیچیدہ ٹاسک ہے۔
وبا کے دوران دنیا نے یہ بھی شدت سے محسوس کیا کہ ٹیکنالوجی ایک طاقتور
ہتھیار ہے۔ٹیکنالوجی کے حامل ممالک میں متاثرہ مریضوں کی شناخت اور تشخیص
کے عمل میں بہت آسانی دیکھی گئی ہے۔ زاتی مشاہدے کی روشنی میں جس موئثر
انداز سے چین میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس ،بگ ڈیٹا کا استعمال کیا گیا ہے ،وہ
لائق تحسین تو ہے ہی مگر قابل تقلید بھی ہے۔وبا کے اس تکلیف دہ دور سے باہر
نکلتے ہوئے آئندہ عرصے میں ٹیکنالوجی کی ترقی کی شرح کہیں تیز رفتار ہو گی
جو مینوفیکچرنگ سمیت معاشرتی ڈھانچے اور طرز زندگی پر نمایاں اثرات مرتب
کرئے گی۔اسی باعث ٹیکنالوجی کی ترقی مختلف ممالک کی پالیسی سازی میں اہم
تصور کی جائے گی۔
ترقیاتی منصوبہ بندی کی بات کی جائے تو حالیہ عرصے میں ماحول دوستی ترقی کے
تصور کو دنیا میں نمایاں مقبولیت ملی ہے۔دنیا کی کوشش ہے کہ انسانیت اور
مادی ترقی کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے۔ایسی گرین صنعتوں کا قیام
عمل میں لایا جائے جو ماحول دوست ہوں۔ دنیا کے اکثر ممالک نے کاربن نیوٹرل
کے لیے اہداف طے کیے ہیں۔چین نے بھی 2060 تک جامع طور پر کاربن نیوٹرل کے
حصول کا ہدف طے کیا ہے۔چین اپنے روایتی صنعتی ترقیاتی ماڈل کو گرین ماڈل
میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ ایک ایسی نمایاں تبدیلی ہے جو آئندہ
دہائی میں چین کی سبز ترقی کی ایک مضبوط بنیاد رکھے گی۔ یہ بات خوش آئند ہے
کہ جہاں چین نے 2060 تک کاربن نیوٹرل کا عزم ظاہر کیا ہے وہاں اکثر یورپی
ممالک بھی 2050 تک کاربن نیوٹرل کے لیے کوشاں ہوں گے ۔ اگرچہ ان اہداف کا
حصول ہر گز آسان نہیں ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے اثرات پوری دنیا پر
مرتب ہوں گے ، کیوں کہ اس میں ٹیکنالوجی ، جدت طرازی اور پیش رفت جیسے امور
شامل رہیں گے۔چین کوشاں ہے کہ روایتی ایندھن پر انحصار کم سے کم کیا
جائے،کم کاربن اور صاف توانائی کی ٹیکنالوجیز اور صنعتوں کو ترقی دی جائے،
آئندہ عرصے میں چینی معاشرے میں بھی کم کاربن طرز زندگی کو فعال طور پر
مقبول بنایا جائے گا اور توانائی کی بچت کے لئے بھی شعور اجاگر کیا جائے
گا.
چین کی کوشش ہے کہ 2035 تک ایک نیا معاشی نظام قائم کیا جائے جس میں نئی
اور ماحول دوست صنعتوں ، مواصلات ، شہر کاری اور زرعی جدت شامل ہیں۔ یہ امر
قابل زکر ہے کہ چین پہلے ہی قابل تجدید توانائی اور نئی توانائی کی گاڑیوں
میں عالمی رہنما ہے ۔چین دنیا میں پن بجلی ، ہوا سے پیدا ہونے والی توانائی
اور شمسی توانائی کے اعتبار سے دنیا میں نمایاں ترین درجے پر فائز ہے۔
فوٹووولٹک صنعت کے لحاظ سے بھی چین دنیا کی سب سے بڑی منڈی ہے۔
چینی معاشرے میں بھی کم کاربن ، سبز ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کا احساس
موجود ہے یہی وجہ ہے کہ معاشی ترقی سے وابستہ امور اور اقتصادی منصوبہ بندی
میں ماحولیاتی تحفظ اور ماحول دوست تعمیرات پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔چینی
عوام نے صدر شی جن پھنگ کے اس تصور کو عملی طور پر قبول کیا ہے کہ "صاف
پانی اور سبز رنگ کے پہاڑ سونے اور چاندی کے پہاڑوں کے مترادف ہیں"۔
|